رانا ابوبکر
تکنیکی ناظم
- شمولیت
- مارچ 24، 2011
- پیغامات
- 2,075
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 432
فتاویٰ ابن تیمیہ سے ایک ورق
ذہنی غلامی کے کیچڑ میں لتھڑے ہوئے نام نہاد مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ:
مرتبین نصاب درسی کتابوں میں یہی پڑھاتے لکھاتے رہے کہ زمین کے بیضوی ہونے کا انکشاف پرتگالی بحری سیاح فرڈی نینڈ میگلونFerdinand نے ١٥٢٠عیسوی میں کیا تھا ۔خطوط عرض بلد و طول بلد کا موجدمرکٹور گوھارڈوی اور انگلستانی موولیم بیر ہیں
قانون جاذبیت کاکلیہ نیوٹن Sir Issac Newtonنے ١٧٢٥ءمیں واضح کیا تھا ہمارے مدارس میں تو تعلیم کچھ اس طرح دی جاتی ہے اور اس طرف کسی کا تصور نہیں جاتا کہ زمین کا بیضوی ہونا ، قانون جاذبیت ، خطوط عرض بلدو طول بلد صدیوں سے دریافت ہوچکے ہیں آیئے امام ابن تیمیہ رحمتہ اﷲ علیہ کی درس گاہ ارضیات پر ایک سبق پڑھتے ہیں جو یقینا عصری مدرسین پر گراں ہوگا۔
امام ابن تیمیہ فتاوی جلد ٥ ص١٥٠ پر لکھتے ہیں علمائے ہیئت کا اس با ت پر اتفاق ہے کہ زمین کی شکل کروی ہے اور اسے پانی (سمندروں ) نے گھیر رکھا ہے ۔ زمین کا بیشتر رقبہ سمندر ہے او رخشکی کل زمین کا ١/٦یا اس سے کچھ زائد حصہ ہے[مراد ہے زمين ميں خشکي کا قابل آبادي حصہ] نیز پانی نے چہار اطراف سے گنبد کی شکل میں زمین کو گھیر رکھا ہے۔ زمین کے نیچے سوائے اس کے مرکز کے کچھ نہیں جو زمین کے وسط میں اس کی آخری حد کہلائی جاسکتی ہے۔ اس لیے زمین کے وسط کے لحاظ سے ہمارے لیے دوہی سمتیں بنتی ہیں بالائی اور زیریں یعنی مرکز ثقل سے اوپر یا نیچے مرکز ثقل کی جانب البتہ انسان کے لحاظ سے ہر سمتیں دو سے زیادہ ہوتی ہیں۔
پس زمین کی بالائی سمت وہ ہے جو سطح زمین کے اوپر کی جانب ہے او ر اس بالائی سمت کے بالمقابل زیریں سمت ہے اور وہ ہے سطح زمین کے نیچے کی سمت ۔ زمین کی آخری حد اس کا وسط ہے جو اس کا مرکز ثقل ہے اور اس میں قوت جاذبیت ہے ۔ مزید براں زمین کے گردا گرد فضائیں یا افلاک بھی دائروی ہیں اور ان کا دائروی ہونا قرآن و سنت اور اجماع امت سے ثابت ہے کیو نکہ عربی زبان میں فلک گولائی کے لیے مستعمل ہے جیسا کہ قرآن مجید کی یہ آیت ہے وکل فی فلک یسبحون سب ایک ایک فلک (اپنے اپنے مدار ) میں تیر رہے ہیں[فلک عربی زبان میں ٹھیک فارسی کے چرخ اور گردوں کے معنی میں بولا جاتا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ فلک کوئی ایسی چیز نہیں جس میں تارے کھونٹیوں کی طرح جڑے ہوئے ہوں اور وہ خود انہیں لیے ہوئے گھوم رہا ہو بلکہ وہ ایک ایسی فضا ہے جس میں ہر کہکشاں اپنے اپنے مدار میں سرگرداں ہے] لفظ فلک کی تفیسر بیان کر تے ہوئے ابن عباس فرماتے ہیں جیسے چرخے کا چکر ہوتا ہے اس طرح عربی روز مرہ میں لڑکی کے جوان ہونے پر کہتے ہیں "تفلک ثدی الجاریہ" علم ہیئت اور ریاضی دان بھی فلک کو اسی معنی میں لیتے ہیں۔
امام ابن تیمیہ صفحہ ٤٦٨پر رقم طرا ز ہیں :زمین کی ابتدائے مشرق سے انتہائے مغرب کے درمیان ١٨٠نصف دائروی درجے ہیں اور ہر پندرہ درجے ایک اوسط گھڑی کی مقدار بنتے ہیں اور ایک اوسط گھڑی کی مقدار کا تعین یوں ہے کہ جو بارہ گھڑیا ں مل کر ایک اوسط رات یا ایک اوسط دن بناتی ہیں یعنی ایک اوسط دن یا رات بارہ گھڑیوں پر مشتمل ہوتا ہے
