- شمولیت
- مارچ 04، 2011
- پیغامات
- 790
- ری ایکشن اسکور
- 3,982
- پوائنٹ
- 323
محدثین کرام رحمہ اللہ پر اتھامات کا جائزہ
ابو انس محمد یحیى گوندلوی
حال ہی میں ” قرآن مقدس اور بخاری محدث “ کے نام سے ایک اسلام شکن کتاب شائع ہوئی ہے جس کے ٹائیٹل پر مؤلف کا نام احمد سعید ملتانی مرقوم ہے اور مؤلف کے نام کے ساتھ شیخ التفسیر والحدیث ، امام انقلاب ، حضرت ، علامہ جیسے القاب کا بھی لاحقہ ہے کتاب کیا ہے ۔ صحیح احادیث کو باطل قرار دینے کی سعی نامشکور ہے قلم کی زبان ناشگفتہ بلکہ انتہائی بیہودہ ہے جس میں مؤلف نے بزعم خویش صحیح بخاری کا اپریشن کیا ہے اور اپنا پورا زور اس پر صرف کیا ہے کہ ائمہ محدثین جو اسلام کے اصل محافظ ہیں اور جن کی کوششوں اور مساعی سے آج ہمارے پاس اسلام اپنی اصل حالت میں موجود ہے اگر اللہ تعالیٰ ان نفوس قدسیہ کو اسلام کی حفاظت کی توفیق عنایت نہ کرتا تو یقینا اسلام کے حلیہ کو یہودیت اور نصرانیت سے بھی زیادہ گھناؤنی شکل میں بگاڑ دیا جاتا اور آج اصل اسلام کی صورت باقی نہ ہوتی ان محدثین کو مؤلف موصوف نے اپنی زبان میں خوب کوسا ہے حتیٰ کہ امام زہری جیسے عظیم محدث اور فقیہ کو بکواسی اور امام ہشام بن عروہ جیسے اسلام کے عظیم سپوت کو کذاب تک کہہ دیا ہے ۔
کتاب کا سرسری جائزہ اس بات کی واضح شہادت دیتا ہے کہ یہ کتاب اول تا آخر تضادات ھفوات اور کذبات کا معجون مرکب ہے جس میں اس مؤلف نے صحیح متفق علیہ احادیث کو اپنی عقل ناسدید کے بل بوتے پر ٹھکرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور گستاخی کی ہے ایسی دلآزار کتاب کا جائزہ محض اسلام کی حفاظت کا ایک فریضہ ہے تا کہ بعض لوگ اس اسلام شکن کتاب سے کہیں احادیث صحیحہ کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار نہ ہو جائیں ورنہ یہ اس لائق ہے کہ اس کی طرف التفات نہ کیا جائے ۔
مؤلف کے جھوٹ :
کتاب کا موضوع ہے کہ ثابت کیا جائے کہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ میں بہت سی احادیث ( معاذ اللہ ) من گھڑت ہیں مگر یہ الگ بات ہے کہ مولف کسی علمی اصول کے تحت صحیح بخاری کی کسی ایک حدیث کو بھی من گھڑت ثابت نہیں کر سکے ہاں البتہ خود کذب بیانی افتراءعلی اللہ اور افتراءعلی الرسول اللہ کے مرتکب ضرور ہوئے ہیں جن میں سے ان کے صرف چند کذبات کو قارئین کے سامنے رکھتے ہیں تا کہ اس نام نہاد شیخ الحدیث بقلم خود امام انقلاب کی اپنی حیثیت واضح ہو سکے ۔
1 مؤلف نے اپنی کتاب کا آغاز ہی رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراءاور جھوٹ سے کیا ہے ۔ چنانچہ تمہید میں ہی لکھتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں سراج الامۃ کی پیش گوئی فرمائی ۔ ( ص 1 مفہوما )
موصوف نے دراصل اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے عام طور پر متعصب احناف امام صاحب کے فضائل میں بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابو حنیفة سراج امتی ” ابو حنیفہ میری امت کے چراغ ہیں ۔ “ یہ حدیث ائمہ نقاد محدثین کے نزدیک من گھڑت ہے ۔ اس کا راوی محمد بن سعید البورقی کذاب اور وضاع ہے اس کے بارے میں امام ذہبی فرماتے ہیں : کان احد الوضاعین ” یہ حدیث وضع کرنے والوں میں سے تھا ۔ “
امام حمزہ السھمی فرماتے ہیں :
” کذاب خبیث تھا ( میزان الاعتدال ص 566 ج 3 ) اس روایت کے من گھڑت ہونے پر محدثین کی بہت زیادہ شہادتیں اور فیصلے ہیں ہم اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے صرف ایک حنفی محدث کا فیصلہ تحریر کرتے ہیں ۔ ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : موضوع باتفاق المحدثین ( الموضوعات الکبیر ص23 ) ” اس حدیث کے من گھڑت ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق ہے ۔ “ حافظ خطیب بغدادی اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ ” محمد بن سعید البورقی جھوٹ پر کتنا بڑا جری ہے جیسا کہ اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ” من کذب عل متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار “ سنی نہیں ہم خواہش کے غلبہ سے اللہ کریم سے پناہ طلب کرتے ہیں ( تاریخ بغداد ص 310 ج 5 ) راقم الحروف کہتا ہے شاید بورقی کو تو رسول اللہ پر جھوٹ والی ( مذکورہ ) حدیث کا علم نہ ہو البتہ ہمارا موصوف تو اس متواتر حدیث سے ناواقف نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ خود کو شیخ الحدیث ظاہر کرتا ہے گویا کہ اس امام انقلاب نے یہ روایت نقل کر کے بورقی سے بھی رسول اللہ پر جھوٹ باندھنے کی زیادہ جرات کی ہے ۔
قارئین کرام! جس کتاب کا آغاز ہی ایک من گھڑت روایت سے ہوا ہو اس کا مؤلف کس قدر ثقہ ہو گا ۔ اور اس کی کتاب کتنی قابل اعتماد ہو گی حقیقت یہی ہے کہ نہ اس کا مؤلف ثقہ ہے اور نہ ہی اس کی یہ تالیف قابل اعتماد ہے ۔
2 موصوف لکھتے ہیں : محدث دارقطنی وغیرہ کے ذہن رسا بیان میں واقعیت ہے کہ بخاری ضعیف فی الحدیث اور متعصب ہے ( ص 1 )
موصوف نے یہ تو کہہ دیا کہ امام دارقطنی نے امام بخاری کو حدیث میں ضعیف اور متعصب کہا ہے مگر اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا ۔ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ان کا یہ بھی جھوٹ ہے اس لئے انہوں نے اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا ۔ ہم علی الیقین کہتے ہیں کہ امام دارقطنی سمیت کسی ایک محدث نے بھی امام بخاری کو حدیث میں ضعیف نہیں کہا ۔ رہی تعصب کی بات تو یہ احناف کا شگوفہ چھوڑا ہوا ہے جو علمی اصول اور دیانت سے بہت بعید ہے اور صحیح بخاری کے اسلوب سے جہالت کا نتیجہ ہے ورنہ ائمہ عظام تو امام بخاری کو امام المحدثین اور رئیس الفقہاءکے لقب سے یاد کرتے ہیں ۔ ( ہدی الساری )
