- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
مکالمہ و مناظرہ کےبعد اب مباہلہ سے بھی فرار
مباہلہ کیا ہے؟
أَن يجتمع القوم ـإِذا اختلفوا في شيءـ فيقولوا : لَعْنَةُ الله على الظالم منا.
(لسان العرب(11 /71) .
جب لوگوں کا کسی چیز کے بارے میں اختلاف ہو تو وہ ایک جگہ جمع ہو کر کہیں: "ہم میں سے جو ظالم ہو اس پر اللہ کی لعنت"
اثباتِ حق اور باطل کو شکست خوردہ کرنے کیلیے مباہلہ کرنا شرعی طور پر جائز ہے، مباہلے میں حق بات ثابت ہو جانے کے باوجود بھی اسے نہ ماننے والے پر حجت قائم کی جاتی ہے، مباہلہ کی مشروعیت قرآن کریم کی مشہور آیتِ مباہلہ سے ثابت ہوتی ہے:
( فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ )
ترجمہ: پھر اگر کوئی شخص علم آ جانے کے بعد اس بارے میں آپ سے جھگڑا کرے تو آپ اسے کہہ دو: آؤ ہم اور تم اپنے اپنے بچوں کو اور عورتوں کو بلا لیں اور خود بھی حاضر ہو کر اللہ سے گڑ گڑا کر دعا کریں کہ "جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو "[آل عمران :61]
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مباہلہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، حالانکہ اس کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں، بلکہ یہ ایک عمومی حکم ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
" السُّنَّة فى مجادلة أهل الباطل إذا قامت عليهم حُجَّةُ اللهِ ولم يرجعوا ، بل أصرُّوا على العناد أن يدعوَهم إلى المباهلة ، وقد أمر اللهُ سبحانه بذلك رسولَه ، ولم يقل : إنَّ ذلك ليس لأُمتك مِن بعدك "(زاد المعاد)(3 /643)
"جب اہل باطل بحث و مباحثہ کے بعد اللہ تعالی کی جانب سے حجت قائم ہونے پر بھی باطل نظریے سے رجوع نہ کریں، بلکہ اپنی ہٹ دھرمی پہ قائم رہیں تو انہیں مباہلے کی دعوت دینا سنت ہے، اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا حکم دیا، اور کہیں یہ نہیں فرمایا کہ مباہلہ آپ کے بعد آپ کی امت نہیں کر سکتی۔
گویا مباہلہ حق آشکار ہونے کے لیے انابت اور ابتہال کی کیفیت کی ایک دعا ہے، جب حق پرست حق کو دلائل و حجت کے ذریعہ مبرہن کر دیتا ہے اور مخالف پھر بھی نہیں مانتا ہے، تو حق پرست بارگاہ الہی میں التجا کرتا ہے، اور مخالف کو بھی بلاتا ہے، کہ وہ آئے اور حق کو آشکارا ہونے کے لیے دعا کرے، اور سب اپنے بچوں کو بھی لائیں اور حق نہ ماننے والے ظلم کاذب پر بددعا کریں اور لعنت بھیجیں۔
مباہلہ کے لیے کچھ باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے، مثلا:
(۱)حق کا وجود (۲) حق کا داعی (۳) حق کا مدعو (۴) حق کو مبرہن کر دیا گیا ہو۔ (۵) مدعو حق کا انکاری ہو(۶) داعی کو اس بات پر شرح صدر ہو کہ وہ حق پر قائم ہے، اور اس کا مقابل ہوائے نفس میں مبتلا ہوچکا ہے۔(7) مباہلہ آخری حل ہو، یعنی اس سے پہلے تحریر وتقریر، مکالمہ و مناظرہ وغیرہ تمام اختیارات استعمال کرلیے گئے ہوں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی مباہلہ کا طریقہ کار رائج رہا:
