• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

متی نصر اللہ

شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234
اللہ کی مدد کب آئے گی



امت مسلمہ کے اپنی کثرت تعداد کے باوجود باطل کے اقتدارکے سائے میں اور اقوام وملل میں اس کی طاقت وسطوت کے چرچے کے درمیان ہر بندۂ مومن دین اسلام کے روشن دن کا انتظار کررہا ہے، جس دن توحید وایمان کا پرچم دنیا میں لہلہارہا ہوگا اور جس دن حق کی کرنیں کفر وطغیان سے بھری ہوئی دنیا کے چپے چپے میں دکھائی دیں گی۔

لیکن یہ روشن اور تابناک دن اوراس امنگ اور آرزو کی تکمیل کے لئے ہر بندۂ مومن کو نصرت الہٰی اور موجودہ صورتحال سے چھٹکارے کی راہ تلاش کرنا ضروری ہے، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم کتاب الہٰی سے اپنے رشتے کو مضبوط کرلیں، جس کے ذریعے ہم مطلوبہ مقصد کی تکمیل کے لئے کائناتی اور نفسیاتی طریقوں کو حاصل کرسکیں گے، سخت بحران اور شدت کے زمانے میں مومن گروہ کا حال ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ ان کی زبان سے [متی نصر اللہ ] اللہ کی مدد کب آئے گی [البقرة:214] کی آوازیں سنی جاتی ہے۔ ہم نے اسی اہم مسلئے کو اپنی گفتگو کا موضوع بنایا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِكُم مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاء وَالضَّرَّاء وَزُلْزِلُواْ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللّهِ أَلا إِنَّ نَصْرَ اللّهِ قَرِيبٌ} [البقرة:214]
ترجمہ: کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ (یوں ہی) بہشت میں داخل ہوجاؤ گے اور ابھی تم کو پہلے لوگوں کی سی (مشکلیں) تو پیش آئی ہی نہیں۔ ان کو (بڑی بڑی) سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ (صعوبتوں میں) ہلا ہلا دیئے گئے۔ یہاں تک کہ پیغمبر اور مومن لوگ جو ان کے ساتھ تھے سب پکار اٹھے کہ کب خدا کی مدد آئے گی ۔ دیکھو خدا کی مدد (عن) قریب (آيا چاہتی) ہے۔

آیت بالا خندق کے دن نازل ہوئی،جب مسلمان سخت کڑاکے کی سردی اور رہائش کی تنگی کے سبب زبردست نفسیاتی اور جسمانی تکلیفوں اور مصائب سے دوچار ہوئے تھے، کفر وباطل کی طاقتیں اسلام کے ڈھانچے کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لئے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑی تھیں،قرآن کریم نے بلیغ انداز میں اس واقعہ کی منظرکشی کی ہے:
{إِذْ جَاؤُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتْ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا (10) هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالاً شَدِيداً} [الأحزاب:10-11]
ترجمہ: جب وہ تمہارے اُوپر اور نیچے کی طرف سے تم پر چڑھ آئے اور جب آنکھیں پھر گئیں اور دل (مارے دہشت کے) گلوں تک پہنچ گئے اور تم خدا کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے، وہاں مومن آزمائے گئے اور سخت طور پر ہلائے گئے۔

زبردست آزمائش کے باوجود مسلمانوں نے صبر کے دامن کو تھامے رکھا اور حکم الہٰی کو بجالاتے رہے یہاں تک انھوں نے اپنی آنکھوں سے کھلی مدد الہٰی کو دیکھا،کفر وباطل کی افواج کو ذلت آمیز شکست کا سامنا ہوا، اور ذلت ورسوائی ان کا مقدر بنی، یہ واقعہ امت اسلامیہ کے لئے ایک عظیم درس کی حیثیت رکھتا ہے نیز اس واقعہ سے نصرتِ الہٰی کی حقیقت اور اس تک رسائی کے طریقہ کار کا انکشاف ہوتا ہے۔
ہماری فہم کے مطابق ہم اس درس سے اُن سوالات اور وقتا فوقتا اٹھنے والی اُن آوازوں کا جواب حاصل کرسکتے ہیں، جو موجودہ دور میں امت کے حلقوں سے سنائی دے رہی ہیں : ظلم وطغیان کی شکست کا وقت کب آئے گا؟ بھلا ہم قید سے کب رہا پائیں گے؟ وہ دن کب آئے گاجس دن اسلام کا سورج طلوع ہوگا اور ظلم وطغیان کی تاریک ترین رات ختم ہوگی؟
ذہنوں میں سوالات کی بھرمار ہیں، لیکن اس کا جواب ایک ہی ہے ۔۔۔وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت ومصلحت کے مطابق حق وباطل کے درمیان مقابلہ مقدر فرما دیا ہے اور یہ رب ذوالجلال کی حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے سنت چلی آرہی ہے لیکن انجام کار متقین اور اللہ تعالیٰ کے پرہیزگار بندوں کےہی حق میں ہوگا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ} [المجادلة:21]،
ترجمہ: خدا کا حکم ناطق ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ضرور غالب رہیں گے۔ بےشک خدا زورآور (اور) زبردست ہے۔
اورارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ{171} إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنصُورُونَ{172} وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ [الصافات: 171-173].
ترجمہ: اور اپنے پیغام پہنچانے والے بندوں سے ہمارا وعدہ ہوچکا ہے، کہ وہی (مظفرو) منصور ہیں، اور ہمارا لشکر غالب رہے گا۔

اور نبی پاک ﷺ نے اپنی امت کو خوشخبری سنائی، حضرت تمیم داری ؓ کہتے ہیں :میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
«ليبلغن هذا الأمر ما بلغ الليل والنهار، ولا يترك الله بيت مدرٍ ولا وبرٍ الا أدخله الله هذا الدين، بعزّ عزيز أو بذلّ ذليل، عزاً يعز الله به الإسلام، وذلاً يذل الله به الكفر» [رواه أحمد في " مسنده " و البيهقي في " سننه "].
ترجمہ: یہ دین ہر اس جگہ تک پہنچ کر رہے گا جہاں دن اور رات کا چکر چلتا ہے، اور اللہ کوئی کچا پکا گھر ایسا نہیں چھوڑے گا جہاں اس دین کو داخل نہ کردے، خواہ اسے عزت کے ساتھ قبول کرلیا جائے یا اسے رد کرکے ذلت قبول کرلی جائے، عزت وہ ہوگی جو اللہ اسلام کے ذریعے عطاء کرے گا اور ذلت وہ ہوگی جس سے اللہ کفر کو ذلیل کردے گا۔