امام دارقطنی نے امام بخاری کے بارے میں تو ایسی بات نہیں کی کہ وہ حدیث میں ضعیف ہیں البتہ امام ابوحنیفہ کے بارے میں انہوں نے یہ ضرور فرمایا ہے کہ وہ ضعیف ہیں ۔ ( سنن دارقطنی ج 1 )
3 موصوف لکھتے ہیں : امام زیلعی اور اوزاعی نے فرمایا : الناس فی الفقہ عیال علی اب حنیفة ۔ ( ص2 )
امام زیلعی تو حنفی ہیں اگر انہوں نے حنفیت کی بنا پر یہ بات کہہ دی تو یہ ناممکن نہیں مگر موصوف نے اس قول کا کوئی حوالہ نہیں دیا ظن غالب یہی ہے کہ یہ موصوف کا خود ساختہ مفروضہ ہے ۔ رہے امام اوزاعی تو وہ اس قول سے قطعا مبرا ہیں انہوں نے ایسی بات نہیں کی بلکہ حقائق اس کے کچھ برعکس ہیں جن کی تفصیل کا یہاں محل نہیں ۔ بلاشبہ یہ بھی موصوف کا امام اوزاعی پر الزام ہے ۔
4 موصوف فرماتے ہیں : امام حمیدی رفع یدین میں اسی طرح امام ترمذی دارمی وغیرہم سب بخاری کے مخالف ہیں ۔ ( ص 2 )
یہ بھی موصوف کا جھوٹ ہے کہ مذکورہ ائمہ عظام مسئلہ رفع یدین میں امام بخاری کے مخالف تھے ۔ جبکہ حقیقت میں تینوں ائمہ رفع یدین کے مسئلہ میں قطعا امام بخاری کے مخالف نہ تھے بلکہ یہ رفع یدین کے سنت ہونے کے قائل تھے ۔ اس دور کے ائمہ بارے میں امام مروزی نے فرمایا تھا : ” کہ تمام لوگ رفع یدین کرتے تھے مگر کوفیوں میں سے چند لوگ رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔ “ ( جلاءالعینین للراشدی )
5 موصوف لکھتے ہیں قرآن و حدیث اور صحابہ کے قول و عمل سے اجتہاد فی المسائل ثابت ہے اور اہل علم و الفقہ کی تقلید کی ترغیب دی گئی ہے ۔ ( ص 21 )
موصوف نے ایک ہی سانس میں کئی باتیں کہہ دیں ۔ رہا اجتہاد فی المسائل اس کا تو بین ثبوت ہے رہی یہ بات کہ اہل العم والفقہ کی تقلید کی ترغیب دی گئی ہے تو یہ موصوف کا قرآن پر ، حدیث پر اور صحابہ کرام پر جھوٹ ہے ۔ قرآن کریم کی کسی ایک آیت میں تقلید کی ترغیب نہیں ہے ۔ البتہ اکابر کی بلاوجہ پیروی کی مذمت ضروری ہے ۔ رہا حدیث میں تقلید کی ترغیب تو موصوف پوری کوشش کر کے دیکھ لیں کہ وہ کہیں تقلید کا لفظ اس معنی میں تلاش نہیں کر سکتے جس معنی میں مقلدین تقلید کا معنی مراد لیتے ہیں ۔ تم خود سوچو جس کے لفظ کا وجود نہیں بھلا اس کی ترغیب کیسے ہو سکتی ہے ۔ موصوف کو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراءباندھتے ہوئے کچھ خوف کرنا چاہیے تھا اسی طرح کسی ایک صحابی سے بھی تقلید کی ترغیب کا اثبات نہیں ملتا یہ بھی موصوف کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر افتراءہے البتہ جناب عبداللہ بن مسعود اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے صریح الفاظ میں تقلید کے خلاف روایات موجود ہیں تفصیل کے لیے راقم الحروف کی کتاب ” مقلدین ائمہ کی عدالت میں “ ملاحظہ فرمائیں ۔
اصل ہدف :
قارئین کرام! موصوف کے یہ چند جھوٹ ہم نے نمونہ کے طور پر پیش کئے ہیں اب ہم موصوف کے اصل ہدف کی طرف آتے ہیں اور وہ ہے محدثین کرام پر طعن و تشنیع کرنا اور انہیں کذاب اور وضاع ثابت کرنے کی کوشش کرنا ۔ مثلا صحیح بخاری کے عام رواة کے بارے میں فرماتے ہیں : ” بخاری نے لعنتی راویوں پر اعتماد کلی کر کے ام البشر حضرت حواءکو خیانت کرنے والیوں میں ذکر کر دیا ۔ “ ( ص 22 )
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں ” لعنتی راویوں نے بخاری کو ایسا اعتماد دلایا ( ص 44 ) تیسرے مقام پر ہے ” لیکن بددماغ روات کا چونکہ اپنا وظیرہ ہی جھوٹ ہے ۔ ( ص63 ) چوتھے مقام پر ہے ” لعنتی روات بخاری ( ص76 ) پانچویں مقام پر صحیح بخاری کی ایک حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے حالانکہ یہ ساری داستان ہی جھوٹی بنائی ہے یعنی لعنتی راویوں نے ( ص 102 ) امام انقلاب کے صحیح بخاری کے عام روات کے بارے میں یہ چند اقوال ہیں ۔ جن میں موصوف نے بتکراران ائمہ روات کو لعنتی قرار دیا ہے اور ذرہ برابر شرم نہیں کی کہ میں کن نفوس قدسیہ پر لعنت کے دوڑے برسا رہا ہوں اور کن مقدس ہستیوں کو لعنتی قرار دے رہا ہوں اگر ان روات پر عدم اعتماد کیا جائے اور ان کو لعنتی قرار دیا جائے تو اسلام نام کا کوئی دین باقی نہیں رہتا یہ وہی روات ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں اس دین کی حفاظت کی خاطر وقف کر رکھی تھیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو قرآن کریم کے اصل محافظ ہیں ان پر عدم اعتماد کر کے قرآن کریم کا وجود کہاں سے لاؤں گے گویا کہ بخاری کے ان تمام روات پر عدم اعتماد کا معنی یہ ہے کہ اسلام عہد صحابہ میں ہی ختم ہو گیا تھا ۔ کیونکہ روات بخاری میں متعدد صحابہ کرام کے علاوہ سینکڑوں تابعین اور تبع تابعین بھی موجود ہیں جن کے ذریعے ہی اصل اسلام تک رسائی ہو سکتی ہے ۔
ائمہ فحول پر تبرا بازی :
صحیح بخاری کے تمام رواة کے علاوہ اس بقلم خود امام انقلاب نے ائمہ فحول پر بھی تبرا بازی کے نشتر چلانے میں کمی نہیں کی خصوصا ائمہ تابعین امام زہری ، ہشام بن عروہ اور ابوحازم اشجعی وغیرہم کے بارے میں انتہائی سوقیانہ زبان استعمال کی ہے ۔
امام زہری کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہوئے لکھتا ہے نہ بخاری کو قرآن کا علم نہ ان کے امام زہری کو علم نہ امام بخاری کو آپ کی حیثیت نبویہ کا پاس نہ زہری ایسے بکواسی کو ( ص14 ) زہری شیعہ اور پھکڑ باز بھی ہے ( ص34 ) امام بخاری ، زہری ایسے باتونی اور پھکڑ باز رفض نواز راوی ( ص76 ملخصا ) زہری شیعوں میں شیعہ اور سنیوں میں اہل سنت تھا ۔ ( ص79 )
