اگر ادھار خریدوفروخت کی جائے ، جسے ادا کرنا ایک مقررہ مدت تک کسی کے ذمے واجب الادا ہو، تو اللہ تعالی نے اسے لکھنے اور اس پر گواہ مقرر کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ بھول اور نسیان کا سد باب ہو سکے ۔
سورۃ البقرہ کے آخر میں ایک آیت میں اللہ تعالی فرماتے ہیں : (وَلَا تَسْأَمُوا أَنْ تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ ۚ ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلَّا تَرْتَابُوا)
ترجمہ:۔ اور اس سے مت اکتاؤ وہ چھوٹا ( معاملہ ) ہو یا بڑا کہ اسے اس کی مدت تک لکھو یہ کام اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف والا اور شہادت کو زیادہ درست رکھنے والا ہے اور قریب ہے کہ تم شک میں نہ پڑھو۔"
یعنی گواہی لکھ لینا عدل کے زیادہ قریب ، زیادہ محفوظ اور مضبوظ ، زیادہ درست اور شک و شہبے سے بہت دور ہے ۔ جب ضرورت پیش آئے تو " لکھا ہوا" کاغذ پیش کر دیں جس میں ہر چیز لکھی ہوئی ملے گی لہذا لکھنا حقیقت میں حقوق کو محفوظ کرنا ہے ۔
رہا سوال نقد لین دین کا جسے لوگ فوری نمٹا دیتے ہیں ، جس میں کوئی قرض ہوتا ہے نہ کوئی مقررہ مدت تو اسے نہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں ، مثال کسی نے گاڑی خریدی ،موقع پر اس کی قیمت ادا کی اور چل دیا ، کوئی عبایا (برقعہ ) خریدی اس کے پیسے ادا کیے ، اور چلا گیا ، یا کوئی برتن خریدا اس کے پیسے ادا کیے اور چلتا بنا، تو ان صورتوں میں لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ، لیکن جو لین دین واجب الادا ہو ، اسے لکھنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ بھول نہ جائیں ، اسی لیے اللہ تعالی فرماتے ہیں :
{َيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ}
ترجمہ:۔اے ایمان والو جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرہ پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو (١) اور لکھنے والے کو چاہیے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل سے لکھے۔"
کیونکہ لکھنے سے حقوق محفوظ ہو جاتے ہیں ۔
(ابن باز : مجموع الفتاوی ولمقالات )
سورۃ البقرہ کے آخر میں ایک آیت میں اللہ تعالی فرماتے ہیں : (وَلَا تَسْأَمُوا أَنْ تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ ۚ ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلَّا تَرْتَابُوا)
ترجمہ:۔ اور اس سے مت اکتاؤ وہ چھوٹا ( معاملہ ) ہو یا بڑا کہ اسے اس کی مدت تک لکھو یہ کام اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف والا اور شہادت کو زیادہ درست رکھنے والا ہے اور قریب ہے کہ تم شک میں نہ پڑھو۔"
یعنی گواہی لکھ لینا عدل کے زیادہ قریب ، زیادہ محفوظ اور مضبوظ ، زیادہ درست اور شک و شہبے سے بہت دور ہے ۔ جب ضرورت پیش آئے تو " لکھا ہوا" کاغذ پیش کر دیں جس میں ہر چیز لکھی ہوئی ملے گی لہذا لکھنا حقیقت میں حقوق کو محفوظ کرنا ہے ۔
رہا سوال نقد لین دین کا جسے لوگ فوری نمٹا دیتے ہیں ، جس میں کوئی قرض ہوتا ہے نہ کوئی مقررہ مدت تو اسے نہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں ، مثال کسی نے گاڑی خریدی ،موقع پر اس کی قیمت ادا کی اور چل دیا ، کوئی عبایا (برقعہ ) خریدی اس کے پیسے ادا کیے ، اور چلا گیا ، یا کوئی برتن خریدا اس کے پیسے ادا کیے اور چلتا بنا، تو ان صورتوں میں لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ، لیکن جو لین دین واجب الادا ہو ، اسے لکھنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ بھول نہ جائیں ، اسی لیے اللہ تعالی فرماتے ہیں :
{َيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ}
ترجمہ:۔اے ایمان والو جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرہ پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو (١) اور لکھنے والے کو چاہیے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل سے لکھے۔"
کیونکہ لکھنے سے حقوق محفوظ ہو جاتے ہیں ۔
(ابن باز : مجموع الفتاوی ولمقالات )