• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مدارسِ دینیہ میں تدریس ِقراء ات کی ضرورت اوررشد ’قراء ات نمبر‘ کی اِشاعت کا پس منظر

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
مدارسِ دینیہ میں تدریس ِقراء ات کی ضرورت اور

رشد ’قراء ات نمبر‘​
کی اِشاعت کا پس منظر

حافظ نعیم الرحمن ناصف
نوٹ

ماہنامہ رشد علم قراءت نمبر حصہ اول کی فہرست پر جانے کےلیے یہاں کلک کریں​
ابتدائے اسلام سے علومِ دینیہ کی تعلیم و تدریس اور ترویج و اشاعت میں مدارسِ دینیہ کا کردار اِنتہائی نمایاں رہا ہے، جو کسی صاحب بصیرت سے پوشیدہ نہیں بلکہ یہ کہنا غیر مناسب نہیں ہوگا کہ دین ِاسلام کا انتقال، جس کی حفاظت کی ذمہ داری باری تعالیٰ نے خود اٹھائی ہے ،انہیں مدارس کے وجود اور پیہم کوششوں سے ممکن ہوا۔ آج اگر اسلام کا چار سو پھیلاؤ ہے تو اس میں ان اداروں کاخاصہ کردار شامل ہے جو انہوں نے محدود وسائل اور بے سروسامانی کے باوجود اَدا کیا اور تاحال کررہے ہیں۔ اسی کردار کی بدولت آج آپ کو تاریخ اسلام کی وہ تمام قدآور شخصیات، جن کے کارہائے نامہ پر دنیا فخر محسوس کرتی ہے، اسی چشمہ سے فیض یافتہ نظر آئیں گی۔
ان تمام ترخوبیوں اور درخشندہ ماضی کے باوجود دینی مدارس میں کچھ ایسے تشنہ پہلو موجود ہیں جن کی سیرابی ابھی باقی ہے،مثلاً ہمارے اِن اداروں(خصوصاً برصغیر پاک و ہند) میں متنوع قراء اتِ قرآنیہ کو بطور نصاب پڑھانے سے صرف نظر کیاگیا ہے۔ بظاہر اس دیدہ دانستہ اغماض کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی، کیونکہ بہت سارے ایسے علوم ہیںجو متنوع قراء ت کی بنیاد پر تن آور درخت کی سی حیثیت سے کھڑے ہیں۔ یہی قراء ت قرآنیہ تفسیر قرآن میں مجمل معنی کی وضاحت کررہی ہوتی ہیں،انہیں قراء ت کی بنیاد پر استنباطِ احکام میں ایک فقیہ کو راجح مسلک کا علم ہوتا ہے،یہی قراء ات عقیدۂ سلف کی توضیح اور نکھار میںممدومعاون ثابت ہورہی ہوتی ہیں، انہیں کی بنیاد پر قرآن کریم کو وہ امتیاز اور اعجاز ملتا ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں کفار کو چیلنج کی صورت میں کیاگیا کہ:
’’وَإنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہِ وَادْعُوْا شُھَدَائَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اﷲِ إنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا…… الخ‘‘(البقرۃ:۲۳)’’اور اگر تمھیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے،یہ ہماری نہیں،تو اس کی مانند ایک ہی سورت بنا لاؤ،اپنے سارے ہم نواؤں کو بلا لو، ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو مدد لے لو ،اگر تم سچے ہو تویہ کام کر کے دکھائو،لیکن تم نے ایسا نہ کیا اور یقینا کبھی نہیں کر سکتے… ‘‘
اور سب سے بڑھ کر قرآن کریم کا نطق اور کیفیت اَدائی جو صحابہ رضی اللہ عنہم کورسول اللہﷺ نے سکھائی تھی ،سے آشنائی ملتی ہے، لیکن اَرباب مدارس، افسوس کہ اس سے بے اعتنائی برتتے رہے اور برت رہے ہیں، سوائے چند ایک اداروں کے جن کے اَکابرین کو اللہ تعالیٰ نے فکر کی گہرائی اور نظر کی وسعت سے نوازاہے۔ لاکھ کوشش کے باوجود ہم ابھی تک یہ نہیں جان سکے ہیں کہ وہ کون سے پیمانے ہیں جن کی بنیاد پر علم قراء ت کو دیگر علوم متداولہ کے مقابلے میں کم اہمیت کا حامل جاناگیا۔ معلوم نہیں اہمیت وافادیت کس ثریا کانام ہے، جہاں دیگر جملہ علوم تویک جنبش چڑھ دوڑھے، لیکن علم قراء ت وہاں تک نہیں پہنچ پارہا بلکہ ابھی کوسوں دور ہے؟