موصوف نے امام زہری کے بارے میں یہ سب باتیں بلاحوالہ تحریر کی ہیں کسی ایک بات کا ثبوت نہیں دیا آخر وہ ان ہفوات کا ثبوت کہاں سے مہیا کرتے جبکہ امام زہری بقول حافظ ابن حجر امام علام حافظ فقیہ اور عالم حجاز اور شام ہیں بعض صحابہ کے تلامذہ میں سے ہیں ان کے تلامذہ کی تعداد کا احاطہ شمار سے باہر ہے جن میں موصوف کے امام اعظم بھی ہیں ان کے بارے میں مدح و ثنا میں ائمہ اعلام کے اتنے کثیر اقوال ہیں جو ایک مستقل کتاب کے متقاضی ہیں ہمارے علم میں نہیں کہ کسی بھی امام نے امام زہری کے بارے میں اس طرح کی ہرزہ سرائی کی ہو جس طرح موصوف نے کی ہے ۔ بلکہ امام زہری کے سلسلہ سند کو سلسلۃ الذہب ( سونے کی کڑی ) قرار دیا ہے ۔ ( تہذیب ص 448 ج 9 )
اور ان کی بیان کردہ احادیث پر کامل اعتماد کا اظہار کیا ہے ۔ امام نسائی تو فرماتے ہیں : امام زہری کی سند احسن الاسانید ہے “ اور لیث بن جعفر نے فرمایا : ” اہل مدینہ میں سب سے بڑے فقیہ سعید بن عروہ اور عبداللہ بن عبداللہ ہیں ۔ “ تو اس پر امام عراک بن مالک لیث بن جعفر سے فرمانے لگے ( ( اعلمھم عندی جمیعا ابن شھاب لانہ جمع علمھم الی علمہ ) ) ” میرے نزدیک زہری ان تمام سے بڑے عالم ہیں اس لئے کہ زہری نے ان تمام کے علوم کو اپنے علم میں جمع کیا ہے ۔ “
امام ابن سعد فرماتے ہیں : ( ( قالوا وکان الزھری ثقة کثیر الحدیث والعلم والروایة فقیھا جامعا وقال ابو الزناد انہ اعلم الناس ) ) ( تہذیب ص 449 ج 9 )
” محدثین امام زہری کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ کثیر الحدیث تھے علم اور روایت میں بڑے ہوئے تھے فقیہ تھے جنہوں نے دیگر ائمہ کا علم جمع کیا تھا ابوالزناد فرماتے ہیں وہ تمام لوگوں سے بڑے عالم تھے ۔ “
اور یہی بات امام ایوب سختیانی نے کہی ہے وہ فرماتے تھے : ما رایت احدا اعلم من الزھری ( تہذیب ص449 ج 9 ) ” میں نے زہری سے کوئی عالم نہیں دیکھا ۔ “ اور یہی بات اپنے دور کے عظیم محدث اور فقیہ امام لیث نے فرمائی ہے : ما رایت عالما اجمع من ابن شھاب ولا اکثر علما منہ ( تہذیب ص 449 ج 9 ) ” میں نے زہری سے بڑا عالم اور جامع کسی کو نہیں دیکھا ۔ “
یہ امام زہری کے بارے میں ان لوگوں کی شہادتیں جنہوں نے ان کو قریب سے دیکھا ہے اور ان کی ثقاہت اور امانت اور عظیم محدث اور عالم ہونے کی گواہی دی ہے ۔ ایسے فحول اور اکابر کی شہادت کے مقابلہ میں اس بقلم خود امام انقلاب کے ہفوات کی کیا حیثیت ہے ؟ موصوف کو امام زہری سے صرف اس لئے قدغن ہے کہ ان کی بیان کردہ صحیح احادیث ان کے خود ساختہ اعتقادات کے منافی ہیں امام زہری کے متعلق ایسی لغو گفتگو کا مطلب صرف یہ ہے کہ ان صحیح احادیث کو رد کر دیا جائے جو ان کے طریق سے مروی ہےں یہ امام زہری سے ناراض نہیں بلکہ صحیح احادیث سے اعراض کناں ہیں ۔ اس لئے کہ امام زہری نے اپنی زندگی خدمت اور اشاعت سنت کی خاطر وقف کر رکھی تھی ان کا دن رات مشغلہ ہی کتاب و سنت کی تدریس اور ترویج تھا امام زہری خود فرماتے ہیں ۔
( ( ما نشر احد من الناس ھذا العلم نشری ولا بذلہ بزلی ) ) ( تہذیب ص 449 ج 9 )
” میں نے سنت کی جس قدر اشاعت کی لوگوں میں سے کسی ایک نے نہیں کی ۔ “
بس امام زہری کی ترویج سنت میں یہی کوشش موصوف کو کھٹکتی ہے اس لئے کہ سنت کی موجودگی میں ان کے مفروضہ مذہب کے قول و اقوال بے وقعت ہو کر رہ جاتے ہیں جس سے ان کے مذہب کے وجود کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے ۔
امام ہشام بن عروہ پر تنقید :
بہت سے منکرین حدیث نے اپنی تنقید کا محور امام ہشام بن عروہ کو بنایا ہے اس لئے کہ یہ ارکان حدیث میں سے تھے اور اشاعت حدیث اور حفاظت حدیث میں ان کا کردار امام زہری کی ہی طرح زندہ اور تابندہ ہے اسی لیے محدثین کے ہاں ان کا مقام و مرتبہ بھی ارفع و بلند ہے مگر یہ منکرین حدیث کو بہت کھٹکتے ہیں اس لئے وہ ان کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہیں ان کے نقش پا پر چلتے ہوئے اس نام نہاد شیخ الحدیث نے بھی ہشام بن عروہ کے بارے میں لچر زبانی کا مظاہرہ کیا ہے اور ان کے بارے میں انتہائی سنگین الفاظ استعمال کئے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں : ” ہشام کذاب اور مدلس ہے ۔ “ ( ص17 )
موصوف نے امام ہشام بن عروہ کے کذاب ہونے کا کوئی حوالہ نہیں دیا اس لئے کہ ان منکرین حدیث سے قبل کسی ایک محدث نے امام ہشام کو ایسے الفاظ سے یاد نہیں کیا بلکہ اکابر محدثین ان کی ثقاہت اور جلالت کے قائل تھے ۔ امام ابن سعد ان کے بارے میں فرماتے ہیں : ثقة ثبتا کثیر الحدیث حجة ” ثقہ ، ثبت حجت اور کثیر الحدیث تھے ۔ “ امام ابوحاتم فرماتے ہیں ” ثقہ حدیث میں امام تھے ۔ “ اور ابن حبان فرماتے ہیں : کان متقنا ورعا فاضلا حافظا ( تہذیب ص 50 ، 51 ج 11 ) ” متقی پرہیز گار فاضل اور حافظ تھے ۔ محدثین نے ثقات کے جتنے اعلیٰ اوصاف ہیں وہ تمام امام ہشام میں تسلیم کئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اعلیٰ درجہ کے قابل اعتماد تھے ان کی بیان کردہ حدیث دلیل اور حجت مانی جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حدیث جسے ہشام بیان کریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی حدیث ہے جو دین کا ایک جزءہے اور اس حدیث میں جو بیان ہوا ہے وہ درست اور لائق عمل ہے ۔ لہٰذا موصوف کا امام ہشام کو کذاب کہنا ان کا محض افتراءاور الزام ہے بلکہ اس قابل اعتماد امام پر صریحا تہمت ہے ۔ محدثین میں سے کوئی ایک شخص بھی مؤلف کا اس بارے میں سلف نہیں ہے ۔
