سرر هذا الشهر کا مفہوم
تحریر :عبد الخبیر السلفی بدایوں
بہار سے ہمارے ایک بھائی نے بخاری، مسلم، مسند احمد بن حنبل وغیرہ میں موجود ماہ شعبان میں روزہ سے متعلق ایک روایت کے بارے میں معلوم کیا تھا اس کی تشریح آپ کے سامنے پیش کی جا رہی ہے روایت اس طرح ہے. " حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ ، عَنْ غَيْلَانَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّهُ سَأَلَهُ ، أَوْ سَأَلَ رَجُلًا وَعِمْرَانُ يَسْمَعُ ، فَقَالَ : يَا أَبَا فُلَانٍ ، أَمَا صُمْتَ سَرَرَ هَذَا الشَّهْرِ ؟ قَالَ : أَظُنُّهُ قَالَ يَعْنِي رَمَضَانَ ، قَالَ الرَّجُلُ : لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : فَإِذَا أَفْطَرْتَ ، فَصُمْ يَوْمَيْنِ ، لَمْ يَقُلِ الصَّلْتُ أَظُنُّهُ يَعْنِي رَمَضَانَ ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ : وَقَالَ ثَابِتٌ : عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عِمْرَانَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَرَرِ شَعْبَانَ . (بخاری :1983)
یعنی عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا یا ( مطرف نے یہ کہا کہ ) سوال تو کسی دوسرے آدمی نے کیا تھا لیکن وہ سن رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے ابوفلاں! کیا تم نے اس مہینے کے آخر کے روزے رکھے؟ ابونعمان نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ راوی نے کہا کہ آپ کی مراد رمضان سے تھی۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) کہتے ہیں کہ ثابت نے بیان کیا، ان سے مطرف نے، ان سے عمران رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( رمضان کے آخر کے بجائے ) شعبان کے آخر میں کا لفظ بیان کیا. مسلم میں یہ روایت اس طرح ہے "وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ الضُّبَعِيُّ، حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ وَهُوَ ابْنُ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ: - أَوْ قَالَ لِرَجُلٍ وَهُوَ يَسْمَعُ - «يَا فُلَانُ، أَصُمْتَ مِنْ سُرَّةِ هَذَا الشَّهْرِ؟» قَالَ: لَا، قَالَ: «فَإِذَا أَفْطَرْتَ، فَصُمْ يَوْمَيْنِ»" (مسلم :2745) یعنی حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا ۔ یاکسی اور شخص سے پوچھا اور وہ سن رہے تھے : اےفلاں!کیا تم نے اس مہینے کے آخیر میں روزے رکھے ہیں؟ اس نے جواب دیا، نہیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ تو جب روزے ترک کرو تو دو دن کے روزے رکھ لو.
یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ بخاری، مسلم کے علاوہ مسند احمد بن حنبل اور دارمی وغیرہ میں بھی موجود ہے
هذا الشهر کا مفہوم :
روایت میں موجود لفظ "ھذا الشھر" سے مراد کونسا مہینہ ہے اس میں بخاری کی سند کے ایک راوی ابونعمان رحمہ اللہ کو گمان یہ ہے کہ اس مہینہ سے مراد رمضان کا مہینہ ہے لیکن مسلم، دارمی اور مسند احمد بن حنبل وغیرہ میں موجود روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد شعبان کا مہینہ ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت عن مطرف کے حوالے سے اس کی وضاحت کی ہے چنانچہ مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ جب اس آدمی سے اس ماہ کے آخیر میں روزے سے متعلق پوچھا اور انہوں نے نفی میں اس کا جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "فَإِذَا أَفْطَرْتَ مِنْ رَمَضَانَ فَصُمْ يَوْمَيْنِ مَكَانَهُ " یعنی جب تم رمضان کے روزے رکھ لو تو اس کی جگہ دو روزے رکھو، حدیث کے اس ٹکڑے سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ حدیث میں موجود "اس ماہ" سے مراد شعبان کا مہینہ ہے،
سرر ھذا الشہر کا مفہوم
اس روایت میں موجود لفظ "سرر" کے متعلق علماء کا اختلاف ہے
چنانچہ حافظ إبن حجر رحمہ اللہ نے اس اختلاف کو فتح الباری میں بیان کیا ہے فرماتے ہیں" و"السرر" بفتح السين المهملة، ويجوز كسرها وضمها جمع سرة ويقال أيضا: "سرار" بفتح أوله وكسره، ورجح الفراء الفتح، وهو من الاستسرار، قال أبو عبيد والجمهور: المراد بالسرر هنا آخر الشهر، سميت بذلك لاستسرار القمر فيها وهي ليلة ثمان وعشرين وتسع وعشرين وثلاثين. ونقل أبو داود عن الأوزاعي وسعيد بن عبد العزيز أن سرره أوله، ونقل الخطابي عن الأوزاعي كالجمهور، وقيل: السرر وسط الشهر. حكاه أبو داود أيضا ورجحه بعضهم، ووجهه بأن السرر جمع سرة وسرة الشيء وسطه، ويؤيده الندب إلى صيام البيض، وهي وسط الشهر، وأنه لم يرد في صيام آخر الشهر ندب، بل ورد فيه نهي خاص وهو آخر شعبان لمن صامه لأجل رمضان، " یعنی " اور" السرر" سین کے زبر کے ساتھ، اور اس پر پیش اور زیر بھی جائز ہے" سرّۃ" کی جمع ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے" سرار" سین کے زبر اور زیر کے ساتھ لیکن الفراء نے زبر کو راجح قرار دیا ہے (سَرار) اور یہ" الاستسرار "سے ہے، ابو عبید اور جمہور کہتے ہیں کہ یہاں السرر سے مراد مہینہ کا آخر ہے، اس کا نام "سرر " مہینہ کے آخر میں چاند کے چھپنے کی وجہ سے رکھا گیا ہے اور وہ شعبان کی اٹھائیس اور انتیس کی رات ہے. ابو داؤد نے اوزاعی اور سعید بن عبدالعزيز رحمہم اللہ سے نقل کیا ہے کہ سرر سے مراد مہینہ کا شروع ہے جبکہ امام خطابی نے اوزاعی سے ابوداؤد کے برعکس جمہور ہی کا قول نقل کیا ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ سرر سے مراد مہینہ کا درمیانہ مراد ہے، اس کو ابوداؤد نے بھی بیان کیا ہے اور بعض علماء نے اس کو راجح قرار دیا ہے اور اس کی توجیہ یہ ہے کہ سرر، سرۃ کی جمع ہے اور سرۃ کسی بھی چیز کا میانہ ہوتا ہے اور اس کی تائید ایام بیض کے روزوں کے مستحب ہونے سے ہوتی ہے اور یہ مہینہ کا وسط ہی ہے، اور مہینہ کے آخر میں روزوں کا استحباب وارد نہیں ہے، بلکہ اس میں تو خاص طور پر نہی وارد ہوئی ہے اور وہ ہے شعبان کے آخر میں جس نے روزہ رکھا رمضان کی وجہ سے (استقبال میں)
امام نووی رحمہ اللہ نے بھی شرح مسلم میں اس اختلاف کو ذکر کیا ہے آخر میں بیان کرتے ہیں " قال القاضی :والأشهر أن المراد آخر الشھر کما قالہ أبو عبید و الاکثرون" یعنی قاضی کہتے ہیں اور زیادہ مشہور بات یہ ہے کہ اس سے مراد مہینہ کا آخر ہے جیسا کہ أبو عبید اور اکثر علماء نے کہا ہے، اس تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ" سرر الشھر" کی توضیح میں علماء کی آراء مختلف ہیں
(1) جمہور اہل علم کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد مہینہ کا آخر ہے ، اس کی دلیل یہ کہ یہ" استسرار القمر" سے ہے جس کا مطلب ہوتا ہے چاند کا مہینہ کی آخری تاریخوں میں چھپنا،
(2) اس سلسلے کی دوسری رائے یہ ہے کہ اس سے مراد مہینہ کا درمیان یعنی پندرہ شعبان ہے بعض علماء نے اس کو راجح قرار دیا ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کا ایک معنی "وسط الشی" یعنی کسی چیز کا درمیانہ بھی ہوتا ہے اور مسلم کی روایت میں "سُرّۃ" کے الفاظ بھی آئے جس کے معنی ناف کے ہیں اور اس کو سرۃ اسی وجہ سے کہتے ہیں کیونکہ یہ درمیان میں ہوتی ہے،
(3) اس سلسلے کی تیسری رائے یہ ہے کہ اس سے مراد مہینہ کا شروع ہے جیسا کہ بعض علماء کہا ہے
راجح قول ان اقوال میں دلائل کے اعتبار سے جمہور اہل علم کا قول زیادہ راجح لگتا ہے اور اس کی کئی وجہ ہیں،
(1) صرف مسلم میں "سرۃ" کا لفظ ہے بقیہ احادیث میں "سرر" یا سرار کے الفاظ ہیں چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں " لكن لم أره في جميع طرق الحديث باللفظ الذي ذكره وهو" سرة " بل هو عند أحمد من وجهين بلفظ" سرار" و أخرجه من طرق سليمان التيمي في بعضها سرر وفي بعضها سرار، و هذا يدل على أن المراد آخر الشھر" حافظ إبن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لیکن میں نے نہیں دیکھا حدیث کی تمام اسناد میں اس لفظ کو جس کو انہوں نے (امام مسلم رحمہ اللہ) بیان کیا ہے اور وہ لفظ "سرۃ" ہے بلکہ امام احمد نے اس کو دو سندوں سے لفظ" سرار" کے ساتھ روایت کیا ہے اور سلیمان التیمی کی سند سے انہوں نے روایت کیا ہے اس کی بعض سند میں سرر اور بعض میں سرار ہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے مراد مہینہ کا آخر ہے
(2) اگر لفظ "سرۃ" ہی فرض کر لیا جائے پھر بھی یہ مہینہ کے وسط کے لئے صریح نہیں ہے کیونکہ "سرۃ" کی دوسرے أعضاء جسم کے مقابلے میں بہتر ہونے کی دلیل کتاب و سنت میں موجود نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس درمیان اور بہتر ہونے کی وجہ سے سرۃ کہا گیا ہے بلکہ قرآن اور حدیث میں اس کے مقابلے دوسرے أعضاء کے اشرف ہونے کے اشارے ملتے ہیں مثلاً دل، چہرہ وغیرہ وغیرہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جا سکتا ہے اس کو "سرۃ" اس کے ارد گرد کے مقابلے اس کے پوشیدہ ہونے کی وجہ سے کہا جاتا ہے
(3) اس سلسلے کی تیسری بات یہ کہ بظاہر حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا تھا جس سے بظاہر یہی گمان ہوتا ہے کہ یہ مہینہ کے آخر کا معاملہ ہو ناکہ شعبان کی پندرہ تاریخ کا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت یہ نہیں کہ آپ کسی معاملے کو ایک ایک دو دو ہفتہ ٹالے رہیں اور دو تین ہفتے کے بعد کسی معاملے کے متعلق پوچھیں، شاید ایسی کوئی بھی مثال نہیں پیش کی جا سکتی جس میں آپ نے عمل کے امکان کے بعد بھی بلا وجہ کسی کام کو مؤخر کیا ہو؟اور جو لوگ اس سے مراد شعبان کا درمیانہ لے رہے ہیں ان کے پاس بجزء اس کے کوئی دلیل نہیں کہ ایام بیض کے روزے مستحب ہیں، یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ایام بیض کے روزے مستحب ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہیں لیکن مسئلہ زیر بحث میں اس کی کوئی دلیل نہیں ہے
اب صرف ایک بات رہ جاتی ہے کہ اگر اس سے مراد مہینہ کا آخر ہے تو ایسی صورت میں یہ روایت ان روایات کے خلاف ہے جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے ایک دو دن پہلے روزہ رکھنے سے منع فرمایا چنانچہ حدیث میں ہے "لا يَتَقَدَّمَنَّ أحَدُكُمْ رَمَضانَ بصَوْمِ يَومٍ أوْ يَومَيْنِ، إلّا أنْ يَكونَ رَجُلٌ كانَ يَصُومُ صَوْمَهُ، فَلْيَصُمْ ذلكَ اليَومَ" (صحيح البخاري:1914)
یعنی تم میں سے کوئی ہرگز ہرگز رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ نا رکھے مگر وہ شخص جو روزے رکھتا چلا آرہا ہے تو وہ اس دن روزہ رکھ لے، گویا کہ رمضان سے ایک دو دن پہلے روزہ رکھنا عام حالات میں جائز نہیں ہے ہاں اگر کسی کی کسی دن یا تاریخ کے روزے کی عادت ہو تو اس کو روزہ رکھنے میں حرج نہیں ہے، بظاہر یہ روایت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی زیر بحث روایت کے خلاف نظر آرہی ہے لیکن علماء نے اس کے کئی جواب دئیے ہیں
(1) یہ شخص جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے کا حکم دیا اس سلسلے میں احتمال ہے ممکن ہے یہ حکم اس وجہ سے دیا ہو کہ یہ ان کی عادت رہی ہو اور جب انکو رمضان سے پہلے ایک دو دن پہلے روزہ نا رکھنے کا نبوی حکم پہنچا تو انہوں نے یہ روزے چھوڑ دئیے ہوں اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ اس کی جگہ رمضان کے روزے ہونے کے بعد دو روزے رکھو،
(2) اس کا بھی احتمال ہے کہ یہ ان کے نذر کے روزے رہے ہوں جن کو انہوں نے چھوڑ دیا ہو،
(3) اس میں احتمال یہ بھی ہے کہ یہ حکم اس صحابی کے لئے خاص ہو کسی بھی وجہ سے، جبکہ دیگر امتیوں کے لئے حکم یہ ہے کہ رمضان سے ایک دو دن پہلے روزہ رکھنا جائز نہیں ہے
اس تفصیل سے ان لوگوں کی غلطی بھی واضح ہو جاتی ہے جو ان روایات سے صرف پندرہ شعبان کے روزے کی دلیل پکڑتے ہیں کیونکہ پہلی بات تو یہ کہ یہ متعین نہیں کہ اس سے مراد پندرہ شعبان ہے بلکہ اس کے بر عکس دلائل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس سے مراد مہینہ کا آخر ہے ،دوسری بات یہ کہ بالفرض مان لیا جائے کہ اس مراد پندرہ شعبان ہے جیسا کہ بعض علماء کا قول ہے تو بھی اس سے مراد صرف پندرہ شعبان نہیں بلکہ اس مراد ایام بیض ہوں گے (13-14-15)