یہی وجہ ہے کہ مشرق میں بسنے والوں کے لیے سورج بنسبت مغرب میں بسنے والوں کے پہلے غروب ہوگا اور مشرقی خطے میں طلوع آفتاب بھی مغربی خطے سے ازاں بیشتر ہوتا ہے۔
ابتدائے مشرق اور انتہائے مغرب کے درمیان کی مقدار بارہ گھڑیاں یا کچھ زائد ہے جب سورج نصف النہار پر پوری آب وتاب سے چمک رہا ہوتا ہے تو سورج اپنے آگے اور پیچھے ہر دو جانب کو روشن کر دیتا ہے اور زمین کی دونوں جانب مشرق و مغرب میں اجالا ہوتا ہے جبکہ ہر دو جانب ٩٠درجے کی مقدار ہوتی ہے یعنی ٩٠درجے شرقی اور ٩٠درجے غربی روشن ہوتے ہیں کسی جگہ پر سورج کا ایک چکر مجموعی طور بارہ گھڑیوں پر مشتمل ہے چھ گھڑیاںاس جگہ کے مرکز سے مشرق میں گذرتی ہیں اور اتنی گھڑیاں مغرب میں اور یہی مقدار ایک اوسط دن کی ہے یعنی بارہ گھنٹے۔
جہاں تک انسانی آبادی کا تعلق ہے تو جاننا چاہیے کہ زمین کا شمالی نصف حصہ جنوبی حصے کی نسبت زیادہ آباد ہے درآں حالیکہ خط استوا سے شمالی قطب تک اتنے ہی نصف دائرے ہیں جتنے خط استواءسے قطب جنوبی تک اور ان خطوط کی باہمی نسبت یکساں ہے ان نصف دائروں کی قطبین سے متناسب نسبت کی بنا پر خط استواپر فلک کی حرکت پہیے کی مانند دائروی ہے لیکن قطبین پر یہی حرکت چکی کے پاٹ کی طرح اپنے محور کے لحاظ سے ثابت ہے اور زمین کے آبادی والے خطے کی حرکت تلوار کی پیٹی کی مانند ہے
ساٹھ سے کچھ اوپر نصف دائروی درجے زمین کے آباد حصے اور انسانی مسکن ہیں جو خشکی کا تقربیاً ١/٦ سے کچھ زائد علاقہ بنتا ہے۔
قرآن و حدیث صحابہ کرام، تابعین او رمتبع سنت علمائے کرام کے اقوال کی روشنی میں ہم نے ارضیا ت پر ایک اور مقام پر مفصل بحث کی ہے نیز فلک کے دائرہ ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے اس اجماع ہونے کا ذکر کئی علماءکرام نے کیا ہے جیسے امام احمد کے اصحاب کے دوسرے طبقہ کے ایک ممتا ز عالم ابو الحسن بن المنادی ہیں جنکی چار سو کے لگ بھگ تصنیفات ہیں ان کے علاوہ ابو محمد بن حزم اور ابوالفرح بن الجوزی نے بھی اس بات پر اجماع نقل کیا ہے
اوپر جو بحث گذری ہے اسے سامنے رکھ کر تم سمجھ سکتے ہو کہ جب مشرقی خطے کے پہلے ملک میں غروب آفتاب ہورہا ہوگا مغربی خطے کے آخری ملک میں وہ وقت طلوع آفتاب کا ہوگا۔
زمین پر سورج کی روشنی اس تناسب سے ہوتی ہے جس تناسب سے وہ سورج کے سامنے ہوتی ہے سورج اپنے آگے اور پیچھے زمین کے دونوں خطوں کو٩٠درجے کی نسبت سے روشن کرتاہے اور یہی وقت روشن ترین وقت ہوتا ہے یہی نسبت ہر اس ملک کی ہوتی ہے جہا ں طلوع آفتاب ہورہا ہوتا ہے جس طرح علم ریاضی سے درجات میں فرق کیا جاتا ہے اسی طرح گھڑیاں مختلف اوقات کے لحاظ سے ریاضی کے قاعدے پر پوری اترتی ہیں یعنی ہر علاقے میں پندرہ درجے کی مقدار ایک گھڑی کی ہوتی ہے۔
مغربی خطے میں مشرقی خطے کے برعکس جب زمین اور مغرب کی جانب ٩٠درجے ہوں وہ وقت مغرب میں غروب آفتاب کا ہے جس طرح مطلع (پورب) اور زمین میں جب ٩٠درجے ہوں وہ مشرق میں طلوع آفتاب کا وقت ہوتا ہے جب سورج عین درمیان میں ہمارے سروں پر چمک رہا ہوتا ہے اور ابھی زوال آفتاب نہیں ہوا ہوتا جوظہر کا وقت ہے اس وقت سورج مشرق اور مغرب کے لحاظ سے ٩٠درجے پر ہوتا ہے
شیخ الاسلام جلد ٦صفحہ ٥٤٨پر فرماتے ہیں :نصف فلک١٨٠درجے ہے ١٢٠درجے فلک کا١/٣ ٩٠ درجے فلک کا١/٤اور٦٠درجے فلک کا١/٦کے مساوی ہیں اور اسی تناسب سے مزید درجہ بندی ہوسکتی ہے
