اصول حدیث میں راوی پرجرح دو لحاظ سے ہوتی ہے۔
- عدالت کے لحاظ سے
- ضبط وحفظ کے لحاظ سے
عدالت کے لحاظ سے جرح :
اس کامطلب یہ کہ کسی راوی پراس کی دینداری اور اخلاق سےمتعلق جرح کی جائے ۔
مثلا فلاں راوی چورہے،فلاں راوی شرابی ہے،فلاں راوی گانے باجے کا شوقین ہےوغیرہ وغیرہ۔
اس قسم کی جرح خالص شہادت وگواہی ہوتی ہے اس میں اجتہاد کی گنجائش نہیں ہوتی اس لئے اس طرح کی جروح میں شہادت وگواہی کوقبول کرنے سے متعلق قرآن وحدیث میں جو شرطیں بتلائی گئی ہیں ان کا پایاجانا ضروری ہے۔مثلایہ کہ گواہی دینے ولا خود عادل ہے اور اس نے بذات خود کسی نے اندر کوئی عیب دیکھا ہو۔
بالفاظ دیگر یہ کہہ لیں کہ اس طرح کی جرح میں اجتہاد کا دخل نہیں ہوتا بلکہ اس کی بنیاد خالص شہادت و گواہی پر ہوتی اور خالص شہادت وگواہی صرف معاصر ہی دے سکتا ہے نیز معاصر کی شہادت وگواہی بھی اسی صورت میں معتبر ہوتی ہے جب وہ خالص مشاہدہ پر مبنی ہو یعنی سنی سنائی بات نہ ہو ۔دنیا کی کوئی بھی عدالت سنی سنائی باتوں کوشہادت وگواہی نہیں مان سکتی اور اسلام میں بھی اس کی گنجائش نہیں ۔اس بارے میں کتاب وسنت کے نصوص بہت ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔
ضبط وحفظ کے لحاظ سے جرح :
اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی راوی پریہ جرح کی جائے کہ وہ روایت کے الفاظ کو صحیح طور سے ضبط نہیں کرتا ۔
یہ خاص محدثین کا مشغلہ ہے ۔اوریہ اجتہادی معاملہ ہے اور محدثین کے یہاں اس اجتہاد کی بنیاد راوی کی مرویات ہوتی ہیں ۔ یعنی ایک محدث جب کسی راوی پرجرح کرتاہے تو اس کی روایات کو دیکھ کرجرح کرتا ہے۔اگر اس کی روایات دیگر ثقہ لوگوں کی روایات سے موافق ہوتی ہیں تو محدث اس کے ثقہ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے اور اگر اس کی روایات دیگر ثقہ لوگوں کے خلاف ہوں تو محدث اس کے ضعیف ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔اور اگر مخالفت راوی کے کذب کی طرف اشارہ کرے تو محدث ایسے راوی کو کذاب کہتا ہے۔
اور اس معاملہ میں جرح کی بنیاد راوی کی روایات ہوتی ہیں اس لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ جرح کرنے والا محدث جس پر جرح کررہا ہو اس کے دور کا ہو کیونکہ وہ راوی کی روایات دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے اور پہلے دور کے راوی کی روایات کو بعد کے دور والا محدث بھی دیکھ سکتا ہے کیونکہ بعد کے دور کے محدث تک اس کی روایات ایسی سندوں سے پہنچ سکتی ہے جو اس راوی تک صحیح ہوں ۔
بلکہ اگرمحدث جس پر جرح کررہا ہے اس کے دور کا ہی ہو تو بھی محدث اس کا چہرہ دیکھ کر جرح نہیں کرے گا بلکہ اس کی روایات ہی دیکھ کرجرح کرے گا۔یعنی جرح کے معاملہ میں محدث جس چیز کو بنیاد بناتا ہے وہ راوی کی روایات ہی ہوتی ہیں ۔ لہٰذا یہاں پرجارح اور مجروح کے بیچ معاصرت اورعدم معاصرت کی بحث ہی فضول ہے۔کیونکہ جرح کرنے والا محدث مجروح کے دور کا ہوگا تو بھی اس کی روایات ہی دیکھے گا اور اس کے دور کا نہیں ہوگا تو بھی اس کی روایات ہی دیکھے گا۔
یہی وجہ ہے جب ایک محدث اپنے دور سے قبل کے کسی راوی پر ضعیف یا کذاب ہونے کی جرح کرتا ہے تو ہم اسے قبول کرتے ہیں اور یہ اعتراض نہیں کرتے کہ یہ محدث اس راوی کا معاصر نہیں ہے جس پر جرح کررہا ہے۔
اورجب جارحین کی جرح کی بنیاد راوی کی روایات کے بجائے راوی کا کردار ہو مثلا کسی راوی کا شرابی ہونا ، بدکار ہونا وغیرہ وغیرہ ۔تو اس صورت میں جرح کرنے والے محدث کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ جس پر جرح کررہا ہے اس کے دور کا ہو اوراپنے ذاتی مشاہدہ کو بنیاد بنارہا ہو یا اگر اس کے دور کا نہ ہو تو ایسی گواہی کو بنیادبنائے جو اس راوی کے کسی سچے معاصر نے دی ہو ، جو اس محدث تک صحیح سند سے پہنچی ہو ۔بصورت دیگر اس محدث کی گواہی رد کردی جائے گی چنانچہ جرح و تعدیل سے شغف رکھنے والے حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ بعض محدثین کی طرف بعض رواۃ سے متعلق شراب نوشی یا گانے بجانے وغیرہ کی جرح ملتی ہے لیکن اس جرح کو اس لئے رد کردیا جاتا ہے کیونکہ جارح جس پر جرح کررہا ہے اس کا معاصر نہیں ہے اور اس نے اس بات کے لئے صحیح سند پیش نہیں کی ہے۔