عصر حاضر میں پراپیگنڈہ کا راج ہے، باطل کی ترویج اور حق کو راہ سےہٹانے کے لیے لوگوں میں باقاعدہ ماحول بنادیا گیا ہے کہ دین سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کو ایک گالی بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ مثلا ایک وقت تھا ’فتوی‘ کی اہمیت و حیثیت تھی، کسی کے خلاف فتوی آجانا، اس کے لیے کسی مصیبت سے کم نہیں تھا۔ لیکن اب اس کو ’فتوی بازی‘ کہہ کر لوگ نہ صرف مسترد کرتے ہیں، بلکہ ’فتوی بازی‘ کو ہیرو بننے کے لیے اپنے حق میں استعمال بھی کرتے ہیں، کئی منحرف لوگ باقاعدہ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی فتوی جاری ہو، تاکہ ان کی ریٹنگ بڑھنے کے امکانات روشن ہوں۔
ایک وقت تھا مناظرہ مختلف آرا کو پرکھنے اور مخالفین کے دلائل میں قوت جاننے کا ایک بہترین طریقہ تھا، لہذا یہ مناظرے عوام الناس میں ہی نہیں، امراء و بادشاہوں کی مجالس میں بھی منعقد ہوتے تھے، سب کے سامنے آشکار ہوتا تھا کہ کسی فریق کے دلائل میں کتنی قوت ومنطقیت ہے، لیکن آج ہر جاہل ومبادیات علم وفن سے بھی ناواقف افکار ونظریات کی دنیا میں کود پڑا ہے، اور ہر مشکل مرحلے سے یہ کہہ کر جان چھڑا لیتا ہے، کہ ہم مناظرہ بازی پسند نہیں کرتے۔
یہی کچھ صورت حال مباہلہ کی ہے، شیطان صفت مفکرین ومفسدین علم وتحقیق کی دنیا سے دور بیٹھ کر عوام کے ایمان وعقیدہ پر ڈاکے ڈال رہے ہیں، جبکہ اہل علم کے ساتھ یہ تحریری گفتگو کرسکتے ہیں نہ مکالمہ ومناظرہ، اور نہ ہی انہیں اپنے جاہلانہ افکار ونظریات پر اطمینان ہے کہ یہ مخلص ہو کر اللہ کے حضور باطل کی بربادی کی دعا کرسکیں۔ اپنی بدعقیدگی، انحراف اور شکوک وشبہات پر کھڑی عمارت کو بظاہر مضبوط دکھانے کے لیے یہ لوگ ’سنت نبوی مباہلہ‘ کو بھی متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اور لوگوں کو یہ باور کرواتے ہیں کہ مباہلے کرنے والے وہ ہیں، جو دلائل سے تہی دامن ہوتے ہیں۔
حالانکہ علم وتحقیق کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد جب محسوس ہو کہ مخالف کے پاس سوائے ہٹ دھرمی و ضد کے کچھ نہیں رہ گیا، تو پھر مباہلے کی دعوت دینا یہ سنت نبوی اور منہج سلف ہے۔
مثلا مولانا ثناء اللہ امرتسری نے مرزا قادیانی کو مباہلے کی دعوت دی تھی، نواب صدیق حسن خان صاحب نےصفات کے مسئلہ میں مخالف کو مباہلے کا چیلنچ کیا تھا۔(عون الباری(5/334)
عصر حاضر میں فتنہ انکار حدیث میں مبتلا لوگوں کو مباہلے کے چیلنج کیے گئے، عمر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے معاملے میں دبی میں موجود ایک عاقبت نااندیش امام مسجد جب شرم و حیا کی تمام حدیں پھلانگ گیا، تو اسے راقم نے مباہلے کا چیلنج کیا تھا۔ مرزا محمد علی جہلمی نام کے ایک جاہلِ مطلق کا جب اہل حدیثوں اور بالخصوص حافظ ابو یحی نورپوری حفظہ اللہ نے ناطقہ بند کردیا، اور مکالمے ومناظرے سے بھی گریزاں ہوا، تو بعض اہل حدیث علما نے اس قماش کے لوگوں کو بھی مباہلے کا چیلنج دیا، ایمان وایقان کی دعوت سے محروم یہ جہلمی وجھالوی پارٹی ابھی تک راہ فرار اختیار کیے ہوئے ہیں۔اور اس پر مستزاد سنت نبوی پر چل کر ایمان وعقیدہ پر شرح صدر کی دولت سے مالا مال جن اہل علم نے انہیں دعوت مناظرہ و مباہلہ دی ہے، ان پر جملے بازی کرکے اپنی خفت مٹارہے ہیں۔
حالانکہ مباہلہ کا چیلنج نبی کریم کے بعد آپ کے صحابہ میں سے عبد اللہ بن مسعود(سنن ابوداود(2307) وعبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما(سنن الدارقطنی(267) اور انکے شاگرد عکرمہ نے کیا۔ حدیث وفقہ اورعقیدہ کے مسلم الثبوت امام اوزاعی(فتح الباری(8/95)نے بھی یہ رستہ اختیار کیا، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس کے ذریعے حلولیوں کو للکارا(مجموع فتاوى ابن تيمية)) (4/82)،ابن قیم نے مسئلہ صفات میں مخالف کا ناطقہ بند کیا((توضيح المقاصد (1/31)،جلیل القدر محدث ابن حجر نے ایک صوفی کو(الضوء اللامع) للسخاوي (6/186)، اور امامِ عقیدہ محمد بن عبد الوہاب نے(الدرر السنية في الأجوبة النجدية) (1/55)، بعض بدعتی وشرکیات میں مبتلا لوگوں کو دعوت مباہلہ دی۔ اسی طرح نواب صدیق حسن خان اور ثناء اللہ امرتسری (رحمہم اللہ جمیعا) کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔
عوام سے اپیل:
ہم سمجھتے ہیں کہ عوام الناس کو قرآن وسنت اور فہم سلف اور مستند علما کی طرف دیکھنا چاہیے، اور جاہل قسم کے لوگ جو شبہات چھوڑیں تو انہیں علما کی عدالت میں پیش کریں، اور ان جاہلوں کی چکنی چپڑی باتوں اور مکارانہ چالوں پر قربان ہونے کی بجائے، انہیں گریبان سے پکڑ کا علما کے سامنے بٹھائیں، اگر وہ فرار ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ کیمروں اور آئی ڈیز کے پردے میں رہ کر سستی جملے بازی اور فتنہ پروری کرنے والے ’مفسدین فی الأرض‘ ہیں ’اصلاح و مصلحین‘ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، اگر یہ واقعتا حق پر ہوتے تو علما سے بات چیت کرنے سے نہ گھبراتے، ان کی یومیہ و ہفتہ وار نام نہاد علمی وتحقیقی مجالس چند نادانوں پر مشتمل نہ ہوتیں، بلکہ یہ علما کے پاس جاکر، یا خود انہیں اپنے پاس دعوت دے کر لوگوں کو دکھاتے، اس قسم کے جاہلوں کا حال یہ ہے کہ اگر کوئی عام بندہ ان کے حق میں جملہ کہہ دے تو اس کی پوسٹیں اور ویڈیوز بنوا کرسوشل میڈیا پر نشر کرتے ہیں، لیکن اگر کوئی عالم دین کال کرے، یا خود انہیں کہیں گھیر کر ان کی خبر لے، تو اسے مکمل بے شرمی وبے حیائی سے چھپالیتے ہیں۔
ایسے ویسوں کا پھانسنے کا طریقہ یہی ہے کہ یہ باور کرواتے ہیں کہ باقی سب لوگ حق بات چھپاتے ہیں، لیکن ہم سب کچھ تمہارے سامنے کھول کر بیان کرتے ہیں۔ اوئے نام ناد اہل حق! اتنا بڑا دعوی کرکے پھر بھاگتے کیوں ہو؟ چھپتے چھپاتے کیوں ہو؟ کیا تم سے بھی بڑا کوئی بدتمیز ہے کہ تم اس سے ڈرتے ہو؟
اور پھر حیران ہونا چاہیے اِن کے اُن مٹھی بھر چیلوں سے، جو ساری امت اور علما کو ’خائن‘ جھوٹا‘ ماننے کو تیار ہوجاتے ہیں، لیکن اس ایک ’سامری‘ پر اندھا دھند اعتماد کرلیتے ہیں۔ اوئے تم بیوقوف ہو؟ تمہیں ہپناٹمائز کرلیا گیا ہے؟ کہ تم اس کے وظیفہ خور ملازم ہو؟ تم میں اتنی جرات نہیں کہ مرضی کا سوال کرسکو؟ آخر تم اپنے ’سامریوں‘ کو علما کی عدالت میں پیش کرنے سے اتنا کیوں ڈرتے ہو؟ اوئے تمہیں ’طشت از بام‘ ہو جانے کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے؟ ایسے ہی ہے ناں؟ تو میرے بھائی راہ حق کی طرف لوٹ آؤ، ورنہ تمہارے یہ سامری تمہیں علما و سلف و صحابہ سے ہی نہیں، بلکہ قرآن و حدیث کے بھی منکر بنا کر چھوڑیں گے۔ یقین نہیں آتا تو ایک بار پھر مرزا جہلمی کی وہ ویڈیو سنو، جس میں اس نے خود کو مباہلہ سے بچانے کے لیے یہ تک کہ دیا کہ ’ہمارے نزدیک تو مباہلہ کرنا حرام ہے‘، حالانکہ مباہلہ والی یہ سنت نبوی قرآن سے ثابت ہے، اور سلف کا یہ منہج رہا ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں قرآن وسنت اور منہج سلف پر قائم رکھے، اور فتنوں سے خود بچنے اور حسب اہلیت ان کا مقابلہ کرنے بھی توفیق عطا فرمائے۔
Last edited: