محمد ڈیفینڈر
رکن
- شمولیت
- مئی 23، 2012
- پیغامات
- 110
- ری ایکشن اسکور
- 83
- پوائنٹ
- 70
علمِ منقولات
(محدثین کے فن کا جائزہ : عقل، سائنس اور جدید علم نفسیات کی روشنی میں)
محمدزکریا الزکی (مدرس علوم شریعہ اسلامک سینٹر ملتان)
حدیث سے مراد:
حدیث سے مراد نبی کریمﷺ سے منقو ل شدہ اقوال، افعال، تقریرات اور تصویبات ہیں۔ چند جدید محققین کے علاوہ تمام اصولیین کے نزدیک دلیل شرعی ہونے کے اعتبار سے حدیث اور سنت کا لفظ مترادف ہیں۔
جب یہ لفظ ایک دوسرے کے مقابلے میں آئیں تو حدیث قول پر بولا جاتا ہے اور سنت عمل پر بولاجاتا ہے۔ کبھی بھار سنت کا لفظ بدعت یا رائے کے مقابلہ میں بھی بولا جاتا ہے۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے الوجیز فی اصول الفقہ، محمد بن عبدالکریم زیدان ، ص۱۶۱، جدید محققین کی فکر میزان، جاوید احمد غامدی، مبادی تدبر حدیث، امین احسن اصلاحی)
ہم یہاں پر احادیث کے لیے منقولات کا لفظ بولیں گے تاکہ ہماری گفتگو زیادہ معروضی ہو سکے اور احادیث کے لیے منقولات کا لفظ اس لیے بھی منتخب کیا گیا ہے کہ تمام ادیان عالم میں فقط مسلمانوں نے ہی علم منقولات کو فنی اور علمی بنیادوں پر ٹھوس شکل دی ہے۔ اسی طرح اسلامی منقولات میں اگرچہ قرآن مجید بھی شامل ہے لیکن ہماری گفتگو فقط احادیث کے بارے میں ہوگی کیونکہ قرآن مجید عام طور پر محل اختلاف نہیں۔
علم منقولات اور علم الحدیث کے معتبر ہونے کا عقلی جائزہ
(عقلاء ومنطقیین کے نزدیک)
اس حیثیت سے کہ منقولات کی نسبت ، الہٰی ہدایت کی طرف کی جاتی ہے، اس میں کسی غلطی اور عیب کا ہونا ناممکن ہے اور یہ علم انسانی دنیاوی اور اخروی کامیابی کا سب سے اعلیٰ علم ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ منقولات ہم تک معتبر ذرائع سے پہنچیں۔
منقولات اپنے قابل اعتبار ہونے کے لحاظ سے دو قسمیں ہیں:
a متواتر ت b اخبار احاد
متواترت میں قول کی نسبت قائل کی طرف یقین کے درجے تک ہوتی ہے اس پر عقلاء اور روایات پسندوں کا اتفاق ہے۔ البتہ چند عقلاء میں اس چیز کے اندر اختلاف ہے کہ یہ یقینی علم ضروری ہے یا نظری۔ جمہور عقلاء کے نزدیک یہ علم یقینی ضروری ہے نہ کہ نظری۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے برھان کے مباحث، تفصھیم المنطق، ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی، تسھیل المنطق (عربی)، عبدالکریم بن مراد الاثری، نیز دیگر منطق و اصول فقہ کی کتب)
تواتر کی کئی اقسام ہیں، تواتر الطبقہ جیسے قرآن تواتر لفظی جیسے:
من کذب علی متعمداً۔۔۔ الخ
تواتر معنوی یا تواتر القدر المشترک جیسے :
الصلوات الخمسہ، صلوۃ العید، قیام رمضان
تواتر عملی جیسے :
رکعات الصلوات الخمسہ، نصاب زکوۃ
تواتر اپنی تمام صورتوں میں علم یقینی ضروری کا فائدہ دیتا ہے لیکن قدر مشترک کا تواتر کبھی کبھار علم یقینی نظری کا فائدہ دیتا ہے۔
اخبار احاد میں قول کی نسبت قائل کی طرف کبھی یقین کے قریب قریب ہوتی ہے اور کبھی ظن غالب میں کبھی تردد میں اور کبھی شک میں۔ پہلی صورت میں خبر واحد خبر صحیح کہلائے گی۔ دوسری صورت میں خبر حسن اور تیسری اور چوتھی صورت میں خبر ضعیف کہلائے گی۔
ان امور میں کوئی اختلاف نہیں، صرف اس بات میں ہے کہ خبر واحد عمل کو واجب کر دیتی ہےیا نہیں۔
اکثر عقلاء بشمول معتزلہ وغیرہ کے نزدیک عقلی طور پر خبر واحد عمل کا جائز قرار دیتی ہے، واجب نہیں۔
یعنی خبر واحد سےحاصل شدہ معلومات پر عمل کرنا جمہور عقلاء کے نزدیک نا جائز نہیں بلکہ جائز ہے۔ البتہ وہ اس کو واجب بھی نہیں مانتے۔
جبکہ جمیع اہل سنت کے نزدیک سمعاً خبر واحد عمل کو واجب قرار دیتی ہے۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے احکام ، امام آمدی، ج۲، ابحاث المتواتر والخبر الواحد المحصول، امام رازی، ج۳، ص۹۰۴، ارشاد الفحول، امام شوکانی ،ج۱، ص ۱۶۷و دیگر اصول فقہ کی کتب)
چند جدید محققین احادیث کے ذریعے دین میں کوئی مستقل بالذات اضافہ سرے سے جائز نہیں سمجھتے۔ البتہ اگر احادیث قرآن کی شرح کے طور پر سمجھ میں آئیں تو پھر ان پر عمل ہو سکتا ہے۔ ان کا یہ نظریہ جمہور عقلاء اور سمع دونوں کے خلاف ہے۔
کیونکہ جمہور عقلاء نے خبر واحد سے تعبد (مستقل بالذات و براہ راست) کو کبھی بھی ناجائز قرار نہیں دیا البتہ اس کا وجوب عقلاء کے نزدیک محل اختلاف رہا ہے۔ کما بینا ذلک
اور اسی طرح جمیع اہل سنت ہمیشہ خبر واحد سے دین میں مستقل بالذات اضافہ کے وجوب کے بھی قائل رہے ہیں۔
(جدید محققین کے فکر کو ملاحظہ کیجیے: میزان، جاوید احمد غامدی، نیز ان کے حدیث و سنت سے متعلق آڈیو وڈیو لیکچرز)
محدثین عام طور پر ہر ضعیف حدیث اور موضوع سے اظہار برات کرتے ہیں اور صرف صحیح حدیث اور حدیث حدیث کو ہی واجب القبول قرار دیتے ہیں۔
تصحیح و تضعیف حدیث، ایک سائنس:
محدثین نے علم منقولات کی جانچ پرکھ کے لیے ایسے اصول مقرر کیے ہیں جو ایک سائنس کا درجہ رکھتے ہیں۔
سائنس ایسے معروضی کلیات بتاتی ہے جو تجربہ کے وقت برابر طور پر ایک جیسا نتیجہ ظاہر کرتے ہیں، چاہے تجربہ کرنے والا کوئی ہو اور چاہے جس زمان اور مکان میں تجربہ کیا جائے اور چائے جس ایجابی یا منفی جذبے کے ساتھ کیا جائے۔
(سائنس، فلسفہ اور مذھب کے اصولی فرق کے لیے دیکھیے: مقدمہ کتاب فلسفہ جدید اور اس کے دبستان ، ڈاکٹر سی اے قادر و دیگر کتب)
منقولات کی جانچ پرکھ کا علم (اصول حدیث) اس حیثیت سے ایک سائنس ہے کہ یہ سائنس کی طرح اپنے موضوع پر ایک کامل ، منضبط، جامع مانع اور منظم علم ہے، جو ہمیں ایسے کلیات (Formula)بتلاتا ہے جن کے ذریعے ہم منقولات کی عقلی حیثیت متعین کر سکتے ہیں۔
اصول حدیث کامل منضبط، جامع مانع اور منظم علم اس طرح ہے کہ اس کے مشمولہ تمام قواعد میں مزید اضافہ ممکن نہیں۔ مثلاً راوی کے ضعف کے اسباب، روایت کے ضعف کے اسباب ، روایت کے تقویت کے اسباب، اخذ و تحمل کی شرائط، ضعیف احادیث کی اقسام، صحیح احادیث کے درجات وغیرھا۔
اصول حدیث ایسے کلیات پر مشتمل ہے جو منقولات کی عقلی حیثیت متعین کرتے ہیں۔ کلیات سے مراد ایسے جامع مانع عقلی قوانین جن کی روشنی میں تحقیق کرنے سے ایک جیسے نتائج اخذ ہوں۔ ان قوانین کی روشنی میں کوئی بھی شخص تحقیق کر کے علم منقولات کی حیثیت متعین کرنے میں اپنی رائے پیش کر سکتا ہے اور اصول و قواعد کی روشنی میں محدثین کے فیصلوں سے اختلاف کر سکتا ہے۔
یاد رہے کہ اصول حدیث منقولات کی عقلی حیثیت متعین کرنا ہے، مثلاً حدیث کا متواتر ہونا، مشہور ہونا، غریب ہونا، مرسل ہونا، منقطع ہونا، موضوع ہونا، معضل ہونا، موقوف ہونا، مقطوع ہونا وغیرہ۔ یہ سب منقولات کی فنی حیثیت کا اظہار ہے اور ان پر عمل کا حکم، عقلی حکم ہے۔ مثلاً موضوع، معضل، منقطع حدیث پر عمل کرنا عقلاً درست نہیں کیونکہ یہ ضعیف احادیث کی شاخیں ہیں اور ضعیف حدیث میں خبر کا صدق، اس کے کذب سے راجح نہیں ہوتا وغیرہ۔ محدثین، مسلمان فقیہ ہونے کی حیثیت سے منقولات پر عمل کی شرعی حیثیت بھی متعین کرتے ہیں، لیکن ان کی اصول حدیث کی کتب مجرد عقلیت کا شاہکار ہیں۔
البتہ بعض اوقات، منقولات کی فنی حیثیت متعین ہونے کے بعد ان پر عمل کی عقلی و شرعی حیثیت متعین کرنے میں محدثین و فقہاء کا اختلاف بھی ہو جاتا ہے۔ جیسے مرسل پر عمل کرنے میں محدثین و فقہاء کا اختلاف ہے۔ اسی طرح خبر واحد کی قبولیت پر فقہاء احناف و مالکیہ کی چند اضافی شرائط میں محدثین کو اختلاف ہے وغیرہ۔
محدثین کا علم یعنی علم منقولات کی جانچ پرکھ بھی اس لحاظ سے ایک سائنس ہے کہ محدثین جس حدیث کی جو حیثیت متعین کرتے ہیں اس حیثیت کو کوئی بھی شخص چیلنج کر سکتا ہے اور فنی اصول و ضوابط کی روشنی میں کوئی بھی چیز غلط یا صحیح ثابت کر سکتا ہے۔ اس فن میں محدثین نے کبھی جذبات، تعصبات اور خوش فہمیوں کا مظاہرہ نہیں کیا، حتی کہ صحت کی اعلیٰ ترین کتب بخاری و مسلم بھی تفصیلی جرح و نقد کے لیے موضوع بحث رہی ہیں۔ لیکن نقد و جرح نے ہمیشہ ان کی اعلیٰ حیثیت کو مزید نکھارا ہے۔ جیسے دارقطنی کی صحیح بخاری پر تنقید اور ابن حجر کے جوابات۔
