مختلف فقہی اَحکام کااِستنباط اور علم قراء ا ت
بسا اَوقات دو مختلف قراء ات مختلف مسائل کے استنباط کا فائدہ بھی دیتی ہیں، مثلاً
اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْنَ‘‘ (البقرۃ:۲۲۲) ’’اور تم ان کے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک صاف ہوجائیں۔‘‘
یعنی بیوی سے اس وقت تک جماع نہ کیا جائے جب تک اُسے حیض آنا بندنہ ہوجائے۔ قراء ت ِحفص کے اعتبار سے بیوی سے جماع کے لئے حیض کے بند ہونے کے بعد غسل کی صورت میں طہارت ضروری نہیں، صرف حیض کا بند ہونا ہی کافی ہے جبکہ دوسری قراء ت میں لفظ
’یَطْھُرْنَ‘ ط کے سکون کے بجائے تشدید کے ساتھ
یَطَّہَّرْنَ ہے جس کا معنی یہ ہوگا کہ بیوی کے قریب جانے کے لئے حیض کا بند ہونا ہی کافی نہیں بلکہ غسل کرنا بھی ضروری ہے، چنانچہ دو مختلف قراء ات سے الگ الگ مسائل کے استنباط سے یہ مترشح ہورہا ہے کہ اس مسئلے میں تخفیف کا پہلوموجود ہے۔
جس طرح اہل مدارس جمود و اِضمحلال سے تحقیق و اجتہاد کی طرف، عصری علوم کی بیگانگی سے اس کی درس و تدریس کی طرف اور فقہ الواقع کی جہالت سےآشنائی کی طرف مثبت پیش رفت کررہے ہیں اسی طرح ہم اپنی منتظمین مدارس سے یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ متنوع قراء ات کی افادیت کے پیش نظر اس کی بطور نصاب تدریس کے مسئلے میں بھی اپنا کردار ادا کریں گے، تاکہ جہاں ہمارے نونہالان حفاظت ِقرآن کریم کی ایزدی ذمہ داری کی عملی تعبیر بن سکیں وہاں وہ قرآن کریم کے معنی و مفہوم اور تشریح و توضیح کو بھی منہج سلف کے مطابق بآسانی سمجھ سکیں اور اس طرح قراء ات قرآنیہ کو ’فتنہ عجم‘ کہنے والے دانش بازوں کے سامنے مضبوط چٹان کی صورت میں کھڑے ہوجائیں، تاکہ ہوائے نفس کی پیروی کرنے والے ،جو خود فتنہ عجم ہیں، اپنے فتنہ کو متعدی نہ کرسکیں۔ اسی طرح ان کے فکری اکابرین جو قرآن کریم کو بھی توراۃ و انجیل کی طرح بازیچۂ اطفال بنانے کا مذموم ارادہ رکھتے ہیں، بھی ناکام و نامراد ہوجائیں اور جان لیں کہ قرآن کریم کی حفاظت کوعملی تعبیر دینے والے بیداری کے ساتھ روئے زمین پر موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔
اختلاف ِقراء ات کے سلسلہ میں کسی اجنبیت کا شکار ہونے کے بجائے اس کے سلسلہ میں سادہ بصیرت کا استعمال بھی شافی اطمینان دے سکتا ہے۔ دیکھیے کہ ایک زبان جب مختلف علاقوں اور قبائل میں پھیلی ہوتو بسا اوقات اس کے بعض الفاظ کے استعمالات اور لہجوں میں اتنافرق واقع ہوجاتا ہے کہ ایک جگہ کے رہنے والوں کے لیے دوسری جگہ والوں کے لہجوں میں بات کرنا بڑامشکل محسوس ہوتاہے، جیساکہ دہلی اور لکھنؤ کی اُردو کا حال ہے۔ جب قرآن مجید دورِ نبوت کے مشہور قبائل قریش، ہذیل، تمیم، ربیعہ، ہوازن اور سعد بن بکر میں پھیلا تو ان کی عربی میں کئی فرق پائے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم کو سات حروف (لغات و لہجات) میں اتارنے کی ایک اہم حکمت یہ بھی تھی کہ اس کے پہلے مخاطبین ایک ہی لہجے کے تکلف کا شکار نہ ہوں۔ البتہ جب بعد ازاں لوگوں کے مختلف انداز سے کلام حکیم کو پڑھنے سے مغالطے پیداہونے لگے ، تو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے تمام حروف کو یکجا جمع کرنے اور محفوظ رکھنے کا سرکاری سطح پر اہتمام فرمایا، اگرچہ رسم الخط میں قریش کے رویے کو ترجیح دی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج بھی مطبوعہ قرآنوں میں کئی لفظوں کو اپنے حروف میں لکھ کر بعض حروف کے اوپر دوسرا حرف بھی ڈال دیا جاتاہے، جس کامقصد یہ ہے کہ اس حرف کی جگہ وہ بھی پڑھا جاسکتاہے جیسے ’’سورۂ غاشیہ کی آیت ’’لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍ‘‘ میں ’ص‘کے اوپر ’س‘…
چونکہ اس زمانہ میں عربی کتابت نقاط و حرکات سے خالی ہوتی تھی، اس لیے ایک ہی نقش میں متنوع قراء توں کے سمونے کی گنجائش موجود تھی، لیکن بعد میں جب لفظوں اور حرکتوں سے متنوع شکلوں کا فرق واضح ہونے لگا، تو قرآن مجید بھی علیحدہ علیحدہ قراء توں میں شائع ہونے لگے۔ اسی طرح دنیا کے مختلف خطوں میں مخصوص قراء تیں رائج ہوئیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مشرق (برصغیر پاک وہند، وسط ایشیا اور ایران وعراق سمیت شرق اوسط) میں جس طرح ’’قراء ات امام عاصم کوفی… بروایت حفص‘‘ مروج ہے، اسی طرح قرون وسطی کے مغرب (شمالی افریقہ تا اندلس) میں ’’قراء ات امام نافع مدنی… بروایت ورش‘‘ عام ہے۔ دنیابھر میں ان دو قراء توں کے علاوہ دیگرقراء ات میں بھی قرآن مجید مشہور نشریاتی اداروں کی طرف سے مسلمان حکومتوں کے اہتمام میں چھپتے آرہے ہیں۔
یہ بھی واضح رہے کہ قرآن کریم میں کتابت کی بجائے اصل ’تلاوت‘ ہے، لہٰذا خلیفہ راشد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ماہرین قراء ات کے ساتھ ’مصحف امام‘ کی نقول مختلف جہات میں روانہ فرمائی تھیں اور آج تک انہی قراء کے حوالہ سے متعدد قراء ات کی متواتر روایت نبیﷺ تک نہ صرف محفوظ و مامون ہیں، بلکہ ہر زمانہ میں لاکھوں قاری اپنی مخصوص قراءتوں میں ان کی تلاوت کرتے ہیں اور دوسروں کو حفظ کرانے کااہتمام بھی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں علمی اور تحقیقی کام بھی بہت وسیع و عریض ہے۔
مغرب کے سیاسی اور فکری غلبے کے نتیجے میں جب مسلمانوں کے دین و ایمان سے متعلقہ علوم پربھی مستشرقین نے یلغار کی، تو انہیں’محمدﷺ‘کی سنت و سیرت کا کمال اور قرآن کی حفاظت کا اعجاز بہت کھٹکا، کیونکہ دنیابھر میں ’قرآن‘ کے علاوہ کسی الہامی کتاب کی اس طرح انتہائی حفاظت و تلاوت کا تو دعویٰ بھی نہیں کیا جاسکتاتھا، چنانچہ بہت سوں نے سیرت رسولﷺ کے بارے میں شبہات پھیلائے تو دوسروں نے قرآن کی قراءتوں کو ’فتنہ عجم‘ بتا کر اشکالات پیدا کرنے کی کوشش کی، حالانکہ قراء ات کا تنوع قرآن کے اعجاز ہی کا ایک پہلو ہے، اس میں اختلاف کا تضاد ممکن ہی نہیں۔
