• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمد العیسی کی شخصیت پانچ نکات میں

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
523
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
محمد العیسی کی شخصیت پانچ نکات میں
FB_IMG_1657282141937.jpg


تحریر : خضر حیات (علمی نگران محدث فورم)

تمام ادیان کا احترام: ریاض میں رابطہ عالم اسلامی کے تحت "القيم المشتركة بين أتباع الأديان" کے عنوان سے ایک عالمی کانفرنس منعقد کی گئی۔ جس میں محمد العیسی نے بطور میزبان گفتگو کرتے ہوئے کہا:
’سب لوگ اس حقیقت کو جان چکے ہیں کہ مختلف ادیان میں افہام و تفہیم، اور ایک دوسرے کے احترام و تکریم کے علاوہ، کوئی چارہ نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے سب کو قابل عزت و تکریم بنا کر پیدا کیا ہے، اور سب کا برابری کی سطح پر رہنا، یہ ان کا بنیادی حق ہے، اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دینی بنیاد پر ایک دوسرے سے ٹکراؤ، سب کے لیے باعث ذلت و فضیحت رہا ہے‘۔


آپ بتائیں، اس قسم کا نظریہ رکھ کر، کدھر گیا اسلام کا دینِ حق ہونا، اور بقیہ ادیان کا باطل یا منسوخ ہونا؟ کہاں گئی، تبلیغِ اسلام، اور اس کے لیے جہاد، محنت و جدوجہد اور اذیتیں تکلیفیں...!!

اسلامی نقطہ نظر سے دینِ حق صرف اسلام ہے، دینِ محمدی کا منکر، وہ جس بھی دین کا پیروکار ہو ، کافر ہے، اسے پہلے دین کی دعوت، اور پھر حسب استطاعت و طاقت جہاد کرنا واجب ہے۔ جو تمام ادیان کو درست سمجھتا ہے، اہل علم نے اسے مرتد و زندیق قرار دیا ہے۔

انہیں محمد العیسی صاحب نے میڈیا پر ایک بیان میں کہا، کہ یہود و نصاری ہمارے بھائی ہیں، ان کی نصرت وتائید کرنا ہم پر واجب ہے۔ جبکہ شیخ صالح الفوزان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ: یہود و نصاری کو بھائی کہنا درست ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ایسا شخص مرتد ہے۔

بہرصورت تقارب بین الادیان کی یہ کوششیں، مختلف انداز اور ناموں سے ہورہی ہیں، اور اس کی اصل بنیاد ، قرآن کریم یا احادیث نبویہ کی کوئی تعلیمات نہیں ہیں، بلکہ اس کی بنیاد اس عالمی منشور سے لی گئی ہے، جسے اقوامی متحدہ نے ’انسانی حقوق‘ کے نام سے جاری کیا ہے۔ اور اب پوری دنیا میں اس کی تنقیذ پر محنت کی جاری ہے۔ اور اس کے داعی اور پیامبر حرمین، اور اس کے منبروں تک پہنچ چکے ہیں۔

غیر اسلامی ممالک میں اسلامی تعلیمات سے روکنا، اور اس کے برعکس اسلامی ملکوں میں غیر مسلموں کی آزادی کی بات کرنا، یہ دوغلہ پن بھی، ان کی سوچ وفکر میں انحراف اور ٹیڑھ پن کی واضح دلیل ہے۔

غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں :
"إن القوانين المتعلقة بحظر الحجاب، في الدول غير الإسلامية، شرعية، وعلى المسلمين القبول بها، مؤكدا أنه على المسلمين أن لا يضعوا القرآن فوق قوانين البلدان المستضيفة لهم".
غیر مسلم ممالک میں حجاب سے متعلق پابندی بالکل درست ہے، اور مسلمانوں کے لیے اس کو ماننا ضروری ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ غیر مسلم ممالک میں قرآن کریم کو وہاں کے قوانین ود ساتیر پر حاکم نہ بنائیں...!

حوالہ: https://p.dw.com/p/2cist

بلکہ جب یورپ کے اسی دورے کے بعد میڈیا میں ان کی طرف سے یہ بیان شائع ہوا کہ یورپ میں مقیم خواتین یا حجاب اتار دیں، یا پھر یورپ چھوڑ دیں۔ حوالہ:

جبکہ یہی محمد عیسی مسلم ممالک میں آکر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ:
"ليس من الاعتدال إلزام الأجنبيات بالحجاب".
’غیر ملکی خواتین کو حجاب کا پابند کرنا، قرین انصاف نہیں‘۔

حوالہ: https://www.alriyadh.com/1779654

یہ دو رنگی اور نا انصافی تو کسی عام آدمی کے بھی لائق نہیں، کجا یہ کہ وہ خود کو مسلمانوں کا مذہبی پیشوا اور نمائندہ کہلواتا ہو۔ بلکہ بیانات سے تو لگتا ہےکہ یہ مسلمانوں میں کافروں کا سفیر و وکیل ہے..!!

غیر مسلموں کی عبادت گاہوں میں جانا، اس کی تشہیر و ترویج کرنا، ان کی عادات و رسومات میں شریک ہونا۔ جس کے لیے درج ذیل لنکس ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں:

https://youtu.be/u0S8j-vLRZE

تبرج و سفور کی محفلوں میں شرکت، بلکہ خواتین کے ساتھ تصاویر اور مصافحہ کرنا، واضح حرام، یا کم ازکم خلافِ مروت کام ہے۔ (تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر عام ہیں)
جبکہ ’اختلاط‘ کے جواز، اور سب سے پہلے اس کو شرعی لباس پہنانا، یہ تو ایک خطرناک عقیدہ ہے۔


مذکورہ مقالہ میں موصوف نے ڈھٹائی کے ساتھ مرد و زن کے اختلاط کو شریعت سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ( جس کا کئی ایک سعودی علماء نے مدلل جواب بھی دیا ہے، جیسا کہ الطریفی وغیرہ)

جبکہ اہلِ علم نے یہ بات صراحت کے ساتھ لکھی ہے کہ مرد و زن کے اختلاط کو جائز قرار دینے والا کافر و مرتد ہے۔ اور اگر اسے حرام سمجھتے ہوئے، اس میں سستی کرتا ہے، تو ایسا شخص فاسق ہے، جس کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں۔ (احکام النظر للعامری:287)

ان کی کوششوں کا محور اسلام کی تبلیغ و ترویج کی بجائے، اقوامی متحدہ کے ’عالمی منشور‘ کے زیادہ قریب نظر آتا ہے۔ جس کی مثال، وثیقۃ مکہ مکرمہ کا متن ہے۔ اس میں، اسلام کو اصل بنا کر، باقی سب کے ساتھ تعامل کی بجائے، سب ادیان و مذاہب کو برابر مان کر، انسانیت کی بنیاد پر تعامل کی طرف دعوت دی گئی ہے۔

مذکورہ باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی کسی شخص میں پائی جائے، تو اسے امام بنانے کا تصور موجود نہیں، کجا یہ کہ اس میں سب موجود ہوں، اور پھر اسے مسلمانوں کے سب سے بڑی مذہبی اجتماع کی قیادت سونپ دی جائے۔ جبکہ دیگر صغار و کبار اور اہل شخصیات موجود ہوں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ عالمی طاقتیں، سعودی حکومت کے زیر اقتدار مذہبی اجتماعات کو بھرپور انداز سے اپنے سیاسی اور فکری ایجنڈوں کے استعمال کے لیے منظم انداز سے استعمال کرنے کے لیے، بھرپور جد وجہد شروع کرچکی ہیں۔

اس سب کے باوجود:
محمد العیسی کے ایسے بیانات بھی نظر آتے ہیں، کہ ہم اپنے مسلماتِ دین، عقیدہ و شریعت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنے والے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آپ کے نزدیک دین ہے کیا؟ تبلیغ دین پر آپ نے سمجھوتہ کیا، اسلام کو سب سے افضل ماننے کی بجائے، سب ادیان کو برابر سمجھنے کی تلقین کی، آپ کے دین میں ولاء و براء، اور جہاد کا کوئی تصور موجود نہیں، حجاب اتارنے کا آپ مشورہ دیتے ہیں، مرد و زن میں اختلاط، آپ کے ہاں کوئی مسئلہ نہیں۔ تو آپ کس دین کی بات کر رہے ہیں، جس پر آپ نے کوئی سمجھوتہ اور کمپرومائز نہیں کرنا؟
 
Top