• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

متشابہات۔۔ تفسیر السراج۔ پارہ:3

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ھُوَالَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْہُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ۝۰ۭ فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِيْلِہٖ۝۰ۚ۬ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَہٗٓ اِلَّا اللہُ۝۰ۘؔ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ۝۰ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا۝۰ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۷ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَيْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَۃً۝۰ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۝۸ رَبَّنَآ اِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيْہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ۝۹ۧ
اسی نے تجھ پر کتاب نازل کی اس میں بعض آیتیں پکی ہیں اور وہی کتاب۱؎ کی جڑہیں اور دوسری مشابہ (یعنی معنی معلوم یا معین نہیں) سو جن کے دلوں میں کجی ہے وہ فتنہ پھیلانے کی غرض سے اورمطلب معلوم کرنے کی وجہ سے متشابہات کے پیچھے جاتے ہیں، حالانکہ ان کا مطلب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جوپکے عالم ہیں، کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے ۔ سب کچھ ہمارے رب سے ہے اور سواعقل والوں کے اور لوگ سمجھانے سے نہیں سمجھتے۔(۷) اے ہمارے رب! جب کہ تو ہمیں ہدایت کرچکا تو ہمارے دلوں کو گمراہ نہ کر اور اپنی طرف سے ہمیں نعمت دے۔ توہی سب کچھ دینے والا ہے۔(۸) اے ہمارے رب ! تو سب آدمیوں کو اس دن جمع کرنے والا ہے جس میں کچھ شبہ نہیں ہے ۔ بے شک اللہ وعدہ خلا ف نہیں کرتا ہے۔(۹)
متشابہات
۱؎ قرآن حکیم کی تقسیم محکمات ومتشابہات میں دائر ہے ۔ وہ لوگ جن کے دل نورِہدایت سے مستنیر ہیں اس تقسیم کو قدرتی اور طبعی خیال کرتے ہیں مگر وہ لو گ جن کا مقصد راہِ راست سے بھٹک جانا ہے ، وہ محکمات کو جو اساس دین ہیں چھوڑدیتے ہیں اور متشابہات جو محض برسبیل استطراد وتوثیق کے لیے بیان کی گئی ہیں ۔ وجہ نزاع ومخاصمت بنالیتے ہیں اورگمراہ ہوجاتے ہیں۔ قرآن حکیم میں عقائد سے لے کر معاشرت کے ادنیٰ سے ادنیٰ مسائل تک سب کچھ بیان کیا گیا ہے اورپھر ایک ایک مطلب ومقصد کو متعدد وسائل اور اسالیب بیان سے ادا کیا گیا ہے ۔ کبھی تشبیہ سے کام لیا جاتا ہے اور کبھی استعارے سے ۔کبھی حقیقت جلوہ آرا ہے اور کبھی مجاز۔ اورپھرہرطریق ادا میں ظاہر ہے کچھ اختلاف بھیہے اور یہی نوع بلاغت کی جان ہے مگربایں ہمہ اس اختلاف وتنوع کے ایک وحدت جھلک رہی ہے اور ایک مخصوص رنگ یکساں نمایاں ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم کے سامنے کچھ چیزیں بطور اساس ومرکز کے ہیں اور کچھ ایسی ہیں جن کا مرتبہ توثیق وتوقیع کے سوا اور کچھ نہیں۔ اب چاہیے تو یہ کہ قرآن فہمی کے لیے ان اساسی ومرکزی عقائد کو سامنے رکھا جائے اور دوسری آیات کو توضیح وتشریح کے لیے سمجھا جائے ۔ حقیقت کو مجاز پر قربان نہ کیا جائے اور وہ چیز جو واشگاف طورپر کہی گئی ہے اسے اصل قرار دیا جائے اور جو استعارے کے رنگ میں ادا کی گئی ہے ،اسے اس کی تائید کے لیے استعمال کیا جائے مگر اہل زیغ والحاد جن کے دل بصیرت سے محروم ہیں، ہمیشہ الٹا چلتے ہیں۔ وہ حقائق کو چھوڑ کر اساسی مرکز سے قطع نظر کرکے چند عقیدے از خود تراش لیتے ہیں اورپھراس کے بعد آیات تلاش کرتے ہیں جو ان کی تائید کریں۔

قرآن حکیم ہی کی یہ خصوصیت نہیں۔ ہرکلام بلیغ میں یہ تنوع موجود ہوتا ہے ۔ صاحب فہم وبصیرت حضرات یہ دیکھتے ہیں کہ کیا اس تنوع میں کسی وحدت کو ڈھونڈا جاسکتا ہے ؟اور وہ جو مخالف ہوتے ہیں، وہ اس تنوع کو رفتار پر محمول کرتے ہیں اور اصل شے سے بالکل الگ ایک مفہوم تراش لیتے ہیں۔

ہرفرقہ جو گمراہ ہوتا ہے وہ اسی سبب سے کہ محکمات ومتشابہات میں فرق وامتیاز اٹھادیتا ہے ۔ مثلاً عیسائی کیوں تثلیث کی طرف مائل ہوئے؟ اس لیے کہ جب وہ یونانی عقائد ذمیمہ سے دوچار ہوئے اور متاثر ہوئے تو انھوں نے انجیل سے اس بت پرستانہ عقیدہ کو استنباط کرنا چاہا۔ انھوں نے دیکھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے لیے '' ابن اللہ'' کا لفظ اکثر استعمال کیا گیا ہے اور یہ کہ خدا اپنے لیے اکثرمتکلم مع الغیر کا صیغہ استعمال کرتا ہے ۔لہٰذا وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ تثلیث ایک درست اور صحیح عقیدہ ہے، حالانکہ یہ صحیح نہیں۔ اگر وہ مرکز واساس کو ہاتھ سے نہ دیتے اور حقیقت ومجاز میں فرق وامتیاز قائم رکھتے تو ایسی خطرناک ٹھوکر ہرگز نہ کھاتے۔'' ابن اللہ'' بطور مجاز کے مستعمل ہوا ہے ۔ جس کے معنی محبوب وپیارے کے ہیں۔ انجیل اور دیگر کتب سماویہ کی مرکزی تعلیم توحید ہی ہے۔ انجیل میں صاف لکھا ہے کہ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا ۔ توریت میں بار بار یہودیوں کو بت پرستی پر ٹوکا گیا ہے ۔

غرضیکہ قرآن حکیم جو کفر وزندقہ کے تمام احتمالات کو بیان فرماتا ہے ۔ یہ کہتا ہے کہ فتنہ و تاویل کے لیے قرآن حکیم کی ورق گردانی نہ کرو۔ عمل وایمان کے لیے قرآن حکیم محکمات وبینات سے معمور ہے ۔ متشابہات اور قابل تاویل واحتمال آیات کو انھیں بینات پر ڈھالنے کی کوشش کرو اور کہو کہ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ ہمارے دل میں زیغ والحاد کی آلودگیاں پیدا نہ ہوں اور یہ کہ ہم قرآن حکیم پر عمل کرنے کی وجہ سے اس کی رحمتوں کے سزاوار اورمستحق ہوں۔
حل لغات
{مُحْکَمٰتٌ} واضح،حکیمانہ اور قابل تاویل آیات{مُتَشَابِھَاتٌ}محل تاویل وتفسیر{اَلرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ} علم میں کامل دستگاہ رکھنے والے۔
 
Top