• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مجاہدین کے لیے وصیتیں!! مجرد خوبصورت افکار اور حقیقتِ واقعہ میں فرق کریں!!

شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65

مجاہدین کے لیے وصیتیں!!​
مجرد خوبصورت افکار اور حقیقتِ واقعہ میں فرق کریں!!​

جب لوگ جہاد کے متعلق بات کرتے ہیں.........تو یہ بہت خوبصورت کلمہ ہے.........الجہاد فی سبیل اللہ.........لیکن حقیقت اپنی تمام شکلوں میں اتنی خوبصورت نہیں ہوتی۔پس جہاد سے مراد لچھے دار تقریریں نہیں.........نہ ہی جہاد چند خوبصورت کلمات کہہ دینے سے عبارت ہے.........نہ ہی جہاد میں ہر وقت غنیمتیں ہی ہوتی ہیں.........اور نہ ہی ہر وقت نصرت و فتح ہوتی ہے۔ بلکہ جہاد میں مشقت اور مشقتِ عظیم ہے......... پھر اس میں لشکروں کا اختلاط اور لوگوں کے درمیان جھگڑے بھی ہوتے ہیں۔فلاں نے اس کیساتھ جھگڑا کیا،فلاں نے فلاں کو مارا.........فلاں کا مسئلہ ہوگیا.........یہ ایک بشری مسئلہ ہے اس میں اجتہاد و خطاء بھی ہے۔اس میں تاویل بھی ہے جو دوسری تاویلات پر حاوی ہو جاتی ہے.........پس مجرد خوبصورت افکار اور حقیقتِ واقعہ میں فرق کرنا بہت ضروری ہے۔
اگر ہم لوگوں کے ''اسلامی خلافت''کے بارے میں تصور کو دیکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ وہ خوابوں کی دنیا میں رہ رہے ہیں.........جہاں ہرتصویر خوبصورت ہے،اڑتے ہوئے قالین ہیں.........بکھرتے رنگ ہیں.........اور آسمان سے ہر وقت مدد نازل ہوتی رہتی ہے اورہر چیز کا منبع قوت سے بھرا ہے۔ہمارے دشمن بھی اس بات سے خائف ہیں کیونکہ وہ ہمارے قتال میں فرشتوں کے نزول کی باتیں اچھی طرح جانتے ہیں۔پس سبھی یہ تصور کرتے ہیں کہ اسلام کی حکومت ایسی ہوگی کہ اس میں کوئی فقیر اور مریض نہ ہوگا اور ہر بندہ جو طلب کرے گا اس کے سامنے آموجود ہوگا۔لیکن اگر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک کی طرف نظرڈالیں تو یہ خیالی جنت ہمیں وہاں بھی نظر نہیں آئے گی۔بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کی تکالیف مدینہ میں ان کی مکہ میں تکالیف سے بھی زیادہ تھی۔
توکیا صحابہ کے ساتھ جو مدینہ میں پیش آیا وہ مکہ میں بھی پیش آیا تھا۔جب انہیں غزوہ خندق پیش آیا﴿إِذْ جَاءُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَاهُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا﴾ جب وہ(افواجِ قریش)تمہارے اوپر اور نیچے کے علاقوں سے بھی آگئیں،جب آنکھیں پتھرا گئیں اور دل حلق کو آگئے،اس وقت مومنوں کی آزمائش کر لی گئی اور انہیں زلزلے کے ساتھ دہلا دیا گیا ۔ یہ اسلام کی حکومت میں ہی ان کی آنکھیں پتھرا گئیں اور دل حلق کو آگئے اور ایسی آزمائش نازل ہوئی جو زلزلوں کی مانند تھی۔
اس تصویر پر غور کیجیے اور اس تصویر کو ملاحظہ کیجیے جسے اس زمانے کے مشایخ پیش کرتے ہیں۔وہ اس میں ایسا رنگ بھرتے ہیں کہ اس میں کوئی مشقت نہیں، ہر انسان کے لیے علیحدہ گھر ہے اورلوگ صرف اسلام اور اہل اسلام کودیکھ کے ہی اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں اس طرح لوگ اسلام اور ہماری'' جماعت ''میں شامل ہوتے جاتے ہیں۔کیونکہ ایسے لوگوں کے ذہن میں یہی ہوتا ہے کہ ساری جماعتوں اور گروہوں کے درمیان ہم ہی ایسا گروہ ہیں جسے یہ نعمت بخشی جائے گی جویہ امن لوگوں کو مہیا کر پائے گا۔
