"
اللہ تعالی نے سال میں بارہ مہینے مقر ر کیے ہیں جن میں سے چار حرمت والے ہیں ۔ہمارے ہاں ہر مہینے میں کوئی نہ کوئی بدعات ایجاد کرلی گئ ہیں جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے سال کے پہلے مہینے کی بدعات کے بعد صفر کا مہینہ آتا ہے جس کو منحوس سمجھا جاتا ہے اس مہینے کے بارے میں طرح طرح کے خیالات پاَئے جاتے ہیں لوگوں کے ذہن میں ،نبیّ جب اس دنیا فانی میں تشریف لائے تو دنیا جاہلیت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی۔اور کئی طرح کے توہمات اور وساوس میں مبتلا تھی۔زمانہ جاہلیت کے باطل خیالات اور رسومات میں سے صفر بھی ہے صفرکے متعلق ان کا گمان تھا کہ ہر انسان کے پیٹ میں ایک سانپ ہوتا ہے،جب پیٹ خالی ہوتواور بھوک لگی ہو تو وہ سانپ کاٹتا ہے اور تکلیف پہنچاتا ہے،اسکے علاوہ کئی لوگ صفر کے مہینے کے بارے میں بد فال لیتے تھےکہ اس میں بکثرت مصیبتیں نازل ہوتی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان توہمات جاہلانہ کا رد فرمایا آپّ کا ارشاد گرامی ہے"لا عدوی ولاصفر ولامۃ"[بخاری کتاب طب باب لا صفر وھو یاخز البطن رقم ھامۃ ۵۸۱۷]
بہت سے توہم پرست لوگ اس مہینے میں شادی نہیں کرتے،چنے ابال کر محلے میں باٹتے ہیںتاکہ ہماری بلائیں دوسروں کی طرف چلی جائے،آٹے کی ۳۶۵ گولیاں بنا کر تالابوں میں ڈالتے ہیں تاکہ ہماری بلائیں ٹل جائیں۔رزق کے لیے ۳۱۱ مرتبہ سورۃ مزمل پڑھنا،اس مہینے کو مردوں کے لیے بھاری سمجھنااور اس کی تیرہ تاریخ کو منحوس سمجھنا۔،اسلام نے واضح کیا کہ جیسے اعمال ہوں گے۔ویسے ہی نتائج نکلیں گے۔نیک اعمال کے نتائج اور برے اعمال کے نتائج برآمد ہونگے۔کوئی لمحہ کوئی دن،کوئی وقت ہمارے لیے منحوس نہیں ،ہماری بد اعمالیاں ہمارے لیے ضرور منحوس ثابت ہوتی ہیں ۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارے ہاں کلمہ گو لوگوں میں بے شمار توہمات اور بد شگونیاں پیدا ہو چکی ہیں،جو قومیں دین فطرت یعنی اسلام سے اعراض کرتی ہیں وہی توہمات اور بد شگونیوں میں مبتلا ہوجاتی ہیں پھر انہیں ہر چیز میں ہر کام میں نحوست نظر آتی ہے۔یہ سب بدگمانیاں توہمات انسان کو اندر سے کمزور کر دیتی ہے۔اس کے برعکس اللہ کی ذات پہ پختہ یقین ایمان و توکل انسان کو مضبوط بناتے ہیں مسلمان کو اس بات پہ پختہ یقین ہونا چاہیے کہ نفع و نقصان کا مالک اللہ ہے اس کے سوا کسی کے پاس یہ اختیار نہیں نہ کسی ولی کے پاس نہ کسی نبی کے پاس حتی کہ نبیّ جو تمام انبیاء اور رسول کے امام ہیں وہ بھی کسی کے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے"آپّ کہیے کہ میں تو اپنے نفع و نقصان کا مالک بھی نہیں سوائے اس کے جو اللہ چاہے،اور اگر میرے پاس غیب کا علم ہوتا تو بہت ساری بھلائیاں اکٹھی کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی ،میں تو صرف ڈرانے والا اور خو شخبری دینےوالا ہوں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں۔
