- شمولیت
- ستمبر 15، 2018
- پیغامات
- 164
- ری ایکشن اسکور
- 44
- پوائنٹ
- 54
حدیث رمضان ((ماہ كا ابتدائى حصہ رحمت ہے، اور درميانى حصہ بخشش اور آخرى حصہ جہنم سے آزادى كا باعث ہے)) روایت پر غیر کے مقلدین کے اعتراضات کا رد
تحقیق : رانا اسد فرحان الحطاوی الحنفی البریلوی
امام ابن خزیمہ اپنی سند سے روایت کرتے ہیں
: 1887 - ثنا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ، ثنا يُوسُفُ بْنُ زِيَادٍ، ثنا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بلخ۔۔۔۔
انکے علاوہ اس روایت کو اپنی سند سے امام ابن الشجری الجرجانی (المتوفیٰ ۴۹۹ھ ) نے بیان کیا ہے جس میں علی بن زید (لین) کی متابعت امام قتادہؒ نے بھی کر رکھی ہے جس کی وجہ سے اصولی طور پر یہ سند حسن لغیرہ بنتی ہے
امام ابن الجرجانی نے جو سند بیان کی ہے اسکی سند یوں ہے :
1425 - أخبرنا أبو القاسم عبد العزيز بن أحمد ابن عبد الله بن فادويه، قال: حدثنا أبو محمد عبد الله بن محمد بن جعفر بن حيان، قال: حدثنا أبو أيوب سليمان بن عيسى الجوهري، قال: حدثنا سعيد بن محمد بن ثواب، قال: حدثنا عبد العزيز بن عبد الله أبو وهب القرشي، قال: حدثنا سعيد بن أبي عروبة عن قتادة، وعلي بن زيد، عن سعيد بن المسيب، عن سلمان الفارسي، قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم آخر يوم من شعبان، أو قال: أول يوم من رمضان، قال: " يأيها الناس، أظلكم شهر عظيم مبارك، فيه ليلة خير من ألف شهر، افترض الله صيامه، وجعل قيامه تطوعا، فمن تطوع خيرا , كان حظه من ذلك الخير كمن أدى فريضة فيما سواه، ومن أدى فريضته كان كمن أدى سبعين فريضة، وهو شهر الصبر والمؤاساة، ويزاد في رزق المؤمن فيه، ومن فطر صائما , كان له كعتق رقبة، ومغفرة لذنوبه , ودخول الجنة، وسقاه الله تعالى من حوضي شربة لا يظمأ في الدنيا , ولا في الآخرة، ومن خفف على مملوكه , أعتقه الله من النار، وهو شهر أوله رحمة , وأوسطه مغفرة , وآخره عتق من النار، فقيل: يا رسول الله، ليس كلنا يجد ما يفطر الصائم، قال: يعطي الله هذا الثواب من فطر صائما على مذقة لبن، أو تمرة، أو أشبع جائعا، وكان له مغفرة لذنوبه , وسقاه الله من حوضي شربة لا يظمأ بعدها في الدنيا والآخرة، وهو شهر لا غنى بكم عن أربع خصال: خصلتان ترضون بهما ربكم، وخصلتان لا غنى بكم عنهما، أما الخصلتان اللتان ترضون ربكم: شهادة أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له , وتستغفرونه بالليل والنهار، وأما الخصلتان اللتان لا غنى بكم عنهما:
فالصلاة على النبي صلى الله عليه وآله وسلم، وتستعيذون بالله عز وجل من النار "
لوگو تم پر عظيم الشان مہينہ سايہ فگن ہو رہا ہے، يہ بابركت مہينہ ہے، اس ميں ايك ايسى رات ہے جو ايك ہزار مہينوں سے بہتر ہے، اللہ سبحانہ و تعالى نے اس كے روزے فرض كيے ہيں، اور اس مہينے كى راتوں كا قيام نفلى ہے، جس نے بھى اس مہينہ ميں كوئى خير و بھلائى كا كام سرانجام دے كر قرب حاصل كيا تو وہ ايسے ہى ہے جيسے كسى نے اس مہينہ كے علاوہ كوئى فرض ادا كيا، اور جس نے اس مہينہ ميں كوئى فرض سرانجام ديا تو وہ ايسے ہى ہے جيسے كسى نے اس مہينہ كے علاوہ ستر فرض ادا كيے، يہ صبر كا مہينہ ہے، اور صبر كا ثواب جنت ہے، يہ خير خواہى كا مہينہ ہے.
اس ماہ مبارك ميں مومن كا رزق زيادہ ہو جاتا ہے، اور جس كسى نے بھى اس مہينہ ميں روزے دار كا روزہ افطار كرايا اس كے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں، اور اس كى گردن جہنم سے آزاد كر دى جاتى ہے، اور اسے بھى روزے دار جتنا اجروثواب حاصل ہوتا ہے اور كسى كے ثواب ميں كمى نہيں ہوتى.
صحابہ كرام نے عرض كيا: ہم ميں سے ہر ايك كے پاس تو روزہ افطار كرانے كے ليے كچھ نہيں ہوتا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اللہ تعالى يہ اجروثواب ہر اس شخص كو ديتا ہے جس نے بھى كسى كا روزہ كھجور يا پانى كے گھونٹ يا دودھ كے ساتھ افطار كرايا،
اس ماہ كا ابتدائى حصہ رحمت ہے، اور درميانى حصہ بخشش اور آخرى حصہ جہنم سے آزادى كا باعث ہے
جس كسى نے بھى اپنى لونڈى اور غلام سے تخفيف كى اللہ تعالى اسے بخش ديتا اور اسے جہنم سےآزاد كر ديتا ہے، اس ماہ مبارك ميں چار كام زيادہ سے زيادہ كيا كرو: دو كے ساتھ تو تم اپنے پروردگار كو راضى كروگے، اور دو خصلتيں ايسى ہيں جن سے تم بےپرواہ نہيں ہو سكتے:جن دو خصلتوں سے تم اپنے پروردگار كو راضى كر سكتے ہو وہ يہ ہيں: اس بات كى گواہى دينا كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور اس سے بخشش طلب كرنا.