لیکن اگر میں کہوں کہ اسلامی حکومت میں ہی تین خلفائے راشدین ایسے لوگوں کے ہاتھوں قتل کر دیے گئے جنہیں اس کام کے لیے زیادہ منصوبہ بندی بھی نہ کرنا پڑی۔امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ.........انہیں ابو لو لوء ۃ المجوسی نے فجر کی نماز کے وقت قتل کیا جب مسلمانوں کے سردار، علماء و شیوخ وہاں موجود تھے.........امیر المومنین ذالنورین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پربلوائیوں نے غلبہ پالیا اور مدینہ پر قبضہ کرلیا اور خلیفہ کو اس کے گھر میں گھس کر قتل کردیا.........مدینہ کے وسط میں لوگوں کے درمیان.........امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ مسجد کے وسط میں کھڑے لوگوں کو فجر کی نماز کی طرف بلارہے تھے اور لوگوں کے درمیان.........ابنِ ملجم خارجی آیا تو وہ آپ کے سر پر تلوار کی ضرب لگاتا ہے جبکہ اس نے اپنے گروہ کے ساتھ اسی دن معاویۃرضی اللہ عنہ اورابن العاص رضی اللہ عنہ کے قتل پر اتفاق کر رکھا ہے۔یہ خلافتِ راشدہ کا دور تھا اور کسی کو کیا معلوم کہ اس دور کے بعد کیا تھا؟؟
اس لیے ہم کہتے ہیں جو لوگ عملی عالمِ اسلام کا تصور کرتے ہیں.........مسلمان انسان کی زندگی کی تحریک.........یہ ایسی تحریک ہے کہ کسی بھی پہلو سے ایک بشری تحریک ہونے سے خارج نہیں ہے.........لیکن جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تحریک انسانی پیمانوں سے بالا ہے وہ وہم میں مبتلا ہیں اورحقیقت سے آنکھیں بند کر کے خیالوں کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔لیکن جو نہی ایسے لوگوں کے خیالوں کی دنیا کا محل کسی تلخ حقیقت کے ساتھ گر جاتا ہے تو وہ فورا منہ موڑ لیتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی اس تحریک سے مکمل علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں کہ وہ اس مسئولیت کو اٹھانے سے عاری ہیں۔
کتابوں کے درمیان اور کتابوں کے ساتھ ہی زندہ رہنا.........قلم،افکار اور اوراق.........صرف یہی اسلام نہیں ہے بلکہ اسلام تو انسانی زندگی کی تحریک ہے.........ایسا انسان جس میں خوبیاں بھی ہیں خامیاں بھی.........خوبیاں تقویت ومدد کا باعث ہیں اور خامیاں و غلطیاں درست کی جاتی ہیں۔پس عملی عالمِ اسلام میں درستگی بھی ہے،اس میں ظلم بھی ہے،سچائی بھی اور جھوٹ بھی اور ہر چیز کا اسلام میں اپنا مقام ہے۔
اسلام وقوعِ خطاء کا اعتراف کرتا ہے اور اسے مخلوق میں ناپید نہیں سمجھتا۔اسی لیے اللہ عزوجل نے سزائیں اور حدود مقرر کی ہیں اور اس کے لیے احکام نازل کیے ہیں۔اسلامی احکام میں سارا خطابِ ربانی مسلمان موحد ومجاہد کے لیے ہی ہے نہ کہ غیر مسلموں کے لیے۔
اسی لیے ہم فتنہ یعنی آزمائش کے دور میں واقع ہوئی جنگوں جو علی اور معاویہ و ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہم کے درمیان بر پا ہوئیں، کے متعلق ہم صحابہ کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔اس کے متعلق ہم وہی احکام وارد کرتے ہیں جن کی صحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جیسے کہ آپ نے عماررضی اللہ عنہ سے فرمایا(تَقۡتُلُکَ الفِئةُ البَاغِیَة)تجھے باغی گروہ قتل کرے گا، اور اس جیسی دوسری احادیث!!۔لیکن اگر ہم اس حقیقت کو قریب سے دیکھیں تویہ ایسا دور تھا جواچھے زمانوں کے بہت قریب تھا.........اس سب کے باوجود اگر ہم غور کریں کہ ایسے حادثات واقع ہوئے جن کی ہولناکی بچوں کو بوڑھا کردے.........مثلاً