حالانکہ ہماری دانست میں یہ علم دیگر علوم کے مقابلے میں کسی بھی طور پر کم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ ملاحظہ فرمائیے اس کی افادیت کیا ہے اور اسے کیوں مدارس ِدینیہ کے نصاب کا حصہ ہوناچاہئے؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
علم قرا ء ات اور تفسیر قرآن
تفسیر کامعنی ہے الفاظ قرآنیہ کامفہوم اس طرح پوری وضاحت سے بیان کردیا جائے کہ اس میں کوئی ابہام یا اجمال باقی نہ رہے۔سو جہاں اس مقصد کے حصول کے لئے دیگر علوم معاون ثابت ہوتے ہیں وہی علم قراء ت بھی مجمل الفاظ کی تفصیل اور ابہام کی توضیح کرتا نظر آتا ہے، مثلاً
اِرشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وَاِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلاَلَۃً اَوِ امْرَأۃٌ وَلَہٗ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ‘‘(النساء :۱۲)
آیت مذکورہ میں لفظ ’أخٌ‘ اور ’أختٌ‘ میں اِبہام ہے کہ وراثت کی تقسیم میں ذکرکیاگیاحصہ کس بھائی اور بہن کا ہے؟ حقیقی (سگے) بھائی اور بہن مراد ہیں، علاتی (جوباپ کی طرف سے ہوں) یا اخیافی (جو ماں کی طرف سے ہوں)
تودوسری قراء ت میں اس کی وضاحت یوں موجود ہے:
’’وَلَہُ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ مِّنْ اُمِّ‘‘
یعنی’’جو اخیافی بہن بھائی ہوں، ان کا وراثت میں یہ حصہ ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
دوسری مثال
قسم کا کفارہ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’فَکَفَّارَتُہٗ عَشَرَۃُ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ اَوْ کِسْوَتُھُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ‘‘ (المائدۃ:۸۹)
’’(ایسی قسم توڑنے کا) کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو وہ اوسط درجے کا کھانا کھلاؤ جو تم اپنے بال بچوں کو کھلاتے ہویا انہیں کپڑے پہناؤ یا ایک غلام آزاد کرو۔‘‘
آیت بالا میں بھی لفظ’رقَبَۃ‘ کی وضاحت موجود نہیں کہ قسم کا کفارہ دیتے ہوئے اگر غلام آزاد کرنا مقصود ہوتوکیا غلام میں کوئی تمیز موجود ہے کہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم؟ یاکسی بھی غلام کو آزاد کیا جاسکتا ہے؟
توقراء ا ت کااختلاف ہمیں بتاتا ہے کہ اس ضمن میں غلام کا مسلمان ہونا ضروری ہے،کیونکہ دوسری قراء ت میں لفظ ’رَقَبَۃٍ‘ کی صفت ’مُؤمِنَۃٍ‘سے بیان ہوئی ہے ۔ بنا بریں ہم کہتے ہیں کہ کسی بھی مسئلے کی تفسیر میں ایک قراء ت سے معنی اس طرح واضح نہیں ہوتے جیسے متنوع قراء ت مسئلہ کو کھول کر بیان کرتی ہیں، چنانچہ اس پہلو سے دینی مدارس میں متنوع قراء ت کی تدریس کی افادیت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک عالم دین تفسیری مشکلات کو شایداس طرح سے حل نہ کرسکے جس طرح قراء ت سے واقف عالم ِدین کرسکتا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
نصوص کا ظاہری تعارض اور علم قراء ا ت
وہ مسائل جن میں بظاہر نصوص میں باہمی تعارض نظر آرہا ہوتا ہے اور رفع ِتعارض کے لئے تطبیق کی کوئی صورت نکالنا ہوتی ہے، وہاں بھی قراء ت ممدومعاون ثابت ہوتی ہیں،مثلاً اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
’’یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوٰۃِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اﷲِ‘‘ (الجمعۃ:۹)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو،جب پکارا جائے نماز کے لئے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔‘‘
مذکورہ بالاآیت میں ذکر ہے کہ جب تمہیں جمعہ کے لئے ندا دی جائے تو اللہ کے ذکر کے لئے دوڑو، جبکہ دوسری طرف صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ
( أنَّ أبا ھریرۃ قال سمعتُ رسول اﷲ ﷺ یقول إذا أُقِیمتِ الصلوۃُ فلا تأتوھا تسعون وأتوھا تمشون،علیکم السکینۃ فما أدرکتم فصلُّوا وما فاتکم فاتمُّوا) (صحیح مسلم :۸۵۷)’’ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ،آپ فرما رہے تھے کہ جب نماز کھڑی ہو جائے تو تم دوڑ کر اس کی طرف نہ آؤ بلکہ چلتے ہوئے آؤ، تم پر اطمینان لازم ہے۔ جو پا لو پڑھ لو اور جو رہ جائے اُسے مکمل کر لو۔‘‘
اب بظاہر دو نصوص کے درمیان تعارض کی کیفیت نظر آرہی ہے۔ آیت قرآنی کے مطابق نماز جمعہ کے لئے دوڑ کے آنا چاہئے جبکہ حدیث نبوی نماز کے لئے دوڑ کر آنے سے منع کررہی ہے، اب اگر دیگر قراء ات کو سامنے رکھا جائے تو یہ ظاہری تعارض بآسانی دور ہورہا ہے، مثلاًایک دوسری قراء ت میں لفظ ’فاسعوا‘ جس کے معنی دوڑنے کے ہیں، کی جگہ لفظ ’فَامْضُوْا‘ہے جو اطمینان اور سکون سے چل کر آنے کا معنی دیتا ہے، گویا دوسری قراء ت نے اس ظاہری تعارض کو یوں رفع کیا کہ حدیث نبوی کا مفہوم اپنی جگہ ٹھیک ہے اور آیت قرآنی میں لفظ ’فَاسْعَوْا‘ کا مفہوم جمعہ کے لئے انتہائی کوشش اور جستجو سے آنے کا ہے، جو دوسری قراء ت کو سامنے رکھتے ہوئے اَخذ کیاگیا ہے ۔
یہاں ضمناً اس بات کی وضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ کیا ہم نے مشاہدہ نہیں کیا کہ بیمار اَفکار کے حامل، اِعتزالی روش کے عادی اور فتنہ پرور محققین کیسے اَحادیث کو قرآن کریم کے مقابل لاتے ہیں اور پھر قرآن کریم کی اتھارٹی کا بہانہ بنا کر ذخیرہ اَحادیث سے ہاتھ صاف کرنے کا جواز تلاش کرتے ہیں۔ فتنہ اِنکار حدیث ہمیں کیوں سبق نہیں دیتا کہ علم قراء ت کو پس پشت ڈالنا گویا کہ مذکورہ محققین کو کھلی چھٹی دیناہے، تاکہ وہ قراء ت کو ’فتنہ عجم‘ کا نام دے کر اُسے مشکوک ٹھہرائیں اور پھر نصوص کے باہمی تعارض کوبہانہ بنا کر اَحادیث صحیحہ کا انکار کردیں؟
اَرباب مدارس کو قرآن اور سنت دونوں کے تحفظ کے لئے اس طرف توجہ دینا ہوگی، تاکہ نقب زنوں کی تمام راہیں مسدود کردی جائیں اور فتنہ باز دانشوروں کے فتنوں کو متعدی ہونے سے روکا جائے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مختلف فقہی اَحکام کااِستنباط اور علم قراء ا ت
