حسن شبیر
مشہور رکن
- شمولیت
- مئی 18، 2013
- پیغامات
- 802
- ری ایکشن اسکور
- 1,834
- پوائنٹ
- 196
جہاں کرم دین میں بہت سی خوبیاں تھیں۔ وہاں ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ اپنے ماں باپ کا حددرجے احترام کرتا تھا۔ ان سے بے تحاشا پیار کرتا تھا۔ ویسے تو اس کے اور بھی بہن بھائی تھے۔ لیکن کرموسب سے زیادہ ان کی دیکھ بھال کرتا۔ اس کا کہنا تھا کہ رب جی نے اسے جو عزت ودولت سے نوازا ہے وہ انہی خدمتوں کے عوض ہے لہذا یہ حقیقت اسے اور زیادہ فرماں برداربنادیتی۔
اس کے ماں باپ بھی اس بہت خوش تھے اور اکثر کہتے تھے کہ یقینا ہم نے کوئی اچھی نیکی کی ہے جس کی وجہ سے رب جی نے انہیں ایک لائق بیٹے سے نوازا ہے۔
ایک بار کرمو کی ماں اتنی سخت بیمار ہوئی کہ اس کا بستر سے اٹھنا محال ہو گیا۔ وہ سانس تو لے سکتی تھی مگر زندہ انسانوں والی اس میں بات ہی نہ رہی ۔ کرمو نے ماں کا بہت خیال رکھا۔ وہ اسے کھانا کھلاتا، اس کے بال سنوارتا، گھنٹوں اس کے پاس بیٹھازمانے بھر کی باتیں کرتا، اس آس پر کہ وہ کسی بات کا تو کبھی نہ کبھی جواب دے گی۔
رات ہوتی تو وہ چھپ کر، اپنی آوازدبا کر اپنے رب جی کے آگے سرجھکا کر ، اسطرح روتا کہ جیسے اندھیری رات میں کوئی ہرن کا بچہ اپنے غول سے بچھڑگیا ہو اور اسے ہرپل کسی بے رحم صیاد کے آجانے کا ڈرہو۔
اس طرح وہ بھی اپنی ماں کی طرف موت کے فرشتے کے آنے سے ڈرتا تھا۔ جب کوئی بچہ اپنی ماں سے کسی چیز کی ضد کرے تووہ اسے وہ چیزدیتی ہے پررب جی تو سترماوں سے بھی زیادہ پیارکرنے والا ہے۔
یہ سوچ کر کرموکہتا۔
"اے اللہ میں بھی اس بچے کی مانند ضدکرتا ہوں کہ میری ماں کو ٹھیک کردے"
شاید اس کریم کو اس رحمان کو اس کی دعا کرنے کی ادا پسند آگئی اور ایک دن اس کی ماں اٹھ کر بیٹھ گئی ۔وہ یک دم بھلی چنگی ہوگئی۔ کرمو بہت خوش ہوا۔ وہ باربار اپنے رب جی کا شکریہ اداکررہا تھا۔
پھر ایک دن بہت دردناک بات ہوگئی، زندگی یوں ہی رواں دواں تھی۔ اس دن کرمو کے بڑے بھائی کی اپنی ماں کے ساتھ کسی بات پر تکرار ہوگئی۔ وہ بڑے بے ادب طریقے سے ماں سے مخاطب تھا۔ کرمونے اس معاملے کو ختم کرانا چاہاتو ماں نے غصے سے کہہ دیا:
"تونے بھی میراکون سا حق ادا کردیا ہے ۔ تو بھی اپنے باقی بھائیوں جیسا ہی ہے۔ اس سے تو بہتر تھا کہ مولا مجھے اولاد ہی نہ دیتا۔" کہنے کو تو یہ معمولی الفاظ تھے لیکن نہ جانے کیوں یہ الفاظ کرمو کے دل میں تیر کی طرح پیوست ہوگئے۔
اوروہ چپکے سے باہر نکل گیا۔ غصے سے سرخ آنکھیں بہت کچھ بیان کر رہی تھیں۔ اسے ماں نے بھی محسوس کیا۔ ماں نے ندامت محسوس کرتے ہوئے اس سے صبح والی بات پر بات کرناچاہی تو اس نے خوبصورتی سے ٹال دیا۔ وہ سمجھی کہ شاید اس کے دل میں کوئی خلعش ہے جو یہ اس طرح سے پیش آیا ہے ۔ اس نے پھر بات کرنا چاہی تو کرمو نے مسکرا کر بات پلٹ دی، اور اپنے پیچھے رکھے ہوئے گھڑے سے پانی پینے کے لیے مڑا۔
اس نے ابھی پہلا گھونٹ ہی بھراہوگا کہ پیچھے سے کسی کے سسکنے کی آواز آئی ۔ وہ تیزی سے پلٹا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی ماں گھٹنوں کے بل ہاتھ جوڑے اس کے سامنے بیٹھی ہے۔
اس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس چھوٹ گیا۔ وہ تیزی سے نیچے جھکا اور اپنی ماں کو اٹھایا اور چلایا:
"ماں" یہ تو نے کیاکیا۔ میرے خلوص، میری محبت، میری خدمتوں کو تو نے پل بھر میں ریزہ ریزہ کر دیا۔ ماں تو نے معافی نہیں مانگی، بلکہ مجھے میرے رب جی کے سامنے شرمندہ کردیا۔
"آخری بار اس نے پکارکر"ماں"کہا اور پھر ایک فلک شگاف چیخ کے ساتھ وہ اس طرح گرا جیسے کوئی خزاں رسیدہ آخری پتا سوکھی ٹہنی سے ٹوٹ کر گرتا ہے۔ سب نے بہتیرا اسے اٹھانے کی کوشش کی، لیکن وہ تو ہر طرح کے رشتوں سے بے نیاز بہت دور اس جہاں سے دورسفرآخرت پر جا چکا تھا۔"