• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محاسبۂ نفس اور نیا سال

شمولیت
اگست 28، 2019
پیغامات
59
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
56
بسم اللہ الرحمن الرحیم

محاسبۂ نفس اور نیا سال​



ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی​

الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم،امابعد

محترم سامعین!

ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ 2025 کا سال شروع ہوچکا ہے اور 2025 کے سال کا آج پہلا جمعہ ہے تو اسی مناسبت سے آج کے خطبۂ جمعہ کے لئے جس موضوع کا ہم نے انتخاب کیا ہے وہ ہے محاسبۂ نفس اور نیا سال،محاسبہ کا معنی ومفہوم ہوتاہے حساب وکتاب کرنا،جائزہ لینا تو محاسبۂ نفس کا معنی ہوا کہ اپنے آپ کا جائزہ لینا،خود اپنے آپ کا حساب وکتاب کرنا،امام ابن قیمؒ کہتے ہیں کہ محاسبہ یہ ہے کہ آدمی اپنے لئے مفید اور مضرکی تمیز کرلے اور پھر مفید کو اپنائے او رمضرسے دورہوجائے۔(اپنی تربیت آپ کریں:173)دیکھئے میرے دوستو! دنیا کا یہ اصول ہے کہ ہرتاجر اور ہردوکاندار اور ہرکمپنی کا مالک سال کے اختتام پر وہ اپنی تجارت وبزنس کا ضروربالضرور حساب وکتاب کرکےجائزہ لیتا ہے اور وہ اس بات کا بغورمعائنہ کرتاہے کہ سال بھر میں اس نے کتنا منافع کمایا اور کیا نقصان اٹھایا!ماضی میں تجارت وبزنس اور کمپنی میں کیا کیا غلطیاں ہوئیں اور کیا کیا مسائل پیدا ہوئے، ان ساری باتوں کا جائزہ لیتاہے اور پھر جائزہ لے کر آنے والے سال میں ہرتاجر اپنی تجارت واپنی کمپنی کومزید ترقی دینے اور زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کےلئےکئی طرح کے تراکیب کوسوچتا ہے اورکئی طرح کے منصوبے طے کرتا ہےاورپچھلے سال ہونے والی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ایک نئے عزم وحوصلے کے ساتھ نئے سال کا آغاز کرتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ بزنس وتجارت اور کمپنیاں پہلے سے کہیں زیادہ منافع حاصل کرتی ہیں اور ہرطرح کے نقصان سے بچ جاتی ہیں،ذرا سوچئے کہ جب تجارت وبزنس اور کمپنیاں احتساب سے فائدے میں رہتی ہیں تو کیوں نہ ہم بھی اپنا احتساب کرکے اپنے آپ کو فائدہ پہنچائیں اور ہرطرح کےدنیوی واخروی ذلت ورسوائی سے اپنے آپ کو بچا لیں۔آج ہر تاجروبزنس مین اور ہردوکاندار اپنااپنا محاسبہ کرکے دن بدن ترقی کرتاجارہاہے اور ایک ہم ہیں جو اپنا محاسبہ کبھی نہیں کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہورہاہے کہ ہم دن بدن اللہ سے دور،نماز سے دور،مسجد سے دور،قرآن سے دور اوردین وآخرت سے دورہوتے جارہے ہیں مگر ہمیں اس بات کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہے۔