اللہ تعالیٰ کی جانب سے مومنین کے لئے وعدہ کی گئی یہ نصرت اور مدد محض دنیا میں ہی نہ ہوگی، بلکہ اللہ تعالیٰ آخرت میں بھی مومنین کی مدد ونصرت فرمائیں گے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ} [غافر:51]
ترجمہ: اپنے پیغمبروں کی اور جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کی دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں اور جس دن گواہ کھڑے ہوں گے (یعنی قیامت کو بھی)۔
بعض لوگ سوال کرتے ہیں : کہ بعض انبیاء کرام کو ان کی قوم نے قتل کردیا جیسے حضرت یحی علیہ السلام اور زکریا علیہ السلام اور بعض قوموں نے اپنے نبی کو ملک بدر کردیا جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام ، تو یہ واقعات آیت بالا سے مطابقت نہیں رکھتے جس میں کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کی دنیا اور آخرت میں مدد فرماتے ہیں۔ اس کا صریح اور کھلا جواب یہ ہے کہ آیت بالا اور واقعات میں کبھی تعارض نہیں ہوسکتا بلکہ انبیاء علیہم السلام کو ان کی وفات کے بعد نصرت الہٰی حاصل ہوئی ہے، جیسا حضرت یحیٰ اور حضرت زکریا علیھماالسلام کے ساتھ ہوا ، اللہ تعالیٰ نے ان کے قاتلین پر دشمنوں کو مسلط فرمادیا ، جنھوں نے ان کا خون بہایا اور ان پر غالب آگئے، نمرود کی اللہ تعالیٰ نے زبردست پکڑ فرمائی اور اپنے نبی حضرت ابراہیم کی مدد فرمائی اور انہیں غالب کیا۔صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
«يقول الله تبارك وتعالى: من عادى لي ولياً فقدآذنته بالحرب» [رواه البخاري]،
ترجمہ: ''جس نے میرے دوست سے دشمنی کی تو میں نے اس کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا''۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کی مدد ونصرت فرمائی، اور اپنے کلمہ کو سربلند فرمایا، اور کافروں کے کلمے کو پست فرمایا اور مومنین کو دشمنوں کے درمیان رکھ کر نجات دی اور ان پر غلبہ عطا فرمایا۔
ہمارا جواب واضح اور صریح ہے، جو ہر بندۂ مومن کو پسند آئے گا، لیکن حقیقت راز یہی نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے اصحاب اخدود کے بارے میں ہمیں بتایا ہے، ارشاد ربانی ہے:
{إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ} [البروج: 10]
ترجمہ:جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو تکلیفیں دیں اور توبہ نہ کی ان کو دوزخ کا (اور) عذاب بھی ہوگا اور جلنے کا عذاب بھی ہوگا۔
عذاب جہنم ایک دردناک انجام ہے، جس سے ہر بندۂ مومن کا دل پارہ پارہ ہوجاتا ہے، جب وہ خیالات کی دنیا میں اس منظر کو دیکھتا ہے تو وہ اپنے آنسو پر قابو نہیں پاسکتا، اللہ تعالیٰ نے مومنین کو یہ خبر نہیں دی کہ اس نے مجرم قاتلوں پر آسمانوں سے لشکروں کو روانہ کیا اور یہ بھی نہیں کہا کہ اس نے مجرمین کو زمین میں دھنسا دیا یا ان پر آندھی چلائی، یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں نہیں بتائی، تو پھر نصرت کہاں؟!! دراصل اللہ تعالیٰ تو امت کوایک عظیم درس دینا چاہتے ہیں اور وہ درس یہ ہے کہ نصرت ومدد الہیٰ ظاہری اسباب اور محض جلد بازی کی سزاؤں میں نہیں رکھی ہوئی ہے بلکہ حقیقی نصرتِ الہٰی اصول وضوابط پر جمنے اور ثابت قدم رہنے میں مضمر ہے۔
یقیناً مومنین شہداءحقیقی غلبہ پانے والے ہیں، کیونکہ وہ عظیم آزمائشوں، مصائب اور دردناک تکلیفوں کے باوجود ایمان پر ثابت قدم رہے، یہی ان کی حقیقی نصرت ہے، جس سے امت کو درس لینا چاہئے اور اسے بھلانا نہیں چاہئے۔
باوجود اس کے کہ ظاہری مدد اور نصرت بسا اوقات اللہ تعالیٰ کی حکمت ومشیت کے سبب موخر ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ اپنی نصرت کبھی تاخیر سے بھیجتے ہیں ،جس کے پیچھے ایسے اسباب ہوتے ہیں جو ان لوگوں کے سوا جنہیں اللہ تعالیٰ نے عقل وفہم کی دولت سے نوازا ہے، کوئی نہیں جانتا، ان اسباب کی وجہ سے امت اسلامیہ کے افراد نصرت الہٰی کو سنبھالنے کے اہل نہیں ہیں، اگر اسے مدد الہٰی حاصل ہوجائے تو امت اسباب کے نہ پائے جانے کی وجہ سے بہت جلد اپنے اقتدار کو کھودیں گی۔اللہ تعالیٰ بندوں سے چاہتے ہیں کہ وہ اپنے مالک سے اپنے رشتے کو مضبوط کریں، اپنی ظاہری خواہشات اور دنیوی امنگوں کو خیرباد کہے ، امت نصرت الہیٰ کی اہل اسی وقت ہوگی جب اس کے پاس نصرت الہٰی کے لئے درکار تمام وسائل پائے جائیں، بعض اوقات وسائل کے باوجود مصلحت خداوندی سے نصرت الہٰی میں تاخیر ہوتی ہے، اس سے اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کی آزمائش چاہتے ہیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ رب العزت اپنے کلمے کو عنقریب سربلند فرمائیں گے، اپنے دین کی نصرت وحمایت فرمائیں گے، لیکن یہ حمایت ومدد کب آئے گی جب بندے نصرت الہٰی کے لئے درکار وسائل جمع کرلیں گے، اس دن مومنین اللہ تعالیٰ کی نصرت پر خوشیاں منائیں گے، اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہوگا، اور مشرق ومغرب کی فضاؤں میں محمد عربی ﷺ کی دعوت کی گونج سنائی دے گی، ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ ہمیں بھی وہ دن دکھائے۔ اور بیشک یہ کام اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی مشکل نہیں۔
 
Top