چونکہ دورِ حاضر مسلمانوں کے علمی انحطاط کے ساتھ ساتھ ایمان و عقیدہ کی کمزوری سے بھی دوچار ہے، لہٰذا بعض نام نہاد اہل علم… مغرب کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات سے متاثر ہونے لگے اور انہوں نے ایک طرف جہاں آزادی تحقیق کے نام پر سنت وحدیث کا انکار کردیا یا سنت و حدیث کو الگ الگ کرکے استخفاف حدیث کا رویہ اپنایا،تو دوسری طرف قرآنی علوم کی وسعت سے ناواقفی کی بناء پر اپنے ملک میں رائج قراء ت کے علاوہ دوسری متواتر قراء توں کا انکار کر دیا، حالانکہ کتنی بڑی بوالعجبی ہے کہ قرآن جیسی عالمگیر کتاب کو اپنے علاقہ تک مخصوص کرلیاجائے، تاہم ان سب کچھ کمزوریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے ’ذکر‘ کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی ہے، چنانچہ ان فتنوں کے ساتھ ساتھ اللہ کے بندوں کی طرف سے اس کی حفاظت کے لیے ادنیٰ سے اعلیٰ مساعی مسلسل ہوتی رہتی ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں تجویدو قراء ات کے مدرسے کسی سرکاری سرپرستی کے بغیر تو یہ کام کرہی رہے ہیں، علاوہ ازیں سرکاری اہتمام میں جامعہ ازھر اور مدینہ یونیورسٹی کے ’تجوید و قراء ات‘ کے شعبے خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔
’جامعہ لاہور الاسلامیہ‘ سے منسلک تحقیقی ادارہ ’مجلس التحقیق الاسلامی‘ ،جس کا آرگن مجلہ ’محدث‘ ہے، مذکورہ بالا فتنوں کے بارے میں ماضی بعید سے بڑا حساس کردار پیش کرتا آرہا ہے، لہٰذا ’مجلس‘ جہاں’محدث‘ کے ذریعے منکرین حدیث کے شبہات کے اِزالے کے لیے علمی محاسبہ کافریضہ انجام دیتی رہتی ہے ، وہاں اب ’جامعہ‘ کا ترجمان ماہنامہ ’رشد‘ بھی عرصہ دو تین سال سے مسلسل قرآنی علوم، جن میں شاہکار متنوع قراء توں کا معجزہ ہے، کے تعارف وثبوت کے لیے کوشاں ہے۔ اسی سلسلے کی ایک عملی شکل’جامعہ لاہورالاسلامیہ‘ کے زیراہتمام مدینہ یونیورسٹی کی طرز پر تقریبا عرصہ بیس سال سے
’کلِّیۃ القرآن الکریم والعلوم الاسلامیہ‘ کا اجراہے، جہاں کتاب و سنت اور عربی لغت کے مروجہ علوم کے علاوہ علم قراء ات سے وابستہ جملہ علوم القرآن کا تخصص کرایاجاتاہے۔
اِن تمام اَقدامات کے علاوہ ضرورت اس بات کی تھی کہ متنوع قراء ات قرآنیہ کی حجیت و ثبوت اور دیگر متعلقہ معلومات پر ایک خاص اشاعت کا اہتمام کیا جائے، تاکہ جہاں اردو زبان میں موجود مفید مواد کو یکجا کردیا جائے، وہاں علم قراء ات کے اُن تشنہ پہلوؤں پر، جن پر تاحال اردو زبان میں نہیں لکھا گیا، ضروری مواد کو اُردو قالب میں ڈھال کر پیش کردیا جائے۔ تحریک ’کلیہ القرآن الکریم ‘کے وابستگان
الحمد للہ عرصہ بیس سال میں اس پوزیشن تک پہنچ چکے تھے کہ وہ مذکورہ ضرورت کی تکمیل کرتے، چنانچہ ’کلیہ‘ کے ذمہ داران نے اسی احساس کے پیش نظر ’جامعہ لاہور الاسلامیہ‘ کے ترجمان ماہنامہ ’رشد‘ کے حالیہ’ خاص نمبر‘ کی اِشاعت کا اہتمام کیا۔ یاد رہے کہ رشد’ قراء ات نمبر‘ کے سلسلہ میں تاحال ادارہ کو سو (۱۰۰)کے قریب مضامین جمع کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے، جن میں سے اکثر مضامین و تراجم فضلاء کلیہ ہی کی طرف سے پیش کردہ ہیں۔ مضامین کی کثرت کی وجہ سے اس خاص نمبر کو دو حصوں میں پیش کیا جارہا ہے۔
اللہ تعالی اُن اداروں کو، جوکہ قرآن کریم (بشمول قراء ات قرآنیہ )اور سنت ِرسول ﷺ کے دفاع کے لیے مسلسل گامزن ہیں، قائم دائم رکھے اور انہیں دن دگنی رات چوگنی ترقی عطاء فرمائے اور دیگر ادارے، جو تاحال اس ضرورت سے صرف نظر کیے ہوئے ہیں، کو بھی اس کار عظیم میں حصہ ڈالنے کی توفیق وہمت عطاء فرمائے۔
آمین