صفحہ ٥٦٠پر لکھتے ہیں:ذی روح افراد کے لحاظ سے سمتوں کی تعداد چھ بنتی ہے لیکن افلاک کے لحاظ سے صرف دوناقابل تغیر سمتیں یعنی مرکزثقل کے اردگر د بالائی سمت اور مرکز ثقل زیریں سمت ہے جبکہ کسی فرد کے آگے اگلی سمت اور اسکی پشت پر پچھلی سمت ، ایک جانب دائیں اور اس کے مقابل بائیں سمت، سرکے اوپر بالائی سمت اور پاؤں کی طرف زیریں سمت مل کر چھ سمتیں کہلاتی ہیں پور ی سطح زمین اور اس کا اوپر دراصل بالائی سمت ہے ۔ زمین پر بسنے والا کوئی بھی شخص زمین کے دوسری جانب کسی اور شخص کے نیچے نہیں ہوتا ۔ افلاک مرکز کے لحاظ سے بالائی جانب ہے ا س لیے نہ کوئی شخص فلک کے دائیں پہلو ہوتا ہے اور نہ بائیں پہلو ہوتا ہے
اس طرح قطب جنوبی کو قطب شمالی زیریں جانب نہیں کہا جاسکتا اور نہ اس کے برعکس۔
اسی جلد میں امام صاحب خطوط عرض بلد و طول بلد نکالنے کا کلیہ بھی بیان کرتے ہیں جس کی تفصیل مذکورہ جلد میں دیکھی جاسکتی ہے آگے چل کر وہ لکھتے ہیں اگر زمین کے بطن میں ہمارے پاؤں کی سمت سرنگ کھودی جائے اور سرنگ میں ایک پتھر چھوڑا جائے تو وہ مرکز ثقل پر پہنچ کر ٹھہر جائے گا۔ اسی طرح اگر زمین کی دوسری جانب اسی طرح کی سرنگ میں پتھر پھینکا جائے تو دونوں مرکز ثقل پر پہنچ کر ٹھہر جائیں گے او ر ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے نیچے نہیں ہوگا بلکہ دونوں پتھر بدستور مرکز سے اوپر فلک سے نیچے ہوں گے ۔ اب اگر پتھر کی بجائے دو انسان فرض کرلیے جائیں تو دونوں کے پیر مرکز ثقل کی جانب ہوں گے نہ تو کوئی کسی کے اوپر ہوگا اور نہ نیچے دونوں ہی مرکز ثقل سے اوپر اور فلک کے نیچے ہوں گے_
امام ابن تیمیہ کے مدرسے سے ایک پیریڈ پڑھنے کے بعد میں اس بات پر حیران و ششدر ہوں کہ ماہر ین نصاب درسی کتابیں تشکیل دیتے ہوئے دیانت داری کیوں نہیں برتتے ۔ کیا ان سے یہ حقائق اوجھل رہے ہوں گے ہر سائنسی کلیے اور ایجاد کے پیچھے انہیں یورپ کے کافرو ں کا چہر ہ ہی نظر آتا ہے
کیا اسے محض تاریخ اسلامی سے لا علمی برتنے کا الزام دیا جاسکتا ہے؟ بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیا جائے تو کیا ماہرین نصاب کے لیے لا علم رہنا معقول بہانہ ہوسکتا ہے؟۔ کہیں لاشعور میں چھپا یہ احساس کمتری تو نہیں ؟ کیا انہیں حقائق کو توڑ مروڑ کر بیان کرنے کا بھاری معاوضہ دیا جاتا ہے
کیا امت محمدیہ او ر اسکے علمی سرمائے کے خلاف انکے دلوں میں بغض او ر عناد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے؟
کیا یہ ماہرین تعلیم یہودی منصوبوں پر کاربند فری میسن کے منصوبوں پر عملدرآمد تو نہیں کرتے؟ ۔
کیا یہ حضرات طوطے کی طرح رٹے رٹائے فقرے ہی دہراتے رہتے ہیں اوراپنی عقل و دانش سے آگاہ نہیں ہیں؟ مجھے یہ کہتے ہوئے انتہائی اذیت ہورہی ہے کہ یہ ساری باتیں ان حضرات پر صادق آتی ہیں
نبی آخر الزماں کی بعثت ہویا صلیبی جنگیں صنعتی انقلاب ہو یا جزیرہ العرب میں امریکی فوجوں کا پڑاؤ، مسلمانوں کے خلا ف یہود و نصاریٰ کا بغض و عناد اپنے اظہار کے لیے کوئی نہ کوئی ذریعہ ڈھونڈ لیتا ہے رواں صدی میں یہود و نصاریٰ نے جہاں مسلمانوں کی بیخ کنی کے لیے فوجی و سیاسی ذرائع استعمال کیے وہاں نفسیاتی اور ثقافتی جنگ سے بھی ہمہ وقت مسلح رہے ہیں یورپ کی تاریخ علمی خیانت ، دروغ گوئی اور سرقہ سے عبارت ہے اور ہر ایجاد و انکشاف اورسائنسی کلیات کے پیچھے انہیں تاریخ قدیم میں یونا ن کے فلاسفر اور تاریخ جدید میں یورپ کے سائنس دان دکھائی دیتے ہیں درمیان سے مسلمان اس "عقل و دانش "کے قافلہ سے یوں صفائی کے ساتھ نکال دیئے جاتے ہیں جےسے مکھن سے بال۔دشمن تو ایسی چالیں چلتا ہے افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمانوں کے نام نہاد دانش ور بھی یہی راگ الاپتے ہیں
تصور کیجئے جس امت کے نبی نے پوری دنیا کو ربانی پیغام پہنچانا ہو اس کی امت طبعی جغرافیے سے نابلد ہو او ر جن کا دین آفاقی ہو انہیں نظام شمسی تک سے آگہی نہ ہو جہاں یورپ کے لیے دریافتیں اگر مادی ترقی کی حرص لیے ہوئے ہیں وہاں مسلمانو ں کے لیے یہ عقیدے اور ایمان کا مسئلہ ہے مفسرین ہو ں یا محدثین ، فقہاءہوں یا مجتہدین، شریعت کی تعبیراور ابلاغ کے لیے ان علوم سے بہرہ مند ہونا فرض ہے مجموعی طور پر ان علوم کا حصول پوری امت پر فرض کفایہ ہے یہ امر محال ہے کہ لفظ ’فلک‘ یا’ بروج‘ جیسے الفاظ عربوں کے لیے معروف نہ ہوں اور ان کی توجیہہ کے لیے بیسویں اور اکیسویں صدی کے انکشافات کی ضرورت ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کبھی بھی انسانی علوم اور دریافتوں سے غافل نہیں رہے ہیں کیونکہ الدنیامزرعہ الاخرہ ہے نہ ہی کبھی دینی اور دنیاوی تعلیم میں دوئی پائی گئی ہے ، رمضان ، عیدیں ، حرمت والے مہینے ، حج اور قربانی ایسے مسائل اس بات کے متقاضی ہیں کہ چاند کے گھنٹے بڑھنے پر گہری نظر رکھی جائے۔ نماز ، سورج گرہن، یک مثل ، دو مثل سایہ ، زوال ، چاشت، صبح صادق ، صبح کاذب ، غروب آفتاب ، شفق ایسے امور ہیں جنہیں جانے بغیر اسلام کا ستون نماز ہی ادا نہیں ہوسکتی۔ قبلے کا تعین ، مسجد کی جہت، قسطنطنیہ یا ویٹی کن کی فتح، عزوہ ہند کی بشارت، عیسٰی کامقام نزول ، قوم عاد ، دیار ثمود، قوم حجر وغیرہ سب عقیدے کے بنیادی امور سے تعلق رکھتے ہیں لیکن مسلمانوں نے فلکیات اور ارضیات جیسے موضوعات پر اتنی محنت کی جتنی شریعت کے فہم کے لیے ضروری تھی یورپ کی طرح مادہ کبھی ان کا رب نہیں بنا جو تجربہ گاہ میں تیار ہونے والے کسی بھی نئے مرکب پر مکھیوں کی طرح بھنبھنانے لگتے ہیں کہ کیا یہ مرکب دوا بن کر پیسہ بنانے کی مشین بن سکتا ہے دوا نہیں تو کھاد ہی بن جائے کھاد نہیں تو خواہ نشہ ہی بن کر بک جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان ان علوم میں موٹی اور پیچیدہ اصطلاحات سے گریز کرتے ہیں جنہوں نے ہر علم کو طبقہ خواص کے لیے مخصوص کردیا ہے اور عام آدمی الجھ کر رہ گیا ہے
ً محولہ بالا اقتباسات میں آپ نے مسلمانوں کی آسان فہمی ملاحظہ فرمالی ہوگی کشش ثقل کے اصول کو کس سادہ انداز سے پتھر کی اشیاءسے تشبیہ دے کر سمجھایا ہے اور سب سے بڑھ کر جس احساس برتری سے ارضیات اور علم جغرافیہ کو شریعت اور عقیدے کا موضوع بنایا ہے و ہ اﷲ وحد ہ لاشریک پر ایمان لانے والے مسلمان او ر یورپ سے درآمد معلومات پر اترانے والے ناٹے دانش وروں کے فرق کو واضح کردیتی ہے یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام ا س پر بار ہا اصرار کرتے ہیں کہ فلک کے دائرہ ہونے پر قرآن و سنت بھی دلالت کرتے ہیں۔ او ر اجماع امت بھی اور یہ تینوں بالا تفاق شریعت کے مصادر ہیں
مسلمانوں کی اپنی میراث بانجھ نہیں ہے کسی کی آنکھوں سے بینائی سلب ہوجائے تو اس کا کیا علاج ۔
مضمون کا لنک
متاع گم گشتہ
ذہنی غلامی کے کیچڑ میں لتھڑے ہوئے نام نہاد مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ:
