عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
کتاب کا نام
محمد اسد بندہ صحرائی خود نوشت سوانح عمری
ناشر
نشریات لاہور
تبصرہ
کسی فرد کی زندگی کے حالات کو قلم بند کرنے کو سوانح عمری کہتے ہیں۔ سوانح نگاری میں ہر زمانہ کے حالات، طرز نگارش اور رسم و رواج کا بڑا اثر رہا ہے۔ مثلا عہد قدیم میں آشور، بابل اور مصر وغیرہ کے بادشاہوں کے حالات لکھے جاتے تھے لیکن ان کی تعریف میں اتنی قصیدہ گوئی ہوتی کہ افسانہ اور حقیقت میں فرق کرنا مشکل ہوتا تھا۔ رومن عہد میں بھی سوانح نگاروں میں پلوٹارک کا نام آج تک زندہ ہے اور اس کی تصنیف مشاہیر یونان و روم دنیائے ادب اور سوانح نگاری میں بہت بڑا مقام رکھتی ہے۔ وہ بھی بڑا ہیرو پرست تھا لیکن اس کے باوجود اس نے اپنے کرداروں کو سمجھنے اور ان کی مبالغہ آرائی کے باوجود کسی قدر سچائی کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔اردو ادب میں سوانح عمریوں کا ذخیرہ بہت کم ہے اور یہ صنف اردو میں انگریزی ادب کے حوالے سے داخل ہوئی ۔ اردو نثر کی ابتداءسے لے کر دور ِ متاخرین تک اردو میں کوئی قابلِ ذکر سوانح عمری نہیں ہے۔ البتہ شعراءکے تذکرے موجود ہیں ۔ ان کے علاوہ سیرت رسول اکرم اور صحابہ کرام اور اولیاءکرام کے سوانح حیات ملتے ہیں ۔ اردو ادب میں سوانح عمر ی کی باقاعدہ ابتداءسرسید تحریک سے ہوئی ۔جس کا مقصد لوگوں کو اپنے بزرگوں کے کارناموں اور زندگی سے آگاہ کرنا تھا۔ تاکہ وہ ان راستوں کو اپنا کر ملک و قوم کے لیے ترقی کا سبب بن سکیں۔ اس مقصد کے لیے حالی ، شبلی اور سرسید وغیرہ نے اعلیٰ پائے کی سوانح عمریاں لکھیں ۔ لیکن ان میں سب سے بڑااور اہم نام مولانا حالی کا ہے جنہوں نے ”حکیم ناصر خسرو“، ” مولانا عبدالرحمن“”حیات سعدی “ ، ”یادگارِ غالب“، ”حیات جاوید “ جیسی سوانح لکھ کر اردو ادب کا دامن اس صنف سے بھر دیا۔ لیکن ان سوانح میں سب سے زیادہ شہرت حیات جاوید کے حصے میں آئی ۔ زیر تبصرہ کتاب"محمد اسد بندہ صحرائی، خود نوشت سوانح عمری "محمد اسد اور ان کی بیوی پولا حمیدہ اسد کی خود نوشت سوانح عمری ہے۔یہ کتاب اصلا انگلش میں ہے جس کا اردو ترجمہ اور ترتیب محمد اکرام چغتائی صاحب نے لگائی ہے۔(راسخ)
محمد اسد بندہ صحرائی خود نوشت سوانح عمری
مصنف
محمد اکرام چغتائیناشر
نشریات لاہور
تبصرہ
کسی فرد کی زندگی کے حالات کو قلم بند کرنے کو سوانح عمری کہتے ہیں۔ سوانح نگاری میں ہر زمانہ کے حالات، طرز نگارش اور رسم و رواج کا بڑا اثر رہا ہے۔ مثلا عہد قدیم میں آشور، بابل اور مصر وغیرہ کے بادشاہوں کے حالات لکھے جاتے تھے لیکن ان کی تعریف میں اتنی قصیدہ گوئی ہوتی کہ افسانہ اور حقیقت میں فرق کرنا مشکل ہوتا تھا۔ رومن عہد میں بھی سوانح نگاروں میں پلوٹارک کا نام آج تک زندہ ہے اور اس کی تصنیف مشاہیر یونان و روم دنیائے ادب اور سوانح نگاری میں بہت بڑا مقام رکھتی ہے۔ وہ بھی بڑا ہیرو پرست تھا لیکن اس کے باوجود اس نے اپنے کرداروں کو سمجھنے اور ان کی مبالغہ آرائی کے باوجود کسی قدر سچائی کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔اردو ادب میں سوانح عمریوں کا ذخیرہ بہت کم ہے اور یہ صنف اردو میں انگریزی ادب کے حوالے سے داخل ہوئی ۔ اردو نثر کی ابتداءسے لے کر دور ِ متاخرین تک اردو میں کوئی قابلِ ذکر سوانح عمری نہیں ہے۔ البتہ شعراءکے تذکرے موجود ہیں ۔ ان کے علاوہ سیرت رسول اکرم اور صحابہ کرام اور اولیاءکرام کے سوانح حیات ملتے ہیں ۔ اردو ادب میں سوانح عمر ی کی باقاعدہ ابتداءسرسید تحریک سے ہوئی ۔جس کا مقصد لوگوں کو اپنے بزرگوں کے کارناموں اور زندگی سے آگاہ کرنا تھا۔ تاکہ وہ ان راستوں کو اپنا کر ملک و قوم کے لیے ترقی کا سبب بن سکیں۔ اس مقصد کے لیے حالی ، شبلی اور سرسید وغیرہ نے اعلیٰ پائے کی سوانح عمریاں لکھیں ۔ لیکن ان میں سب سے بڑااور اہم نام مولانا حالی کا ہے جنہوں نے ”حکیم ناصر خسرو“، ” مولانا عبدالرحمن“”حیات سعدی “ ، ”یادگارِ غالب“، ”حیات جاوید “ جیسی سوانح لکھ کر اردو ادب کا دامن اس صنف سے بھر دیا۔ لیکن ان سوانح میں سب سے زیادہ شہرت حیات جاوید کے حصے میں آئی ۔ زیر تبصرہ کتاب"محمد اسد بندہ صحرائی، خود نوشت سوانح عمری "محمد اسد اور ان کی بیوی پولا حمیدہ اسد کی خود نوشت سوانح عمری ہے۔یہ کتاب اصلا انگلش میں ہے جس کا اردو ترجمہ اور ترتیب محمد اکرام چغتائی صاحب نے لگائی ہے۔(راسخ)
Last edited: