عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
مجالس میں بچوں کے فرائض اور والدین کی ذمہ داریاں
عبدالسلام عاصم
اصلاح معاشره
میں نے اپنے ناقص علم کے مطابق حرفے چند میں ان حقوق کو سمیٹنےکی کوشش کی ہے جن کی ذمہ داری خالصتاً ایک باپ پر عائد ہوتی ہیں بلاشبہ اسلام نے والدین کو ایک عظیم مقام و مرتبہ سے نوازا ہے جن کا حق ادا کیے بغیر جنت کا حصول ممکن نہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام نے والدین سے اولاد کے حقوق و تربیت کا بھی شدت سے مطالبہ کیا ہے۔ لیکن افسوسناک صورت حال یہ ہےکہ بعض والدین تو اولاد کو بالکل آوارہ چھوڑ دیتے ہیں جس سےوہ جلد ہی صحبت بد کا شکار ہوکر معاشرے میں اپنی دانست کےمطابق غیراسلامی اور غیر معیاری رویے اپناتے ہیں۔ پھر بعض اوقات والدین کوشرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے او رسب سے زیادہ شرمندگی اور افسردگی اس وقت اٹھانا پڑتی ہے جب بچے مجالس و محافل میں نازیبا حرکات سے والدین کی ناقص تربیت کا ثبوت دے رہے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک باپ کے لئے ضروری ہے اور اسلامی آدب کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مجالس میں آداب اور اخلاقیات کی اعلیٰ اقدار کو اپنایا جائے تاکہ نسل نو بلند مرتبہ اسلوب زندگی سے آراستہ ہوسکے اور معاشرے میں عزت و اہمیت کی نگاہ سے دیکھی جائے۔ لوگ اس سے نفرت کی بجائے محبت کریں۔ اس حوالے سے چند آداب ہیں جو مجالس میں اپنائیت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ میں ان کی طرف توجہ و رغبت دلانا ضروری سمجھتا ہوں۔
مہمان کی آمد پر بچوں کا رویہ :
چنانچہ سب سے پہلی اور بنیادی بات محفل و مجلس میں میزبانی کے حوالے سے ہے کہ آنے والے مہمانوں سے بچوں کا رویہ کیسا ہو؟اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بڑے لوگوں کی اولادیں مہمان سے ملاقات کرنے، خندہ پیشانی سےملنے اور ایک دوسرے کی معرفت حاصل کرنے میں کراہت محسوس کرتی ہیں بلکہ اس عمل کو اپنے لئے ایک حقیر عمل سمجھتی ہیں۔اس کی وجہ صرف ایک ہی ہوسکتی ہے کہ ہمارے ہاں نسل نو کی اس معاملے میں تربیت بہت کم ہوتی ہے کہ بچےمہمانوں سے کس انداز سے پیش آئیں۔ ان سے بات چیت کیسے کریں۔ کن کن چیزوں کا خاص خیال رکھنا چاہئیے کہ مہمانوں کی دل آزاری نہ ہو او روہ سمجھیں کہ میں کسی بیگانے کے پاس نہیں بلکہ کسی اپنے کے ہاں ہی ٹھہرا ہوں۔ یہ کوئی معمولی عمل نہیں ہے بلکہ رسول اللہﷺ نے اس کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ہی فرمایا تھا:
﴿مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُؤْذِ جَارَهُ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ ﴾[2]
’’جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اپنےمہمان کی عزت کرے۔‘‘
لہذا ایک محسن باپ وہ ہے جو ایک مربی کی حیثیت سے اپنے بچوں کو اخلاقیات کی طرف توجہ دلائے ۔ انہیں اچھے نصائح سے نوازے او ران نصائح کوعملی جامہ پہنانے کےلئے اپنے بچوں کو گاہے بگاہے تربیت کے اہم پہلوؤں سے شناسائی کراتا رہے تاکہ جب کہیں اتفاقاً وہ گھر میں موجود نہ ہو یا اچانک مہمانوں کو چھوڑ کر کسی کام کے لئے باہر جانا پڑے تو اس کی عدم موجودگی میں اس کے بچے مہمانوں سے اچھے انداز سے پیش آسکیں اور ن میں بڑوں سے بہترین انداز میں بات چیت کرنےکی قدرت پیدا ہوسکے۔ لیکن یہ تب ہوگا جب بچے پہلے سے ہی مہمان نوازی کے اسلوب سے آگاہ ہوں گے۔ جبکہ عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ بچے مہمان کی خدمت میں اس قدر کراہت محسوس کرتےنظر آتے ہیں کہ اگر کسی کو کہا جائے کہ مہمان کے لئے شربت یا سادہ پانی یا کچھ کھانے کو لے آؤ یا ایک سے دوسری مرتبہ کوئی کام کہا جائے تو اس میں اپنی بے عزتی او رحقارت محسوس کرتے ہیں۔ اس عمل کو اپنی شخصیت کےمنافی سمجھتے ہیں ۔یہ نوبت اس وقت آتی ہے جب والدین کی طرف سے بچوں کو تربیت کے ان سنہری اصولوں سے آگاہ نہ کیا گیا ہو جو کہ چھوٹی عمر میں ہی ذمہ دار والدین اپنے بچوں کو سکھا لیتے ہیں ۔ والدین پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ باپ اپنے بچوں کو بتائے کہ اپنے ہاتھوں سےمہمان کی خدمت کرنا او ران سے خندہ پیشانی سے پیش آنا کتنا اہم اور عظیم عمل ہے ۔کائنات کے افضل البشر، خیر الخلائق محمد الرسولﷺ کا طرز زندگی اور آپ کی تعلیم کا یہ اہم جزء ہے ۔ آپؐ اپنی قدرومنزلت کے عظیم ترین مقام اور جلالت کے اعتبار سے بلندپایہ مثال ہونے کے باوجود اپنے مبارک ہاتھوں سےمہمانوں کی خدمت کیاکرتے اور یہی عمل اللہ کے پیارے حبیب حضرت ابراہیم خلیل اللہ کا بھی تھا ۔اس سے معلوم ہوا کہ یہ کوئی معمولی عمل نہیں بلکہ یہ شیوہ پیغمبری ہے۔