صفر وہ مہینہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کی عبادت کے علاوہ نہ کوئی خاص عبادت کی نہ کہ ہمیں کرنے کا حکم دیا اور نہ کسی خاص بلا سے بچنے کے لیے خبردار کیا توہمات اور شگون جو اس ماہ سے منسوب کیے جاتے ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ،عربوں کے ہاں اس ماہ سے متعلق جو غلط تصورات پائے جاتے تھے اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عرب حرمت کی وجہ سےتین ماہ ذوالقعد،ذوالحجہ۔ محرم،میں جنگ و جدل سے باز رہتے اور انتظار کرتے کہ یہ پابندی ختم ہوں تو وہ نکلیں اور لوٹ مار کریں لہذا صفر شروع ہوتے ہی وہ لوٹ مار رہزنی اور جنگ و جدل کے ارادے سے جب گھروں سے نکلتے،تو ان کے گھر خالی رہ جاتے یوں عربی میں یہ محاورہ صفر المکان"[ گھر کا خالی ہونا] معروف ہو گیا صفر اور صفر کے معنی ہے خالی ہونا،
مشہور تاریخ دان سخاوی نے اپنی کتاب "المشہور فی اسماء الایام والمشہور میں ماہ صفر کہ وجہ تسمیہ یہ لکھی ہے۔"عربوں نے جب یہ دیکھا کہ اس مہینے میں لوگ قتل ہوتے ہیں اور گھر برباد یا خالی ہوتے ہیں تو انہوں نے اس سے یہ شگون لیا کہ یہ مہینہ ہمارے لیے منحوس ہے۔گھروں کی بربادی اور ویرانی کی اصل وجہ پہ غور نہیں کیا،نہ ہی اپنے عمل کی خرابی کا احساس کیا،جبکہ نحوست کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے۔[ سورہ بنی اسرائیل]" ترجمہ: اور ہم نے ہر انسان کا شگون اس کے گلے میں لٹکا رکھا ہے اور قیامت کے روز ہم ایک کتاب اس کے لیے نکالیں گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گاپڑھ اپنا نامہ اعمال ،آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔
یہ آیت واضح کرتی ہیں کہ انسان کی نحوست کا تعلق خود اس کے اپنے عمل کی وجہ سےہے۔جبکہ انسان عموما یہ سمجھتا ہے کہ نحوست باہر سے آئی ہے چناچہ وہ کبھی کسی انسان کو کبھی کسی جانور کو ،کبھی کسی عدد کو اور کبھی کسی مہینے کو منحوس قرار دینے لگتے ہیں۔عربی میں نحوست کے لیے لفظ طیرہ استعمال ہوتا ہے۔جو طیر سے نکلا ہے جس کے معنی پرندے کے ہیں،عرب چونکہ پرندے کے اڑنے سے فال لیتے تھے،اس لیے طائر بد فالی کے لیے استعمال ہونے لگا،
اللہ تعالی فرماتا ہے سورہ النساء میں
"بھلائی جو تمہیں پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو برائی تمہیں پہنچے تو وہ تمہارے نفس کی طرف سے ہے،
سورہ توبہ میں اللہ فرماتا ہے٫؛کہہ دیجئے کہ ہمیں ہرگز کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے ہمارے حق میں لکھ رکھی ہے،وہی ہمارا کارساز ہے اور مومنوں کو تو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے،
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور اس بات پہ یقین کرلو کہ اگر پوری امت جمع ہوکرتمہیں نفع پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے حق میں لکھ دیا ہے اور اگر پوری امت مل کر تمہیں نقصان پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے حق میں لکھ دیا ہے،
سیدنا عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "بد شگونی شرک ہے بد شگونی شرک ہے ۔تین بار فرمایا اور ہم میں سے کوئی ایسا نہیں [اسے وہم ہوجاتا ہو] لیکن اللہ تعالی توکل کی وجہ سے اسے دور کردیتا ہے۔
اہل کتاب بھی جب دین کی اصل تعلیمات سے دورہوگئے تو اس طرح کے شگون لینے لگے جن کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے:
ترجمہ: کیا تم نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا وہ جبت اور طاغوت پہ ایمان لاتے ہیں:
