قرآن اور مدارس اسلامیہ کا دفاع یقیناً امر مستحسن ہے ،لیکن یہ کام گھٹیا شاعری ،اور موسیقاروں اور مولویوں کو ہم پلہ گرداننے سے نہیں
بلکہ ایمانی بصیرت اور مجاہدانہ کردار سے ممکن ہے
ہندوستان میں مسلمان اب اپنی بقا کےلئے ایسی سطح پر ہیں ،کہ اکثر مضحکہ خیز حد ،اور بے سر وپا حرکات سے اپنے شاندارماضی پر فخر جتاتے ہیں ۔
یہ بے چارے دین سے فارغ تو تھے ہی۔۔ اب اپنی زبان سے بھی بے بہرہ ہیں ۔
مشاعروں میں اردو زبان حد درجہ صحیح ،اور اعلی سطح کی ہوتی ہے۔سننے والے سیکھتے بھی تھے ،اور لطف اٹھاتے تھے ۔
اور دہلی کو تو اردو کا گھر کہا جاتا ہے ۔نامی گرامی،بڑے بڑے شعراء اسی خاک کا خمیر تھے۔
لیکن اب ہندی اور دیگر علاقائی زبانوں ،اور انگلش کی ملاوٹ سے جو کچھ بولا جاتا ہے اسے اردو کہا جاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس شاعر نے کچھ دیوبندی مولویوں کو جنگ آزادی کا ہیرو بتایا ہے ۔۔یہ بات نسل نو سے ایک بہت بڑا مذاق ،اور عظیم جھوٹ ہے۔
دیوبندی مولوی تو حکومت افرنگ کے بڑے نیاز مند اور وظیفہ خوار تھے ،اس بات کے گواہ خود دیوبندی مولوی ہیں ۔
سوانح قاسمی کا مصنف لکھتا ہے۔
اور تذکرۃ الرشید نے صاف صاف لکھا ہے کہ ہمارے اکابر ،انگریز مخالف ’‘باغیوں ‘‘ سے لڑتے رہے ہیں ۔
اور اپنی مہربان سرکار پر جان نچھاور کرتے رہے