• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

متفرق توہمات

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
متفرق توہمات

منحوس ہیرا:
اس ہیرے کا نام تو امید (Hope) ہے مگر مشہور ہے کہ یہ اپنے ہر مالک کے لئے منحوس ثابت ہوا کیونکہ اس سے ایک لعنت یا بد دعا وابستہ ہے۔ یہ ہیرا صدیوں پہلے حیدرآباد دکن میں گولکنڈوں کی کانوں سے نکالا گیا تھا۔ پھر مغربی دنیا میں پہنچا اور آج ایک عجائب گھر کی زینت ہے۔ اس کی مالیت 30 سے 35 ارب روپے بتائی جاتی ہے۔ ہیرے کا موجودہ وزن 45.92 قیراط ہے۔
روایت کے رو سے یہ ہیرا ایک مندر میں سیتا دیوی کی آنکھ میں نصب تھا۔ وہاں سے ایک فرانسیسی مہم جو، جین ٹیورنیئر نے اسے 1640ء تا 1667ء کے درمیان کسی وقت چرایا اور فرانس لے آیا۔ تب ہی مندر کے پجاری نے یہ ’’شٹراپ‘‘ دیا کہ یہ ہیرا جس کے پاس جائے، وہ کبھی سکون کی زندگی نہ گزرا سکے گا۔ ٹیور نئیر نے ہیرا 1669ء میں فرانسیسی بادشاہ ، لوئی چہار دہم کو فروخت کر دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کے کچھ عرصے بعد ٹیورنئیر کو بھیڑیوں نے پھاڑ کھایا۔
یہ ہیرا پھر فرانس میں کئی شخصیات کے پاس رہا اور ان سب پر نحوست کےسائے چھائے رہے۔ مثلا مادام مونتے سپان کا زوال جو لوئی چہار دہم کی محبوب داشتہ تہی مگر ایک سیکنڈل نے اسے در بدر کر دیا۔ یا پھر وزیر خزانہ نکولاس کا زوال جو لوئی چہاردہم کا منظور نظر تھا لیکن اسےبھی حد سے بڑی اعتمادی لے ڈوبی۔
مختلف ہاتھوں سے گزر کر یہ ہیرا اسیک اور فرانسیسی بادشاہ لوئی شانزدہم تک پہنچا۔ اسی بادشاہ کے دور میں فرانسیسی انقلاب برپا ہوا اور اسے اپنی مالکہ ماری انتوانت کے ساتھ پھانسی چڑھا دیا گیا۔ یہ 1792ء کی بات ہے۔
ہوپ ہیرے کا اگلا مشہور مالک برطانوی بادشاہ جارج چہارم تھا۔ یہ انتہائی شاہ خرچ اور شرابی کبابی آدمی تھا۔ جب یہ 1820ء میں مرا تو مختلف بیماریوں کا شکار تھا اور اس کی موت اذیت ناک انداز میں ہوئی۔
1839ء میں معلوم ہوا کہ ہوپ ہیرا ایک برطانوی بینکار، ہنری فلپ ہوپ کے پاس ہے۔ (اس کو ہوپ کا نام تبھی ملا) ہنری پر اسرار طور پر اسی سال چل بسا۔ اب وہ اس کے بڑے بیٹے کو وراثت میں ملا۔ پھر کئی ہاتھوں سے ہوتا اور اپنے مالکوں کو دردناک انجام سے دو چار کرتا ہو 1958ء میں آخر کار اسمتھ سونین انسٹی ٹیوٹ (امریکہ) پہنچ گیا۔ تب سے ہی موجود ہے۔
کئی مورخین کا کہنا ہےکہ ہو پ ہیرے سے کوئی بد دعا وابستہ نہیں اور اس سے متعلق بیشتر واقعات افسانے ہیں۔ یہ واقعات بیسویں صدی میں ہیرے کے تاجروں نے تراشے تھے تاکہ ہوپ کی قدر وقیمت بڑھا سکیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں انہوں نے دی ٹائم ، واشنگٹن پوسٹ اور دی نیویارک ٹائمز جیسے موقر اخبارات میں مضامین بھی شائع کرائے۔(سنڈے ایکسپریس رپورٹ : 23 اگست 2009ء)
ہچکی آنا:
یہ ایک عام تصور ہے کہ اگر ہچکی آئے تو کوئی نہ کوئی اس کو یاد کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی روایات ہیں کہ ہچکی آئے تو قبر یا د کرتی ہے۔
زبان دانتوں کے نیچے دب جانا:
اگر زبان دانتوں کے نیچے آ جائے، کچلی جائے تو اس سے یہ بدشگونی لی جاتی ہے کہ ضرور کوئی کہیں میرے بارے میں غیبت کر رہا ہو گا۔
چار پائی پر بیٹھ کر پاؤں ہلانا:
چار پائی پر بیٹھ کر اگر پاؤں ہلائے جائیں تو اس سے منع کیا جاتا ہے کیونکہ اس نحوست کا عمل گردانا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ اس سے پیر ہلانے والے کو بخار ہو جائے گا یا اسے کوئی مصیبت آ پہنچے گی۔
جھاڑو:
عصر کے وقت جھاڑو لگانے کو نحوست کا عمل تصور کیا جاتا ہے۔ اس علاوہ اگر جھاڑو لگاتے ہوئے کسی کو جھاڑو لگ جائے تو اس سے یہ بدشگونی لی جاتی ہے۔تاکہ جس کو جھاڑو لگا ہے وہ سوکھ جائے گا۔
مولانا اشرف علی تھانوی ’’ اغلاط العوام‘‘ میں رقمطراز ہیں:
’’ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جھاڑو مار دینے سے مضروب علیہ ( جس کو جھاڑو مار دی جائے) اس کا جسم سوکھ جاتا ہے۔ جھاڑو پر تھتکار دو۔سو یہ بات محض بے اصل ہے۔
مشہور ہے کہ اگر بستر کو جھاڑو سے صاف کیا جائے تو گھر کا صفایا ہو جاتا ہے یہ بھی بد شگونی اور محض غلط ہے۔‘‘(اغلاط العوام از مولانا محمد اشرف علی تھانوی : ص 46)
آنکھ کا پھڑکنا:
اگر دائیں آنکھ پھڑکیں تو کسی مہمان کے آنے کا شگون لیا جاتا ہے اور اگر بائیں آنکھ پھڑکے تو اس سے یہ شگون لیا جاتا ہے کہ کوئی مرنے والا ہے یا کوئی مصیبت آنے وای ہے۔
شیشے کا ٹوٹنا:
اگر شیشہ ٹوٹ جائے تو اس سے برا شگون لیا جاتا ہے۔
دودھ گرنا:
اگر دودھ حادثا گر جائے یا ابل جائے تو اس سے بھی مصیبت آنے کی بد شگون لی جاتی ہے۔
قینچی:
اس طرح اگر بچے کے ہاتھ میں قینچی ہو اور وہ اسے بجا رہا ہوتا ہے تو اسے اس عمل سے روکا جاتا ہے یہ کہہ کر کہ نہ بجھاؤ اس سے لڑائی ہو جائے گی۔
مولانا اشر ف علی تھانوی لکھتے ہیں:
’’ یہ مشہور ہے کہ قینچی نہ بجاؤ آپس میں لڑائی ہو جائے گی۔‘‘(پاکستان کا ثقافتی انسائیکلو پیڈیا : ص 338)
جالا:
اگر چھت پر جالا لگا تو اسے بھی نحوست کی علامت سمجھا جاتا ہے اور جتنی جلدی ممکن ہو سکتا ہے اسے صاف کروا دیا جاتا ہے۔
13 منحوس نمبر:
13 نمبر کو عمومی طور پر منحوس سمجھا جاتا ہے اور اسے مصیبت و نحوست کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
بعض جگہ تیرہویں تاریخ کو کچھ گھونگنیاں وغیرہ پکا کر تقسیم کی جاتیں ہیں کہ اس کی نحوست سے محفوظ رہیں۔(اشرفی بہشتی زیور از مولانا محمد اشرف علی تھانوی : ص 330)
 
Top