میرے دوستو!اسی محاسبۂ نفس کاحکم دیتے ہوئے رب العزت نے ہم سب کو اس بات کی تاکید کردی ہے کہ ’’ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ‘‘اے ایمان والو!اللہ سے ڈرتے رہو اور ہرشخص دیکھ (بھال) لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے کیا بھیجا ہے اوراللہ سے ڈرتے رہو،اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے۔(الحشر:18)سنا آپ نے کہ رب العزت خود ہمیں یہ پیغام دے رہاہے کہ اے لوگو!ذرا اپنا محاسبہ کرتے رہنا اورہمیشہ اپنی آخرت کی فکرکرتے رہنا،اپنے اچھائیوں اور برائیوں کا ہمیشہ جائزہ لیتے رہنا کیونکہ یہ محاسبہ ایک ایسی چیز ہے جو تمہیں اللہ کے ڈروخوف کا احساس دلائے گی،یہ محاسبہ ایک ایسی چیز ہے جو تمہیں برائیوں کوچھوڑنے اور نیکیوں کو انجام دینے پر آمادہ کرے گی اور یہی محاسبہ تمہیں آخرت میں کامیابی دلاسکتی ہے،اس لئے میرے دوستو!اگر ہم اورآپ آخرت میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو پھر ہمیشہ اپنا محاسبہ کرتے رہا کریں کیونکہ جو انسان بھی اپنا محاسبہ کرتارہے گا وہ کبھی بھی آخرت سے غافل نہ ہوگا،اسی محاسبے کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے سیدنا عمربن خطابؓ نے فرمایا کہ اے لوگو!’’ حَاسِبُوا أَنْفُسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا فَإِنَّهُ أَهْوَنُ أَوْ قَالَ أَيْسَرُ لِحِسَابِكُمْ وَزِنُوا أَنْفُسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُوزَنُوا وَتَجَهَّزُوا لِلْعَرْضِ الْأَكْبَرِ ‘‘اپنا محاسبہ ہمیشہ کرتے رہاکرو اس سے پہلے کہ تمہارا حساب وکتاب لیاجائے،اور اپنے اعمال کا وزن کرلیا کرو اس سے پہلے کہ تمہارے اعمال وزن کئے جائیں ،اورآخری پیشی کے لئے تیاررہو کیونکہ ’’ يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَى مِنْكُمْ خَافِيَةٌ ‘‘اس دن تم سب(اپنے رب کے) سامنے پیش کئے جاؤگے، تمہارا کوئی بھیدپوشیدہ نہ رہے گا۔(الحاقۃ:18)۔(مصنف ابن ابی شیبہ:34459،محاسبۃ النفس لابن ابی الدنیا:1/22) یہ تو سیدنا عمر بن خطابؓ کا قول ہے اب ذرا ان کا ایک ایمان افروزعمل بھی سن لیجئے اور اپنا جائزہ لیجئے، سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ میں ایک دن سیدنا عمر بن خطاب ؓکے ساتھ تھا کہ وہ ایک باغ میں داخل ہوئے ،میرے اور ان کے درمیان صرف ایک دیوار حائل تھی،میں باہر تھا اور وہ باغ کے اندرتھے اور میں نے اپنے کانوں سے ان کویہ کہتے ہوئے سنا کہ ’’ عُمَرُ بْنَ الْخَطَّابِ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بَخٍ وَاللَّهِ لَتَتَّقِيَنَّ اللَّهَ ابْنَ الْخَطَّابِ أَوْ لَيُعَذِّبَنَّكَ ‘‘اے عمر!توامیر المومنین ہوگیا ہے،خبردار! ہوشیار!نہیں !نہیں !اے خطاب کے بیٹے !اللہ کا تقوی اختیار کر،ورنہ اللہ تجھے عذاب دے گا۔(محاسبۃ النفس لابن ابی الدنیا:1/22)اللہ !اللہ!کیا لوگ تھے اور ان کا کیا مقام ومرتبہ تھا مگر پھر بھی اللہ کے ڈروخوف اورآخرت کی فکرکا یہ عالم !!اور ایک ہم اورآپ ہیں گناہوں کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں مگر ذرہ برابر بھی نہ تو اللہ کا ڈر وخوف ہے اور نہ ہی اپنی آخرت کی فکر ہے اور نہ ہی حساب وکتاب کا ڈر ہے،سوچئے ذرا غورکیجئے کہ کیا ایمان کا یہی تقاضاہے کہ ہم بے خوف ونڈر ہوجائیں!نہیں !نہیں! مومن تو ہروقت ، ہرآن اور ہرلمحہ اپنا محاسبہ کرتارہتاہے،امام حسن بصریؒ نے کیا ہی خوب کہا ہے،وہ کہتے ہیں کہ ’’ الْمُؤْمِنُ قَوَّامٌ عَلَى نَفْسِهِ يُحَاسِبُ نَفْسَهُ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَإِنَّمَا خَفَّ الْحِسَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى قَوْمٍ حَاسَبُوا أَنْفُسَهُمْ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّمَا شَقَّ الْحِسَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى قَوْمٍ أَخَذُوا هَذَا الْأَمْرَ مِنْ غَيْرِ مُحَاسَبَةٍ ‘‘مومن اپنے نفس پرنگراں اور اس کامحافظ ہوتاہے،مومن ہمیشہ اللہ کے لئے اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہتاہے،اور قیامت کے دن آسان حساب ان لوگوں کا لیاجائے گا جو دنیا میں اپنا محاسبہ کرتے رہاکرتے تھے،اور قیامت کے دن ان لوگوں کا سخت سے سخت حساب لیاجائے گا جوبغیرمحاسبے کے زندگی گذارتے رہے۔(محاسبۃ النفس لابن ابی الدنیا:1/22)اسی طرح سےامام غزالیؒ کہتے ہیں کہ جس نے اپنا محاسبہ ہونے سے پہلے نفس کا محاسبہ کرلیا تو قیامت میں اس کا حساب ہلکا اورآسان ہوگااور سوال کے وقت اس کا جواب موجود رہے گا، اور اس کا ماوی وملجا بہتر ہوگا اور جس نے اپنے نفس کا محاسبہ نہیں کیا اس کی حسرت برابر رہے گی اور میدان محشر میں اس کا قیام لمبا ہوگا اور اس کی برائی اسے ذلت ورسوائی اور ہلاکت کی سمت لے جائے گی۔(اپنی تربیت آپ کریں:177)

میرے پیارے پیارے اسلامی بھائیو اور بہنو!