امام بخاری پر اتھامات :
موصوف نے اپنی اسلام شکن تالیف میں حجۃ الاسلام امام المحدثین والفقہاءتاج المفسرین امام بخاری اور ان کی کتاب صحیح بخاری پر دل کھول کر تقلیدی ابال نکالا ہے اور امام بخاری پر قرآن کا محرف ، مبدل اور بالآخر قرآن کی صریحا مخالفت کرنے والا اور قرآن سے معارضہ سلوک برتنے والا جیسے الزام عائد کئے ہیں ۔ ان کا ہم تفصیلی جائزہ بحمد اللہ اس بارے میں ایک مستقل تالیف میں لے رہے ہیں جو تکمیل کے آخری مرحلہ میں ہے تاہم اس مختصر مقالہ میں ہم امام بخاری کے بارے میں موصوف کے چند خیالات پیش کرتے ہیں تا کہ قارئین کرام اس کی ذہنی خباثت اور خیانت سے مطلع ہو سکےں ۔
یہ امام الخرافات بخاری شریف کی ایک حدیث جو آغاز وحی کے بارے میں ہے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے ” کیا ایسا آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی کہلوانے کا حق بھی رکھتا ہے کیا یہ امام بخاری کا تدین ہے یا لعنتی راویوں کا کاٹا گری ہے کیا امام بخاری اس جرم سے بری ہو سکتے ہیں ۔ “ ( ص 15 )
مزید لکھتے ہیں ” شومی قسمت کہ اسناد کے چکر میں پڑنے اور مفہوم قرآن کو مجہور ( ترک ) کرنے والے روات نے امام بخاری کو بھی ایسا الجھایا کہ نہ ان کو قرآن کی تصریح سے آگاہی ہوئی نہ سیرت نبویہ کا پاس آیا نہ صحابہ کرام کے پاک طینت کو سوچا ۔ “ ( ص 27 )
تیسرے مقام پر امام بخاری کو وضاع قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے ” بخاری صاحب نے لعنتی راویوں پر اعتماد کر کے بڑے وثوق سے روایت جڑ دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے معاذ اللہ بغاوت کر کے صریح قرآن کی مخالفت کر دی ۔ “ ( ص 71 ملخصاً )
امام بخاری بھی راویوں کی عجیب گرفت میں آئے کہ نہ قرآن دیکھا نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت عرفی کا پاس ، کیا ذہن بند کر کے روایت ٹانک دی ۔ ایک جگہ امام بخاری کو مشرک قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے ” کسی لعنتی راوی نے بخاری کو شرک کی پٹی پڑھائی ہے کہ ہوش یافتہ ہو کر امام بخاری نے اپنی صحیح میں درج کر دیا ہے کیا اب بھی بخاری کی روایت کا اعتبار کیا جا سکتا ہے ۔ امام بخاری پر صحابہ دشمنی کا الزام عائد کرتے ہوئے لکھتا ہے ” امام بخاری صحابہ کرام کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے ۔ “ ( ص 54 )
یہ چند ھفوات تھے جو امام بخاری کے متعلق مولف کے قلم سے صادر ہوئے ہیں تفصیلی جائزہ تو ہم اس بارے میں مستقل تالیف میں لے رہے ہیں یہاں مختصر عرض ہے کہ تمام ائمہ اکابر جن میں ائمہ احناف بھی شامل ہیں کا امام بخاری کی ثقاہت ، عدالت ، حفظ ، ضبط اور اتقان پر اجماع اور اتفاق ہے آج تک کسی ایک مسلمہ امام نے امام بخاری کی تقاہت دور عدالت کو چیلنج نہیں کیا ہاں البتہ منکرین حدیث اور وہ بھی زیادہ تر برصغیر کے امام بخاری کے بارے میں بکواس بکتے رہتے ہیں ۔ مولف موصوف نے بھی یہ تمام باتیں ان ہی منکرین سے سرقہ کر کے اپنی کتاب میں داخل کی ہیں ۔ مسلمانوں میں آج بھی فن حدیث میں امام بخاری کو اتھارٹی سمجھا جاتا ہے اور اس فن حدیث میں ان کی اتھارٹی کو چیلنج کرنا ممکن نہیں ۔
امام بخاری کے اتنے فضائل ہیں کہ ان کی سیرت مبارکہ پر دنیا بھر کی معروف اور زندہ زبانوں میں درجنوں کتب تحریر ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں جو ان کی عظمت ، ثقاہت اور عدالت کا بین اعتراف ہے ۔
امام ابن خزیمہ ان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
( ( ما رایت تحت ادیم السماءاعلم بحدیث رسول اللہ ولا احفظ لہ من البخاری ) ) ( تہذیب ص 52 ج 9 ) ” میں نے آسمان کی چھت کے نیچے کوئی شخص نہیں دیکھا جو امام بخاری سے حدیث رسول کا زیادہ عالم اور حافظ ہو ۔ “
امام الائمہ اسحاق بن راہویہ فرماتے ہیں :
” اے اصحاب الحدیث کی جماعت اس نوجوان ( بخاری ) سے حدیث لکھا کرو اگر یہ حسن بصری کے زمانہ میں ہوتے تو تب بھی لوگ اس کی حدیث دانی اور فقہ میں معرفت اور مہارت کی بنا پر اس کی طرف محتاج ہوتے ۔ “ ( ایضا )
امام مسندی نے شاید اسی طرح کے حواس باختہ لچر زبان لوگوں کے بارے میں فرمایا تھا : ” امام بخاری امام ہیں جو شخص ان کو امام نہیں مانتا اسے متہم قرار دو ۔ “ ( ایضا )
بلاشبہ اس نام نہاد شیخ الحدیث کے ھفوات سے امام بخاری کی عظمت و ثقاہت پر تو کوئی حرف نہیں آئے گا البتہ صحیح احادیث کی تضحیک اور تکذیب کی وجہ سے ایسا شخص مسلمانوں کے ہاں ضرور متہم قرار پائے گا ۔
شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں :
( ( امام الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی ان جمیع ما فیھما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع وانھا متواتر ان الی مصنفیھا وانہ کل من یھون امرھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المومنین ) ) ( حجۃ اللہ ص 134 ج 1 ) ” تمام محدثین کا اتفاق ہے کہ بخاری و مسلم میں جو بھی حدیث مرفوع متصل ہے بلاشبہ وہ قطعا صحیح ہے اوریہ دونوں کتابیں اپنے مصنفوں تک متواتر ہیں جو شخص ان کے امر کی توہین کرتا ہے وہ بدعتی ہے جو مومنوں کے راستہ کے علاوہ کسی دوسرے راستے کی پیروی کرتا ہے ۔ “
بلاشبہ حضرت شاہ رحمہ اللہ نے درست کہا ہے موصوف نے صحیح بخاری کی احادیث کو بلا دلیل نشانہ بنا کر مومنوں کے راستہ کے علاوہ دوسروں کے راستہ کی پیروی کی ہے کیونکہ تمام مسلمانوں کا صحیح بخاری کی صحت پر اتفاق ہے
دين خالص || محدثین کرام پر اتہامات کا جائزہ
ابو انس محمد یحیى گوندلوی
حال ہی میں ” قرآن مقدس اور بخاری محدث “ کے نام سے ایک اسلام شکن کتاب شائع ہوئی ہے جس کے ٹائیٹل پر مؤلف کا نام احمد سعید ملتانی مرقوم ہے اور مؤلف کے نام کے ساتھ شیخ التفسیر والحدیث ، امام انقلاب ، حضرت ، علامہ جیسے القاب کا بھی لاحقہ ہے کتاب کیا ہے ۔ صحیح احادیث کو باطل قرار دینے کی سعی نامشکور ہے قلم کی زبان ناشگفتہ بلکہ انتہائی بیہودہ ہے جس میں مؤلف نے بزعم خویش صحیح بخاری کا اپریشن کیا ہے اور اپنا پورا زور اس پر صرف کیا ہے کہ ائمہ محدثین جو اسلام کے اصل محافظ ہیں اور جن کی کوششوں اور مساعی سے آج ہمارے پاس اسلام اپنی اصل حالت میں موجود ہے اگر اللہ تعالیٰ ان نفوس قدسیہ کو اسلام کی حفاظت کی توفیق عنایت نہ کرتا تو یقینا اسلام کے حلیہ کو یہودیت اور نصرانیت سے بھی زیادہ گھناؤنی شکل میں بگاڑ دیا جاتا اور آج اصل اسلام کی صورت باقی نہ ہوتی ان محدثین کو مؤلف موصوف نے اپنی زبان میں خوب کوسا ہے حتیٰ کہ امام زہری جیسے عظیم محدث اور فقیہ کو بکواسی اور امام ہشام بن عروہ جیسے اسلام کے عظیم سپوت کو کذاب تک کہہ دیا ہے ۔
کتاب کا سرسری جائزہ اس بات کی واضح شہادت دیتا ہے کہ یہ کتاب اول تا آخر تضادات ھفوات اور کذبات کا معجون مرکب ہے جس میں اس مؤلف نے صحیح متفق علیہ احادیث کو اپنی عقل ناسدید کے بل بوتے پر ٹھکرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور گستاخی کی ہے ایسی دلآزار کتاب کا جائزہ محض اسلام کی حفاظت کا ایک فریضہ ہے تا کہ بعض لوگ اس اسلام شکن کتاب سے کہیں احادیث صحیحہ کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار نہ ہو جائیں ورنہ یہ اس لائق ہے کہ اس کی طرف التفات نہ کیا جائے ۔
مؤلف کے جھوٹ :
کتاب کا موضوع ہے کہ ثابت کیا جائے کہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ میں بہت سی احادیث ( معاذ اللہ ) من گھڑت ہیں مگر یہ الگ بات ہے کہ مولف کسی علمی اصول کے تحت صحیح بخاری کی کسی ایک حدیث کو بھی من گھڑت ثابت نہیں کر سکے ہاں البتہ خود کذب بیانی افتراءعلی اللہ اور افتراءعلی الرسول اللہ کے مرتکب ضرور ہوئے ہیں جن میں سے ان کے صرف چند کذبات کو قارئین کے سامنے رکھتے ہیں تا کہ اس نام نہاد شیخ الحدیث بقلم خود امام انقلاب کی اپنی حیثیت واضح ہو سکے ۔
1 مؤلف نے اپنی کتاب کا آغاز ہی رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراءاور جھوٹ سے کیا ہے ۔ چنانچہ تمہید میں ہی لکھتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں سراج الامۃ کی پیش گوئی فرمائی ۔ ( ص 1 مفہوما )
موصوف نے دراصل اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے عام طور پر متعصب احناف امام صاحب کے فضائل میں بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابو حنیفة سراج امتی ” ابو حنیفہ میری امت کے چراغ ہیں ۔ “ یہ حدیث ائمہ نقاد محدثین کے نزدیک من گھڑت ہے ۔ اس کا راوی محمد بن سعید البورقی کذاب اور وضاع ہے اس کے بارے میں امام ذہبی فرماتے ہیں : کان احد الوضاعین ” یہ حدیث وضع کرنے والوں میں سے تھا ۔ “
امام حمزہ السھمی فرماتے ہیں :
” کذاب خبیث تھا ( میزان الاعتدال ص 566 ج 3 ) اس روایت کے من گھڑت ہونے پر محدثین کی بہت زیادہ شہادتیں اور فیصلے ہیں ہم اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے صرف ایک حنفی محدث کا فیصلہ تحریر کرتے ہیں ۔ ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : موضوع باتفاق المحدثین ( الموضوعات الکبیر ص23 ) ” اس حدیث کے من گھڑت ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق ہے ۔ “ حافظ خطیب بغدادی اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ ” محمد بن سعید البورقی جھوٹ پر کتنا بڑا جری ہے جیسا کہ اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ” من کذب عل متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار “ سنی نہیں ہم خواہش کے غلبہ سے اللہ کریم سے پناہ طلب کرتے ہیں ( تاریخ بغداد ص 310 ج 5 ) راقم الحروف کہتا ہے شاید بورقی کو تو رسول اللہ پر جھوٹ والی ( مذکورہ ) حدیث کا علم نہ ہو البتہ ہمارا موصوف تو اس متواتر حدیث سے ناواقف نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ خود کو شیخ الحدیث ظاہر کرتا ہے گویا کہ اس امام انقلاب نے یہ روایت نقل کر کے بورقی سے بھی رسول اللہ پر جھوٹ باندھنے کی زیادہ جرات کی ہے ۔
قارئین کرام! جس کتاب کا آغاز ہی ایک من گھڑت روایت سے ہوا ہو اس کا مؤلف کس قدر ثقہ ہو گا ۔ اور اس کی کتاب کتنی قابل اعتماد ہو گی حقیقت یہی ہے کہ نہ اس کا مؤلف ثقہ ہے اور نہ ہی اس کی یہ تالیف قابل اعتماد ہے ۔
2 موصوف لکھتے ہیں : محدث دارقطنی وغیرہ کے ذہن رسا بیان میں واقعیت ہے کہ بخاری ضعیف فی الحدیث اور متعصب ہے ( ص 1 )
موصوف نے یہ تو کہہ دیا کہ امام دارقطنی نے امام بخاری کو حدیث میں ضعیف اور متعصب کہا ہے مگر اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا ۔ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ان کا یہ بھی جھوٹ ہے اس لئے انہوں نے اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا ۔ ہم علی الیقین کہتے ہیں کہ امام دارقطنی سمیت کسی ایک محدث نے بھی امام بخاری کو حدیث میں ضعیف نہیں کہا ۔ رہی تعصب کی بات تو یہ احناف کا شگوفہ چھوڑا ہوا ہے جو علمی اصول اور دیانت سے بہت بعید ہے اور صحیح بخاری کے اسلوب سے جہالت کا نتیجہ ہے ورنہ ائمہ عظام تو امام بخاری کو امام المحدثین اور رئیس الفقہاءکے لقب سے یاد کرتے ہیں ۔ ( ہدی الساری )