جبت بے حقیقت ،بے اصل،بے فائدہ چیز کو کہتے ہیں ۔چونکہ شگون کی بھی کوئی اصل بنیاد اور حقیقت نہیں ہوتی اس لیے اسلام میں ایسی تمام چیزیں جبت کے تحت آتی ہیں،جیسے کہانت،فالگیری،شگون اور توہمات ان سے منع کیا گیا ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعودسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس شخص کو بد شگونی کسی کام سے روک دے تو یقینا اس نے شرک کیا۔:
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جہاں پہلی قوموں کا تذکرہ کیا ہے کہ وہاں کئی اقوام کے بارے میں یہ بتایا ہے کہ وہ اپنے انبیاء سے بد شگونی لیتے تھے اور جب کوئی مصیبت نازل ہوتی تو وہ کہتے کہ اسی نبی کی وجہ سے آئی ہے ،مثلا موسی کی قوم کے بارے میں بتایا،
ترجمہ: پس جب انہیں کوئی چیز ملتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو ہیں ہی اسی کے حقدار اور اگر ان کا کوئی نقصان ہوجاتا ہے تو موسی اور ان کے ساتھیوں سے بد شگونی لیتے ہیں ،حالانکہ ان کی شومئی قسمت تو اللہ کی جانب سے ہے،لیکن اکثر ان میں لوگ نہیں جانتے،[سورہ الاعراف،۳۱۳۔۷]
مومن کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ نقصان ہونے کی صورت میں کسی سے بد شگونی لے ،یا کسی کو منحوس قرار دے بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ وہ اس بات پہ پختہ یقین رکھے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اللہ کے حکم سے ہوتا ہے اسکے حکم کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا اس کے اذن کے بغیر کوئی نقصان نہیں دے سکتا بعض لوگ ستاروں کے ذریعے سے فال نکالتے ہیں مثلا کسی کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ تمہارا ستارہ گردش میں ہے اسلیے تم جو کاروبار اب شروع کروگے اس میں خسارہ ہوگا ،اگر تم شادی کروگے تو اس میں برکت نہیں ہوگی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
ترجمہ: جاہلیت کے کاموں میں سے چار کام میری امت میں ایسے ہونگے جنہیں وہ چھوڑنے پر تیار نہیں ہونگے،حسب،کی بناء پہ فخر کرنا،کسی کے نسب میں طعنہ زنی کرنا،ستاروں کے ذریعے قسمت کے احوال معلوم کرنا[یا ستاروں کے ذریعے بارش طلب کرنا] اور نوحہ کرنا" [ مسلم:الجنائز باب التشدید فی النیاحۃ: ۹۳۴]
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ شخص ہم میں سے نہیں جو بد شگونی لے یا جس کے لیے بد شگونی لی جائے۔یا جو [علم نجوم کے ذریعے] کہانت کرے یا جس کے لیے کہانت کی جائے۔یا جو جادو کرے یا جس کے لیے جادو کا عمل کیا جائے۔[السلسلۃ الصحیحۃ:۲۱۹۵]
اور آپّ کا ارشاد گرامی ہے:جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس جائے اور اس سے کسی چیز کے متعلق سوال کرے تو اسکی چالیس راتوں کی نماز قبول نہیں کی جاتی۔
[مسلم:۲۲۳،صحیح الجامع للالبانی:۵۹۴۰]
کاہن کے پاس آپّ نے جانے کے بارے میں فرمایا: جو شخص کسی کاہن کے پاس جائے اور اس کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق کرئے تو اسنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہ اتارے گئے دین الہی کا کفر کیا۔{ صحیح الجامع للالبانی:۵۹۳۹]
یہ چند باتیں ہیں جو میں نے بیان کی جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ صفر کا مہینہ منحوس نہیں نہ بھاری ہے یہ ہمارے اپنے کمزور عقائد ہیں جو اس طرح کی باتوں میں پڑ کہ اپنے عقائد کو خراب کر رہے ہیں۔اللہ ہم سب کو ان خرافات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