(۱)الخوارج.........چار ہزار خارجیوں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے خلاف قتال کا فیصلہ کیا اور کوفہ میں تین ہزار خوارج نے ان کے خلاف عدمِ قتال کی راہ لی۔علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے انہیں کہاکہ میرے اور اپنے دشمن معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف میرے ساتھ چلو۔لیکن انہوں نے انکار کردیا کہ ہم نہ جائیں گے یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ اپنے کفر کا اعتراف کریں اور اپنی توبہ کا اعلان کریں!!۔پھر جب انہوں نے خباب بن الارت رضی اللہ عنہ کو ان کی حاملہ بیوی کے ساتھ قتل کردیا تو جنابِ علی رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف نہروان کے مقام پر جنگ کی اور ان سب کو قتل کردیا اور اس جنگ میں سوائے 400زخمیوں کے کوئی نہ بچا!!۔
(۲) جنگِ جمل جو بصرہ کے علاقے خریبہ میں ہوئی(جیسے کہ عمر بن شیبہ نے روایت کیا ہے) یہ معرکہ مسلمانوں اور مسلمان قبائل کے ہی درمیان تھا.جہاں قبیلہ مضر ،مضر کے خلاف،ربیعہ،ربیعہ کے خلاف اور اہلِ یمن ،یمنیوں کے ہی خلاف بر سرِ پیکار تھے۔وہ سب دین، منہج اور حتی کہ نسب میں بھی بھائی تھے.........انہی جنگوں میں جنت کی بشارت دیے گئے صحابہ طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما قتل کردیے گئے۔
(۳)جنگِ صفین جو علی رضی اللہ عنہ و معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہوئی.........ایسا معرکہ جس میں لاشوں کے انبار لگ گئے باوجود اس کے کہ بعض لوگوں نے صلح کرنے پر ابھارا اور کہنے لگے''شام کا محاذ اہلِ شام کے بعد اور عراق کا محاذ اہلِ عراق کے بعد کون سنبھالے گا.........کون ہوگا عورتوں اور بچوں کے لیے.........کیا تمہیں آپس میں اپنے رشتے بھی یادنہیں؟!۔ضعیف روایت سے دور جن میں بہت کچھ مذکور ہے لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ اس جنگ کی ہولناکی بہت شدید تھی۔
(۴)بعض عیسائی اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگئے یہاں تک کہ وہ کہنے لگے(لدیننا الذی خرجنا منہ خیر من دین ھوء لآء الذین ھم علیھم ماینھاھم دینھم عن سفک الدماء واخافة السبیل واخذ الاموال)کہ وہ دین جس سے ہم نکلے تھے ان کے دین سے بہتر تھا جس پر کہ یہ لوگ ہیں ،ان کا دین انہیں خون بہانے اور اموال لینے سے بھی نہیں روکتا۔(اسے طبری نے روایت کیا) اس پر علی بن طالب رضی اللہ عنہ نے ان عیسائیوں کے خلاف قتال کیا!!!۔
اس کے بعد جماعت کا سال آیا اور پھر ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی جنگ.........پھر.........اور .........!!!۔پس یہ انسانی زندگی کی حقیقت کا ایک رخ ہے.........انسان کی زندگی کا!!.........اس لیے اس بات کو نہیں بھولناچاہیے کجا کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بیٹھ جائیں اور لوگوں کو یہ سمجھائیں کہ انسان کی ساری زندگی رات کے قیام،دن کے روزے،باربار کی خطاء ومعافی اور ہمیشہ کی خیر وبرکت سے عبارت ہے!!۔اس پر انسان تکیہ کر کے بیٹھ جائے کہ اس کا خیالی ولی مسلمان ایسے مثالی کردار کا حامل ہے.........لیکن.........
ولی بھی انسان ہی ہے.........انسان.........بشر!!
اور مجاہد بھی انسان ہے.........انسان .........بشر!!
لیکن اسلام کی وہ خیالی تصویریں جو کبھی کارٹونوں اور فلموں میں جنوں اور فرشتوں کی دنیا کیساتھ پیش کی جاتی ہیں وہ ایسی صورت ہے جو اسلام کی شکل کو خوبصورت بنانے کے بجائے اور بگاڑ دیتی ہے۔یہ باتیں ہم اس قوم کو مخاطب کر کے کہتے ہیں جو چھوٹے امور کے لیے عظیم امور کو معطل کر دیتی ہے۔پھر ان کی حساسیت کسی بھی خیر اور فضلِ الہی کو دیکھنے سے غلطیوں کے موقع پر ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔
جہاد اللہ کی راہ میں ایک انسانی تحریک ہے جس کا ہدف اختیار وملک ہے اسی لیے اس میں انسانی زندگی کے تمام عوامل کا دخل ہے۔پس جو کوئی تلوار کی طرف بلاتا ہے تو وہ اس بات کا انتظار نہیں کرتا کہ کوئی اس کے ساتھ بحثوں اور خوبصورت الفاظ کے ساتھ مرصع خطبوں کیساتھ مناقشہ کرے گا۔بلکہ اسے بھی انتظار کرنا ہوتا ہے کہ وہ بھی تلوار کی حرارت کا ذائقہ چھکے۔.........یہ بندوں میں اللہ کی سنت ہے اور یاددہانی کے لیے .........تین خلفاء راشدین.........الشہدآء.........ایسے لوگوں کے ہاتھوں قتل ہوئے جو مسلمانوں کے ہی درمیان رہ رہے تھے۔
ابو لو ء لوء ۃ الفارسی.........کے مجوسی یا مسلمان ہونے میں اختلاف ہے!!
ابو ملجم.........خوار ج میں سے تھا!!
عثمان رضی اللہ عنہ پر حملہ کرنے والے.........ان کے بعض لوگ علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں قائد بنے!!
اس لیے اللہ تعالیٰ کی سلطنت و اختیار کو زمین پر قائم کرنے کی راہ پر جو بھی مسلمان اپنا قدم رکھتا ہے.........اپنے نفس کو طاغوت کے خلاف لڑائی کے لیے وقف کردیتا ہے.........تاکہ ان کے تخت ڈھادیے جائیں اور ان کی سرکشی کو توڑ دیا جائے.........تو ایسے شخص کا انجام معلوم ہے.........لیکن اگر وہ اپنے آپ کو اس کے لیے تیار نہیں کرتا تو وہ کسی دھوکے میں ہے.........یعنی اسکی کوئی عقل نہیں.........اس بندے کا انجام تخت ہے یا تختہ!!!
ہاں .........یہ تیرے لیے آسان ہے کہ ایک مجلہ نشر کردے تاکہ ایک جماعت وحزب کی تشکیل دی جائے اور جیلوں میں قید بھائیوں کی رہائی کا انتظار کیا جائے.........یا بادشاہ کی موت کا انتظار کیا جائے کہ شاید دوسرا اس سے بہتر ہو۔اگر معاملہ ایسا ہے تو پھر تیرے لیے بہت آسان ہے۔یعنی تو ایک سیاسی اور بیان باز آدمی ہے اور تیری فائل انٹیلی جنس والوں کے پاس موجود ہے اور وہ تجھے ایسے کھاتہ میں رکھتے کہ تو ان کے بالکل خلاف نہیں یعنی مخالف سیاست کی حدود کے اندر ہی کام کرتا ہے۔
جیسے کہ پاکستانی ایجنسیوں کی پروردہ تنظیموں(جیسے کے جماعۃ الدعوۃ، جیش محمد وغیرہ)کا حال ہے کہ وہ بھی جب تک ان کی وضع کردہ حدود وقیود کے اندر کام کرتی رہیں تو ان کا سورج چڑھا رہتا ہے لیکن جو کوئی اس کی مخالفت کرے وہ ڈوب جاتا ہے۔اسلیے اپنے منہج سے دستبردار ہونا اور اصولوں پر سمجھوتا کرنا ایسے لوگوں کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا کیونکہ ایسے لوگ تو تنخواہ کے لوگ ہیں نہ کہ اصول و عقیدہ کے۔جہاں تک کارکنان کا تعلق ہے تو ان کے سولات پر ﴿إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً﴾ کی تاویلیں پیش کردی جاتی ہیں۔اس پر بھی وظیفہ خور کارکن جو پہلے ہی اس کی تاویل کا انتظار کررہا ہوتا ہے وہ چپ سادھ لیتا ہے۔
لیکن جب تو.........جہاد وقتال.........کی راہ چلے گا تو پھر انتظار کر.........