اصول حدیث اور اسماء الرجال یعنی اسلامی منقولات کی جانچ پرکھ کا علم، خالص معروضی (Objective)ہے، موضوعی (Subjective)نہیں۔ یعنی کسی حدیث کی جانچ پڑتال میں اصول و قواعد کے مطابق اسماء الرجال کی خارجی فنی شہادت کو دیکھا جاتا ہے نہ کہ اپنے نفسی خیالی ، داخلی پسند و ناپسند کو۔ اسی طرح کسی حدیث کی جانچ پڑتال میں ذاتی فہم، اجتہاد، ظن و تخمین اور استنباط و استخراج کو بھی کوئی دخل نہیں۔ کوئی بھی شخص اپنے اجتہاد سے کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف قرار نہیں دے سکتا۔ اسے لازماً کسی حدیث کی تصحیح و تضعیف کے لیے اصول و قواعد کے مطابق خارجی فنی شہادات اور اسماء الرجال کے دلائل پیش کرنا ہوں گے۔
اس حیثیت سے منقولات کی جانچ پرکھ کا علم ایک سائنس ہے کہ یہ سائنس کی طرح معروضی ہے موضوعی نہیں۔
علم منقولات اس طرح سے سائنسی بنیادوں پر مضبوط ہے کہ اگر ایک راوی حفظ و دیانت میں ضعیف ثابت ہو جائے تو اس سے نقل شدہ تمام سینکڑوں حدیثیں ضعیف قرار پاتی ہیں اور اس چیز کا کوئی محدث تعصب یا خوش فہمی کی بنیاد پر انکار نہیں کرتا۔ ایسا ممکن نہیں کہ ایک ضعیف راوی کی بعض احادیث اس کے ضعف کی وجہ سے ضعیف قرار پائیں۔ یہ چیز علم منقولات کے سائینٹفک ہونے کی مضبوط ترین دلیل ہے۔
استقراء سے معلوم ہوا کہ عموماً احادیث محدثین کے نزدیک بالاتفاق صحیح ہوتی ہیں یا بالاتفاق حسن ہوتی ہیں یا بالاتفاق ضعیف ہوتی ہیں یا بالاتفاق مردود ہوتی ہیں۔ البتہ کبھی کبھار بعض معقول وجوہات کی بنا پر حدیث کی حیثیت متعین کرنے میں اختلاف ہو جاتا ہے لیکن اختلاف میں حیرت انگیز بُعد نہیں ہوتا ہے بلکہ نتیجہ باہمی طور پر قریب قریب (Precise)ہوتا ہے ۔ مثلاً یہ ممکن نہیں کہ کسی حدیث کو کوئی محدث موضوع قرار دے اور دوسرا محدث اسی حدیث کو اول درجہ کی صحیح قرار دے اور یہ چیز بھی اسلامی علم منقولات کے سائینٹفک ہونے کی دلیل ہے۔
اسلامی منقولات میں ضعف دو قسم کا ہوتا ہے، مشخص و معین ضعف اور غیر مشخص و غیر معین ضعف۔
مشخص و معین ضعف وہ ہے جس کو معلوم کیا جا سکے اور جس کی نشاندہی کی جا سکے۔ مثلاً اتصال کا نہ ہونا، راوی کا ضبط کمزور ہونا وغیرہ۔ جبکہ اس کے مقابلے میں ایک ضعف وہ ہے جو متعین نہیں بلکہ اس کو فرض کیا جاتا ہے کہ تمام تر صحت کے باوجود ممکن ہے کسی راوی سے غلطی ہو گئی ہو ۔
محدثین کا علم منقولات اس قدر مضبوط عقلی بنیادوں پر قائم ہے کہ کسی بھی صحیح قرار دی گئی حدیث میں کوئی مشخص یا معین ضعف تلاش کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ کیونکہ محدثین انسانی بساط کے مطابق تمام انواع ضعف کی تلاش کے بعد حدیث کو صحیح قرار دیتے ہیں۔ایسی حدیث یقین کے قریب قریب درجہ کا فائدہ دیتی ہے۔
البتہ اس میں نادانستگی یا لا علمی میں کسی عقلی خطاء کا امکان تو ہوتا ہے، لیکن یہ امکان صحت کے بیسیوں پہلوؤں کے مقابلہ میں قابل التفات نہیں ہوتا ۔ یہاں پر خطاء ممکن ہوتی ہے واجب یا راجح نہیں ہوتی۔
ایسی عقلی خطاء کی وجہ سے حدیث کو رد کرنا جائز تھا اگر صحابہ کا یہ طرز عمل نہ ہوتا کہ وہ دور نبوی میں اور دور نبوی کے بعد ایک دوسرے سے احادیث سنتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے۔ (صحابہ کے طرز عمل کو تفصیل سے دیکھنے کے لیے الرسالہ، امام شافعی و دیگر اصول فقہ کی کتب دیکھیے)۔
عقلی طور پر بھی مذکورہ بنا پر حدیث کو رد کرنا راجح یا واجب نہیں۔
محدثین کے نزدیک علم منقولات کی جانچ پرکھ کے اصول:
محدثین نے علم منقولات کی جانچ پرکھ کے لیے جو اصول وضع کیے ان میں سندو متن دونوں کی جانچ پرکھ شامل ہے۔ چنانچہ محدثین کا اتفاق ہے کہ صحیح الاسناد حدیث اس وقت تک قابل قبول نہیں جب تک اس کا متن شذوذ و علل سے پاک نہ ہو۔
سند ، رواۃ کے اوصاف اور معرفت اوصاف کا عقلی جائزہ:
سند میں محدثین ہر ہر راوی کے اوصاف اور باہمی ملاقات کو چیک کرتے تھے، محدثین نے راویوں کے اوصاف اس عقلی انداز میں مقرر کیے ہیں کہ ان میں کسی قسم کا اضافہ یا کمی ممکن نہیں۔
مثلاً راوی کا مسلمان ہونا اور ساری زندگی میں ایک دفعہ بھی حدیث نبوی میں جھوٹ ثابت نہ ہو اور نہ روز مرہ زندگی میں کوئی جھوٹ ثابت ہو اور نہ ہی وہ کسی کبیرہ گناہ کا کبھی مرتکب ہوا ہو اور نہ وہ صغائر پر اصرار کرتا ہو اور نہ وہ حدیث کے اخذ و تحمل پر جسمانی و ذہنی سستی کرتا ہو اور نہ وہ کسی اعتقادی بدعت کا شکار ہو وغیرہ۔ یہ اوصاف و شروط ایسی ہیں جن پر مزید اضافہ عقلاً ناممکن ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ راویوں کے اوصاف کی پہچان نا ممکن ہے لیکن یہ دعویٰ غلط ہے۔ کیونکہ محدثین کے نزدیک:
a مجہولالعین، مجہول الحال اور مستور راوی نا قابل قبول ہوتا ہے ۔
b ہر راوی کی جرح و تعدیل معاصر اساتذہ اور تلامذہ کرتے ہیں ۔
c مسلمان صدیوں سے ثقہ قاضی، ثقہ حاکم، ثقہ شاھد ، ثقہ امام ، ثقہ عالم، ثقہ داعی کی پہچان غیر ثقہ کی نسبت سے کرتے آئے ہیں۔
اور راوی اپنی پہچان کے اعتبار سے تین اقسام پر ہیں:
a بعض وہ جن کی عدالت تواتر سے ثابت ہے۔
b بعض وہ جن کی عدالت مشہور اور مستفیض ہے
c بعض وہ جن کی عدالت صرف ایک یا دو ائمۂ نقد سے ثابت ہے۔
عموماً اکثر احادیث کی اسناد کا بڑا حصہ متواتر العدالت راویوں پر مشتمل ہوتا ہے، جیسے کثیر الروایۃ صحابہ و تابعین و تبع تابعین ، ائمہ کرام اور جن رواۃ کی عدالت مشکوک یا قلیل الثبوت ہو ان کی متابعت سے ان کی کمزوری دور ہو جاتی ہے۔
(اس امر کو چیک کرنے کے لیے ملاحظہ کیجیے: تحفۃ الاشراف فی معرفۃ الاطراف، ابن حجر عسقلانی، تقریب التہذیب، ابن حجر)
سند ، رواۃ کا حفظ اور معرفت حفظ کا عقلی جائزہ:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ رواۃ کے حافظے کو پہچاننا نا ممکن ہے، لیکن یہ دعویٰ باطل ہے کیونکہ اہل فن کے نزدیک حافظے کی پہچان کبھی مشکل نہیں رہی ، شرط یہ ہے کہ حافظے کے لیے کوئی نہ کوئی میزان ہو مثلاً حفاظ قرآن کے لیے میزان قرآن کریم ہے، اسی طرح سے قرون اولیٰ کے اندر رواۃ کے حافظے کی پہچان کے لیے (مشہور اور متواتر احادیث) تھیں۔ چنانچہ محدثین کا اتفاق ہے کہ جو راوی روایت بیان کرتے وقت مسلمہ ثقات راویوں کی مخالفت کرتا ہو اس کی روایت ناقابل قبول ہے، چنانچہ مخالفۃ الثقات حفظ کی پہچان کا پہلا میزان ہے اور حفظ کی پہچان کا دوسرا میزان راوی کا اعتماد ہے کہ راوی روایت کرتے وقت اوہام، تردد یا شکوک کا شکار نہ ہو۔
حفظ، ظن یا یقین کا موجب (جدید علم نفسیات (Psychology)کی روشنی میں:
علم منقولات کا تعلق سراسر حفظ اور یاداشت سے ہے۔ حفظ ایک غیر حسی اور غیر مادی چیز ہے، لیکن محدثین نے حفظ کی صلاحیت کو ایک مکمل فن بنا دیا، چنانچہ مختلف محدثین، ائمہ کرام، رواۃ حدیث سے یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ وہ حدیث کی یاداشت کے لیے آٹھ باتوں کا انتظام کرتے تھے۔
a سماع کے وقت چستی اور ہوشیاری b کتاب
c مقابلہ واعادہ d مذاکرہ
e تعمد و تحفظ f باہمی سوال و جواب
g ناقلین پر غور خوض h روایت پر تفقہ
ان آٹھ امور کے ساتھ حفظ شدہ چیز تقریباً یقین کا فائدہ دیتی ہے۔
حفظ کے درج بالا آٹھ امور کے بارے میں قرن اول و قرن ثانی میں رواۃ حدیث و نقاد ائمہ حدیث کی باہمی تلقینات بے شمار ہیں۔ اس دور میں حافظہ سے متعلق محدثین کی علمی و فکری چہل پہل کو معلوم کرنے کے لیے امام رامہری مزی (نحو ۳۶۰،۲۶۰) کی کتاب سب سے زیادہ مفید ہے۔ یہ کتاب اصول حدیث کی قدیم ترین کتاب ہے اور قدیم ائمہ رواۃ حدیث کے اقوال براہ راست ذاتی سند سے پیش کرتی ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: المحدث الفاصل، امام رامھر مزی اور الکفایہ فی اصول الروایہ، خطیب بغدادی)
جدید علم نفسیات (Psychology)کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ حافظے سے تعلق رکھنے والے مسائل کبھی تو یقین کا فائدہ دیتے ہیں، کبھی ظن غالب کا، کبھی تردد کا، کبھی اوہام کا۔ علم نفسیات کے نزدیک (تکرار فعل، اولیت فعل، تاثر فعل، تاثر کی شدت، تازگی اور اصول دل چسپی) کی بنیادوں پر حفظ ، عین یقین یا تقریباً یقین کا فائدہ دیتا ہے، مثلاً:
تکرات فعل کی مثال: میں روز صبح اٹھ کر مسواک کرتا ہوں۔
اولیت فعل کی مثال: میری آنکھوں کا دیکھا ہو برفباری کا پہلا منظر ۔
تاثر فعل اور اس کی شدت کی مثال:یہ بات کہ کل میرے ہمسائے کے گھر میں بجلی گری
فعل کے تازہ ہونے کی مثال:یہ بات کہ ایک منٹ پہلے میں کرسی پر بیٹھا تھا۔