آج اس دنیا کی چمک دمک نے ہم سب کودھوکے میں ڈال رکھا ہے،دن ومہینے اورسال بسال گذرتے جارہے ہیں اورروز بروز ہم اپنی موت وقبرکے قریب سے قریب تر ہوتے جارہے ہیں مگر ہمیں اپنی آخرت کی فکر نہیں ہے،ہم ہمیشہ یہی کہتے اور سوچتے ہیں کہ کل سے نماز پڑھیں گے،جمعہ سے نماز پڑھیں گے،اب رمضان نزدیک ہے تو بہت سارے لوگ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ بس اس رمضان سے پکا نمازی بن جاؤں گا،اسی طرح سے بہت سارے لوگ اپنے ریٹائرمینٹ کا انتظارکرتے رہتے ہیں اور یہ سوچتے رہتے ہیں کہ جب ریٹائرڈ ہوجاؤں گا تو نمازی بن جاؤں گا،اسی طرح سے نوجوان طبقہ یہ سوچتا ہے کہ ابھی تو میں جوان ہوں،ابھی میرے پاس تو بہت وقت ہے،ابھی میں کون سا مرا جارہاہوں کہ نماز پڑھوں،جب بوڑھاہوجاؤں گا تو نمازی بن جاؤں گا،مگر ایساہوتانہیں ہے سال بسال،مہینے در مہینے،جمعہ پر جمعہ گذرتے چلےجاتے ہیں مگر انسان کبھی بھی اللہ کی عبادت وبندگی نہیں کرپاتا ہے !جانتے ہیں کیوں ؟؟ اس لئے کہ یہ ایک امرمسلم ہے جو انسان آج اپنے نفس کو نہیں جھکا سکا وہ کل بھی اپنے نفس کو جھکا نہیں سکے گا،جو انسان آج ایک کام انجام نہیں دے سکا تو اس کے لئے وہی کام کل انجام دینا اور بھی مشکل ہوجاتاہے ،امام غزالیؒ نے اسی کی کیا خوب مثال دی ہے وہ اپنی کتاب احیاء علوم الدین میں اپنے نفس سے مکالمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اے نفس! ’’کتنا ایسا ہوتاہے کہ توکہتاہے کہ کل سے یہ کام کریں گے،تجھے معلوم نہیں کہ جو کل آچکی ہے وہ گذشتہ دن کے حکم میں ہے،جو کام توآج انجام نہیں دے سکا ،کل اس کا انجام دینا تیرے لئے اور بھی مشکل ہے،اس لئےشہوت کی مثال ایک تناوردرخت کی سی ہے جس کو آدمی اکھاڑنا اپنا فرض سمجھتاہے،اگرکوئی اس کے اکھاڑنے سے عاجز ہوگیا او راس نے اس کو کل پرچھوڑ دیا کہ کل اکھاڑ لوں گا تواس کی مثال اس نوجوان کی سی ہے جس سے ایک درخت اکھاڑا نہیں گیا اور اس نے اس کام کو دوسرے سال کے لئے ملتوی کردیا،وہ جانتاہے کہ جتنازمانہ گذرے گا درخت مستحکم اور اس کی جڑیں مضبوط اور وسیع ہوجائیں گی،اور اکھاڑنے والے کی کمزوری او رضعف میں اضافہ ہی ہوگا،ظاہر ہے کہ جس کو شباب میں نہیں اکھاڑسکا ،اس کو بڑھاپے میں کیا اکھاڑے گا،بڑھاپے کی ورزش اورمحنت بہت تکلیف دہ ہوتی ہے،سرسبز شاخ لچک رکھتی ہے اور جھکائی جاسکتی ہے،جو سوکھ جائے گی اور ایک زمانہ گذرجائے گا تو اس کاموڑنا ناممکن ہوجائے گا۔‘‘(تلخیص،تاریخ دعوت وعزیمت از مولانا ابوالحسن علی ندویؒ ص:178-182)یقیناً جو آج رب کے سامنے میں نہیں جھکا تو وہ کل کیا خاک جھکے گا،یہ نفس اسے ہرگزہرگز رب کے روبرو جھکنے نہ دے گا، کتنے بڑے نادان ہیں وہ لوگ جو ایک زمانہ اور ایک لمبی مدت تک رب کی نافرمانی میں یہ سوچ کرزندگی گذارتے ہیں کہ جب وقت آئے گاتو ہم دیندار بن جائیں گے ،مگر ہائے افسوس!! وہ وقت نہ تو اس کی زندگی میں آتاہے اور نہ ہی وہ دیندار بن پاتاہے کیونکہ جب وقت آتاہے تو تب تک اس کا نفس ہلاکت وبربادی کے ایسےدہانے پرکھڑا ہوتاہےجہاں سے واپسی ناممکن ہوتی ہے،کیا ہم اور آپ یہ دیکھتے اورسنتے نہیں ہیں کہ لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ بس ہم کل سے نمازی بن جائیں گے، پرسوں سے نمازی بن جائیں گے،اگلے جمعہ سے نمازی بن جائیں گے،اس رمضان سے نمازی بن جائیں گے،فلاں دن اور فلاں تاریخ سے نمازی بن جائیں گے ،یہ سب وقت تو آتے ہیں اورگذر بھی جاتے ہیں مگر وہ انسان کبھی نمازی نہیں بن پاتاہے،آخر کیوں ؟؟ یہی تو اس کی وجہ ہے کہ نفس نے انہیں آج اور کل ،کل اورآج کے جال میں ایساجکڑلیا ہے کہ اس سے نکل پانا ان کے لئے محال ہوگیا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کا نفس بھی برائیوں کا شیدائی اور نیکیوں سے متنفر ہوچکا ہوتاہے۔

میرے پیارے پیارے بھائیو اور بہنو!ذرا سوچو کہ 2024 کا سال آیا بھی اور گیا بھی مگر ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی،کتنے بڑے نادان ہیں وہ لوگ جو ایک سال کے گذرنے اورایک سال کے آنےپر جشن مناتے ہیں اور یہ کہتے نہیں تھکتے ہیں کہ نیاسال مبارک ہو،ارے مبارکبادی کس بات کی ؟سال نو کا جشن کس چیز پر؟خوشی کس بات کی ہے؟کیاانسان اس بات پر خوش ہورہا ہے کہ اس نے 2025 کو دیکھ لیا ہے یا پھر انسان اس بات پر خوش ہورہاہے کہ اس کی عمر اب پہلے سے بڑی ہوگئی ہے،کتنا بڑا نادان اوراحمق ہے انسان اسے اس بات کا قطعی احساس وخیال نہیں ہے کہ ایک سال کا گذرنا یہ اس کی عمرمیں اضافہ نہیں بلکہ اس کی زندگی سے ایک اورسال کا ختم ہوناہے،اب وہ پہلے کے بنسبت اپنی موت وقبر اورحشر ونشر کے اور قریب ہوچکا ہے!کسی شاعرنے کیا ہی خوب کہاہے:

ایک پتا شجر عمر سے لو اور گرا

لوگ کہتے ہیں مبارک ہو نیا سال تمہیں​

میرے دوستو!سال کا گذرنا یہ ہمارے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہے بلکہ خوشی کی بات تو تب ہوگی جب ہم اپنے آپ کو بدلیں گے،سال کے آنے وجانے سے ہماری حالتیں نہیں بدلیں گی،کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے:

کسی کو سال نو کی کیا مبارک باد دی جائے

کلینڈر کے بدلنے سے مقدر کب بدلتاہے​

سال تو آتے رہیں گے اور جاتے رہیں گےاور جب تک یہ دنیا رہے گی تب تک کلینڈر بدلتے رہیں گے،مگر صرف سال کے بدلنے سے نہ توہماری حالتیں بدلیں گی اور نہ ہی کلینڈرکے بدلنے سے ہمارا کچھ فائدہ ہوگا،یہ بات اچھی طرح سے جان لیں اور یاد رکھ لیں کہ ہمارے لئے یہ سال سودمند تب ہوگا جب ہم اپنے آپ کو بدلیں گے،پچھلے سال ہم بے نمازی تھےاب اگر اس سال نمازی بن جائیں تو پھر یہ ہمارے لئے سودمند ہوگا، پچھلے سال ہم نے پورا سال اللہ کی نافرمانی میں گذاری ہیں اب اگر اس سال نیک بن جائیں تو یہ ہمارے لئے سود مند ہوگا،پچھلے کئی سالوں سے ہمارے کئی رشتے داروں کے ساتھ دشمنیاں چل رہی اب اگر امسال اس ناچاقی کو ختم کردیں تو پھر یہ ہمارے لئے سود مند ہوگا،کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے :

نئے سال میں پچھلی نفرت بھلادیں

چلو اپنی دنیا کو جنت بنا دیں​

الغرض سال بسال گذرتے جارہے ہیں مگر ہم اپنی پرانی روش پر قائم ہیں ،ہردن ہم کسی نہ کسی کی موت کی خبر سنتے ہیں،ہردن ہم بڑے بڑے حادثات کو دیکھتے اور سنتے ہیں مگر ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ہے،ہفتے میں ایک دن ہم ضرورکسی نہ کسی کی تجہیز وتکفین میں شامل ہوتے ہیں مگر پھربھی ہم اپنی قبروآخرت سے بےفکرہوکر اس طرح سے زندگی گذاررہے ہیں گویاکہ ہمیں کبھی مرنا ہی نہیں ہے،آج اس نفس نےہمیں دھوکے میں ڈال دیا ہے،آج اگر کوئی ڈاکٹرہمیں یہ کہہ دے کہ دیکھوتم کو بہت تیز بخار ہے اس لئے آج سے تم دو تین دنوں تک ٹھنڈےپانی کونہیں چھونا اور نہ ہی ٹھنڈا پانی استعمال کرنا اوراگرتم چھوؤگے تو اس کا نقصان تم خوداٹھاؤگے اوراپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھوگے، تو ہم اس ڈاکٹر کی بات کو بلاچوں وچرا کئے آنکھ بندکرکےفوراًمان لیتےہیں اسی کے برعکس اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں باربار عذاب قبر اورجہنم کی آگ وسزاسے ڈرایا ہے مگر افسوس صد افسوس اس پر ہمیں اتنا بھی یقین نہیں ہے جتنا ایک کافر ڈاکٹر کی باتوں پر یقین ہوتاہے،انہیں باتوں کو امام غزالیؒ نے اپنےنفس سے مکالمہ کرتے ہوئے کیا خوب لکھاہے وہ رقمطراز ہیں کہ ’’اے نفس ذرا انصاف کر!اگرایک یہودی تجھ سے کہہ دیتاہے کہ فلاں لذیذ ترین کھانا تیرے لئے مضرہے تو توصبرکرتاہےاور اسے چھوڑ دیتاہے،اس کے خاطر توتکلیف اٹھاتاہے،کیاانبیاء کا قول جن کو معجزات کی تائید حاصل ہوتی ہے اور فرمان الٰہی اور صحف سماوی کا مضمون تیرے لئے اس سے بھی کم اثر رکھتاہےجتنا کہ اس یہودی کا ایک قیاس واندازہ،عقل کی کمی اور علم کی کمی اور کوتاہی کے ساتھ اثر رکھتاہے،تعجب ہے!اگرایک بچہ کہتاہے کہ تیرے کپڑوں میں بچھو ہے تو تو بغیردلیل طلب کئے اور بغیرسوچے سمجھے اپنے کپڑے اتارپھینکتاہے،کیا انبیاء علماء،اولیاء اور حکماء کی متفقہ بات تیرے نزدیک اس بچے کی بات سے بھی کم وقعت رکھتی ہے؟کیا جہنم کی آگ اس کی بیڑیاں،اس کے گرز،اس کا عذاب،اس کا زقوم اور اس کے آنکڑے،اس کے سانپ،بچھو اور زہریلی چیزیں تیرے لئے ایک بچھو سے بھی کم تکلیف دہ ہیں جس کی تکلیف زیادہ سے زیادہ ایک دن یا اس سے کم رہتی ہے،یہ عقلمندوں کا شیوہ نہیں!اگرکہیں بہائم کو تیری حالت کا علم ہوجائے تو وہ تجھ پر ہنسیں اور تیری دانائی کا مذاق اڑائیں،پس اگر اے نفس!تجھ کو یہ سب چیزیں معلوم ہیں اور ان پر تیرا ایمان ہے تو کیابات ہے کہ توعمل میں تساہل اور ٹال مٹول سے کام لیتاہےحالانکہ موت کمین گاہ میں منتظر ہے کہ وہ بغیر مہلت کے تجھے اچک لے جائے،امام غزالیؒ آگے اپنے نفس سے مکالمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اے نفس! میں دیکھتاہوں کہ تو دو وجہ سے اپنے نفس کو ڈھیل دیتاہے،ایک کفر خفی اور ایک صریح حماقت،کفر خفی یہ ہے کہ یو م حساب پر تیرا ایمان کمزورہے،اور ثواب وعقاب سے تو ناواقف ہے اور صریح حماقت اللہ تعالی کی تدبیر مخفی اور اس کے استدراج کا خیال کئے بغیر اس کے عفووکرم پر اعتماد ہے،اس کے باوجود کہ تو روٹی کے ایک ٹکڑے،غلہ کے ایک دانہ کے لئے خداتعالی پر بھروسہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا بلکہ اس کے حصول کے لئے ہزار جتن کرتاہے،اور اسی جہالت کی وجہ سے تو آپﷺ کے اس ارشاد کامصداق ہے کہ ’’ الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا ثُمَّ تَمَنَّى عَلَى اللَّهِ ‘‘ہوشیاراور عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعدآنےوالی زندگی کے لئے عمل کرے،اور احمق وبیوقوف وہ ہے جو اپنے نفس کو اپنی خواہشات کے پیچھے لگادے اور اللہ پر آرزوئیں باندھتارہے۔(ابن ماجہ:4260،ترمذی:2459،امام ترمذی نے اس کی سند کو حسن کہا ہے مگر علامہ البانیؒ نے اس کو ضعیف کہاہے دیکھئے،الضعیفۃ:5319)افسوس اے نفس!تجھ کو زندگی کے دام ہمرنگ زمین سے ہوشیار رہناچاہئے تھا اور شیطان سے فریب نہیں کھانا چاہئے تھا،تجھے اپنے اوپر ترس کھانا چاہئے ،تجھے اپنی ہی فکر کا حکم دیا گیا ہے،دیکھ تو اپنے اوقات ضائع نہ کر،تیرے پاس گنی چنی سانسیں ہیں،اگر تیری ایک سانس بھی رائیگاں گئی تو گویا تیرے سرمایہ کا ایک حصہ ضائع ہوگیا،پس اے نفس!غنیمت سمجھ صحت کو مرض سے پہلے،فراغت کو مصروفیت سے پہلے،دولت کو غربت سے پہلے،شباب کو ضعیفی سے پہلے،زندگی کو ہلاکت سے پہلے اور آخرت کے لئے تیار کراسی لحاظ سے جتنا تجھے وہاں رہنا ہے،اے نفس!کیاجب موسم سرما سرپر آجاتاہے تو اس پوری مدت کےلئے توتیاری نہیں کرتا،خوراک ولباس اوردیگرتمام ضروری سامان جاڑے کے موسم کےلئے تو مہیا کرلیتاہے اورتو اس پر بھروسہ نہیں رکھتاہے کہ بغیرانتظام وانصرام کے جاڑے کا موسم گذرجائے گا،اے نفس!تیرا کیاگمان ہے کہ جہنم کی زمہریر(سخت جاڑے کو کہتے ہیں)جاڑوں کی سخت سردی سے کم ہے،ہرگزنہیں،اور اس کا کوئی امکان نہیں،شدت وبرودت میں ان دونوں کے درمیان کوئی تناسب نہیں،کیا توسمجھتاہے کہ توبغیرسعی کے اس سے نجات حاصل کرلے گا،جیسے کہ سردی بغیراونی کپڑوں اوردیگر لوازمات کے بغیرنہیں جاتی اسی طرح سے دوزخ کی گرمی اور سردی توحید کے قلعہ اور طاعت کے خندق کے بغیر نہیں جاسکتی ،اور اللہ تعالی کا یہ کرم ہے کہ اس نے تجھے حفاظت کی تدابیر سے آگاہ کردیا ہے،اوراسباب آسان کردئے ہیں،پس اے نفس! یہ تمہارا فریضہ ہے کہ تو ان تمام اسباب وذرائع کو استعمال کرکے نجات حاصل کرلے،اے نفس!جہالت کی قباچاک کر اور یہ بات اچھی طرح سے جان لے کہ ’’ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ ‘‘جوشخص نیک کام کرے گا تو اپنے نفع کے لئے اور جوبرا کام کرے گا اس کا وبال بھی اسی پر ہے اورآپ کارب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔(فصلت:46)۔(تلخیص،تاریخ دعوت وعزیمت از مولانا ابوالحسن علی ندویؒ ص:178-182)