بسا اَوقات دو مختلف قراء ات مختلف مسائل کے استنباط کا فائدہ بھی دیتی ہیں، مثلاً
اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْنَ‘‘ (البقرۃ:۲۲۲) ’’اور تم ان کے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک صاف ہوجائیں۔‘‘
یعنی بیوی سے اس وقت تک جماع نہ کیا جائے جب تک اُسے حیض آنا بندنہ ہوجائے۔ قراء ت ِحفص کے اعتبار سے بیوی سے جماع کے لئے حیض کے بند ہونے کے بعد غسل کی صورت میں طہارت ضروری نہیں، صرف حیض کا بند ہونا ہی کافی ہے جبکہ دوسری قراء ت میں لفظ ’یَطْھُرْنَ‘ ط کے سکون کے بجائے تشدید کے ساتھ یَطَّہَّرْنَ ہے جس کا معنی یہ ہوگا کہ بیوی کے قریب جانے کے لئے حیض کا بند ہونا ہی کافی نہیں بلکہ غسل کرنا بھی ضروری ہے، چنانچہ دو مختلف قراء ات سے الگ الگ مسائل کے استنباط سے یہ مترشح ہورہا ہے کہ اس مسئلے میں تخفیف کا پہلوموجود ہے۔
جس طرح اہل مدارس جمود و اِضمحلال سے تحقیق و اجتہاد کی طرف، عصری علوم کی بیگانگی سے اس کی درس و تدریس کی طرف اور فقہ الواقع کی جہالت سےآشنائی کی طرف مثبت پیش رفت کررہے ہیں اسی طرح ہم اپنی منتظمین مدارس سے یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ متنوع قراء ات کی افادیت کے پیش نظر اس کی بطور نصاب تدریس کے مسئلے میں بھی اپنا کردار ادا کریں گے، تاکہ جہاں ہمارے نونہالان حفاظت ِقرآن کریم کی ایزدی ذمہ داری کی عملی تعبیر بن سکیں وہاں وہ قرآن کریم کے معنی و مفہوم اور تشریح و توضیح کو بھی منہج سلف کے مطابق بآسانی سمجھ سکیں اور اس طرح قراء ات قرآنیہ کو ’فتنہ عجم‘ کہنے والے دانش بازوں کے سامنے مضبوط چٹان کی صورت میں کھڑے ہوجائیں، تاکہ ہوائے نفس کی پیروی کرنے والے ،جو خود فتنہ عجم ہیں، اپنے فتنہ کو متعدی نہ کرسکیں۔ اسی طرح ان کے فکری اکابرین جو قرآن کریم کو بھی توراۃ و انجیل کی طرح بازیچۂ اطفال بنانے کا مذموم ارادہ رکھتے ہیں، بھی ناکام و نامراد ہوجائیں اور جان لیں کہ قرآن کریم کی حفاظت کوعملی تعبیر دینے والے بیداری کے ساتھ روئے زمین پر موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔
اختلاف ِقراء ات کے سلسلہ میں کسی اجنبیت کا شکار ہونے کے بجائے اس کے سلسلہ میں سادہ بصیرت کا استعمال بھی شافی اطمینان دے سکتا ہے۔ دیکھیے کہ ایک زبان جب مختلف علاقوں اور قبائل میں پھیلی ہوتو بسا اوقات اس کے بعض الفاظ کے استعمالات اور لہجوں میں اتنافرق واقع ہوجاتا ہے کہ ایک جگہ کے رہنے والوں کے لیے دوسری جگہ والوں کے لہجوں میں بات کرنا بڑامشکل محسوس ہوتاہے، جیساکہ دہلی اور لکھنؤ کی اُردو کا حال ہے۔ جب قرآن مجید دورِ نبوت کے مشہور قبائل قریش، ہذیل، تمیم، ربیعہ، ہوازن اور سعد بن بکر میں پھیلا تو ان کی عربی میں کئی فرق پائے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم کو سات حروف (لغات و لہجات) میں اتارنے کی ایک اہم حکمت یہ بھی تھی کہ اس کے پہلے مخاطبین ایک ہی لہجے کے تکلف کا شکار نہ ہوں۔ البتہ جب بعد ازاں لوگوں کے مختلف انداز سے کلام حکیم کو پڑھنے سے مغالطے پیداہونے لگے ، تو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے تمام حروف کو یکجا جمع کرنے اور محفوظ رکھنے کا سرکاری سطح پر اہتمام فرمایا، اگرچہ رسم الخط میں قریش کے رویے کو ترجیح دی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج بھی مطبوعہ قرآنوں میں کئی لفظوں کو اپنے حروف میں لکھ کر بعض حروف کے اوپر دوسرا حرف بھی ڈال دیا جاتاہے، جس کامقصد یہ ہے کہ اس حرف کی جگہ وہ بھی پڑھا جاسکتاہے جیسے ’’سورۂ غاشیہ کی آیت ’’لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍ‘‘ میں ’ص‘کے اوپر ’س‘…
چونکہ اس زمانہ میں عربی کتابت نقاط و حرکات سے خالی ہوتی تھی، اس لیے ایک ہی نقش میں متنوع قراء توں کے سمونے کی گنجائش موجود تھی، لیکن بعد میں جب لفظوں اور حرکتوں سے متنوع شکلوں کا فرق واضح ہونے لگا، تو قرآن مجید بھی علیحدہ علیحدہ قراء توں میں شائع ہونے لگے۔ اسی طرح دنیا کے مختلف خطوں میں مخصوص قراء تیں رائج ہوئیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مشرق (برصغیر پاک وہند، وسط ایشیا اور ایران وعراق سمیت شرق اوسط) میں جس طرح ’’قراء ات امام عاصم کوفی… بروایت حفص‘‘ مروج ہے، اسی طرح قرون وسطی کے مغرب (شمالی افریقہ تا اندلس) میں ’’قراء ات امام نافع مدنی… بروایت ورش‘‘ عام ہے۔ دنیابھر میں ان دو قراء توں کے علاوہ دیگرقراء ات میں بھی قرآن مجید مشہور نشریاتی اداروں کی طرف سے مسلمان حکومتوں کے اہتمام میں چھپتے آرہے ہیں۔
یہ بھی واضح رہے کہ قرآن کریم میں کتابت کی بجائے اصل ’تلاوت‘ ہے، لہٰذا خلیفہ راشد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ماہرین قراء ات کے ساتھ ’مصحف امام‘ کی نقول مختلف جہات میں روانہ فرمائی تھیں اور آج تک انہی قراء کے حوالہ سے متعدد قراء ات کی متواتر روایت نبیﷺ تک نہ صرف محفوظ و مامون ہیں، بلکہ ہر زمانہ میں لاکھوں قاری اپنی مخصوص قراءتوں میں ان کی تلاوت کرتے ہیں اور دوسروں کو حفظ کرانے کااہتمام بھی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں علمی اور تحقیقی کام بھی بہت وسیع و عریض ہے۔
مغرب کے سیاسی اور فکری غلبے کے نتیجے میں جب مسلمانوں کے دین و ایمان سے متعلقہ علوم پربھی مستشرقین نے یلغار کی، تو انہیں’محمدﷺ‘کی سنت و سیرت کا کمال اور قرآن کی حفاظت کا اعجاز بہت کھٹکا، کیونکہ دنیابھر میں ’قرآن‘ کے علاوہ کسی الہامی کتاب کی اس طرح انتہائی حفاظت و تلاوت کا تو دعویٰ بھی نہیں کیا جاسکتاتھا، چنانچہ بہت سوں نے سیرت رسولﷺ کے بارے میں شبہات پھیلائے تو دوسروں نے قرآن کی قراءتوں کو ’فتنہ عجم‘ بتا کر اشکالات پیدا کرنے کی کوشش کی، حالانکہ قراء ات کا تنوع قرآن کے اعجاز ہی کا ایک پہلو ہے، اس میں اختلاف کا تضاد ممکن ہی نہیں۔
چونکہ دورِ حاضر مسلمانوں کے علمی انحطاط کے ساتھ ساتھ ایمان و عقیدہ کی کمزوری سے بھی دوچار ہے، لہٰذا بعض نام نہاد اہل علم… مغرب کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات سے متاثر ہونے لگے اور انہوں نے ایک طرف جہاں آزادی تحقیق کے نام پر سنت وحدیث کا انکار کردیا یا سنت و حدیث کو الگ الگ کرکے استخفاف حدیث کا رویہ اپنایا،تو دوسری طرف قرآنی علوم کی وسعت سے ناواقفی کی بناء پر اپنے ملک میں رائج قراء ت کے علاوہ دوسری متواتر قراء توں کا انکار کر دیا، حالانکہ کتنی بڑی بوالعجبی ہے کہ قرآن جیسی عالمگیر کتاب کو اپنے علاقہ تک مخصوص کرلیاجائے، تاہم ان سب کچھ کمزوریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے ’ذکر‘ کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی ہے، چنانچہ ان فتنوں کے ساتھ ساتھ اللہ کے بندوں کی طرف سے اس کی حفاظت کے لیے ادنیٰ سے اعلیٰ مساعی مسلسل ہوتی رہتی ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں تجویدو قراء ات کے مدرسے کسی سرکاری سرپرستی کے بغیر تو یہ کام کرہی رہے ہیں، علاوہ ازیں سرکاری اہتمام میں جامعہ ازھر اور مدینہ یونیورسٹی کے ’تجوید و قراء ات‘ کے شعبے خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔
’جامعہ لاہور الاسلامیہ‘ سے منسلک تحقیقی ادارہ ’مجلس التحقیق الاسلامی‘ ،جس کا آرگن مجلہ ’محدث‘ ہے، مذکورہ بالا فتنوں کے بارے میں ماضی بعید سے بڑا حساس کردار پیش کرتا آرہا ہے، لہٰذا ’مجلس‘ جہاں’محدث‘ کے ذریعے منکرین حدیث کے شبہات کے اِزالے کے لیے علمی محاسبہ کافریضہ انجام دیتی رہتی ہے ، وہاں اب ’جامعہ‘ کا ترجمان ماہنامہ ’رشد‘ بھی عرصہ دو تین سال سے مسلسل قرآنی علوم، جن میں شاہکار متنوع قراء توں کا معجزہ ہے، کے تعارف وثبوت کے لیے کوشاں ہے۔ اسی سلسلے کی ایک عملی شکل’جامعہ لاہورالاسلامیہ‘ کے زیراہتمام مدینہ یونیورسٹی کی طرز پر تقریبا عرصہ بیس سال سے’کلِّیۃ القرآن الکریم والعلوم الاسلامیہ‘ کا اجراہے، جہاں کتاب و سنت اور عربی لغت کے مروجہ علوم کے علاوہ علم قراء ات سے وابستہ جملہ علوم القرآن کا تخصص کرایاجاتاہے۔
اِن تمام اَقدامات کے علاوہ ضرورت اس بات کی تھی کہ متنوع قراء ات قرآنیہ کی حجیت و ثبوت اور دیگر متعلقہ معلومات پر ایک خاص اشاعت کا اہتمام کیا جائے، تاکہ جہاں اردو زبان میں موجود مفید مواد کو یکجا کردیا جائے، وہاں علم قراء ات کے اُن تشنہ پہلوؤں پر، جن پر تاحال اردو زبان میں نہیں لکھا گیا، ضروری مواد کو اُردو قالب میں ڈھال کر پیش کردیا جائے۔ تحریک ’کلیہ القرآن الکریم ‘کے وابستگان الحمد للہ عرصہ بیس سال میں اس پوزیشن تک پہنچ چکے تھے کہ وہ مذکورہ ضرورت کی تکمیل کرتے، چنانچہ ’کلیہ‘ کے ذمہ داران نے اسی احساس کے پیش نظر ’جامعہ لاہور الاسلامیہ‘ کے ترجمان ماہنامہ ’رشد‘ کے حالیہ’ خاص نمبر‘ کی اِشاعت کا اہتمام کیا۔ یاد رہے کہ رشد’ قراء ات نمبر‘ کے سلسلہ میں تاحال ادارہ کو سو (۱۰۰)کے قریب مضامین جمع کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے، جن میں سے اکثر مضامین و تراجم فضلاء کلیہ ہی کی طرف سے پیش کردہ ہیں۔ مضامین کی کثرت کی وجہ سے اس خاص نمبر کو دو حصوں میں پیش کیا جارہا ہے۔
اللہ تعالی اُن اداروں کو، جوکہ قرآن کریم (بشمول قراء ات قرآنیہ )اور سنت ِرسول ﷺ کے دفاع کے لیے مسلسل گامزن ہیں، قائم دائم رکھے اور انہیں دن دگنی رات چوگنی ترقی عطاء فرمائے اور دیگر ادارے، جو تاحال اس ضرورت سے صرف نظر کیے ہوئے ہیں، کو بھی اس کار عظیم میں حصہ ڈالنے کی توفیق وہمت عطاء فرمائے۔
آمین
 
Top