محمد محمود مصطفی
تعلیمی اداروں، میں پڑھائی جانے والی درسی کتابوں میں علم وآگہی کے تمام سرچشمے یورپ سے نکلتے ہوئے دکھائے جاتے ہیں ہمارے مسلم ممالک کا ہر گوشہ مغرب زدہ ہے خواہ تعلیم کا میدان ہو یا ثقافت کا بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ مغرب کی چاپلوسی کرنے والوں نے ان کا ہر گند درآمد کیا ہے اور مفید امور سے صرف نظر کرتے رہے ہیں۔
مرتبین نصاب درسی کتابوں میں یہی پڑھاتے لکھاتے رہے کہ زمین کے بیضوی ہونے کا انکشاف پرتگالی بحری سیاح فرڈی نینڈ میگلونFerdinand نے ١٥٢٠عیسوی میں کیا تھا ۔خطوط عرض بلد و طول بلد کا موجدمرکٹور گوھارڈوی اور انگلستانی موولیم بیر ہیں
قانون جاذبیت کاکلیہ نیوٹن Sir Issac Newtonنے ١٧٢٥ءمیں واضح کیا تھا ہمارے مدارس میں تو تعلیم کچھ اس طرح دی جاتی ہے اور اس طرف کسی کا تصور نہیں جاتا کہ زمین کا بیضوی ہونا ، قانون جاذبیت ، خطوط عرض بلدو طول بلد صدیوں سے دریافت ہوچکے ہیں آیئے امام ابن تیمیہ رحمتہ اﷲ علیہ کی درس گاہ ارضیات پر ایک سبق پڑھتے ہیں جو یقینا عصری مدرسین پر گراں ہوگا۔
امام ابن تیمیہ فتاوی جلد ٥ ص١٥٠ پر لکھتے ہیں علمائے ہیئت کا اس با ت پر اتفاق ہے کہ زمین کی شکل کروی ہے اور اسے پانی (سمندروں ) نے گھیر رکھا ہے ۔ زمین کا بیشتر رقبہ سمندر ہے او رخشکی کل زمین کا ١/٦یا اس سے کچھ زائد حصہ ہے[مراد ہے زمين ميں خشکي کا قابل آبادي حصہ] نیز پانی نے چہار اطراف سے گنبد کی شکل میں زمین کو گھیر رکھا ہے۔ زمین کے نیچے سوائے اس کے مرکز کے کچھ نہیں جو زمین کے وسط میں اس کی آخری حد کہلائی جاسکتی ہے۔ اس لیے زمین کے وسط کے لحاظ سے ہمارے لیے دوہی سمتیں بنتی ہیں بالائی اور زیریں یعنی مرکز ثقل سے اوپر یا نیچے مرکز ثقل کی جانب البتہ انسان کے لحاظ سے ہر سمتیں دو سے زیادہ ہوتی ہیں۔
پس زمین کی بالائی سمت وہ ہے جو سطح زمین کے اوپر کی جانب ہے او ر اس بالائی سمت کے بالمقابل زیریں سمت ہے اور وہ ہے سطح زمین کے نیچے کی سمت ۔ زمین کی آخری حد اس کا وسط ہے جو اس کا مرکز ثقل ہے اور اس میں قوت جاذبیت ہے ۔ مزید براں زمین کے گردا گرد فضائیں یا افلاک بھی دائروی ہیں اور ان کا دائروی ہونا قرآن و سنت اور اجماع امت سے ثابت ہے کیو نکہ عربی زبان میں فلک گولائی کے لیے مستعمل ہے جیسا کہ قرآن مجید کی یہ آیت ہے وکل فی فلک یسبحون سب ایک ایک فلک (اپنے اپنے مدار ) میں تیر رہے ہیں[فلک عربی زبان میں ٹھیک فارسی کے چرخ اور گردوں کے معنی میں بولا جاتا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ فلک کوئی ایسی چیز نہیں جس میں تارے کھونٹیوں کی طرح جڑے ہوئے ہوں اور وہ خود انہیں لیے ہوئے گھوم رہا ہو بلکہ وہ ایک ایسی فضا ہے جس میں ہر کہکشاں اپنے اپنے مدار میں سرگرداں ہے] لفظ فلک کی تفیسر بیان کر تے ہوئے ابن عباس فرماتے ہیں جیسے چرخے کا چکر ہوتا ہے اس طرح عربی روز مرہ میں لڑکی کے جوان ہونے پر کہتے ہیں "تفلک ثدی الجاریہ" علم ہیئت اور ریاضی دان بھی فلک کو اسی معنی میں لیتے ہیں۔
امام ابن تیمیہ صفحہ ٤٦٨پر رقم طرا ز ہیں :زمین کی ابتدائے مشرق سے انتہائے مغرب کے درمیان ١٨٠نصف دائروی درجے ہیں اور ہر پندرہ درجے ایک اوسط گھڑی کی مقدار بنتے ہیں اور ایک اوسط گھڑی کی مقدار کا تعین یوں ہے کہ جو بارہ گھڑیا ں مل کر ایک اوسط رات یا ایک اوسط دن بناتی ہیں یعنی ایک اوسط دن یا رات بارہ گھڑیوں پر مشتمل ہوتا ہے
یہی وجہ ہے کہ مشرق میں بسنے والوں کے لیے سورج بنسبت مغرب میں بسنے والوں کے پہلے غروب ہوگا اور مشرقی خطے میں طلوع آفتاب بھی مغربی خطے سے ازاں بیشتر ہوتا ہے۔
ابتدائے مشرق اور انتہائے مغرب کے درمیان کی مقدار بارہ گھڑیاں یا کچھ زائد ہے جب سورج نصف النہار پر پوری آب وتاب سے چمک رہا ہوتا ہے تو سورج اپنے آگے اور پیچھے ہر دو جانب کو روشن کر دیتا ہے اور زمین کی دونوں جانب مشرق و مغرب میں اجالا ہوتا ہے جبکہ ہر دو جانب ٩٠درجے کی مقدار ہوتی ہے یعنی ٩٠درجے شرقی اور ٩٠درجے غربی روشن ہوتے ہیں کسی جگہ پر سورج کا ایک چکر مجموعی طور بارہ گھڑیوں پر مشتمل ہے چھ گھڑیاںاس جگہ کے مرکز سے مشرق میں گذرتی ہیں اور اتنی گھڑیاں مغرب میں اور یہی مقدار ایک اوسط دن کی ہے یعنی بارہ گھنٹے۔
جہاں تک انسانی آبادی کا تعلق ہے تو جاننا چاہیے کہ زمین کا شمالی نصف حصہ جنوبی حصے کی نسبت زیادہ آباد ہے درآں حالیکہ خط استوا سے شمالی قطب تک اتنے ہی نصف دائرے ہیں جتنے خط استواءسے قطب جنوبی تک اور ان خطوط کی باہمی نسبت یکساں ہے ان نصف دائروں کی قطبین سے متناسب نسبت کی بنا پر خط استواپر فلک کی حرکت پہیے کی مانند دائروی ہے لیکن قطبین پر یہی حرکت چکی کے پاٹ کی طرح اپنے محور کے لحاظ سے ثابت ہے اور زمین کے آبادی والے خطے کی حرکت تلوار کی پیٹی کی مانند ہے
ساٹھ سے کچھ اوپر نصف دائروی درجے زمین کے آباد حصے اور انسانی مسکن ہیں جو خشکی کا تقربیاً ١/٦ سے کچھ زائد علاقہ بنتا ہے۔
قرآن و حدیث صحابہ کرام، تابعین او رمتبع سنت علمائے کرام کے اقوال کی روشنی میں ہم نے ارضیا ت پر ایک اور مقام پر مفصل بحث کی ہے نیز فلک کے دائرہ ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے اس اجماع ہونے کا ذکر کئی علماءکرام نے کیا ہے جیسے امام احمد کے اصحاب کے دوسرے طبقہ کے ایک ممتا ز عالم ابو الحسن بن المنادی ہیں جنکی چار سو کے لگ بھگ تصنیفات ہیں ان کے علاوہ ابو محمد بن حزم اور ابوالفرح بن الجوزی نے بھی اس بات پر اجماع نقل کیا ہے
اوپر جو بحث گذری ہے اسے سامنے رکھ کر تم سمجھ سکتے ہو کہ جب مشرقی خطے کے پہلے ملک میں غروب آفتاب ہورہا ہوگا مغربی خطے کے آخری ملک میں وہ وقت طلوع آفتاب کا ہوگا۔
زمین پر سورج کی روشنی اس تناسب سے ہوتی ہے جس تناسب سے وہ سورج کے سامنے ہوتی ہے سورج اپنے آگے اور پیچھے زمین کے دونوں خطوں کو٩٠درجے کی نسبت سے روشن کرتاہے اور یہی وقت روشن ترین وقت ہوتا ہے یہی نسبت ہر اس ملک کی ہوتی ہے جہا ں طلوع آفتاب ہورہا ہوتا ہے جس طرح علم ریاضی سے درجات میں فرق کیا جاتا ہے اسی طرح گھڑیاں مختلف اوقات کے لحاظ سے ریاضی کے قاعدے پر پوری اترتی ہیں یعنی ہر علاقے میں پندرہ درجے کی مقدار ایک گھڑی کی ہوتی ہے۔
مغربی خطے میں مشرقی خطے کے برعکس جب زمین اور مغرب کی جانب ٩٠درجے ہوں وہ وقت مغرب میں غروب آفتاب کا ہے جس طرح مطلع (پورب) اور زمین میں جب ٩٠درجے ہوں وہ مشرق میں طلوع آفتاب کا وقت ہوتا ہے جب سورج عین درمیان میں ہمارے سروں پر چمک رہا ہوتا ہے اور ابھی زوال آفتاب نہیں ہوا ہوتا جوظہر کا وقت ہے اس وقت سورج مشرق اور مغرب کے لحاظ سے ٩٠درجے پر ہوتا ہے
شیخ الاسلام جلد ٦صفحہ ٥٤٨پر فرماتے ہیں :نصف فلک١٨٠درجے ہے ١٢٠درجے فلک کا١/٣ ٩٠ درجے فلک کا١/٤اور٦٠درجے فلک کا١/٦کے مساوی ہیں اور اسی تناسب سے مزید درجہ بندی ہوسکتی ہے
صفحہ ٥٦٠پر لکھتے ہیں:ذی روح افراد کے لحاظ سے سمتوں کی تعداد چھ بنتی ہے لیکن افلاک کے لحاظ سے صرف دوناقابل تغیر سمتیں یعنی مرکزثقل کے اردگر د بالائی سمت اور مرکز ثقل زیریں سمت ہے جبکہ کسی فرد کے آگے اگلی سمت اور اسکی پشت پر پچھلی سمت ، ایک جانب دائیں اور اس کے مقابل بائیں سمت، سرکے اوپر بالائی سمت اور پاؤں کی طرف زیریں سمت مل کر چھ سمتیں کہلاتی ہیں پور ی سطح زمین اور اس کا اوپر دراصل بالائی سمت ہے ۔ زمین پر بسنے والا کوئی بھی شخص زمین کے دوسری جانب کسی اور شخص کے نیچے نہیں ہوتا ۔ افلاک مرکز کے لحاظ سے بالائی جانب ہے ا س لیے نہ کوئی شخص فلک کے دائیں پہلو ہوتا ہے اور نہ بائیں پہلو ہوتا ہے
اس طرح قطب جنوبی کو قطب شمالی زیریں جانب نہیں کہا جاسکتا اور نہ اس کے برعکس۔
اسی جلد میں امام صاحب خطوط عرض بلد و طول بلد نکالنے کا کلیہ بھی بیان کرتے ہیں جس کی تفصیل مذکورہ جلد میں دیکھی جاسکتی ہے آگے چل کر وہ لکھتے ہیں اگر زمین کے بطن میں ہمارے پاؤں کی سمت سرنگ کھودی جائے اور سرنگ میں ایک پتھر چھوڑا جائے تو وہ مرکز ثقل پر پہنچ کر ٹھہر جائے گا۔ اسی طرح اگر زمین کی دوسری جانب اسی طرح کی سرنگ میں پتھر پھینکا جائے تو دونوں مرکز ثقل پر پہنچ کر ٹھہر جائیں گے او ر ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے نیچے نہیں ہوگا بلکہ دونوں پتھر بدستور مرکز سے اوپر فلک سے نیچے ہوں گے ۔ اب اگر پتھر کی بجائے دو انسان فرض کرلیے جائیں تو دونوں کے پیر مرکز ثقل کی جانب ہوں گے نہ تو کوئی کسی کے اوپر ہوگا اور نہ نیچے دونوں ہی مرکز ثقل سے اوپر اور فلک کے نیچے ہوں گے_
امام ابن تیمیہ کے مدرسے سے ایک پیریڈ پڑھنے کے بعد میں اس بات پر حیران و ششدر ہوں کہ ماہر ین نصاب درسی کتابیں تشکیل دیتے ہوئے دیانت داری کیوں نہیں برتتے ۔ کیا ان سے یہ حقائق اوجھل رہے ہوں گے ہر سائنسی کلیے اور ایجاد کے پیچھے انہیں یورپ کے کافرو ں کا چہر ہ ہی نظر آتا ہے
کیا اسے محض تاریخ اسلامی سے لا علمی برتنے کا الزام دیا جاسکتا ہے؟ بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیا جائے تو کیا ماہرین نصاب کے لیے لا علم رہنا معقول بہانہ ہوسکتا ہے؟۔ کہیں لاشعور میں چھپا یہ احساس کمتری تو نہیں ؟ کیا انہیں حقائق کو توڑ مروڑ کر بیان کرنے کا بھاری معاوضہ دیا جاتا ہے
کیا امت محمدیہ او ر اسکے علمی سرمائے کے خلاف انکے دلوں میں بغض او ر عناد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے؟
کیا یہ ماہرین تعلیم یہودی منصوبوں پر کاربند فری میسن کے منصوبوں پر عملدرآمد تو نہیں کرتے؟ ۔
کیا یہ حضرات طوطے کی طرح رٹے رٹائے فقرے ہی دہراتے رہتے ہیں اوراپنی عقل و دانش سے آگاہ نہیں ہیں؟ مجھے یہ کہتے ہوئے انتہائی اذیت ہورہی ہے کہ یہ ساری باتیں ان حضرات پر صادق آتی ہیں
نبی آخر الزماں کی بعثت ہویا صلیبی جنگیں صنعتی انقلاب ہو یا جزیرہ العرب میں امریکی فوجوں کا پڑاؤ، مسلمانوں کے خلا ف یہود و نصاریٰ کا بغض و عناد اپنے اظہار کے لیے کوئی نہ کوئی ذریعہ ڈھونڈ لیتا ہے رواں صدی میں یہود و نصاریٰ نے جہاں مسلمانوں کی بیخ کنی کے لیے فوجی و سیاسی ذرائع استعمال کیے وہاں نفسیاتی اور ثقافتی جنگ سے بھی ہمہ وقت مسلح رہے ہیں یورپ کی تاریخ علمی خیانت ، دروغ گوئی اور سرقہ سے عبارت ہے اور ہر ایجاد و انکشاف اورسائنسی کلیات کے پیچھے انہیں تاریخ قدیم میں یونا ن کے فلاسفر اور تاریخ جدید میں یورپ کے سائنس دان دکھائی دیتے ہیں درمیان سے مسلمان اس "عقل و دانش "کے قافلہ سے یوں صفائی کے ساتھ نکال دیئے جاتے ہیں جےسے مکھن سے بال۔دشمن تو ایسی چالیں چلتا ہے افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمانوں کے نام نہاد دانش ور بھی یہی راگ الاپتے ہیں
تصور کیجئے جس امت کے نبی نے پوری دنیا کو ربانی پیغام پہنچانا ہو اس کی امت طبعی جغرافیے سے نابلد ہو او ر جن کا دین آفاقی ہو انہیں نظام شمسی تک سے آگہی نہ ہو جہاں یورپ کے لیے دریافتیں اگر مادی ترقی کی حرص لیے ہوئے ہیں وہاں مسلمانو ں کے لیے یہ عقیدے اور ایمان کا مسئلہ ہے مفسرین ہو ں یا محدثین ، فقہاءہوں یا مجتہدین، شریعت کی تعبیراور ابلاغ کے لیے ان علوم سے بہرہ مند ہونا فرض ہے مجموعی طور پر ان علوم کا حصول پوری امت پر فرض کفایہ ہے یہ امر محال ہے کہ لفظ ’فلک‘ یا’ بروج‘ جیسے الفاظ عربوں کے لیے معروف نہ ہوں اور ان کی توجیہہ کے لیے بیسویں اور اکیسویں صدی کے انکشافات کی ضرورت ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کبھی بھی انسانی علوم اور دریافتوں سے غافل نہیں رہے ہیں کیونکہ الدنیامزرعہ الاخرہ ہے نہ ہی کبھی دینی اور دنیاوی تعلیم میں دوئی پائی گئی ہے ، رمضان ، عیدیں ، حرمت والے مہینے ، حج اور قربانی ایسے مسائل اس بات کے متقاضی ہیں کہ چاند کے گھنٹے بڑھنے پر گہری نظر رکھی جائے۔ نماز ، سورج گرہن، یک مثل ، دو مثل سایہ ، زوال ، چاشت، صبح صادق ، صبح کاذب ، غروب آفتاب ، شفق ایسے امور ہیں جنہیں جانے بغیر اسلام کا ستون نماز ہی ادا نہیں ہوسکتی۔ قبلے کا تعین ، مسجد کی جہت، قسطنطنیہ یا ویٹی کن کی فتح، عزوہ ہند کی بشارت، عیسٰی کامقام نزول ، قوم عاد ، دیار ثمود، قوم حجر وغیرہ سب عقیدے کے بنیادی امور سے تعلق رکھتے ہیں لیکن مسلمانوں نے فلکیات اور ارضیات جیسے موضوعات پر اتنی محنت کی جتنی شریعت کے فہم کے لیے ضروری تھی یورپ کی طرح مادہ کبھی ان کا رب نہیں بنا جو تجربہ گاہ میں تیار ہونے والے کسی بھی نئے مرکب پر مکھیوں کی طرح بھنبھنانے لگتے ہیں کہ کیا یہ مرکب دوا بن کر پیسہ بنانے کی مشین بن سکتا ہے دوا نہیں تو کھاد ہی بن جائے کھاد نہیں تو خواہ نشہ ہی بن کر بک جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان ان علوم میں موٹی اور پیچیدہ اصطلاحات سے گریز کرتے ہیں جنہوں نے ہر علم کو طبقہ خواص کے لیے مخصوص کردیا ہے اور عام آدمی الجھ کر رہ گیا ہے
ً محولہ بالا اقتباسات میں آپ نے مسلمانوں کی آسان فہمی ملاحظہ فرمالی ہوگی کشش ثقل کے اصول کو کس سادہ انداز سے پتھر کی اشیاءسے تشبیہ دے کر سمجھایا ہے اور سب سے بڑھ کر جس احساس برتری سے ارضیات اور علم جغرافیہ کو شریعت اور عقیدے کا موضوع بنایا ہے و ہ اﷲ وحد ہ لاشریک پر ایمان لانے والے مسلمان او ر یورپ سے درآمد معلومات پر اترانے والے ناٹے دانش وروں کے فرق کو واضح کردیتی ہے یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام ا س پر بار ہا اصرار کرتے ہیں کہ فلک کے دائرہ ہونے پر قرآن و سنت بھی دلالت کرتے ہیں۔ او ر اجماع امت بھی اور یہ تینوں بالا تفاق شریعت کے مصادر ہیں
مسلمانوں کی اپنی میراث بانجھ نہیں ہے کسی کی آنکھوں سے بینائی سلب ہوجائے تو اس کا کیا علاج ۔
مضمون کا لنک