میرے دوستو!امام غزالیؒ کی یہ نصیحتیں یقیناً ہمارے لئے بہت مفیدونصیحت آموزاورکارآمد ہیں ،ذرا ہم اور آپ بھی اپنے نفس سے اسی طرح سے سوال کیا کریں کہ اے نفس! تونے مجھے آج نماز کیوں نہ پڑھنے دیا؟اے نفس!تونے مجھے اس کام کے کرنے پر کیوں آمادہ کیا؟اے نفس! تجھے کیاہوگیا ہے کہ تو آج کل نیکیوں سے بہت بھاگ رہاہے اوربرائیوں کے قریب ہورہاہے؟اے نفس! کیا تجھے مرنا نہیں ہے؟اے نفس!کیاتجھے جنت وجہنم پر یقین نہیں ہے؟اے نفس!کیاتجھے رب کے حضورایک نہ ایک دن کھڑا ہونا نہیں ہے؟ہمارے اسلاف کرام ایسے ہی تھے کہ وہ وقتاً فوقتاً اپنے نفسوں کو اسی طرح سے مخاطب کرکے اپنے ضمیر کو زندہ رکھا کرتے تھے، جس کا نتیجہ یہ ہوتاتھا کہ وہ ہمیشہ برائیوں سے دوررہاکرتے اورنیکیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہاکرتے تھے،ذرا ایک اللہ کے ولی ابراہیم تیمیؒ کا طرز عمل دیکھئے وہ خود کہتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ سے بطور مثال یہ کہا کہ اے نفس!’’ مَثَّلْتُ نَفْسِي فِي الْجَنَّةِ آكُلُ ثِمَارَهَا وَأَشْرَبُ مِنْ أَنْهَارِهَا وَأُعَانِقُ أَبْكَارَهَا ‘‘فرض کرلو میں جنت میں ہوں،اس کے پھل کھارہاہوں،جنت کے نہروں کا پانی پی رہاہوں اور حوروں سے معانقہ کررہاہوں،پھر ابراہیم تیمیؒ نے اپنے نفس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے نفس ذرا یہ بھی فرض کرلو کہ ’’ ثُمَّ مَثَّلْتُ نَفْسِي فِي النَّارِ آكُلُ مِنْ زَقُّومِهَا وَأَشْرَبُ مِنْ صَدِيدِهَا وَأُعَالِجُ سَلَاسِلَهَا وَأَغْلَالَهَا ‘‘میں جہنم میں ہوں،زقوم یعنی کانٹے دار درخت کھارہاہوں،جہنمیوں کا خون وپیپ پی رہاہوں او رطرح طرح کی قیدوبند کی صعوبتوں کو برداشت کررہاہوں ،تو اے نفس تو ہی بتا ’’ أَيُّ شَيْءٍ تُرِيدِينَ ‘‘تم ان دونوں میں سے کون سی چیزپسند کروگے؟تو نفس نے کہا کہ ’’ أُرِيدُ أَنْ أُرَدَّ إِلَى الدُّنْيَا فَأَعْمَلَ صَالِحًا ‘‘میں چاہتاہوں کہ دنیامیں جاؤں اور نیک اعمال بجالاؤں ،تو ابراہیم تیمیؒ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے نفس سے کہا کہ پھر دیر کس بات کی ہے ’’ فَأَنْتِ فِي الْأُمْنِيَةِ فَاعْمَلِي ‘‘تم اپنی آرزووخواہش کے مطابق آج دین میں ہو اور آج تمہارے پاس موقع بھی ہے اس لئے خوب عمل صالح کرو۔(محاسبۃ النفس لابن ابی الدنیا :1/22)اسی طرح سے اللہ کے ایک اور ولی حارث المحاسبیؒ اپنے نفس کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے نفس! تیراستیاناس ہو! دنیا تو آخرت کا ذریعہ ہے،دنیا میں رنج وغم جھیلنے والے آخرت کے دائمی سرور کے وارث بنے،اے نفس! تیرابراہو،دنیا میں اپنے آقا کا فرمان نہ چھوڑ کہ تیری دنیا وآخرت کا خسارہ ہوجائے۔(اپنی تربیت آپ کریں:181)اسی طرح سے اللہ کے ایک اور ولی احنف بن قیسؒ کے بارے میں آتاہے کہ وہ رات کو جب قیام اللیل کرتے تو اکثر دعاؤں میں مشغول رہاکرتے اور اپنا محاسبہ کرتے ہوئے یہ کرتے کہ چراغ کے پاس آتے اور اس پر اپنی انگلی رکھ دیتے ،جب آگ کی شدت کا احساس ہوتاتو اپنے نفس سے کہتے کہ ’’ يَا حُنَيْفُ مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ يَوْمَ كَذَا مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ يَوْمَ كَذَا ‘‘ اےحنیف!فلاں دن تم کو کس چیز نے فلاں کام کرنے کے لئے ابھارا تھا؟۔(محاسبۃ النفس لابن ابی الدنیا :1/22)

میرے پیارے پیارے اسلامی بھائیو اور بہنو!

سنا آپ نے کہ ہمارے اسلاف کرام اپنے نفس کا کتنا محاسبہ کیاکرتے تھےجس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ تادم حیات نیکیوں کے راستے پر گامزن رہے،اور ایک ہم اور آپ ہیں ،ہرچیز کا ہم اورآپ محاسبہ کرتے ہیں،ہرایک معاملے پرکڑی نظر رکھتے ہیں،ہرایک بات کا خیال رکھتے ہیں مگر کبھی بھی اپنا محاسبہ نہیں کرتے ہیں!کبھی اپنی برائیوں اور اپنی نیکیوں کا جائزہ نہیں لیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہورہاہے کہ سال پر سال گذرتے جارہے ہیں مگر ہمارے اندر کوئی تبدیلی نہیں آرہی ہے،سن لو میرے دوستو!اگرآپ کو اپنے اندر تبدیلی لانا ہے اور اپنی اخروی زندگی کو اچھا سے اچھا کرناہے تو پھرہمیشہ اپنا محاسبہ کرتے رہا کرو،اور یہ سال کے گذرنے پر خوشی نہ مناؤ کیونکہ یہ سال کا آناجانا تو ہمیشہ سے لگاہے اورتاقیامت لگارہے گا،یہ دن،یہ مہینے،یہ سال جب تک ہم زندہ رہیں گے تب تک یہ سب ہماری زندگی ہمیں ملیں گی،اب ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اس کو کس طرح سے استعمال کرتے ہیں ،اگر ہم آج اپنےلیل ونہار کو اللہ کی اطاعت وبندگی میں گذاریں گے تو کل ہمارے لئے خوشی ہی خوشی کا دن ہوگااور اگر ہم نے آج یہ دن ،یہ مہینے اور یہ سال اللہ کی نافرمانی میں گذاردی تو پھر کل ہمارے لئے دکھ ہی دکھ ہوں گےاسی لئے جناب محمدعربیﷺ نے ہمیں اس بات سے متنبہ کردیا ہے کہ اے میری امت کے لوگوں ایک بات یاد رکھنا کہ ’’ كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو فَبَائِعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا أَوْ مُوبِقُهَا ‘‘ ہرانسان روزانہ اپنے آپ کو فروخت کرتاہے ،یاتو وہ خود کو آزاد کرلیتاہے یا پھر اپنے آپ کو تباہ و بربادکرلیتاہے۔(مسلم:223،ابن ماجہ:280،ترمذی:3517)یعنی کہ ہردن ہرانسان کے سامنے نیکی وبرائی اور خیروشر دونوں راستے کھلے ہوتے ہیں اب اس انسان کے اختیارمیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کے ہاتھ فروخت کردے یاپھر شیطان کے ہاتھ اپنے آپ کو فروخت کردے،اب جو انسان اللہ کی اطاعت وبندگی میں صبح سے شام کرے گا تو وہ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچالے گا اور جوانسان صبح سے شام تک اللہ کی نافرمانی میں گذارے گا اورصبح سے شام تک نفسانی خواہشات کے پیچھے بھاگے گا تو وہ خود اپنے آپ کو ہلاک وبرباد کرے گا۔(شرح محمدفؤاد عبدالباقی:1/203)