کیا تو اپنے سے پہلے اپنے اسلاف سے بہتر ہے.........
تو اپنے پہلے ساتھیوں سے اتنا دور بھی نہیں.........
یہ عبد اللہ عزام تجھ سے زیادہ دور نہیں.........نہ ہی شیخ عمر عبد الرحمن تجھ سے دور ہیں.........
ابو طلال القاسمی کا انجام تیرے سے زیادہ دور نہیں.........نہ ہی انور شعبان !!.........
نہ ہی غازی رشید اور مفتی شامزئی کسی اور زمانے میں ہو گزرے ہیں.........
نہ ابو عبد اللہ احمد کا قصہ تجھ سے ڈھکا چھپا ہے.........یہ فہرست اے میرے مجاہد بھائی بہت طویل ہے ۔لیکن تیرے لیے یہی مثالیں کافی ہیں۔
یہ تو ایسا کام ہے کہ جس کی ہولناکی بچوں کو بوڑھا کردیتی ہے.........اس کام کے لیے بہادر مرد چاہییں!۔اس لیے اس میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لے ، بعد میں کہیں یہ نہ کہنا انہوں نے مجھے دھوکہ میں ڈال دیا تھا۔ہم تجھے کسی وزارت یا منصب کے حصول کی ضمانت نہیں دیتے.........نہ ہی یہ کہتے ہیں کہ تیرے ساتھ جہاد کرنے والے فرشتے ہیں جو غلطی نہیں کرتے.........نہ ہی ہم یہ کہتے ہیں کہ تیرے لیے آسمان سے ایسی پستول اترے گی جو تجھے بتائے گی یہ مومن ہے اسے نہ مار اور وہ کافر ہے یا یہ کہ وہ سنی اور بدعتی میں فرق کرے گی۔نہ ہی ہم تجھے اپنے اندر موجودکسی قائدنبی کی ضمانت دیتے ہیں جسے وحی سے راہنمائی ملتی ہو.بلکہ ہم آج ایک بات کہیں تو کل اس سے رجوع بھی کر سکتے ہیں۔لیکن اگر تو وہی خیالی دنیا ہی چاہتا ہے تو چاند پر چڑھ جا.........﴿وَمَا شَهِدْنَا إِلَّا بِمَا عَلِمْنَا وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حَافِظِينَ﴾ہم نے جو دیکھا وہی بیان کیا اور ہم غیب جاننے والے نہیں۔لیکن اگر تو اس سب سے عاجز ہے تو تجھ سے پہلے بہت سے لوگ اس سہولت کی راہ چل کے چڑیوں کی طرح اپنے بچوں کے ساتھ گھونسلوں میں بیٹھے کھاتے پیتے ہیں اور گھروں میں لگے خوبصورت شیشوں سے زندگی کی رنگینیوں کے نظارے کرتے ہیں۔یہ سب دفاع کے وقت میں ہے.........جب تو گھر بیٹھ جائے گا تو پھر وہ لوگ اپنے بڑے بڑے وعظ لیے ہمارے سامنے آئیں گے تاکہ ہمیں کہیں.........ہم نے کہا تھا.........ہمیں یہی توقع تھی.........ہم نے خبردار کیا تھا.........ہم نے اور ہم نے.........طویل زبانوں کے ساتھ ۔ہم اللہ سے ایسی زبانوں کے چھوٹا کرنے کا سوال کرتے ہیں!!!﴿سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ﴾ وہ اپنی تیز زبانوں کے ساتھ تمہیں ملیں گے ، مال کے اوپر حریص۔ان بیٹھے ہوئے لوگوں کی حالت ایسے ہے جیسے فٹبال کھیلنے والے کے خلاف کسی ماہر کی تنقید ہو۔لیکن یہ سب بلند آوازوں کے ایسے لوگ ہیں جو معرکہ کی قیادت سے باہر کرسیوں پر بیٹھ نظارہ کرتے ہیں.اللہ جانتا ہے کہ ان کے پسینے چھوٹ رہے ہوتے ہیں اور وہ پسینے پونچھتے ہیں،ان کی آوازیں بیٹھ جاتی ہیں لیکن یہ لوگ ہاتھوں کے ساتھ فٹ بال کھیلنے والے ہیں(مقالات بین منھجین۔مقالہ نمبر83)۔
 
Top