اللہ تعالی نے سال میں بارہ مہینے مقر ر کیے ہیں جن میں سے چار حرمت والے ہیں ۔ہمارے ہاں ہر مہینے میں کوئی نہ کوئی بدعات ایجاد کرلی گئ ہیں جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے سال کے پہلے مہینے کی بدعات کے بعد صفر کا مہینہ آتا ہے جس کو منحوس سمجھا جاتا ہے اس مہینے کے بارے میں طرح طرح کے خیالات پاَئے جاتے ہیں لوگوں کے ذہن میں ،نبیّ جب اس دنیا فانی میں تشریف لائے تو دنیا جاہلیت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی۔اور کئی طرح کے توہمات اور وساوس میں مبتلا تھی۔زمانہ جاہلیت کے باطل خیالات اور رسومات میں سے صفر بھی ہے صفرکے متعلق ان کا گمان تھا کہ ہر انسان کے پیٹ میں ایک سانپ ہوتا ہے،جب پیٹ خالی ہوتواور بھوک لگی ہو تو وہ سانپ کاٹتا ہے اور تکلیف پہنچاتا ہے،اسکے علاوہ کئی لوگ صفر کے مہینے کے بارے میں بد فال لیتے تھےکہ اس میں بکثرت مصیبتیں نازل ہوتی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان توہمات جاہلانہ کا رد فرمایا آپّ کا ارشاد گرامی ہے"لا عدوی ولاصفر ولامۃ"[بخاری کتاب طب باب لا صفر وھو یاخز البطن رقم ھامۃ ۵۸۱۷]
بہت سے توہم پرست لوگ اس مہینے میں شادی نہیں کرتے،چنے ابال کر محلے میں باٹتے ہیںتاکہ ہماری بلائیں دوسروں کی طرف چلی جائے،آٹے کی ۳۶۵ گولیاں بنا کر تالابوں میں ڈالتے ہیں تاکہ ہماری بلائیں ٹل جائیں۔رزق کے لیے ۳۱۱ مرتبہ سورۃ مزمل پڑھنا،اس مہینے کو مردوں کے لیے بھاری سمجھنااور اس کی تیرہ تاریخ کو منحوس سمجھنا۔،اسلام نے واضح کیا کہ جیسے اعمال ہوں گے۔ویسے ہی نتائج نکلیں گے۔نیک اعمال کے نتائج اور برے اعمال کے نتائج برآمد ہونگے۔کوئی لمحہ کوئی دن،کوئی وقت ہمارے لیے منحوس نہیں ،ہماری بد اعمالیاں ہمارے لیے ضرور منحوس ثابت ہوتی ہیں ۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارے ہاں کلمہ گو لوگوں میں بے شمار توہمات اور بد شگونیاں پیدا ہو چکی ہیں،جو قومیں دین فطرت یعنی اسلام سے اعراض کرتی ہیں وہی توہمات اور بد شگونیوں میں مبتلا ہوجاتی ہیں پھر انہیں ہر چیز میں ہر کام میں نحوست نظر آتی ہے۔یہ سب بدگمانیاں توہمات انسان کو اندر سے کمزور کر دیتی ہے۔اس کے برعکس اللہ کی ذات پہ پختہ یقین ایمان و توکل انسان کو مضبوط بناتے ہیں مسلمان کو اس بات پہ پختہ یقین ہونا چاہیے کہ نفع و نقصان کا مالک اللہ ہے اس کے سوا کسی کے پاس یہ اختیار نہیں نہ کسی ولی کے پاس نہ کسی نبی کے پاس حتی کہ نبیّ جو تمام انبیاء اور رسول کے امام ہیں وہ بھی کسی کے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے"آپّ کہیے کہ میں تو اپنے نفع و نقصان کا مالک بھی نہیں سوائے اس کے جو اللہ چاہے،اور اگر میرے پاس غیب کا علم ہوتا تو بہت ساری بھلائیاں اکٹھی کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی ،میں تو صرف ڈرانے والا اور خو شخبری دینےوالا ہوں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں۔