اور جن دو خصلتوں كے بغير تمہيں كوئى چارہ نہيں: جنت كا سوال كرنا، اور جہنم سے پناہ مانگنا.جس نے بھى اس ماہ مبارك ميں كسى روزے دار كو پيٹ بھر كر كھلايا اللہ سبحانہ و تعالى اسے ميرے حوض كا پانى پلائيگا وہ جنت ميں داخل ہونے تك پياس محسوس نہيں كريگا
الكتاب: ترتيب الأمالي الخميسية للشجري
مؤلف الأمالي: يحيى (المرشد بالله) بن الحسين (الموفق) بن إسماعيل بن زيد الحسني الشجري الجرجاني (المتوفى 499 هـ)
اس روایت پر یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ اس سند میں علی بن زید (لین) پر جمہور محدثین کی تضعیف کی جرح ہے
(لیکن ان جروحات کے باوجود امام ابن حجر عسقلانیؒ نے لسان المیزان پر انکی توثیق پر عمل کیا ہے اور امام ذھبی نے بھی تاریخ اور دوسری تصانیف میں اسکو صدوق اور حسن الحدیث مانا ہے نیز ان دونوں اماموں کی آخری تصانیف میں اسکے ضعف پر فیصلہ دیتے ہوئےاسکو ضعیف ولین قرار دیا ہے )
یعنی اس راوی میں لین درجے کا ضعف ہے جو کہ کسی اپنے جیسے یا مجہول یا اختلاط شدہ یا مدلس راوی کی متابعت کی وجہ سے تقویت حاصل کر کے اپنی روایت کو مقبول درجے کی بنا دیتا ہے )
اب ہم باری باری اعتراض نقل کرکے بیان کرتےہیں :
امام ابن خذیمہ نے اسکی جو سند اپنی صحیح میں بیان کی ہے وہ کچھ یوں ہے :
1887 - ثنا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ، ثنا يُوسُفُ بْنُ زِيَادٍ، ثنا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بلخ۔۔۔۔
اعتراض : اس سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہے جسکی وجہ سے یہ روایت ضعیف ثابت ہوتی ہے
الجواب: ہم اوپر بیان کر آئے اس راوی کی تعدیل بھی کی گئی ہے لیکن کیونکہ جمہور نے اسکو ضعیف قرار دیا اور امام ابن حجر ؒ اور امام ذھبیؒ نے بھی مختلف تصانیف میں اسکی تعدیل اور اسکو حسن الحدیث ماننے کے باوجود اپنی آخری کتب میں اسکو ضعیف اور لین قرار دیا ہے تو یہ راوی لین جیسے ہلکے پھلکے درجے کا ضعیف راوی ہے جو کہ متابعت کی وجہ سے مقبول اور حجت ہے
ہم نے شروع میں اسکی سند بیان کی جس میں انکی متابعت امام قتادی نے کر رکھی ہے اس سند پر جو اعتراض وارد ہو سکتے ہیں ہم انکا جواب بل ترتیب پیش کرتے ہیں۔
اعتراض:
اس سند میں سعید بن ابی عروبہ مدلس ہے اور وہ اپنے شیخ امام قتادہؒ سے عن سے بیان کر رہے ہیں اور امام قتادہ (جو کہ علی بن زید کی متابعت کر رہے ہیں ) وہ بھی مدلس ہیں اور عن سے روایت بیان کر رہے ہیں لحاظا یہ متابعت کسی کام کی نہیں اور روایت ضعیف ہے
الجواب:
یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اس سند میں سعید بن ابی عروبہ مدلس ہیں اور وہ اپنے شیخ امام قتادہؒ سے عن سے بیان کر رہے ہیں لیکن سعید بن ابی عروبہ طبقہ ثانیہ کے مدلس ہیں اور طبقہ ثانیہ کا مدلس عن سے روایت کرے تو اسکی تدلیس اسکی روایت کی صیحت کے منافی نہیں ہوتی ہے
جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی ؒ نے طبقات المدلسین میں انکو طبقہ ثانیہ میں درج کیا ہے
(0) المرتبة الثانية
(50) ع سعيد بن أبي عروبة البصري رأى أنسا رضي الله تعالى عنه وأكثر عن قتادة وهو ممن اختلط ووصفه النسائي وغيره بالتدليس
(الطبقات المدلسین برقم ۵۰)
جیسا کہ امام ابن حجر ؒ کو طبقہ ثانیہ کا مدلس قرار دیا اور طبقہ ثانیاکی مدلس کی عن والی روایت محدثین کے نزدیک حجت ہوتی ہے
اعتراض:
امام قتادہ مدلس ہیں اور انکی یہاں علی بن زید کی متابعت اس روایت کو تقویت نہیں دے سکتی
الجواب:
یہ اعتراض بھی جہالت پر مبنی ہے کیونکہ ہمارا دعویٰ ہے کہ یہ روایت حسن لغیرہ کے درجے پر پوری اترتی ہے اور حسن لغیرہ روایت کس طرح ضعیف راویان کی متابعت و شواہد سے تقویت پا کر درجہ مقبولیت پر آجاتی ہےیہ اصول ہم الحافظ الناقد امام ابن حجر عسقلانی ؒ رحمہ اللہ سے بیان کرینگے :
[الحسن لغيره]
ومتى تُوبعَ السيءُ الحفظ بمُعْتَبَرٍ: كأَنْ يكونَ فَوْقَهُ، أَو مِثلَهُ، لا دُونَه، وكَذا المختلِط الَّذي لم يتميز، والمستور، والإِسنادُ المُرْسَلُ، وكذا المدلَّس إِذا لم يُعْرف المحذوفُ منهُ = صارَ حديثُهم حَسناً، لا لذاتِهِ، بل وصْفُهُ بذلك باعتبارِ المَجْموعِ، مِن المتابِع والمتابَع؛ لأن كلَّ واحدٍ منهم احتمالُ أن تكون روايته صواباً، أو غير صوابٍ، على حدٍّ سواءٍ، فإِذا جاءَتْ مِنَ المُعْتَبَرِين روايةٌ موافِقةٌ لأحدِهِم رَجَحَ أحدُ الجانِبينِ من الاحتمالين المذكورين، وَدَلَّ ذلك على أَنَّ الحديثَ محفوظٌ؛ فارْتَقى مِن درَجَةِ التوقف إلى درجة القبول. ومعَ ارْتِقائِهِ إِلى دَرَجَةِ القَبولِ فهُو مُنحَطٌّ عنْ رُتْبَةِ الحَسَنِ لذاتِه، ورُبَّما تَوقَّف بعضُهم عنْ إِطلاقِ اسمِ الحَسَنِ عليهِ.
(نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر الامام ابن حجر عسقلانی ، ص ۲۳۴)
چناچہ وہ بیان کرتے ہیں کہ :
اور جب خراب حافظے والے راوی کی کسی ایسے راوی سے متابعت آجائے جو اس سے اچھی حالت والا ہو یا اس جیسا ہو ، اسی طرح وہ مختلط راوی جسکی روایات کی (قبل الاختلاط اور بعد الاختلاط ہونے کے حوالےسے) تمیز نہ ہو سکے نیز مستور راوی، مرسل سند اور ایسی تدلیس والی روایت جس میں گرے ہوئے راوی کی پہچان نہ ہو سکے ،ان سب کی حدیث حسن (لغیرہ)ہو جاتی ہے
امام ابن حجر عسقلانی نے یہ اصول کس بنیاد پر بیان کیا ہے ؟ اسکی تفصیل بھی خود لکھتے ہیں
چناچہ امام ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں
حدیث حسن (لغیرہ) بن جاتی ہے خود نہیں بلکہ اس کی یہ حالت متابع اور متابع دونوں کے جمع ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کے بارے میں برابر امکان ہے کہ اس کی روایت درست بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی ، جب کسی ایسے راوی جسکی روایت متابعات و شواہد میں قبول کی جاتی ہے ،ان میں سے کسی (راوی) سے موافق روایت آجائے تو مذکورہ دونوں احتمالات میں سے ایک جانب (درستی) کو ترجیح حاصل ہو جائے گی اور معلوم ہو جائے گا کہ حدیث محفوظ ہے یوں یہ توقف کےدرجے سے بلند ہو کر قبولیت کے درجے تک پہنچ جائے گی
ہاں قبولیت کے درجے تک پہنچنے کے باوجود بھی یہ حدیث حسن لذاتہ کے مرتبے سے کم رہے گی ، بسا اوقات بعض محدثین نے اسے حسن کا نام دینے سے بھی توقف کیا ہے
(یعنی یہ حسن لغیرہ ہوگی حسن لذاتہ نہ ہوگی جو کہ اکثر حسن سے مراد حسن لذاتہ ہوتا ہے )
اب جیسا کہ سند میں امام قتادہ ؒ متابعت کر رہے ہیں علی بن زید کی اور علی بن زید لین و ضعیف راوی ہے اور اما م قتادہ جب عن سے بیان کرتے ہیں اس راوی سے جس سے علی بن زید بیان کر رہا ہے تو اسکا مطلب امام قتادہ ؒ نے کسی ضعیف راوی سے تدلیس کی ہوگی جسکی پہچان نہیں ہو سکتی یا یہ بھی برابر امکان ہے کہ امام قتادہؒ نے یہاں تدلیس نہیں کی ہوگی اگر تدلیس نہیں کی ہوگی تو اس پر اشکال وارد ہی نہیں ہوتا اور اگر کسی ضعیف راوی سے تدلیس کی ہوگی تو وہ بھی علی بن زید کی طرح ضعیف راوی ہی بنے گا کیونکہ تدلیس والی روایت ضعیف بنتی ہے نہ کہ موضوع کیونکہ مدلس ضعیف راویان کا نام حذف کر دیتا ہے اب جسکا بھی نام امام قتادہ ؒ نے حذف کیا ہوگا وہ مجہول (ضعیف) راوی متابعت کر رہا ہے علی بن زید کی
یعنی اس روایت کو بیان کرنے میں علی بن زید منفرد نہیں بلکہ ایک اور مجہول (ضعیف ) راوی علی بن زید کی متابعت کر رہا ہے اگر امام قتادہ نے اس سے تدلیس کی ہوگی تو
اور اگر امام قتادہ اس روایت میں شاید تدلیس نہ کی ہوگی تو پھر ایک ثقہ امام علی بن زید کی متابعت کر رہا ہے ان دونوں صورتوں میں کیونکہ یہاں شک برابر جانب ہے تو ہم یہاں قتادہ کے مدلس ہونے کی وجہ سے تدلیس کے احتمال کو لینگے جو کہ وہ کسی ضعیف راوی سے تدلیس کی ہوگی اور یوں علی بن زید کا متابع ہونے کی وجہ سے یہ روایت تقویت پا کر ضعف کے درجے سے نکل کر حسن (لغیرہ) کے مقبول درجے کو پالیا ہے اور یوں یہ روایت محدثین کے اصول سے حسن لغیرہ ثابت ہو گئی
یہ تو اعتراضات کے جوابات ہو گئے جو کہ اس پر وارد ہو سکتے ہیں
اب آتے ہیں اس سند کے تمام رجال کی توثیق کی طرف:
۱۔ سند کا پہلا راوی عبد العزیز بن احمد فاذویہ ہے جو کہ شیخ ، صالح ، صدوق اور ثقہ ہے امام السمعانی ؒ انکی توثیق یوں بیان کرتے ہیں :
2958- الفاذويى
بفتح الفاء والذال المعجمة المضمومة بينهما الألف وبعدها الواو وفي آخرها الياء آخر الحروف، هذه النسبة إلى فاذويه، وهو اسم لجد أبى القاسم عبد العزيز بن أحمد بن عبد الله بن أحمد بن محمد ابن فاذويه الأصبهاني [الفاذويى] ، شيخ صالح، صدوق ثقة، سمع أبا الشيخ عبد الله بن محمد بن جعفر الأصبهاني، روى عنه أبو محمد عبد العزيز بن محمد بن محمد النخشبى الحافظ وأبو الفضل محمد بن أحمد بن أبى سعد البغدادي، وقال النخشبى: هو شيخ ثقة متقن، يروى عن أهل السنة.
(الانساب امام سعمانی ، جلد ۱۰ ، ص ۱۱۵)
۲۔ سند کا دوسرا راوی ابو طاہر عبدالکریم بن عبدالوحد الحسناباذی ہے
چناچہ انکی توثیق بھی امام السمعانی ؒ نے زکر کی ہے
أَبُو طَاهِرٍ عَبْدُ الْكَرِيمِ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْحَسْنَابَاذِيُّ
ابن عبد الواحد بن محمد بن عبد الرحمن بن محمد بن سليمان الحسنابادى الصوفي المكشوفى، من أهل أصبهان، وهو الّذي عرف بمكشوف الرأس، له رحلة إلى العراق والشام ومصر، وأكثر عن الشيوخ، وعمّر حتى حدث بالكثير ، سمع بأصبهان أبا الشيخ عبد الله بن جعفر بن حبان وأبا بكر محمد بن إبراهيم بن المقرئ، وبدمشق أبا الحسين عبد الوهاب ابن الحسن بن الوليد الكلابي، وبأذنة أبا الحسن على بن الحسين القاضي، وبمصر ابن المهندس وجماعة كثيرة سواهم ، سمع منه أبو محمد عبد العزيز ابن محمد بن محمد النخشبى الحافظ وذكره في معجم شيوخه فقال:
أبو طاهر الحسنابادى المعروف بالمكشوف ، صحيح السماع، ثقة، متقن،
(الكتاب: الأنساب جلد ۱۴، ص ۱۱۴ )
۳۔ سند کا تیسر ا راوی : ابو محمد بن عبداللہ بن جعفر بن حبان ہے
امام ذھبیؒ نے انکی توثیق یوں زکر کی ہے
أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ حَيَّانَ
وأبو الشيخ، الحافظ أبو محمد، عبد الله بن محمد بن جعفر بن حبّان الأصبهاني، صاحب التصانيف، في سلخ المحرم، وله خمس وتسعون سنة، وأول سماعه في سنة أربع وثمانين ومائتين، من إبراهيم بن سعدان؛ وابن أبي عاصم؛ وطبقتهما. ورحل في حدود الثلاثمئة، وروى عن أبي خليفة وأمثاله، بالموصل وحرّان والحجاز والعراق. قال أبو بكر بن مردويه: ثقة مأمون، صنّف التفسير، والكتب الكثيرة في الأحكام، وغير ذلك. وقال الخطيب: كان حافظاً ثبتاً متقناً. وقال غيره: كان صالحاً عابداً قانتاً لله تعالى، ثقة كبير القدر.
الكتاب: العبر في خبر من غبر ، الامام ذھبیؒ و جلد ۲، ص ۱۳۲)
۴۔ سند کا چوتھا راوی : ابو ایوب سلیمان بن عیسی الجوھری ہے
انکی توثیق امام الدارقطنیؒ نے کی ہے
أَبُو أَيُّوبَ سُلَيْمَانُ بْنُ عِيسَى الْجَوْهَرِيُّ
1541 - سليمان بن عيسى بن محمد، أبو أيوب الجوهري.
• قال السهمي:، عن أبي محمد بن غلام الزهري سليمان الجوهوي، ثقه. (295)
(الكتاب: موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله برقم ۱۵۴۱)
امام خطیب بغدادی نے انکی مداح کی ہے
. 4644- سليمان بن عيسى بن محمد، أبو أيوب الجوهري البصري:
قدم بغداد وحدث بها عَنْ مُحَمَّد بن عبد الملك بن أبي الشوارب، وعبيد الله بن معاذ العنبري، وأحمد بن عبدة الضبي، وأبي يزيد عمرو بن يزيد الجرمي، وعبد الرحمن بْن يونس الرقي، ومُحَمَّد بْن عَبْد اللَّه المخرمي. رَوَى عَنْهُ عَلِيّ بْن مُحَمَّد بْن لؤلؤ الوراق وقال: سمعنا منه ببغداد، ومحمد بن المظفر، وعمر بن أحمد بن يوسف الوكيل، وأَحْمَد بْن يوسف بْن يَعْقُوب بْن إِسْحَاق بن البهلول، ومحمد بن عبيد الله ابن الشخير وما علمت من حاله إلا خيرا.
(تاریخ بغداد)
۵۔ سند کا پانچوں راوی: سعید بن محمد بن ایوب ثواب
امام دارقطنی نے ان سے مروی ایک روایت کی سند کے بارے کہا ھذا اسناد صحیح
سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَيُّوبَ
2298 - ثنا المحاملي , ثنا سعيد بن محمد بن ثواب , ثنا أبو عاصم , ثنا عمرو بن سعيد , عن عطاء بن أبي رباح , [ص:164] عن عائشة رضي الله عنها , أن النبي صلى الله عليه وسلم «كان يقصر في السفر ويتم , ويفطر ويصوم» . قال: وهذا إسناد صحيح
(سنن دارقطنی برقم ۲۲۹۸)
امام ابن حبان نے بھی انکو ثقات میں درج کرتے ہوئے کہا مستقیم الحدیث یعنی یہ محفوظ حدیث والا ہے
(زبیر زئی کے ممدوح معلمی کے نزدیک ابن حبان جسکو مستقیم الحدیث کہیں تب وہ متساہل نہیں ہوتے اور ویسے بھی یہاں وہ منفرد نہیں )
13401 - سعيد بن مُحَمَّد بن ثَوَاب الحصري من أهل الْبَصْرَة يروي عَن أبي عَاصِم وَأهل الْعرَاق حَدَّثنا عَنهُ عبد الْكَبِير بن عمر الْخطابِيّ وَغَيره مُسْتَقِيم الحَدِيث كنيته أَبُو عُثْمَان
الثقات ابن حبان
۶۔سند کا چھٹا راوی : عبد العزیز بن عبداللہ القرشی
امام ابن حبان نے انکو ثقات میں درج کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ان احادیث میں معتبر ہے جس میں سماع کی تصریح کی ہو اور یغرب بھی کہا
عَبْد الْعَزِيز بْن عَبْد اللَّه الْقرشِي
14053 - عَبْد الْعَزِيز بْن عَبْد اللَّه الْقرشِي أَبُو وهب يروي عَن هِشَام بن حسان وخَالِد الْحذاء وبهز بن حَكِيم وَسَعِيد بن إِيَاس وَشعْبَة روى عَنهُ الحكم بن مدرك السدُوسِي يغرب يجب أَن يعْتَبر حَدِيثه إِذا بَين السماع
الثقات ابن حبان
نیز امام ابن عدی نے انکی کچھ منکر روایات بیان کر کے کہتے ہیں :
قال الشيخ: وعبد العزيز بن عبد الله هذا عامة ما يرويه لا يتابعه عليه الثقات
(الکامل فی الضعفاء ، جلد ۴، ص ۶۱۲)
یعنی امام ابن عدی کہتے ہیں : عبد العزیز کی عام روایت کردہ روایت میں ثقات میں انکا کوئی متابع نہیں ہوتا
جبکہ اس روایت میں وہ منفرد بھی نہیں ہیں اور ابن حبان جیسے متشدد امام نے انکو معتبر کہا ہے اور امام ابن عدی نے اسکی پھر بھی کوئی صریح تضعیف نہیں کی جسکی وجہ سے یہ راوی حسن الحدیث بنتا ہے
۷۔ ساتوں راوی: سعید بن ابی عروبہ
امام ابی حاتم و ابو زرعہ نے اسکی توثیق کی ہے
276 - سعيد بن أبي عروبة، واسم أبي عروبة مهران، مولى بني
حدثنا عبد الرحمن قال سئل أبو زرعة عن سعيد بن أبي عروبة فقال: ثقة مأمون.
حدثنا عبد الرحمن
قال قلت لأبي زرعة: سعيد بن أبي عروبة أحفظ أو أبان العطار؟ فقال سعيد أحفظ، وأثبت أصحاب قتادة هشام (1) وسعيد.
(الجرح و تعدیل)
۸۔آٹھواں راوی امام قتادہ ہیں جو بلاتفاق ثقہ و حجت ہیں الا یہ کہ جس میں تدلیس ہو
جیسا کہ امام ذھبی ؒ سیر اعلام میں انکے بارے فرماتے ہیں :
وهو حجة بالإجماع إذا بين السماع، فإنه مدلس معروف بذلك، وكان يرى القدر
(سیر اعلام النبلاء)
جیسا کہ اس روایت میں وہ مدلس ہونے کی وجہ سے انکی روایت کو صحیح نہیں قرار دیا جا سکتا ممکن ہے اس روایت میں تدلیس کی ہو جیسا کہ اوپر تفصیل بیان کر آئے لیکن اپنے جس بھی ضعیف راوی سے تدلیس کی ہوگی اسکا متابع علی بن زید بن رہا ہے اور علی بن زید کا متابع امام قتادہ کا ضعیف شیخ بنا رہا ہے
۹۔ ناواں راوی سعید بن المسیب
امام ابن حجر عسقلانی تقریب میں لکھتے ہیں وہ ثبت اعلماء و فقہا الکبار میں سے تھے اور تابعی تھے
2396- سعيد ابن المسيب ابن حزن ابن أبي وهب ابن عمرو ابن عائذ ابن عمران ابن مخزوم القرشي المخزومي أحد العلماء الأثبات الفقهاء الكبار من كبار الثانية اتفقوا على أن مرسلاته أصح المراسيل وقال ابن المديني لا أعلم في التابعين أوسع علما منه مات بعد التسعين وقد ناهز الثمانين ع
(تقریب التہذیب برقم ۲۳۸۶)
۱۰ ۔ داسوے راوی صحابی رسول حضرت سلمان الفارسیؓ ہیں جنکی توثیق پیش کرنے کی ضرورت نہیں
اس تحقیق سے معلوم ہوا یہ روایت حسن لغیرہ درجے کی ہے اور مقبول ہے
اور جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف بھی ہو تو فضائل کے باب میں بالکل مقبول اور قابل عمل ہے الا یہ کہ سند میں کوئی کذاب راوی نہ ہو
دعاگو: خادم الحدیث رانا اسد الطحاوی الحنفی البریلوی ۱۴ مئی ، ۲۰۱۹)
تحقیق : رانا اسد فرحان الحطاوی الحنفی البریلوی
امام ابن خزیمہ اپنی سند سے روایت کرتے ہیں
: 1887 - ثنا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ، ثنا يُوسُفُ بْنُ زِيَادٍ، ثنا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بلخ۔۔۔۔
انکے علاوہ اس روایت کو اپنی سند سے امام ابن الشجری الجرجانی (المتوفیٰ ۴۹۹ھ ) نے بیان کیا ہے جس میں علی بن زید (لین) کی متابعت امام قتادہؒ نے بھی کر رکھی ہے جس کی وجہ سے اصولی طور پر یہ سند حسن لغیرہ بنتی ہے
امام ابن الجرجانی نے جو سند بیان کی ہے اسکی سند یوں ہے :
1425 - أخبرنا أبو القاسم عبد العزيز بن أحمد ابن عبد الله بن فادويه، قال: حدثنا أبو محمد عبد الله بن محمد بن جعفر بن حيان، قال: حدثنا أبو أيوب سليمان بن عيسى الجوهري، قال: حدثنا سعيد بن محمد بن ثواب، قال: حدثنا عبد العزيز بن عبد الله أبو وهب القرشي، قال: حدثنا سعيد بن أبي عروبة عن قتادة، وعلي بن زيد، عن سعيد بن المسيب، عن سلمان الفارسي، قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم آخر يوم من شعبان، أو قال: أول يوم من رمضان، قال: " يأيها الناس، أظلكم شهر عظيم مبارك، فيه ليلة خير من ألف شهر، افترض الله صيامه، وجعل قيامه تطوعا، فمن تطوع خيرا , كان حظه من ذلك الخير كمن أدى فريضة فيما سواه، ومن أدى فريضته كان كمن أدى سبعين فريضة، وهو شهر الصبر والمؤاساة، ويزاد في رزق المؤمن فيه، ومن فطر صائما , كان له كعتق رقبة، ومغفرة لذنوبه , ودخول الجنة، وسقاه الله تعالى من حوضي شربة لا يظمأ في الدنيا , ولا في الآخرة، ومن خفف على مملوكه , أعتقه الله من النار، وهو شهر أوله رحمة , وأوسطه مغفرة , وآخره عتق من النار، فقيل: يا رسول الله، ليس كلنا يجد ما يفطر الصائم، قال: يعطي الله هذا الثواب من فطر صائما على مذقة لبن، أو تمرة، أو أشبع جائعا، وكان له مغفرة لذنوبه , وسقاه الله من حوضي شربة لا يظمأ بعدها في الدنيا والآخرة، وهو شهر لا غنى بكم عن أربع خصال: خصلتان ترضون بهما ربكم، وخصلتان لا غنى بكم عنهما، أما الخصلتان اللتان ترضون ربكم: شهادة أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له , وتستغفرونه بالليل والنهار، وأما الخصلتان اللتان لا غنى بكم عنهما:
فالصلاة على النبي صلى الله عليه وآله وسلم، وتستعيذون بالله عز وجل من النار "
لوگو تم پر عظيم الشان مہينہ سايہ فگن ہو رہا ہے، يہ بابركت مہينہ ہے، اس ميں ايك ايسى رات ہے جو ايك ہزار مہينوں سے بہتر ہے، اللہ سبحانہ و تعالى نے اس كے روزے فرض كيے ہيں، اور اس مہينے كى راتوں كا قيام نفلى ہے، جس نے بھى اس مہينہ ميں كوئى خير و بھلائى كا كام سرانجام دے كر قرب حاصل كيا تو وہ ايسے ہى ہے جيسے كسى نے اس مہينہ كے علاوہ كوئى فرض ادا كيا، اور جس نے اس مہينہ ميں كوئى فرض سرانجام ديا تو وہ ايسے ہى ہے جيسے كسى نے اس مہينہ كے علاوہ ستر فرض ادا كيے، يہ صبر كا مہينہ ہے، اور صبر كا ثواب جنت ہے، يہ خير خواہى كا مہينہ ہے.
اس ماہ مبارك ميں مومن كا رزق زيادہ ہو جاتا ہے، اور جس كسى نے بھى اس مہينہ ميں روزے دار كا روزہ افطار كرايا اس كے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں، اور اس كى گردن جہنم سے آزاد كر دى جاتى ہے، اور اسے بھى روزے دار جتنا اجروثواب حاصل ہوتا ہے اور كسى كے ثواب ميں كمى نہيں ہوتى.
صحابہ كرام نے عرض كيا: ہم ميں سے ہر ايك كے پاس تو روزہ افطار كرانے كے ليے كچھ نہيں ہوتا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اللہ تعالى يہ اجروثواب ہر اس شخص كو ديتا ہے جس نے بھى كسى كا روزہ كھجور يا پانى كے گھونٹ يا دودھ كے ساتھ افطار كرايا،
اس ماہ كا ابتدائى حصہ رحمت ہے، اور درميانى حصہ بخشش اور آخرى حصہ جہنم سے آزادى كا باعث ہے
جس كسى نے بھى اپنى لونڈى اور غلام سے تخفيف كى اللہ تعالى اسے بخش ديتا اور اسے جہنم سےآزاد كر ديتا ہے، اس ماہ مبارك ميں چار كام زيادہ سے زيادہ كيا كرو: دو كے ساتھ تو تم اپنے پروردگار كو راضى كروگے، اور دو خصلتيں ايسى ہيں جن سے تم بےپرواہ نہيں ہو سكتے:جن دو خصلتوں سے تم اپنے پروردگار كو راضى كر سكتے ہو وہ يہ ہيں: اس بات كى گواہى دينا كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور اس سے بخشش طلب كرنا.
اور جن دو خصلتوں كے بغير تمہيں كوئى چارہ نہيں: جنت كا سوال كرنا، اور جہنم سے پناہ مانگنا.جس نے بھى اس ماہ مبارك ميں كسى روزے دار كو پيٹ بھر كر كھلايا اللہ سبحانہ و تعالى اسے ميرے حوض كا پانى پلائيگا وہ جنت ميں داخل ہونے تك پياس محسوس نہيں كريگا
الكتاب: ترتيب الأمالي الخميسية للشجري
مؤلف الأمالي: يحيى (المرشد بالله) بن الحسين (الموفق) بن إسماعيل بن زيد الحسني الشجري الجرجاني (المتوفى 499 هـ)
اس روایت پر یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ اس سند میں علی بن زید (لین) پر جمہور محدثین کی تضعیف کی جرح ہے
(لیکن ان جروحات کے باوجود امام ابن حجر عسقلانیؒ نے لسان المیزان پر انکی توثیق پر عمل کیا ہے اور امام ذھبی نے بھی تاریخ اور دوسری تصانیف میں اسکو صدوق اور حسن الحدیث مانا ہے نیز ان دونوں اماموں کی آخری تصانیف میں اسکے ضعف پر فیصلہ دیتے ہوئےاسکو ضعیف ولین قرار دیا ہے )
یعنی اس راوی میں لین درجے کا ضعف ہے جو کہ کسی اپنے جیسے یا مجہول یا اختلاط شدہ یا مدلس راوی کی متابعت کی وجہ سے تقویت حاصل کر کے اپنی روایت کو مقبول درجے کی بنا دیتا ہے )
اب ہم باری باری اعتراض نقل کرکے بیان کرتےہیں :
امام ابن خذیمہ نے اسکی جو سند اپنی صحیح میں بیان کی ہے وہ کچھ یوں ہے :
1887 - ثنا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ، ثنا يُوسُفُ بْنُ زِيَادٍ، ثنا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بلخ۔۔۔۔
اعتراض : اس سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہے جسکی وجہ سے یہ روایت ضعیف ثابت ہوتی ہے
الجواب: ہم اوپر بیان کر آئے اس راوی کی تعدیل بھی کی گئی ہے لیکن کیونکہ جمہور نے اسکو ضعیف قرار دیا اور امام ابن حجر ؒ اور امام ذھبیؒ نے بھی مختلف تصانیف میں اسکی تعدیل اور اسکو حسن الحدیث ماننے کے باوجود اپنی آخری کتب میں اسکو ضعیف اور لین قرار دیا ہے تو یہ راوی لین جیسے ہلکے پھلکے درجے کا ضعیف راوی ہے جو کہ متابعت کی وجہ سے مقبول اور حجت ہے
ہم نے شروع میں اسکی سند بیان کی جس میں انکی متابعت امام قتادی نے کر رکھی ہے اس سند پر جو اعتراض وارد ہو سکتے ہیں ہم انکا جواب بل ترتیب پیش کرتے ہیں۔
اعتراض:
اس سند میں سعید بن ابی عروبہ مدلس ہے اور وہ اپنے شیخ امام قتادہؒ سے عن سے بیان کر رہے ہیں اور امام قتادہ (جو کہ علی بن زید کی متابعت کر رہے ہیں ) وہ بھی مدلس ہیں اور عن سے روایت بیان کر رہے ہیں لحاظا یہ متابعت کسی کام کی نہیں اور روایت ضعیف ہے
الجواب:
یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اس سند میں سعید بن ابی عروبہ مدلس ہیں اور وہ اپنے شیخ امام قتادہؒ سے عن سے بیان کر رہے ہیں لیکن سعید بن ابی عروبہ طبقہ ثانیہ کے مدلس ہیں اور طبقہ ثانیہ کا مدلس عن سے روایت کرے تو اسکی تدلیس اسکی روایت کی صیحت کے منافی نہیں ہوتی ہے
جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی ؒ نے طبقات المدلسین میں انکو طبقہ ثانیہ میں درج کیا ہے
(0) المرتبة الثانية
(50) ع سعيد بن أبي عروبة البصري رأى أنسا رضي الله تعالى عنه وأكثر عن قتادة وهو ممن اختلط ووصفه النسائي وغيره بالتدليس
(الطبقات المدلسین برقم ۵۰)
جیسا کہ امام ابن حجر ؒ کو طبقہ ثانیہ کا مدلس قرار دیا اور طبقہ ثانیاکی مدلس کی عن والی روایت محدثین کے نزدیک حجت ہوتی ہے
اعتراض:
امام قتادہ مدلس ہیں اور انکی یہاں علی بن زید کی متابعت اس روایت کو تقویت نہیں دے سکتی
الجواب:
یہ اعتراض بھی جہالت پر مبنی ہے کیونکہ ہمارا دعویٰ ہے کہ یہ روایت حسن لغیرہ کے درجے پر پوری اترتی ہے اور حسن لغیرہ روایت کس طرح ضعیف راویان کی متابعت و شواہد سے تقویت پا کر درجہ مقبولیت پر آجاتی ہےیہ اصول ہم الحافظ الناقد امام ابن حجر عسقلانی ؒ رحمہ اللہ سے بیان کرینگے :
[الحسن لغيره]
ومتى تُوبعَ السيءُ الحفظ بمُعْتَبَرٍ: كأَنْ يكونَ فَوْقَهُ، أَو مِثلَهُ، لا دُونَه، وكَذا المختلِط الَّذي لم يتميز، والمستور، والإِسنادُ المُرْسَلُ، وكذا المدلَّس إِذا لم يُعْرف المحذوفُ منهُ = صارَ حديثُهم حَسناً، لا لذاتِهِ، بل وصْفُهُ بذلك باعتبارِ المَجْموعِ، مِن المتابِع والمتابَع؛ لأن كلَّ واحدٍ منهم احتمالُ أن تكون روايته صواباً، أو غير صوابٍ، على حدٍّ سواءٍ، فإِذا جاءَتْ مِنَ المُعْتَبَرِين روايةٌ موافِقةٌ لأحدِهِم رَجَحَ أحدُ الجانِبينِ من الاحتمالين المذكورين، وَدَلَّ ذلك على أَنَّ الحديثَ محفوظٌ؛ فارْتَقى مِن درَجَةِ التوقف إلى درجة القبول. ومعَ ارْتِقائِهِ إِلى دَرَجَةِ القَبولِ فهُو مُنحَطٌّ عنْ رُتْبَةِ الحَسَنِ لذاتِه، ورُبَّما تَوقَّف بعضُهم عنْ إِطلاقِ اسمِ الحَسَنِ عليهِ.
(نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر الامام ابن حجر عسقلانی ، ص ۲۳۴)
چناچہ وہ بیان کرتے ہیں کہ :
اور جب خراب حافظے والے راوی کی کسی ایسے راوی سے متابعت آجائے جو اس سے اچھی حالت والا ہو یا اس جیسا ہو ، اسی طرح وہ مختلط راوی جسکی روایات کی (قبل الاختلاط اور بعد الاختلاط ہونے کے حوالےسے) تمیز نہ ہو سکے نیز مستور راوی، مرسل سند اور ایسی تدلیس والی روایت جس میں گرے ہوئے راوی کی پہچان نہ ہو سکے ،ان سب کی حدیث حسن (لغیرہ)ہو جاتی ہے
امام ابن حجر عسقلانی نے یہ اصول کس بنیاد پر بیان کیا ہے ؟ اسکی تفصیل بھی خود لکھتے ہیں
چناچہ امام ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں
حدیث حسن (لغیرہ) بن جاتی ہے خود نہیں بلکہ اس کی یہ حالت متابع اور متابع دونوں کے جمع ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کے بارے میں برابر امکان ہے کہ اس کی روایت درست بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی ، جب کسی ایسے راوی جسکی روایت متابعات و شواہد میں قبول کی جاتی ہے ،ان میں سے کسی (راوی) سے موافق روایت آجائے تو مذکورہ دونوں احتمالات میں سے ایک جانب (درستی) کو ترجیح حاصل ہو جائے گی اور معلوم ہو جائے گا کہ حدیث محفوظ ہے یوں یہ توقف کےدرجے سے بلند ہو کر قبولیت کے درجے تک پہنچ جائے گی
ہاں قبولیت کے درجے تک پہنچنے کے باوجود بھی یہ حدیث حسن لذاتہ کے مرتبے سے کم رہے گی ، بسا اوقات بعض محدثین نے اسے حسن کا نام دینے سے بھی توقف کیا ہے
(یعنی یہ حسن لغیرہ ہوگی حسن لذاتہ نہ ہوگی جو کہ اکثر حسن سے مراد حسن لذاتہ ہوتا ہے )
اب جیسا کہ سند میں امام قتادہ ؒ متابعت کر رہے ہیں علی بن زید کی اور علی بن زید لین و ضعیف راوی ہے اور اما م قتادہ جب عن سے بیان کرتے ہیں اس راوی سے جس سے علی بن زید بیان کر رہا ہے تو اسکا مطلب امام قتادہ ؒ نے کسی ضعیف راوی سے تدلیس کی ہوگی جسکی پہچان نہیں ہو سکتی یا یہ بھی برابر امکان ہے کہ امام قتادہؒ نے یہاں تدلیس نہیں کی ہوگی اگر تدلیس نہیں کی ہوگی تو اس پر اشکال وارد ہی نہیں ہوتا اور اگر کسی ضعیف راوی سے تدلیس کی ہوگی تو وہ بھی علی بن زید کی طرح ضعیف راوی ہی بنے گا کیونکہ تدلیس والی روایت ضعیف بنتی ہے نہ کہ موضوع کیونکہ مدلس ضعیف راویان کا نام حذف کر دیتا ہے اب جسکا بھی نام امام قتادہ ؒ نے حذف کیا ہوگا وہ مجہول (ضعیف) راوی متابعت کر رہا ہے علی بن زید کی
یعنی اس روایت کو بیان کرنے میں علی بن زید منفرد نہیں بلکہ ایک اور مجہول (ضعیف ) راوی علی بن زید کی متابعت کر رہا ہے اگر امام قتادہ نے اس سے تدلیس کی ہوگی تو
اور اگر امام قتادہ اس روایت میں شاید تدلیس نہ کی ہوگی تو پھر ایک ثقہ امام علی بن زید کی متابعت کر رہا ہے ان دونوں صورتوں میں کیونکہ یہاں شک برابر جانب ہے تو ہم یہاں قتادہ کے مدلس ہونے کی وجہ سے تدلیس کے احتمال کو لینگے جو کہ وہ کسی ضعیف راوی سے تدلیس کی ہوگی اور یوں علی بن زید کا متابع ہونے کی وجہ سے یہ روایت تقویت پا کر ضعف کے درجے سے نکل کر حسن (لغیرہ) کے مقبول درجے کو پالیا ہے اور یوں یہ روایت محدثین کے اصول سے حسن لغیرہ ثابت ہو گئی
یہ تو اعتراضات کے جوابات ہو گئے جو کہ اس پر وارد ہو سکتے ہیں
اب آتے ہیں اس سند کے تمام رجال کی توثیق کی طرف:
۱۔ سند کا پہلا راوی عبد العزیز بن احمد فاذویہ ہے جو کہ شیخ ، صالح ، صدوق اور ثقہ ہے امام السمعانی ؒ انکی توثیق یوں بیان کرتے ہیں :
2958- الفاذويى
بفتح الفاء والذال المعجمة المضمومة بينهما الألف وبعدها الواو وفي آخرها الياء آخر الحروف، هذه النسبة إلى فاذويه، وهو اسم لجد أبى القاسم عبد العزيز بن أحمد بن عبد الله بن أحمد بن محمد ابن فاذويه الأصبهاني [الفاذويى] ، شيخ صالح، صدوق ثقة، سمع أبا الشيخ عبد الله بن محمد بن جعفر الأصبهاني، روى عنه أبو محمد عبد العزيز بن محمد بن محمد النخشبى الحافظ وأبو الفضل محمد بن أحمد بن أبى سعد البغدادي، وقال النخشبى: هو شيخ ثقة متقن، يروى عن أهل السنة.
(الانساب امام سعمانی ، جلد ۱۰ ، ص ۱۱۵)
۲۔ سند کا دوسرا راوی ابو طاہر عبدالکریم بن عبدالوحد الحسناباذی ہے
چناچہ انکی توثیق بھی امام السمعانی ؒ نے زکر کی ہے
أَبُو طَاهِرٍ عَبْدُ الْكَرِيمِ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْحَسْنَابَاذِيُّ
ابن عبد الواحد بن محمد بن عبد الرحمن بن محمد بن سليمان الحسنابادى الصوفي المكشوفى، من أهل أصبهان، وهو الّذي عرف بمكشوف الرأس، له رحلة إلى العراق والشام ومصر، وأكثر عن الشيوخ، وعمّر حتى حدث بالكثير ، سمع بأصبهان أبا الشيخ عبد الله بن جعفر بن حبان وأبا بكر محمد بن إبراهيم بن المقرئ، وبدمشق أبا الحسين عبد الوهاب ابن الحسن بن الوليد الكلابي، وبأذنة أبا الحسن على بن الحسين القاضي، وبمصر ابن المهندس وجماعة كثيرة سواهم ، سمع منه أبو محمد عبد العزيز ابن محمد بن محمد النخشبى الحافظ وذكره في معجم شيوخه فقال:
أبو طاهر الحسنابادى المعروف بالمكشوف ، صحيح السماع، ثقة، متقن،
(الكتاب: الأنساب جلد ۱۴، ص ۱۱۴ )
۳۔ سند کا تیسر ا راوی : ابو محمد بن عبداللہ بن جعفر بن حبان ہے
امام ذھبیؒ نے انکی توثیق یوں زکر کی ہے
أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ حَيَّانَ
وأبو الشيخ، الحافظ أبو محمد، عبد الله بن محمد بن جعفر بن حبّان الأصبهاني، صاحب التصانيف، في سلخ المحرم، وله خمس وتسعون سنة، وأول سماعه في سنة أربع وثمانين ومائتين، من إبراهيم بن سعدان؛ وابن أبي عاصم؛ وطبقتهما. ورحل في حدود الثلاثمئة، وروى عن أبي خليفة وأمثاله، بالموصل وحرّان والحجاز والعراق. قال أبو بكر بن مردويه: ثقة مأمون، صنّف التفسير، والكتب الكثيرة في الأحكام، وغير ذلك. وقال الخطيب: كان حافظاً ثبتاً متقناً. وقال غيره: كان صالحاً عابداً قانتاً لله تعالى، ثقة كبير القدر.
الكتاب: العبر في خبر من غبر ، الامام ذھبیؒ و جلد ۲، ص ۱۳۲)
۴۔ سند کا چوتھا راوی : ابو ایوب سلیمان بن عیسی الجوھری ہے
انکی توثیق امام الدارقطنیؒ نے کی ہے
أَبُو أَيُّوبَ سُلَيْمَانُ بْنُ عِيسَى الْجَوْهَرِيُّ
1541 - سليمان بن عيسى بن محمد، أبو أيوب الجوهري.
• قال السهمي:، عن أبي محمد بن غلام الزهري سليمان الجوهوي، ثقه. (295)
(الكتاب: موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله برقم ۱۵۴۱)
امام خطیب بغدادی نے انکی مداح کی ہے
. 4644- سليمان بن عيسى بن محمد، أبو أيوب الجوهري البصري:
قدم بغداد وحدث بها عَنْ مُحَمَّد بن عبد الملك بن أبي الشوارب، وعبيد الله بن معاذ العنبري، وأحمد بن عبدة الضبي، وأبي يزيد عمرو بن يزيد الجرمي، وعبد الرحمن بْن يونس الرقي، ومُحَمَّد بْن عَبْد اللَّه المخرمي. رَوَى عَنْهُ عَلِيّ بْن مُحَمَّد بْن لؤلؤ الوراق وقال: سمعنا منه ببغداد، ومحمد بن المظفر، وعمر بن أحمد بن يوسف الوكيل، وأَحْمَد بْن يوسف بْن يَعْقُوب بْن إِسْحَاق بن البهلول، ومحمد بن عبيد الله ابن الشخير وما علمت من حاله إلا خيرا.
(تاریخ بغداد)
۵۔ سند کا پانچوں راوی: سعید بن محمد بن ایوب ثواب
امام دارقطنی نے ان سے مروی ایک روایت کی سند کے بارے کہا ھذا اسناد صحیح
سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَيُّوبَ
2298 - ثنا المحاملي , ثنا سعيد بن محمد بن ثواب , ثنا أبو عاصم , ثنا عمرو بن سعيد , عن عطاء بن أبي رباح , [ص:164] عن عائشة رضي الله عنها , أن النبي صلى الله عليه وسلم «كان يقصر في السفر ويتم , ويفطر ويصوم» . قال: وهذا إسناد صحيح
(سنن دارقطنی برقم ۲۲۹۸)
امام ابن حبان نے بھی انکو ثقات میں درج کرتے ہوئے کہا مستقیم الحدیث یعنی یہ محفوظ حدیث والا ہے
(زبیر زئی کے ممدوح معلمی کے نزدیک ابن حبان جسکو مستقیم الحدیث کہیں تب وہ متساہل نہیں ہوتے اور ویسے بھی یہاں وہ منفرد نہیں )
13401 - سعيد بن مُحَمَّد بن ثَوَاب الحصري من أهل الْبَصْرَة يروي عَن أبي عَاصِم وَأهل الْعرَاق حَدَّثنا عَنهُ عبد الْكَبِير بن عمر الْخطابِيّ وَغَيره مُسْتَقِيم الحَدِيث كنيته أَبُو عُثْمَان
الثقات ابن حبان
۶۔سند کا چھٹا راوی : عبد العزیز بن عبداللہ القرشی
امام ابن حبان نے انکو ثقات میں درج کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ان احادیث میں معتبر ہے جس میں سماع کی تصریح کی ہو اور یغرب بھی کہا
عَبْد الْعَزِيز بْن عَبْد اللَّه الْقرشِي
14053 - عَبْد الْعَزِيز بْن عَبْد اللَّه الْقرشِي أَبُو وهب يروي عَن هِشَام بن حسان وخَالِد الْحذاء وبهز بن حَكِيم وَسَعِيد بن إِيَاس وَشعْبَة روى عَنهُ الحكم بن مدرك السدُوسِي يغرب يجب أَن يعْتَبر حَدِيثه إِذا بَين السماع
الثقات ابن حبان
نیز امام ابن عدی نے انکی کچھ منکر روایات بیان کر کے کہتے ہیں :
قال الشيخ: وعبد العزيز بن عبد الله هذا عامة ما يرويه لا يتابعه عليه الثقات
(الکامل فی الضعفاء ، جلد ۴، ص ۶۱۲)
یعنی امام ابن عدی کہتے ہیں : عبد العزیز کی عام روایت کردہ روایت میں ثقات میں انکا کوئی متابع نہیں ہوتا
جبکہ اس روایت میں وہ منفرد بھی نہیں ہیں اور ابن حبان جیسے متشدد امام نے انکو معتبر کہا ہے اور امام ابن عدی نے اسکی پھر بھی کوئی صریح تضعیف نہیں کی جسکی وجہ سے یہ راوی حسن الحدیث بنتا ہے
۷۔ ساتوں راوی: سعید بن ابی عروبہ
امام ابی حاتم و ابو زرعہ نے اسکی توثیق کی ہے
276 - سعيد بن أبي عروبة، واسم أبي عروبة مهران، مولى بني
حدثنا عبد الرحمن قال سئل أبو زرعة عن سعيد بن أبي عروبة فقال: ثقة مأمون.
حدثنا عبد الرحمن
قال قلت لأبي زرعة: سعيد بن أبي عروبة أحفظ أو أبان العطار؟ فقال سعيد أحفظ، وأثبت أصحاب قتادة هشام (1) وسعيد.
(الجرح و تعدیل)
۸۔آٹھواں راوی امام قتادہ ہیں جو بلاتفاق ثقہ و حجت ہیں الا یہ کہ جس میں تدلیس ہو
جیسا کہ امام ذھبی ؒ سیر اعلام میں انکے بارے فرماتے ہیں :
وهو حجة بالإجماع إذا بين السماع، فإنه مدلس معروف بذلك، وكان يرى القدر
(سیر اعلام النبلاء)
جیسا کہ اس روایت میں وہ مدلس ہونے کی وجہ سے انکی روایت کو صحیح نہیں قرار دیا جا سکتا ممکن ہے اس روایت میں تدلیس کی ہو جیسا کہ اوپر تفصیل بیان کر آئے لیکن اپنے جس بھی ضعیف راوی سے تدلیس کی ہوگی اسکا متابع علی بن زید بن رہا ہے اور علی بن زید کا متابع امام قتادہ کا ضعیف شیخ بنا رہا ہے
۹۔ ناواں راوی سعید بن المسیب
امام ابن حجر عسقلانی تقریب میں لکھتے ہیں وہ ثبت اعلماء و فقہا الکبار میں سے تھے اور تابعی تھے
2396- سعيد ابن المسيب ابن حزن ابن أبي وهب ابن عمرو ابن عائذ ابن عمران ابن مخزوم القرشي المخزومي أحد العلماء الأثبات الفقهاء الكبار من كبار الثانية اتفقوا على أن مرسلاته أصح المراسيل وقال ابن المديني لا أعلم في التابعين أوسع علما منه مات بعد التسعين وقد ناهز الثمانين ع
(تقریب التہذیب برقم ۲۳۸۶)
۱۰ ۔ داسوے راوی صحابی رسول حضرت سلمان الفارسیؓ ہیں جنکی توثیق پیش کرنے کی ضرورت نہیں
اس تحقیق سے معلوم ہوا یہ روایت حسن لغیرہ درجے کی ہے اور مقبول ہے
اور جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف بھی ہو تو فضائل کے باب میں بالکل مقبول اور قابل عمل ہے الا یہ کہ سند میں کوئی کذاب راوی نہ ہو
دعاگو: خادم الحدیث رانا اسد الطحاوی الحنفی البریلوی ۱۴ مئی ، ۲۰۱۹)