میرے دوستو!یقیناً آج ہمارے پاس موقع ہے ،آج ہمارے پاس وقت ہے،آج ہمارے پاس صحت وزندگی ہے مگر پھر بھی ہم غفلت میں ہیں،کیاہمیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ ایک نہ ایک دن رب کے حضورروبرو کھڑے ہوکرحساب دینا ہے ،یقیناً ہمیں اس بات پر یقین ہی نہیں بلکہ یقین کامل ہے مگر نفس نے ہمیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے،امیدوں اورآرزؤں کی کشتی پر شیطان نے ہم سب کو سوار کردیا ہے،مگر ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہے کہ پانی کے بغیرجس طرح سے کشتی کا چلنا اورچلانا محال ہے اسی طرح سے آرزوؤں اور امیدوں کے سہارے کسی کی اخروی نجات بھی محال ہے،اس بدبخت شیطان نے گناہوں کے دلدل میں ہمیں کچھ ایساپھنسایاہے کہ سال درسال گذرتے جارہے ہیں،دن بدن ہم اپنی موت کے قریب سے قریب تر ہوتے جارہے ہیں مگر ہم نےاپنی قبروآخرت کے مراحل کو بالکل ہی بھلادیاہے،آج ہمیں اس بات پر تو خوشی ہورہی ہے کہ 2025 کا سال شروع ہوچکا ہے مگر ہمیں اس بات کا ذرہ برابربھی احساس نہیں ہے کہ 2024 کے دن وراتوں میں ہم نے جو جو حرکت کی ہے اور پھر 2025 کے دن وراتوں میں جوجوحرکت کریں گے ان سب کے بارے میں ایک نہ ایک دن باز پرس کی جائے گی!سورہ انفطار کے اندررب العزت نےقیامت کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ جب قیامت قائم ہوگی’’ عَلِمَتْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ وَأَخَّرَتْ،يَاأَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ ‘‘اس وقت ہرشخص اپنے آگے بھیجے ہوئے اور پیچھے چھوڑے ہوئے (اگلے پچھلے اعمال)کو معلوم کرلے گا،اے انسان ! تجھے اپنے رب کریم سے کس چیز نے بہکایا؟(الانفطار:5-6)یقیناہماری بداعمالیوں اورشیطان ہی نے ہمیں اپنے رب سے دورکردیا ہے!میرے دوستو!اب بھی کچھ نہیں ہوا ہے،ہماری تمام بداعمالیوں کے باوجود رب ہمیں یہ خوشخبری دے رہاہے کہ ’’ قُلْ يَاعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ‘‘اے اللہ کے نبیﷺ آپ میرے ان بندوں سے کہہ دیجئے جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ،بالیقین اللہ سارے گناہوں کو بخش دیتاہے،واقعی وہ بڑی بخشش ،بڑی رحمت والاہے۔(الزمر:53)سنا آپ نے کہ رب ہماری تمام بداعمالیوں کے باوجودبھی ہمیں اپنا بندہ کہہ کر مخاطب کررہاہے کہ اے میرے بندوں!ابھی بھی کچھ بگڑا نہیں ہے ،آ جاؤ میرے در پر،اپنے گناہوں سے معافی مانگ کر تو دیکھومیں تمہیں معاف کرنے کے لئے تیار ہوں!رب کے اتنے واضح اعلان کے باوجود بھی اگر ہم 2025 سے نیک نہ بنیں تو پھر ہماری ہلاکت وبربادی بالکل ہی یقینی ہے،اگر ہم پھر سے 2024 میں جیسے تھے ویسے ہی رہےاور اپنے آپ کو نہ بدلا تو پھر ہمیں اللہ کے عذاب وسزا سے کوئی نہیں بچا سکتاہے،اس لئے میرے دوستو!2025 میں اپنے آپ کو بدلواورآج ابھی سے ہی یہ عہد کرکے اٹھو کہ اب سے میں گناہوں کو چھوڑ کر نیکی کروں گا ،پانچوں وقت کی نمازوں کی پابندی کروں گا اور دین اسلام کے مطابق زندگی گذاروں گا۔

میرے دوستو! آخر میں ذرا 2024 کے کلینڈر سے ایک سبق اور ایک پیغام سیکھ کر جاؤ اوراپنے دل کے آئینے میں اس بات کو اتارلو کہ جیسے ہی 2024 کا سال ختم ہوا ہم نے اورآپ نے اپنے اپنے گھروں اور دوکانوں کے دیواروں پر لٹکائے گئے 2024 کے کلینڈر کو اتارپھینکا اور اس کی جگہ پر 2025 کے کلینڈرکو آویزہ کردیا ،اب ہم 2024 کے کلینڈر کو دوبارہ نہیں دیکھیں گے اور نہ ہی اس کے دن اور اس کی تاریخ کو یاد کریں گے ٹھیک اسی طرح سے ہم سب کی زندگی میں ایک ایسا دن بھی آنے والا ہے جب ہماری اولاد اور ہمارے رشتے دار ودوست واحباب یہ سب کے سب ہم سے محبت کرنے کے باوجود ہمیں قبرکے حوالے یہ کہہ کرچلے جائیں گے کہ اب آپ جانیں اور آپ کے اعمال جانیں،آپ نے ہمارے لئے بہت کچھ کیا مگر ہم آپ کے ساتھ قبر میں نہیں آسکتے،اب آپ اپنا دیکھ لو،جس طرح سے پرانے کلینڈر کی جگہ نئے کلینڈر کو آویزہ کردیا جاتاہے ٹھیک اسی طرح سے ہمارے مرنے کے بعد ہماری جگہوں پر ہماری آل واولاد کا قبضہ ہوجائے گا ،جس طرح سے پرانے کلینڈر کو کوئی دیکھتا اور یادکرتا نہیں ہےٹھیک اسی طرح سے ہمیں بھی کوئی نہ تو یاد کرے گا اور نہ ہی ہماری بھلائی اور نجات کے لئے کچھ کرے گا،اس لئے جو کرنا ہے اپنی آخرت ونجات کے لئے آج ہی خود نیکیاں کرلو،کل کس نے دیکھا ہے؟کسی شاعر نے کیا ہی خوب نقشہ کھینچا ہے:

کہا احباب نے ہردفن کے وقت اب ہم وہاں کا کیا حال جانیں

لحد تک آپ کی تعظیم کردی آگے آپ کے نامۂ اعمال جانیں​

اس لئے میرے دوستو!اپنی قبر وآخرت کی فکر کرو اور اس کے لئے جی توڑ محنت کروکیونکہ آج جو بوؤگے کل وہی کاٹوگے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے ’’ إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى ‘‘قیامت یقیناً آنے والی ہے جسے میں پوشیدہ رکھنا چاہتاہوں تاکہ ہرشخص کو وہ بدلہ دیا جائے جو اس نے کوشش کی ہو۔(طہ:15)



اب آخر میں رب العزت سے دعاگوہوں کہ اے الہ العالمین تو ہم سب کو2025 اور آنے والے تمام اوقات میں اپنی اپنی آخرت کے لئے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے کی توفیق عطافرما۔آمین ثم آمین یارب العالمین۔

طالب دعا

ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی​
 

اٹیچمنٹس

Top