یہ تمام بیانات قرائن کی بنیاد پر اس قدر مضبوط ہیں کہ حفظ کے ساتھ تعلق کے باوجود یقین کا فائدہ دیتے ہیں اور ان کا ذکر کرنے والا بے عقل اور احمق کہلائے گا۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے: حافظہ (memory)کے مباحث از نفسیات، ڈاکٹر سی اے قادر اور نفسیات، کرامت حسین اور نفسیات برائے بی اے، ٹی ایم یوسف)
محدثین کرام بھی حفظ کی ان بنیادوں پر اسقدر مضبوط تھے کہ ان کی حفظ شدہ چیز یقین کے قریب قریب علم کا فائدہ دیتی ہے۔ مثلاً محدثین کی روایات کا اکثر حصہ مشاھدہ، عمل، تجربہ، مشق اور تکرار فعل سے تعلق رکھتا ہے اور ایسی چیز یں کبھی نہیں بھولی جا سکتیں اور اسی طرح سے محدثین نے علم حدیث کو ایک شوقیہ تفریح کے طور پر اختیار نہیں کیا بلکہ اس کے لیے زندگیاں وقف کر دیں، دن رات کے اکثر اوقات علم الحدیث میں گزارے۔ ایسے فنی ماہرین اپنے فن کی کسی ادنی یا اعلیٰ بات سے غافل نہیں رہ سکتے۔
فن جرح و تعدیل کا عقلی جائزہ:
جرح تعدیل اور رجال کا علم مضبوط بنیادوں پر قائم ہے جس کی ایک ٹھوس نشانی یہ ہے کہ صحاح ستہ کے اکثر رواۃ ائمہ نقد کے اتفاق کے ساتھ اپنی حیثیت متعین کرتے ہیں۔ چنانچہ صحاح ستہ کے اکثر راوی اگر ثقہ ہیں یا ضعیف ہیں تو ائمہ جرح و تعدیل کے اتفاق کے ساتھ ہیں ، جیسا کہ اسماء الرجال کی فنی کتب کے استقراء سے ثابت ہے۔
بعض لوگوں کے نزدیک فن جرح و تعدیل ایک انتہائی کمزور اور نا قابل اعتبار علم ہے۔ وہ جرح و تعدیل کے ذریعے ہونے والے تمام اسماء الرجال کو شکوک اور اوہام کا مجموعہ سمجھتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی منقولات کی جانچ پرکھ کو بھی قابل اعتناء نہیں جانتے ایسے لوگوں کا رویہ مضبوط علمی بنیادوں پر قائم نہیں۔
جرح و تعدیل پر اعتراضات:
بعض لوگوں کے نزدیک راویوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے۔ یہ راوی مختلف علاقوں اور مختلف زمانوں میں پھیلے ہوئے تھے، ان کے کوائف جمع کرنا مشکل تھا اور پھر اسماء رجال کے ماہرین براہ راست ان راویوں سے نہ مل سکے بلکہ ان راویوں کے متعلق مختلف عوام و خواص سے معلومات اکٹھی کرتے تھے۔ یہ سادہ طریقہ کار اس قدر کمزور تھا کہ راویوں کی حیثیت متعین کرنے میں اکثر طور پر اسماء رجال کے ماہرین کا آپس میں اختلاف ہو جاتا تھا اور کبھی تعصب کی وجہ سے لا شعوری طور پر افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے تھے۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے: مبادی تدبر حدیث، امین احسن اصلاحی، باب۶، سند کی عظمت اور اس کے بعض کمزور پہلو)
یہ تمام دعویٰ جات سرسری مطالعہ کا نتیجہ ہیں اور معترض کی فن حدیث اور اسماء الرجال میں عدم رسوخ کی علامت ہیں۔
جواب:
یہ کہنا غلط ہے کہ ائمہ نقد نے رجال کے حالات کے اوصاف کا علم عوام سے اکٹھا کیا۔ حقیقت یہ ہے ائمہ نقد یا تو براہِ راست رواۃ سے ملتے تھے یا ان خواص سے معلومات اکٹھی کرتے جو رواۃ سے مل چکے ہوتے اور ائمہ نقد کا یہ گروہ ہر دور، ہر زمانے اور ہر علاقے میں رہا ہے جو ضعیف راویوں کو صحیح راویوں سے الگ کرتا رہا ہے اور اس کی باقاعدہ تحریری یاداشت تبع تابعین کے دور سے ہی شروع ہو گئی تھی۔ جس کو بعد اذاں یحییٰ قطان ، علی بن مدینی، یحییٰ بن معین، احمد بن حنبل، ابو زرعہ، ابو حاتم، امام بخاری وغیرھم نے مدون کیا۔
(تفصیل کے لیے غور کیجیے : تھذیب الکمال، علامہ مزی۔ تہذیب التھذیب، ابن حجر و دیگر کتب اسماء الرجال، نیز دفاع حدیث پر جدید فکری کتب جیسے اھتمام المحدثین بنقد الحدیث، دکتور لقمان سلفی۔ السنۃ و مکانتھا فی تشریع الاسلام، دکتور مصطفی السباعی، القرآنیون وشبھتھم حول السنۃ، خادم حسین الہٰی بخش وغیرہ)
نیز ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ راوی اپنی پہچان کے اعتبار سے تین اقسام پر ہیں۔ بعض وہ جن کی عدالت تواتر سے ثابت ہے۔۔۔ الخ
یہ کہنا بھی غلط ہے کہ قابل اعتماد راویوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچی ہے۔ محدثین کے نزدیک راویوں میں قابل اعتماد رواۃ فقط چند ہزار پر مشتمل ہیں۔ ا ن کی تعداد تقریب التہذیب کے مطابق ۸۸۲۶ ہے۔ یہ وہ رواۃ ہیں جن سے صحاح ستہ کی تمام احادیث مروی ہیں اور صحاح ستہ، علماء اسلام کے نزدیک مقبول احادیث کا سب سے بڑا مجموعہ ہے اور ان احادیث کے رواۃ بھی تاریخی اعتبار سے راویوں کے جم غفیر میں ہیروں کی طرح ہیں۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے: تقریب التھذیب، ابن حجر عسقلانی۔ تقدیم محمد عوامہ، دالرشید سوریا)
اور ائمہ نقد اپنے لا شعوری تعصب یا غلو سے بچنے کے لیے از خود یہ اصول باندھتے ہیں وہ تمام جرح نا قابل قبول ہوں گی جو کسی بڑے امام کے بارے میں تعصب کے شائبہ سے مروی ہو۔ اس اصول کے نتیجہ میں جرح و تعدیل کا علم خالص معروضی ہے۔ اسی وجہ سے اگر کسی راوی کے بارے میں ائمہ ناقدین کا شدید اختلاف ہے تو وہ قابل حل ہے، لاینحل نہیں۔
حدیث کے متن کی پہچان:
سند کے بعد حدیث کی صحت اور سقم کو پہچاننے کے لیے متن کی جانچ پڑتا ل ضروری ہے، اس کو اصول درایت کہتے ہیں۔ تمام محدثین اصول درایت میں صرف یہ دیکھتے تھے کہ حدیث کا متن شذوذ، علل اور منکر اور مضطرب ہونے سے پاک ہو۔
موضوع حدیث کے اندر اصول درایت یہ ہیں کہ موضوع روایات کے الفاظ حس، عقل سلیم، مسلمہ تاریخی روایات، مسلمہ شرعی قواعد اور قرآن کی صراحت کے خلاف ہوتے ہیں۔
کسی محدث سے یہ ثابت نہیں کہ وہ صحیح حدیث کے متن کو پرکھنے کے لیے یہ لازم قرار دیتا ہو کہ صحیح حدیث وہ ہوتی ہے جو قرآن کے خلاف نہ ہو اور نہ علم و عقل کے مسلمات کے خلاف ہو۔ جمہور اہل سنت اور محدثین کا مشہور نظریہ بیان کیا جا چکا ہے کہ صحیح حدیث کا ایسا ہونا ہی نا ممکن ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصول حدیث کی بنیاد پر احادیث کو پرکھنے کا فن محدثین کے نزدیک عقلی اعتبار سے اس قدر مضبوط ہے کہ وہ تصور ہی نہیں کر سکتے کہ اصول حدیث کی بنیاد پر صحیح قرار پانے والی کوئی حدیث قرآن ، شرعی قواعد، عقل سلیم وغیرہ کے خلاف ہو۔ البتہ کسی جگہ ایسا شائبہ محسوس ہو تو محدثین ہمیشہ تطبیق کے طریقے پر چلے ہیں اور تطبیق کی راہ میں انہوں نے کوئی مشکل محسوس نہیں کی۔
البتہ چند جدید محققین حدیث کے مطلق رد و قبول کے لیے اصول بناتے ہیں کہ وہ قرآن اور عقل کے مسلمات کے خلاف نہ ہو اور اس کی تائید میں محدثین کی طرف سے خطیب بغدادی کی الکفایہ کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے: میزان، غامدی۔ مبادی تدبر حدیث، امین احسن اصلاحی۔ نیز دیکھیے: الکفایہ فی علم الروایۃ، باب ذکر مایقبل فیہ خبر الواحد وما لا یقبل فیہ)
خطیب بغدادی کا درج بالا حوالہ اہل الرائے کے طریقے کے بیان پر محمول کیا جائے گا۔ کیونکہ خطیب بغدادی سے پہلے کے ائمہ حدیث اور ان کے بعد اصول حدیث کے تمام ماہرین جیسے حافظ ابن الصلاح شہرزوری، امام ابن کثیر، حافظ عراقی، امام نووی، امام سیوطی، حافظ ابن حجر، حافظ سخاوی وغیرھم میں سے کسی نے اس انداز سے صحیح حدیث کے قبول و رد کا ذکر نہیں کیا۔ البتہ فقہاء اہل الرائے کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اس انداز سے بعض صحیح احادیث کو رد کرتے ہیں۔
حدیث ضعیف کی پہچان اور اس کا عقلی جائزہ:
حدیث ضعیف وہ ہے جس کا صدق اس کے کذب کی بنسبت راجح نہ ہو سکے، اگرچہ مساوی ہو یا مرجوح ہو۔
یہ محدثین کے عقل و فن کی احتیاط کا کمال ہے کہ صدق و کذب کا مساوی احتمال رکھنے والی حدیث کو بھی ضعیف قرار دیتے ہیں۔ شدید ضعف والی روایات بالاتفاق مردود ہیں۔
البتہ بعض لوگوں کے نزدیک ضعیف حدیث فضائل اعمال میں مطلق طور پر مقبول ہوگی ، بعض ضعیف احادیث کو فضائل اعمال میں بھی چند شرطوں کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ مثلاً ضعیف حدیث کسی صحیح حدیث کے معارض نہ ہو، وہ حدیث کسی اصل کے تحت ہو اور اس پر عمل کرتے ہوئے احتیاط کی نیت کی جائے نہ کہ ثبوت کی۔
بعض فقہاء نے نسبتاًکم ضعف والی احادیث کو احکام میں بھی قبول کیا ہے ، جیسے احناف اور حنابلہ وغیرہ۔ ان کا کہنا ہے کہ ضعیف حدیث میں صدق کا رجحان غالب نہیں ہوتا لیکن بہرحال اس میں صدق کا امکان ہوتا ہے اور ایسی حدیث بہرحال مجرد انسانی رائے سے بہتر ہے۔
درج بالا تمام راویوں میں عقلی اعتبار سے سب سے سخت رویہ محدثین کا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ ضعیف حدیث کو احکام میں مطلق طور پر قبول نہیں کرتے۔ اگرچہ اس میں صدق کا امکان موجود ہوتا ہے۔ فضائل اعمال میں بھی محققین اصحاب الحدیث، ضعیف حدیث کو مطلق طور پر قبول نہیں کرتے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ محدثین کا طبقہ احادیث کا جس قدر والہ و شید اہے اسی قدر اس کو نقد کی بھٹی میں زیادہ پرکھنے کا عادی ہے اور عموماً فقہاء اس چیز کے حامل نہیں۔
ضعیف حدیث کے متعلق درج بالا مختلف مکاتب فکر کے باوجود ان میں سے کسی کا قول ایسا نہیں جو عقل و بصیرت کے صریح منافی ہو۔
حدیث کی تدوین کے مراحل کا عقلی جائزہ:
اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے اور تاریخی و فنی اعتبار سے ثابت ہے کہ صحیح حدیث ہر دور میں الگ تھلگ اور واضح رہی ہے ۔ حتی کہ یہ اس دور میں بھی واضح تھی، جب حدیث کی مستقل تدوین نہیں ہوئی تھی۔ جیسا کہ ثقات و ائمہ کا ایک بڑا طبقہ ہر دور میں احادیث کا حافظ تھا اور ان کا علم ، حفظ و اتقان دیگر رواۃ کے حفظ کا میزان تھا۔
صحاح ستہ کی احادیث کے استقراء سے ثابت ہوتا ہے کہ اکثراحادیث یا تو پانچ واسطوں پر مشتمل ہوتی ہیں یا چھ واسطوں پر۔ اس حساب سے اگر ہم اندازہ لگائیں تو حدیث دور نبوی سے لے کر صحاح ستہ کے مصنفین تک چھ طبقوں میں منقسم ہو سکتی ہے۔ یہ طبقے تقریب کے لیے ہیں نہ کہ تحقیق کے لیے۔
پہلا طبقہ کبار صحابہ اور صغار صحابہ کا ہے۔ اہل سنت کا اجماع ہے کہ تمام صحابہ عادل ہیں کیونکہ صحابہ کرام نے مکی اور مدنی دور کے اندر دین کی خاطر شجاعت، جان نثاری، ایثار اور قربانیوں کی عظیم داستانیں رقم کیں اور اللہ تعالیٰ نے موقع بموقع صحابہ کرام کو تعریف و تحسین سے نوازا۔ اس طبقہ کے اندر حدیث مکمل طور پر سینوں میں موجود تھی اور چند صحابہ نے اپنی ذاتی یاد داشت کے لیے حدیث کو لکھا ہوا بھی تھا۔ صحابہ کے حفظ و اتقان کے حوالے سے عقلی گفتگو ممکن ہے لیکن راویوں کے حفظ و اتقان کے متعلق جو باتیں ہم پہلے بیان کر چکے ہیں اس کی روشنی میں صحابہ کے حفظ و اتقان کو بھی عقلی اعتبار سے پرکھا جا سکتا ہے۔
صحابہ کے بعد دوسرا طبقہ کبار تابعین کا ہے۔ یہ وہ نسل ہے جو براہ راست صحابہ کی گود میں پل کر جوان ہوئی۔ استقراء سے ثابت ہوتا ہے کہ کبار تابعین میں ضعیف راویوں کی تعداد گنی چنی ہے اور باقی تمام تابعین حفظ و اتقان ، عدالت میں مضبوط تھے۔ اس دور میں حدیث کے اندر کذب گوئی کا رواج نہ تھا اور حدیث کی سند بیان کرنے کا رواج بھی نہ تھا اور حدیث کی خاطر لمبے لمبے رحلات اور اسفار کی بھی کوشش نہ کی گئی۔ ہر بزرگ تابعی نے اپنے استاذ صحابی کی مسند سنبھالی۔ اس دور میں کبار تابعین کا حفظ و اتقان کمال درجے کا تھا اور ان میں درجہ بندی ممکن نہ تھی کیونکہ روایات محدود تھی اور اساتذہ بھی محدود تھے۔ اس دور میں حدیث کو انفرادی تحریری یاد داشت کی شکل میں حفظ کرنے پر زور دیا گیا۔
کبار تابعین کے بعد صغار تابعین کا طبقہ ہے۔ اس طبقہ میں حدیث محدود سینوں سے نکل کر کئی سینوں میں منتقل ہوئی۔ سندوں میں تعدد اور طوالت پیدا ہوئی، راویوں کی درجہ بندی ہوئی، کذب گوئی کا رواج ہوا، حدیث کی تدوین کی پہلی کوشش امام زہری کے سپرد ہوئی۔ رحلات کا آغاز ہوا، ضعیف راویوں اور ضعیف روایتوں کی بدولت جرح و تعدیل کا آغاز ہوا۔ اس طبقہ میں بھی مجموعی طور پر حفظ و اتقان باقی طبقوں کی بنسبت بہتر ہے۔
تابعین کے بعد کبار تبع تابعین کا طبقہ ہے۔ سندوں میں طوالت اور تعدد طرق کی وجہ سے جب احادیث کا ضعف بڑھا تو حفاظ کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا۔ کذب گوئی رائج ہوئی تو ثقات راویوں کی تعداد بھی بڑھ گئی اور ہر ہر علاقہ میں جرح و تعدیل کے مستقل امام ابھر کر سامنے آ گئے اور اس دور میں ہر بڑے عالم نے اپنی ایک مسند تحریر کی جن میں مشہور ترین مسندات و کتب ،ا مام مالک اور ان کے بیسیوں معاصرین کی ہیں۔
اگلا طبقہ صغار تبع تابعین کا ہے ۔ اس طبقہ میں سند طویل ہو گئی اور طرق متعدد ہوگئے۔ خطاء کے امکانات بڑھ گئے۔ ضعیف راوی بکثرت پھیل گئے۔ موضوع روایات کا چرچا ہونے لگا، لیکن اس کے مقابلہ میں ثقات راویوں کی تعداد بھی بڑھ گئی۔ حفاظ حدیث کو مستقل کتابیں میسر آئیں۔ جرح و تعدیل کا فن پہلی دفعہ مدون ہوا۔ جس میں سابقہ تمام طبقوں کے کمزور رواۃ پر تبصرہ کیا گیا۔ امام یحییٰ بن سعید قطان پہلے مستقل مدون تھے۔ کتب احادیث کے حواشی و تعلیقات پر ضعیف راویوں کا تذکرہ کیا گیا۔
اگلا طبقہ مصنفین صحاح ستہ کے اساتذہ کا ہے۔ اس دور میں احادیث فی نفسہ محدود و معین تھیں، لیکن مختلف سندوں کی وجہ سے ایک ایک متن سینکڑوں سندوں سے مروی تھا۔ جس کی وجہ سے مجموعی طور پر روایات کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی۔ ان روایات میں اسناد اپنی ابتداء میں غریب یا عزیز تھیں۔ لیکن بعد والے طبقوں میں مشہور، مستفیض اور متواتر ہوگئیں۔ سندوں اور متنوں میں اضطراب، قلب ، وہم، ادراج وغیرہ واقع ہونے لگا۔ لیکن ثقات کی تعداد بھی سابقہ طبقوں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہوگئی۔ جرح و تعدیل کے امام بکثرت پیدا ہوگئے۔ راویوں کے حالات پر کتابیں لکھی گئیں۔ ہم عصر اور ماضی کے رواۃ کا جائزہ مختلف احادیث کے حواشی سے لیا گیا یا جرح و تعدیل کے اماموں سے سینہ بسینہ لیا گیا۔ اس دور میں جرح و تعدیل مکمل طور پر مدون ہو گیا۔ مشہور امام تین تھے۔ یحییٰ بن معین، علی بن مدینی، احمد بن حنبل رحمہم اللہ ۔ اس دور کے اندر ہر بڑے محدث نے اپنی مسموعات کو باقاعدہ کتاب کی شکل دی۔ چنانچہ حدیث کی کتابوں کی تعداد سینکڑوں ہوگئی۔
آخر کار مصنفین صحاح ستہ کا دور آتا ہے۔ اس دور میں صحیح احادیث کو اور نسبتاً زیادہ قوی احادیث الگ تھلگ جمع کرنے کا سوچا گیا۔ چنانچہ صحاح ستہ کا وہ مجموعہ سامنے آیا جو احادیث کی تمام کتب کے درمیان اعلیٰ ترین حیثیت رکھتا ہے۔ صحاح ستہ کی موجودگی میں سابقہ بعض حدیث کی کتابوں کی ضرورت نہ رہی۔ چنانچہ وقت گذرنے کے ساتھ ان میں سے کچھ ضائع ہوگئیں اس طرح سے جرح و تعدیل پر سب سے پہلا تفصیلی کام امام بخاری نے کیا جس کی موجودگی میں جرح و تعدیل کی سابقہ کتب بتدریج متروک ہو گئیں۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے: تاریخ حدیث پر مشھور کتب، تاریخ حدیث و محدثین مترجم، غلام احمد حریری، تاریخ التشریع الاسلامی، مناع القطان، اہتمام المحدثین بنقد الحدیث، دکتور لقمان سلفی)
صحاح ستہ کا فنی حکم:
تدوین صحاح ستہ کے بعد ہر دور کے محدثین حدیث کی کتابوں کے استقراء کے بعد یہ ثابت کرتے ہیں کہ حدیث کی تمام کتابوں کی بنسبت مشہور چھ کتابیں بلند ترین صحت کی حامل ہیں اور کچھ معمولی مقدار کے علاوہ تمام صحیح حجت احادیث ان میں جمع ہوگئی ہیں۔ ان کتابوں کے نام معروف ہیں۔ صحاح ستہ میں لفظ صحاح حدیث مقبول کے معنی میں ہے اور ان کتابوں کو صحاح علی وجہ التغلیب کہتے ہیں۔ وگرنہ ان کے اندر کچھ ضعیف احادیث بھی موجود ہیں۔ ان صحاح ستہ میں بلند ترین کتب بخاری و مسلم ہیں۔ ان کے بعد ابو داؤد اور نسائی ہیں، پھر ترمذی اور ابن ماجہ کا درجہ ہے۔ آخری مذکور چاروں کتب سنن اربعہ بھی کہلاتی ہیں۔ ان چاروں کتب کی اکثر احادیث حسن درجے کی ہیں جو علماء محدثین کے نزدیک حجت ہیں۔
علماء محدثین کے نزدیک صحاح ستہ سے ہٹ کر کسی کتاب میں صحیح حدیث کا ہونا ممکن ہے لیکن اس کا متن صحاح ستہ میں ضرور مذکور ہوگا۔ ایسا بہت کم ہے کہ کوئی نئے متن والی حدیث صحاح ستہ سے ہٹ کر کسی کتاب میں آئی ہو۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے: حجۃ اللہ البالغہ، شاہ ولی اللہ۔ باب طبقۃ کتب الحدیث، تقریب النووی، امام نووی، النوع الاول، الصحیح مع تحریب الراوی، امام سیوطی ، ص۹۹ ودیگر کتب اصولِ حدیث)
درج بالا امور سے حاصل ہواکہ اسلامی علم منقولات عقل ، سائنس اور جدید علم نفسیات کی رو سے مضبوط ترین بنیادوں پر قائم ہے۔ اسلامی منقولات کا انکار عقل کے منافی ہے۔ سمعی اعتبار سے بھی اسلامی منقولات پر عمل واجب ہے۔ اس کے وجوب کا انکار کرنے والا جمیع اہل سنت (صحابہ و سلف صالحین، حنابلہ، شوافع، مالکیہ، احناف محدثین ، اہل الظاہر وغیرہ) کا بھی مخالف ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب، وما علینا الا البلاغ المبین
http://www.islamicmsg.org/index.php/22-slide-show/351-muhadeseen-k-asul-2