امام دارقطنی نے امام بخاری کے بارے میں تو ایسی بات نہیں کی کہ وہ حدیث میں ضعیف ہیں البتہ امام ابوحنیفہ کے بارے میں انہوں نے یہ ضرور فرمایا ہے کہ وہ ضعیف ہیں ۔ ( سنن دارقطنی ج 1 )
3 موصوف لکھتے ہیں : امام زیلعی اور اوزاعی نے فرمایا : الناس فی الفقہ عیال علی اب حنیفة ۔ ( ص2 )
امام زیلعی تو حنفی ہیں اگر انہوں نے حنفیت کی بنا پر یہ بات کہہ دی تو یہ ناممکن نہیں مگر موصوف نے اس قول کا کوئی حوالہ نہیں دیا ظن غالب یہی ہے کہ یہ موصوف کا خود ساختہ مفروضہ ہے ۔ رہے امام اوزاعی تو وہ اس قول سے قطعا مبرا ہیں انہوں نے ایسی بات نہیں کی بلکہ حقائق اس کے کچھ برعکس ہیں جن کی تفصیل کا یہاں محل نہیں ۔ بلاشبہ یہ بھی موصوف کا امام اوزاعی پر الزام ہے ۔
4 موصوف فرماتے ہیں : امام حمیدی رفع یدین میں اسی طرح امام ترمذی دارمی وغیرہم سب بخاری کے مخالف ہیں ۔ ( ص 2 )
یہ بھی موصوف کا جھوٹ ہے کہ مذکورہ ائمہ عظام مسئلہ رفع یدین میں امام بخاری کے مخالف تھے ۔ جبکہ حقیقت میں تینوں ائمہ رفع یدین کے مسئلہ میں قطعا امام بخاری کے مخالف نہ تھے بلکہ یہ رفع یدین کے سنت ہونے کے قائل تھے ۔ اس دور کے ائمہ بارے میں امام مروزی نے فرمایا تھا : ” کہ تمام لوگ رفع یدین کرتے تھے مگر کوفیوں میں سے چند لوگ رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔ “ ( جلاءالعینین للراشدی )
5 موصوف لکھتے ہیں قرآن و حدیث اور صحابہ کے قول و عمل سے اجتہاد فی المسائل ثابت ہے اور اہل علم و الفقہ کی تقلید کی ترغیب دی گئی ہے ۔ ( ص 21 )
موصوف نے ایک ہی سانس میں کئی باتیں کہہ دیں ۔ رہا اجتہاد فی المسائل اس کا تو بین ثبوت ہے رہی یہ بات کہ اہل العم والفقہ کی تقلید کی ترغیب دی گئی ہے تو یہ موصوف کا قرآن پر ، حدیث پر اور صحابہ کرام پر جھوٹ ہے ۔ قرآن کریم کی کسی ایک آیت میں تقلید کی ترغیب نہیں ہے ۔ البتہ اکابر کی بلاوجہ پیروی کی مذمت ضروری ہے ۔ رہا حدیث میں تقلید کی ترغیب تو موصوف پوری کوشش کر کے دیکھ لیں کہ وہ کہیں تقلید کا لفظ اس معنی میں تلاش نہیں کر سکتے جس معنی میں مقلدین تقلید کا معنی مراد لیتے ہیں ۔ تم خود سوچو جس کے لفظ کا وجود نہیں بھلا اس کی ترغیب کیسے ہو سکتی ہے ۔ موصوف کو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراءباندھتے ہوئے کچھ خوف کرنا چاہیے تھا اسی طرح کسی ایک صحابی سے بھی تقلید کی ترغیب کا اثبات نہیں ملتا یہ بھی موصوف کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر افتراءہے البتہ جناب عبداللہ بن مسعود اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے صریح الفاظ میں تقلید کے خلاف روایات موجود ہیں تفصیل کے لیے راقم الحروف کی کتاب ” مقلدین ائمہ کی عدالت میں “ ملاحظہ فرمائیں ۔
اصل ہدف :
قارئین کرام! موصوف کے یہ چند جھوٹ ہم نے نمونہ کے طور پر پیش کئے ہیں اب ہم موصوف کے اصل ہدف کی طرف آتے ہیں اور وہ ہے محدثین کرام پر طعن و تشنیع کرنا اور انہیں کذاب اور وضاع ثابت کرنے کی کوشش کرنا ۔ مثلا صحیح بخاری کے عام رواة کے بارے میں فرماتے ہیں : ” بخاری نے لعنتی راویوں پر اعتماد کلی کر کے ام البشر حضرت حواءکو خیانت کرنے والیوں میں ذکر کر دیا ۔ “ ( ص 22 )
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں ” لعنتی راویوں نے بخاری کو ایسا اعتماد دلایا ( ص 44 ) تیسرے مقام پر ہے ” لیکن بددماغ روات کا چونکہ اپنا وظیرہ ہی جھوٹ ہے ۔ ( ص63 ) چوتھے مقام پر ہے ” لعنتی روات بخاری ( ص76 ) پانچویں مقام پر صحیح بخاری کی ایک حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے حالانکہ یہ ساری داستان ہی جھوٹی بنائی ہے یعنی لعنتی راویوں نے ( ص 102 ) امام انقلاب کے صحیح بخاری کے عام روات کے بارے میں یہ چند اقوال ہیں ۔ جن میں موصوف نے بتکراران ائمہ روات کو لعنتی قرار دیا ہے اور ذرہ برابر شرم نہیں کی کہ میں کن نفوس قدسیہ پر لعنت کے دوڑے برسا رہا ہوں اور کن مقدس ہستیوں کو لعنتی قرار دے رہا ہوں اگر ان روات پر عدم اعتماد کیا جائے اور ان کو لعنتی قرار دیا جائے تو اسلام نام کا کوئی دین باقی نہیں رہتا یہ وہی روات ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں اس دین کی حفاظت کی خاطر وقف کر رکھی تھیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو قرآن کریم کے اصل محافظ ہیں ان پر عدم اعتماد کر کے قرآن کریم کا وجود کہاں سے لاؤں گے گویا کہ بخاری کے ان تمام روات پر عدم اعتماد کا معنی یہ ہے کہ اسلام عہد صحابہ میں ہی ختم ہو گیا تھا ۔ کیونکہ روات بخاری میں متعدد صحابہ کرام کے علاوہ سینکڑوں تابعین اور تبع تابعین بھی موجود ہیں جن کے ذریعے ہی اصل اسلام تک رسائی ہو سکتی ہے ۔
ائمہ فحول پر تبرا بازی :
صحیح بخاری کے تمام رواة کے علاوہ اس بقلم خود امام انقلاب نے ائمہ فحول پر بھی تبرا بازی کے نشتر چلانے میں کمی نہیں کی خصوصا ائمہ تابعین امام زہری ، ہشام بن عروہ اور ابوحازم اشجعی وغیرہم کے بارے میں انتہائی سوقیانہ زبان استعمال کی ہے ۔
امام زہری کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہوئے لکھتا ہے نہ بخاری کو قرآن کا علم نہ ان کے امام زہری کو علم نہ امام بخاری کو آپ کی حیثیت نبویہ کا پاس نہ زہری ایسے بکواسی کو ( ص14 ) زہری شیعہ اور پھکڑ باز بھی ہے ( ص34 ) امام بخاری ، زہری ایسے باتونی اور پھکڑ باز رفض نواز راوی ( ص76 ملخصا ) زہری شیعوں میں شیعہ اور سنیوں میں اہل سنت تھا ۔ ( ص79 )
موصوف نے امام زہری کے بارے میں یہ سب باتیں بلاحوالہ تحریر کی ہیں کسی ایک بات کا ثبوت نہیں دیا آخر وہ ان ہفوات کا ثبوت کہاں سے مہیا کرتے جبکہ امام زہری بقول حافظ ابن حجر امام علام حافظ فقیہ اور عالم حجاز اور شام ہیں بعض صحابہ کے تلامذہ میں سے ہیں ان کے تلامذہ کی تعداد کا احاطہ شمار سے باہر ہے جن میں موصوف کے امام اعظم بھی ہیں ان کے بارے میں مدح و ثنا میں ائمہ اعلام کے اتنے کثیر اقوال ہیں جو ایک مستقل کتاب کے متقاضی ہیں ہمارے علم میں نہیں کہ کسی بھی امام نے امام زہری کے بارے میں اس طرح کی ہرزہ سرائی کی ہو جس طرح موصوف نے کی ہے ۔ بلکہ امام زہری کے سلسلہ سند کو سلسلۃ الذہب ( سونے کی کڑی ) قرار دیا ہے ۔ ( تہذیب ص 448 ج 9 )
اور ان کی بیان کردہ احادیث پر کامل اعتماد کا اظہار کیا ہے ۔ امام نسائی تو فرماتے ہیں : امام زہری کی سند احسن الاسانید ہے “ اور لیث بن جعفر نے فرمایا : ” اہل مدینہ میں سب سے بڑے فقیہ سعید بن عروہ اور عبداللہ بن عبداللہ ہیں ۔ “ تو اس پر امام عراک بن مالک لیث بن جعفر سے فرمانے لگے ( ( اعلمھم عندی جمیعا ابن شھاب لانہ جمع علمھم الی علمہ ) ) ” میرے نزدیک زہری ان تمام سے بڑے عالم ہیں اس لئے کہ زہری نے ان تمام کے علوم کو اپنے علم میں جمع کیا ہے ۔ “
امام ابن سعد فرماتے ہیں : ( ( قالوا وکان الزھری ثقة کثیر الحدیث والعلم والروایة فقیھا جامعا وقال ابو الزناد انہ اعلم الناس ) ) ( تہذیب ص 449 ج 9 )
” محدثین امام زہری کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ کثیر الحدیث تھے علم اور روایت میں بڑے ہوئے تھے فقیہ تھے جنہوں نے دیگر ائمہ کا علم جمع کیا تھا ابوالزناد فرماتے ہیں وہ تمام لوگوں سے بڑے عالم تھے ۔ “
اور یہی بات امام ایوب سختیانی نے کہی ہے وہ فرماتے تھے : ما رایت احدا اعلم من الزھری ( تہذیب ص449 ج 9 ) ” میں نے زہری سے کوئی عالم نہیں دیکھا ۔ “ اور یہی بات اپنے دور کے عظیم محدث اور فقیہ امام لیث نے فرمائی ہے : ما رایت عالما اجمع من ابن شھاب ولا اکثر علما منہ ( تہذیب ص 449 ج 9 ) ” میں نے زہری سے بڑا عالم اور جامع کسی کو نہیں دیکھا ۔ “
یہ امام زہری کے بارے میں ان لوگوں کی شہادتیں جنہوں نے ان کو قریب سے دیکھا ہے اور ان کی ثقاہت اور امانت اور عظیم محدث اور عالم ہونے کی گواہی دی ہے ۔ ایسے فحول اور اکابر کی شہادت کے مقابلہ میں اس بقلم خود امام انقلاب کے ہفوات کی کیا حیثیت ہے ؟ موصوف کو امام زہری سے صرف اس لئے قدغن ہے کہ ان کی بیان کردہ صحیح احادیث ان کے خود ساختہ اعتقادات کے منافی ہیں امام زہری کے متعلق ایسی لغو گفتگو کا مطلب صرف یہ ہے کہ ان صحیح احادیث کو رد کر دیا جائے جو ان کے طریق سے مروی ہےں یہ امام زہری سے ناراض نہیں بلکہ صحیح احادیث سے اعراض کناں ہیں ۔ اس لئے کہ امام زہری نے اپنی زندگی خدمت اور اشاعت سنت کی خاطر وقف کر رکھی تھی ان کا دن رات مشغلہ ہی کتاب و سنت کی تدریس اور ترویج تھا امام زہری خود فرماتے ہیں ۔
( ( ما نشر احد من الناس ھذا العلم نشری ولا بذلہ بزلی ) ) ( تہذیب ص 449 ج 9 )
” میں نے سنت کی جس قدر اشاعت کی لوگوں میں سے کسی ایک نے نہیں کی ۔ “
بس امام زہری کی ترویج سنت میں یہی کوشش موصوف کو کھٹکتی ہے اس لئے کہ سنت کی موجودگی میں ان کے مفروضہ مذہب کے قول و اقوال بے وقعت ہو کر رہ جاتے ہیں جس سے ان کے مذہب کے وجود کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے ۔
امام ہشام بن عروہ پر تنقید :
بہت سے منکرین حدیث نے اپنی تنقید کا محور امام ہشام بن عروہ کو بنایا ہے اس لئے کہ یہ ارکان حدیث میں سے تھے اور اشاعت حدیث اور حفاظت حدیث میں ان کا کردار امام زہری کی ہی طرح زندہ اور تابندہ ہے اسی لیے محدثین کے ہاں ان کا مقام و مرتبہ بھی ارفع و بلند ہے مگر یہ منکرین حدیث کو بہت کھٹکتے ہیں اس لئے وہ ان کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہیں ان کے نقش پا پر چلتے ہوئے اس نام نہاد شیخ الحدیث نے بھی ہشام بن عروہ کے بارے میں لچر زبانی کا مظاہرہ کیا ہے اور ان کے بارے میں انتہائی سنگین الفاظ استعمال کئے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں : ” ہشام کذاب اور مدلس ہے ۔ “ ( ص17 )
موصوف نے امام ہشام بن عروہ کے کذاب ہونے کا کوئی حوالہ نہیں دیا اس لئے کہ ان منکرین حدیث سے قبل کسی ایک محدث نے امام ہشام کو ایسے الفاظ سے یاد نہیں کیا بلکہ اکابر محدثین ان کی ثقاہت اور جلالت کے قائل تھے ۔ امام ابن سعد ان کے بارے میں فرماتے ہیں : ثقة ثبتا کثیر الحدیث حجة ” ثقہ ، ثبت حجت اور کثیر الحدیث تھے ۔ “ امام ابوحاتم فرماتے ہیں ” ثقہ حدیث میں امام تھے ۔ “ اور ابن حبان فرماتے ہیں : کان متقنا ورعا فاضلا حافظا ( تہذیب ص 50 ، 51 ج 11 ) ” متقی پرہیز گار فاضل اور حافظ تھے ۔ محدثین نے ثقات کے جتنے اعلیٰ اوصاف ہیں وہ تمام امام ہشام میں تسلیم کئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اعلیٰ درجہ کے قابل اعتماد تھے ان کی بیان کردہ حدیث دلیل اور حجت مانی جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حدیث جسے ہشام بیان کریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی حدیث ہے جو دین کا ایک جزءہے اور اس حدیث میں جو بیان ہوا ہے وہ درست اور لائق عمل ہے ۔ لہٰذا موصوف کا امام ہشام کو کذاب کہنا ان کا محض افتراءاور الزام ہے بلکہ اس قابل اعتماد امام پر صریحا تہمت ہے ۔ محدثین میں سے کوئی ایک شخص بھی مؤلف کا اس بارے میں سلف نہیں ہے ۔
امام بخاری پر اتھامات :
موصوف نے اپنی اسلام شکن تالیف میں حجۃ الاسلام امام المحدثین والفقہاءتاج المفسرین امام بخاری اور ان کی کتاب صحیح بخاری پر دل کھول کر تقلیدی ابال نکالا ہے اور امام بخاری پر قرآن کا محرف ، مبدل اور بالآخر قرآن کی صریحا مخالفت کرنے والا اور قرآن سے معارضہ سلوک برتنے والا جیسے الزام عائد کئے ہیں ۔ ان کا ہم تفصیلی جائزہ بحمد اللہ اس بارے میں ایک مستقل تالیف میں لے رہے ہیں جو تکمیل کے آخری مرحلہ میں ہے تاہم اس مختصر مقالہ میں ہم امام بخاری کے بارے میں موصوف کے چند خیالات پیش کرتے ہیں تا کہ قارئین کرام اس کی ذہنی خباثت اور خیانت سے مطلع ہو سکےں ۔
یہ امام الخرافات بخاری شریف کی ایک حدیث جو آغاز وحی کے بارے میں ہے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے ” کیا ایسا آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی کہلوانے کا حق بھی رکھتا ہے کیا یہ امام بخاری کا تدین ہے یا لعنتی راویوں کا کاٹا گری ہے کیا امام بخاری اس جرم سے بری ہو سکتے ہیں ۔ “ ( ص 15 )
مزید لکھتے ہیں ” شومی قسمت کہ اسناد کے چکر میں پڑنے اور مفہوم قرآن کو مجہور ( ترک ) کرنے والے روات نے امام بخاری کو بھی ایسا الجھایا کہ نہ ان کو قرآن کی تصریح سے آگاہی ہوئی نہ سیرت نبویہ کا پاس آیا نہ صحابہ کرام کے پاک طینت کو سوچا ۔ “ ( ص 27 )
تیسرے مقام پر امام بخاری کو وضاع قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے ” بخاری صاحب نے لعنتی راویوں پر اعتماد کر کے بڑے وثوق سے روایت جڑ دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے معاذ اللہ بغاوت کر کے صریح قرآن کی مخالفت کر دی ۔ “ ( ص 71 ملخصاً )
امام بخاری بھی راویوں کی عجیب گرفت میں آئے کہ نہ قرآن دیکھا نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت عرفی کا پاس ، کیا ذہن بند کر کے روایت ٹانک دی ۔ ایک جگہ امام بخاری کو مشرک قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے ” کسی لعنتی راوی نے بخاری کو شرک کی پٹی پڑھائی ہے کہ ہوش یافتہ ہو کر امام بخاری نے اپنی صحیح میں درج کر دیا ہے کیا اب بھی بخاری کی روایت کا اعتبار کیا جا سکتا ہے ۔ امام بخاری پر صحابہ دشمنی کا الزام عائد کرتے ہوئے لکھتا ہے ” امام بخاری صحابہ کرام کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے ۔ “ ( ص 54 )
یہ چند ھفوات تھے جو امام بخاری کے متعلق مولف کے قلم سے صادر ہوئے ہیں تفصیلی جائزہ تو ہم اس بارے میں مستقل تالیف میں لے رہے ہیں یہاں مختصر عرض ہے کہ تمام ائمہ اکابر جن میں ائمہ احناف بھی شامل ہیں کا امام بخاری کی ثقاہت ، عدالت ، حفظ ، ضبط اور اتقان پر اجماع اور اتفاق ہے آج تک کسی ایک مسلمہ امام نے امام بخاری کی تقاہت دور عدالت کو چیلنج نہیں کیا ہاں البتہ منکرین حدیث اور وہ بھی زیادہ تر برصغیر کے امام بخاری کے بارے میں بکواس بکتے رہتے ہیں ۔ مولف موصوف نے بھی یہ تمام باتیں ان ہی منکرین سے سرقہ کر کے اپنی کتاب میں داخل کی ہیں ۔ مسلمانوں میں آج بھی فن حدیث میں امام بخاری کو اتھارٹی سمجھا جاتا ہے اور اس فن حدیث میں ان کی اتھارٹی کو چیلنج کرنا ممکن نہیں ۔
امام بخاری کے اتنے فضائل ہیں کہ ان کی سیرت مبارکہ پر دنیا بھر کی معروف اور زندہ زبانوں میں درجنوں کتب تحریر ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں جو ان کی عظمت ، ثقاہت اور عدالت کا بین اعتراف ہے ۔
امام ابن خزیمہ ان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
( ( ما رایت تحت ادیم السماءاعلم بحدیث رسول اللہ ولا احفظ لہ من البخاری ) ) ( تہذیب ص 52 ج 9 ) ” میں نے آسمان کی چھت کے نیچے کوئی شخص نہیں دیکھا جو امام بخاری سے حدیث رسول کا زیادہ عالم اور حافظ ہو ۔ “
امام الائمہ اسحاق بن راہویہ فرماتے ہیں :
” اے اصحاب الحدیث کی جماعت اس نوجوان ( بخاری ) سے حدیث لکھا کرو اگر یہ حسن بصری کے زمانہ میں ہوتے تو تب بھی لوگ اس کی حدیث دانی اور فقہ میں معرفت اور مہارت کی بنا پر اس کی طرف محتاج ہوتے ۔ “ ( ایضا )
امام مسندی نے شاید اسی طرح کے حواس باختہ لچر زبان لوگوں کے بارے میں فرمایا تھا : ” امام بخاری امام ہیں جو شخص ان کو امام نہیں مانتا اسے متہم قرار دو ۔ “ ( ایضا )
بلاشبہ اس نام نہاد شیخ الحدیث کے ھفوات سے امام بخاری کی عظمت و ثقاہت پر تو کوئی حرف نہیں آئے گا البتہ صحیح احادیث کی تضحیک اور تکذیب کی وجہ سے ایسا شخص مسلمانوں کے ہاں ضرور متہم قرار پائے گا ۔
شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں :
( ( امام الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی ان جمیع ما فیھما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع وانھا متواتر ان الی مصنفیھا وانہ کل من یھون امرھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المومنین ) ) ( حجۃ اللہ ص 134 ج 1 ) ” تمام محدثین کا اتفاق ہے کہ بخاری و مسلم میں جو بھی حدیث مرفوع متصل ہے بلاشبہ وہ قطعا صحیح ہے اوریہ دونوں کتابیں اپنے مصنفوں تک متواتر ہیں جو شخص ان کے امر کی توہین کرتا ہے وہ بدعتی ہے جو مومنوں کے راستہ کے علاوہ کسی دوسرے راستے کی پیروی کرتا ہے ۔ “
بلاشبہ حضرت شاہ رحمہ اللہ نے درست کہا ہے موصوف نے صحیح بخاری کی احادیث کو بلا دلیل نشانہ بنا کر مومنوں کے راستہ کے علاوہ دوسروں کے راستہ کی پیروی کی ہے کیونکہ تمام مسلمانوں کا صحیح بخاری کی صحت پر اتفاق ہے
دين خالص || محدثین کرام پر اتہامات کا جائزہ