صفر وہ مہینہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کی عبادت کے علاوہ نہ کوئی خاص عبادت کی نہ کہ ہمیں کرنے کا حکم دیا اور نہ کسی خاص بلا سے بچنے کے لیے خبردار کیا توہمات اور شگون جو اس ماہ سے منسوب کیے جاتے ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ،عربوں کے ہاں اس ماہ سے متعلق جو غلط تصورات پائے جاتے تھے اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عرب حرمت کی وجہ سےتین ماہ ذوالقعد،ذوالحجہ۔ محرم،میں جنگ و جدل سے باز رہتے اور انتظار کرتے کہ یہ پابندی ختم ہوں تو وہ نکلیں اور لوٹ مار کریں لہذا صفر شروع ہوتے ہی وہ لوٹ مار رہزنی اور جنگ و جدل کے ارادے سے جب گھروں سے نکلتے،تو ان کے گھر خالی رہ جاتے یوں عربی میں یہ محاورہ صفر المکان"[ گھر کا خالی ہونا] معروف ہو گیا صفر اور صفر کے معنی ہے خالی ہونا،
مشہور تاریخ دان سخاوی نے اپنی کتاب "المشہور فی اسماء الایام والمشہور میں ماہ صفر کہ وجہ تسمیہ یہ لکھی ہے۔"عربوں نے جب یہ دیکھا کہ اس مہینے میں لوگ قتل ہوتے ہیں اور گھر برباد یا خالی ہوتے ہیں تو انہوں نے اس سے یہ شگون لیا کہ یہ مہینہ ہمارے لیے منحوس ہے۔گھروں کی بربادی اور ویرانی کی اصل وجہ پہ غور نہیں کیا،نہ ہی اپنے عمل کی خرابی کا احساس کیا،جبکہ نحوست کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے۔[ سورہ بنی اسرائیل]" ترجمہ: اور ہم نے ہر انسان کا شگون اس کے گلے میں لٹکا رکھا ہے اور قیامت کے روز ہم ایک کتاب اس کے لیے نکالیں گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گاپڑھ اپنا نامہ اعمال ،آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔
یہ آیت واضح کرتی ہیں کہ انسان کی نحوست کا تعلق خود اس کے اپنے عمل کی وجہ سےہے۔جبکہ انسان عموما یہ سمجھتا ہے کہ نحوست باہر سے آئی ہے چناچہ وہ کبھی کسی انسان کو کبھی کسی جانور کو ،کبھی کسی عدد کو اور کبھی کسی مہینے کو منحوس قرار دینے لگتے ہیں۔عربی میں نحوست کے لیے لفظ طیرہ استعمال ہوتا ہے۔جو طیر سے نکلا ہے جس کے معنی پرندے کے ہیں،عرب چونکہ پرندے کے اڑنے سے فال لیتے تھے،اس لیے طائر بد فالی کے لیے استعمال ہونے لگا،
اللہ تعالی فرماتا ہے سورہ النساء میں
"بھلائی جو تمہیں پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو برائی تمہیں پہنچے تو وہ تمہارے نفس کی طرف سے ہے،
سورہ توبہ میں اللہ فرماتا ہے٫؛کہہ دیجئے کہ ہمیں ہرگز کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے ہمارے حق میں لکھ رکھی ہے،وہی ہمارا کارساز ہے اور مومنوں کو تو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے،
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور اس بات پہ یقین کرلو کہ اگر پوری امت جمع ہوکرتمہیں نفع پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے حق میں لکھ دیا ہے اور اگر پوری امت مل کر تمہیں نقصان پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے حق میں لکھ دیا ہے،
سیدنا عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "بد شگونی شرک ہے بد شگونی شرک ہے ۔تین بار فرمایا اور ہم میں سے کوئی ایسا نہیں [اسے وہم ہوجاتا ہو] لیکن اللہ تعالی توکل کی وجہ سے اسے دور کردیتا ہے۔
اہل کتاب بھی جب دین کی اصل تعلیمات سے دورہوگئے تو اس طرح کے شگون لینے لگے جن کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے:
ترجمہ: کیا تم نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا وہ جبت اور طاغوت پہ ایمان لاتے ہیں:
جبت بے حقیقت ،بے اصل،بے فائدہ چیز کو کہتے ہیں ۔چونکہ شگون کی بھی کوئی اصل بنیاد اور حقیقت نہیں ہوتی اس لیے اسلام میں ایسی تمام چیزیں جبت کے تحت آتی ہیں،جیسے کہانت،فالگیری،شگون اور توہمات ان سے منع کیا گیا ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعودسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس شخص کو بد شگونی کسی کام سے روک دے تو یقینا اس نے شرک کیا۔:
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جہاں پہلی قوموں کا تذکرہ کیا ہے کہ وہاں کئی اقوام کے بارے میں یہ بتایا ہے کہ وہ اپنے انبیاء سے بد شگونی لیتے تھے اور جب کوئی مصیبت نازل ہوتی تو وہ کہتے کہ اسی نبی کی وجہ سے آئی ہے ،مثلا موسی کی قوم کے بارے میں بتایا،
ترجمہ: پس جب انہیں کوئی چیز ملتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو ہیں ہی اسی کے حقدار اور اگر ان کا کوئی نقصان ہوجاتا ہے تو موسی اور ان کے ساتھیوں سے بد شگونی لیتے ہیں ،حالانکہ ان کی شومئی قسمت تو اللہ کی جانب سے ہے،لیکن اکثر ان میں لوگ نہیں جانتے،[سورہ الاعراف،۳۱۳۔۷]
مومن کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ نقصان ہونے کی صورت میں کسی سے بد شگونی لے ،یا کسی کو منحوس قرار دے بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ وہ اس بات پہ پختہ یقین رکھے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اللہ کے حکم سے ہوتا ہے اسکے حکم کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا اس کے اذن کے بغیر کوئی نقصان نہیں دے سکتا بعض لوگ ستاروں کے ذریعے سے فال نکالتے ہیں مثلا کسی کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ تمہارا ستارہ گردش میں ہے اسلیے تم جو کاروبار اب شروع کروگے اس میں خسارہ ہوگا ،اگر تم شادی کروگے تو اس میں برکت نہیں ہوگی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
ترجمہ: جاہلیت کے کاموں میں سے چار کام میری امت میں ایسے ہونگے جنہیں وہ چھوڑنے پر تیار نہیں ہونگے،حسب،کی بناء پہ فخر کرنا،کسی کے نسب میں طعنہ زنی کرنا،ستاروں کے ذریعے قسمت کے احوال معلوم کرنا[یا ستاروں کے ذریعے بارش طلب کرنا] اور نوحہ کرنا" [ مسلم:الجنائز باب التشدید فی النیاحۃ: ۹۳۴]
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ شخص ہم میں سے نہیں جو بد شگونی لے یا جس کے لیے بد شگونی لی جائے۔یا جو [علم نجوم کے ذریعے] کہانت کرے یا جس کے لیے کہانت کی جائے۔یا جو جادو کرے یا جس کے لیے جادو کا عمل کیا جائے۔[السلسلۃ الصحیحۃ:۲۱۹۵]
اور آپّ کا ارشاد گرامی ہے:جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس جائے اور اس سے کسی چیز کے متعلق سوال کرے تو اسکی چالیس راتوں کی نماز قبول نہیں کی جاتی۔
[مسلم:۲۲۳،صحیح الجامع للالبانی:۵۹۴۰]
کاہن کے پاس آپّ نے جانے کے بارے میں فرمایا: جو شخص کسی کاہن کے پاس جائے اور اس کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق کرئے تو اسنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہ اتارے گئے دین الہی کا کفر کیا۔{ صحیح الجامع للالبانی:۵۹۳۹]
یہ چند باتیں ہیں جو میں نے بیان کی جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ صفر کا مہینہ منحوس نہیں نہ بھاری ہے یہ ہمارے اپنے کمزور عقائد ہیں جو اس طرح کی باتوں میں پڑ کہ اپنے عقائد کو خراب کر رہے ہیں۔اللہ ہم سب کو ان خرافات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین