اسرار حسین الوھابی
بین یوزر
- شمولیت
- اگست 16، 2017
- پیغامات
- 112
- ری ایکشن اسکور
- 13
- پوائنٹ
- 55
انصاران خلافت اسلامیہ کا دیوبندی حضرات کے نام پیغام
منجانب: ٹیم منبر الجہاد و احوال امت
(انصار خلافت اسلامیہ ولایت خراسان)
(انصار خلافت اسلامیہ ولایت خراسان)
متاخرین احناف و دیوبندیوں کے اللہ کی خالص اطاعت کے منافی عقائد
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خالص اطاعت کرنا اور آپ کے کسی قول اور حدیث پر کسی اور کو ترجیح نہ دینا یہ توحید الوہیت و عبادت میں سے ہے۔ اور یہ اہلسنت کا اجماعی عقیدہ ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اہلسنت کے ہاں ماسوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی شخص معصوم نہیں ہے۔ چنانچہ اہلسنت کے ہاں ائمہ معصوم نہیں ہیں بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا ہر کسی کی بات لی بھی جا سکتی ہے اور رد بھی کی جا سکتی ہے۔ اہلسنت اماموں کی بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے تابع رکھتے ہیں نہ کہ اس پر مقدم سمجھتے ہیں۔ اہل حق اور اہلسنت کا پیشوا (امام) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی شخص نہیں ہے۔ لہذا ایک اللہ کے رسول ہی ہیں کہ جو کچھ انہوں نے بتایا اس کی تصدیق اور جو حکم فرمایا ہے اس کی اطاعت و تعمیل فرض ہے۔ یہ مقام آپ کے علاوہ کسی امام کو حاصل نہیں ہے۔"
[مجموع الفتاویٰ: ٣/٣٤٦]
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"بیشک میں بشر ہوں غلطی بھی کر سکتا ہوں اور درست بات بھی کہہ سکتا ہوں لہذا تم میری آراء پر تحقیقی نظر ڈال لیا کرو، جو بات بھی کتاب وسنت کے موافق ہو اسے لے لو اور جو کتاب وسنت کے مخالف ہو اسے چھوڑ دو۔"
[القول المفید للشوکانی: ۲۳۵]
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اس چیز پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جس شخص کے سامنے رسول کی سنت ظاہر ہو جائے تو اس کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ سنت رسول کو کسی شخص کے اقوال کے پیش نظر ترک کردے۔"
[صفۃ صلاۃ النبی للالبانی]
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"جو شخص میری دلیل سے واقف نہیں اس کیلئے لائق نہیں کہ میرے کلام کے مطابق فتویٰ دے۔ جب میرا قول قرآن کے خلاف ہو تو اسے چھوڑ دو۔ لوگوں نے پوچھا جب آپ کا قول حدیث کے خلاف ہو؟ فرمایا اس وقت بھی چھوڑ دو۔ پھر پوچھا گیا جب صحابہ کے خلاف ہو تو کہا تب بھی چھوڑ دو، جب دیکھو کہ ہمارے اقول قرآن و حدیث کے خلاف ہیں تو قرآن و حدیث پر عمل کرو اور ہمارے اقوال کو دیوار پر دے مارو، صحیح حدیث ہی میرا مزہب ہے۔"
[میزان للشعرانی، عقد الجید: ۵۳]
علامہ شامی حنفی لکھتے ہیں:
"جب صحیح حدیث ملے اور وہ حدیث ہمارے مزہب کے خلاف ہو پھر حدیث پر ہی عمل کیا جائے گا اور امام ابو حنیفہ کا وہی مذہب ہوگا اور اس سے کوئی حنفیت سے نہیں نکلے گا کیونکہ امام صاحب کا فرمان ہے کہ جب حدیث صحیح ہو تو وہی میرا مذہب ہے۔"
[شرح عقود رسم المفتی لابن عابدین: ۱۹]
بقول صاحب شرح مسلم الثبوت:
شَدَّدَ بَعْضُ الْمُتَکَلِّمِینَ، قَالُوا: ’’اَلْحَنَفِیُّ إِذَا تَرَکَ مَذْہَبَ إِمَامِہِ یُعَزَّرُ‘‘، وَالْحَقُّ أنَّہُ تَعَصُّبٌ،لاَ دَلِیلَ عَلَیہِ، وَإنمَا ہُوَ تَشْرِیعٌ مِنْ عِنْدِ نَفْسِہِ۔ قَالَ فِی التَّیْسِیْرِ شَرْحُ التَّحْرِیرِ: ’’ہُوَالأَصَحُّ، إِذْ لاَ وَاجِبَ إِلاَّ مَا أَوْجَبَہُ اﷲُ، وَبِالْجُمْلَۃِ لَا یَجِبُ تَقْلِیدُ مَذْہَبٍ مُعَیَّنٍ، بَلْ جَازَ الاِنْتِقَالُ۔ لَکِنْ لَابُدَّ أَنْ لاَ یَکُونَ ذَلِکَ قَصْدَ التَّلَہِّی وَتَوہِینِ کِبارِ الْمُجْتَہِدِینَ۔
کچھ متکلمین اہل علم نے شدت سے کام لیا اور کہہ دیا : ’’حنفی اگر اپنے امام کے مذہب کو ترک کر دے تو اسے تعزیر (کوئی سزا) دی جائے۔‘‘ سچ پوچھیں تو یہ متعصبانہ بات ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ بلکہ اپنی طرف سے شریعت سازی ہے۔ ’’التیسیر‘‘ میں ہے : ’’بالکل یہ تعصب ہے کیونکہ واجب وہی ہے جسے اللہ نے واجب قرار دیا، بہرحال کسی مذہب معین کی تقلید واجب نہیں۔ بلکہ ایک مذہب سے دوسرے مذہب کی طرف مسئلہ کی تلاش میں جانا جائز ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ ایسا کرنا محض خواہش نفس کی بنیاد پر نہ ہو اور نہ ہی مجتہدین کرام کی توہین مقصود ہو۔
[شرح مسلم الثبوت، التیسر]
جبکہ دیگر علماء احناف سلف کے اس عقیدے سے کس قدر گمراہ ہیں ملاحظہ کریں،
امام کرخی حنفی بیان کرتے ہیں:
"ہر وہ آیت جو ہمارے ائمہ کے قول کے خلاف ہو اس آیت کو منسوخ سمجھا جائے گا یا اسے مرجوع قرار دیں گے اور بہتر یہ ہے کہ اس آیت کی ایسی تاویل کی جائے کہ وہ ہمارے ائمہ کے قول کے مطابق ہو جائے۔"
[اصول کرخی: ۱۲]
ابن نجیم الحنفی شاتم رسول کی سزا کے بارے میں لکھتے ہیں:
"شاتم رسول میں مومن کا نفس قول مخالف (امام شافعی رحمہ اللہ) کی طرف مائل ہوتا ہے (کہ کافر شاتم رسول کا ذمہ ٹوٹ جاتا ہے) لیکن ہم پر اپنے مذہب کی اتباع ضروری ہے۔"
[البحر الرائق: ۵/۱۲۵]
محمود الحسن دیوبندی نے کہا ہے:
"قول مجتہد بھی قول رسول اللہ ہی شمار ہوتا ہے۔"
[تقاریر شیخ الہند: ٧٤، طبع ادارہ اشرفیہ]
نیز محمود الحسن خیار مجلس (البیعان بالخیار مالم یتفرقا) کے مسئلے میں لکھتے ہیں:
"حق اور انصاف یہ ہے کہ اس مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے مگر ہم ابو حنیفہ کے مقلد ہیں ہم پر ان کی تقلید واجب ہے۔"
[تقریر ترمزی: ۳۹]
البتہ کچھ دیوبندی علماء اس مسئلہ میں معتدل ہیں۔
مفتی تقی عثمانی نے کہا ہے:
"ایک متجر عالم اگر مجتہد کے کسی قول کو کسی صحیح اور صریح حدیث کے خلاف پائے، اور اس کا کوئی معارض موجود نہ ہو تو اس کے لئے مجتہد کے قول کو چھوڑ کر حدیث پرعمل کرنا ضروری ہے۔"
[تقلید کی شرعی حیثیت، ص: ۱۲۱]
اشرف علی تھانوی نے کہا ہے:
"اکثر مقلد عوام بلکہ خواص اس قدر جامد ہوتے ہیں کہ اگر قول مجتہد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث بھی کان میں پڑتی ہے تو ان کے قلب میں انشراح و انبساط نہیں رہتا بلکہ اول استنکار قلب پیدا ہوتا ہے، پھر تاویل کی فکر ہوتی ہے خواہ کتنی ہی بعید کیوں نہ ہو، خواہ دوسری دلیل قوی اس کے معارض ہو بلکہ مجتہد کی دلیل اس مسئلے میں بجزقیاس کے کچھ بھی نہ ہو بلکہ خود دل میں اس تاویل کی وقعت نہ ہو مگر نصرت مذہب کیلئے تاویل ضروری سمجھتے ہیں۔ دل نہیں مانتا کہ قول مجتہد کو چھوڑ کر حدیث صحیح صریح پرعمل کریں۔"
[تزکرۃ الرشید: ۱۳۰]
اس طرح اہلسنت کے عقائد میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے علاوہ کسی کے ہر قول کی تقلید و اطاعت کو ہر حالت میں واجب قرار نہیں دیتے۔ لیکن اس کے برعکس دیوبندیوں کے اکابر کا عقیدہ ملاحظہ کریں،
المہند علی المفند میں مذکور ہے:
"اس زمانہ میں ائمہ اربعہ رحمہم ﷲ میں سے کسی ایک کی تقلید واجب ہے ہم اور ہمارے مشائخ تمام اصول و فروع میں امام المسلمین حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ ﷲ کے مقلد ہیں۔"
[المہند علی المفند، ص: ۳۷]
جبکہ احناف کے کئی فاضل علماء اس عقیدے کی سخت مذمت کرتے ہیں،
ملا معین حنفی نقل کرتے ہیں کہ امام ابن عز حنفی رحمہ اللہ نے ہدایہ کے حاشیے پر فرمایا:
"جو شخص رسول اللہ کے سوا کسی اور خاص ایک شخص کے مذہب پر اڑا رہے اور یہ سمجھے کہ اسی کی (ہر) بات صحیح اور واجب الاتباع ہے پس وہ گمراہ اور جاہل ہے بلکہ کافر ہی ہو جاتا ہے۔ اس سے توبہ کروائی جائے پس اگر توبہ کرلے تو بہتر ہے ورنہ اسے قتل کر دیا جائے کیونکہ اس نے اس بات کا اعتقاد کیا کہ لوگوں پر ایک خاص شخص کی متابعت واجب ہے تو اسے بمنزلہ نبی ہی ٹھہرایا اور یہ کفر ہے۔"
[دراسات اللبیب لاہور: ۱۲۵]
کمال بن ہمام حنفی (صاحب ہدایہ وشارح فتح القدیر) فقہ کے اصولوں کے موضوع پر اپنی تالیف التحریر میں رقم طراز ہیں:
’’کسی معین مذہب کی پابندی لازم نہیں ہے یہی قول صحیح ہے کیوں کہ اس کے لازم ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ واجب صرف وہی چیز ہوتی ہے جسے ﷲ اور رسول صلی ﷲ علیہ وسلم واجب کریں اور معلوم ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے اور نہ ہی رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے لوگوں میں سے کسی پر ائمہ میں سے کسی امام کا مذہب اس طرح اختیار کرنا واجب نہیں کیا کہ دوسرے ائمہ کو چھوڑ کر دین کے ہر معاملہ میں بس اسی کی تقلید کرے۔ خیرون القرون کا پورا دور گزر گیا اور اس دور میں کوئی بھی یہ نہیں کہتا تھا کہ ایک معین مذہب اختیار کرنا ضروری ہے۔"
[التحریر از ابن ہمام]
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اور اگر کوئی شخص امام ابو حنیفہ یا امام مالک یا امام شافعی یا امام احمد رحمہم اللہ کا متبع ہو اور بعض مسائل میں دیکھے کہ دوسرے کا مذہب زیادہ قوی ہے اور اس کی اتباع کرلے تو اس کا یہ کام بہتر ہوگا اوراس سے اس کے دین یا عدالت میں بالاتفاق کوئی عیب نہیں لگے گا، بلکہ یہ شخص زیادہ حق پر اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک زیادہ محبوب ہوگا اس شخص کی بنسبت جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی معین (امام) کے لئے تعصب رکھے۔ مثلا کوئی امام مالک یا امام شافعی یا امام احمد یا امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ کا متعصب ہو اور یہ سمجھے کہ اس معین امام کا قول ہی درست ہے اوراسی کی اتباع کرنی چاہئے نہ کہ اس کے مخالف کسی دوسرے امام کی، تو جو شخص بھی ایسا کرے وہ جاہل اور گمراہ ہے بلکہ بعض صورتوں میں وہ کافر ہو جاتا ہے چنانچہ جب وہ یہ اعتقاد رکھے کہ لوگوں پر ان ائمہ (اربعہ) میں سے کسی ایک معین امام ہی کی اتباع کرنی ہے اور دوسرے کسی امام کی نہیں، تو ایسی صورت میں واجب ہوگا کہ اس شخص سے توبہ کرائی جائے، پھر اگر توبہ کرلے تو ٹھیک ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا"
[مجموع الفتاوى: ٢٢/٢٤٩]
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ہم یقینی طور پر یہ جانتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنھم کے زمانے میں ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جس نے کسی ایک فرد کو اس کے تمام اقوال میں تقلید کے لیے چن لیا ہو، اور اس کے سوا کسی دوسرے کی ایک بات بھی نہ مانتا ہو اور ہم یہ بھی یقینی طور پر جانتے ہیں کہ ایسا تابعین کرام تو کیا تبع تابعین کے زمانے میں بھی نہ ہواتھا، مقلد ہمارے بیان کوجھوٹا ثابت کرنے کے لئے کسی ایک شخص کا نام تو لیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک کے مطابق فضیلت پانے والے زمانوں میں وہ مکروہ راستہ اختیار کیا ہو جس پرمقلدین گامزن ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ بدعت تقلید چوتھی صدی میں ظہور پذیر ہوئی جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان وحی مذموم قرار دیا تھا۔"
[اعلام الموقعین: ۲۰۸/۲]
ملا علی قاری حنفی فرماتے ہیں:
"حافظ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم دونوں اہلسنت والجماعت کے اکابر میں اور اس امت کے اولیاء میں تھے"
[جمع الوسائل:۱/۲۰۸]
اس ساری بحث سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہمارے نزدیک تمام احناف، شافعی، مالکی، حنبلی مشرک ہیں۔ بلکہ ہمارے نزدیک یہ سب مطلقاً اہلسنت میں شامل ہیں۔ تقلید شرکیہ دراصل وہ ہے کہ جو مقلد دل میں یہ شرکیہ عقیدہ بٹھالے کہ میں اپنے امام کے ہر قول کو کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑوں گا اور حدیث رسول پر اپنے امام کے قول کو ترجیح دے۔
اس مسئلے کو سرفراز خاں صفدر دیوبندی نے یوں بیان کیا ہے:
"کوئی بدبخت اور ضدی مقلد دل میں یہ ٹھان لے کے میرے امام کے قول کے مخالف اگر قرآن و حدیث سے بھی کوئی دلیل قائم ہو جائے تو میں اپنے مذہب کو نہیں چھوڑوں گا تو وہ مشرک ہے۔ ہم بھی کہتے ہیں لاشک فیہ (اس میں کوئی شک نہیں)۔"
[الکلام المفید: ۳۱۰]
لیکن جو یہ سمجھتا ہو کہ میں اس امام کی اس بات کو اس لیے مان رہا ہوں کہ قرآن و حدیث کے مطابق یہی ہے تو اس مسئلہ میں امام کی پیروی کرنے والا ہرگز شرک نہیں کر رہا۔ ماضی کے اکثر اہلسنہ ائمہ کرام اسی طرح حنفی، شافعی سے منسوب تھے۔
امام قاضی ابو بکر قفال شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ہم شافعی کے مقلد نہیں بلکہ ہماری رائے شافعی کی رائے سے متفق ہو جاتی ہے اور یہی حال امام طحاوی (حنفی) کا ہے وہ بھی مقلد نہ تھے بلکہ ان کی رائے ابو حنیفہ کی رائے سے موافق ہو جاتی تھی۔"
[رسائل قاضی ابوبکر]
Last edited: