محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,799
- پوائنٹ
- 1,069
مدارس کی محرومی ختم ہونے کو ہے؟
تحریر : حافظ ابو یحیٰی نورپوری
خوشی کی بات یہ ہے کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے ملک میں کسی نے تو اسلام کے حقیقی قلعوں یعنی مدارس کی محرومی دور کرنے کی بات کی، پریشانی مگر یہ ہے کہ مدارس کی اصلاح وفلاح کا طریقہ کار اگر درست نہ ہوا تو یہ دینی اور معاشرتی سطح پر مزید خرابی کا باعث بنے گا۔ اگر حکومت مدارس کی واقعی خیر خواہ ہے تو اسے اہل مدارس کی مشاورت سے سنجیدہ لائحہ عمل طے کرنا ہو گا۔
جناب وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ان کے اقدامات کی وجہ سے اب مدارس سے بھی ڈاکٹر اور انجینئر بن کر نکلا کریں گے، یہ ایسا ہی مضحکہ خیز دعویٰ ہے جیسے کوئی مولوی وزیراعظم بن کر اعلان کرے کہ اب میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ یونیورسٹیز سے بھی محدثین ومفسرین وفقہاء تیار ہوا کریں گے۔
دیکھیے، ہر فیلڈ میں سپیشلائیزیشن یعنی تخصص کی ضرورت ہوتی ہے اور تخصص کی سطح پر تو ایک ہی شعبے کی دو شاخیں جمع کرنا بھی عقل مندی نہیں، چہ جائے کہ بالکل دوسرے شعبے میں ٹانگ اڑائی جائے۔ اسے ایک مثال سے سمجھیے؛ ہمارے ملک میں عموما آٹھویں جماعت تک تمام بچوں کو ایک ہی نصاب پڑھایا جاتا ہے، نویں جماعت سے یہ نظام کم از کم سائنس اور آرٹس دو شعبہ جات میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ میٹرک کے بعد آرٹس تو رہی دور، خود سائنس کی دو سالہ تعلیم کم از کم تین شعبہ جات میں تقسیم ہوتی ہے؛ پری میڈیکل، پری انجنیئرنگ اور کمپیوٹر سائنس۔ پھر ایف ایسی سی کے بعد سائنس کے انہی شعبہ جات کو مزید تقسیم ہونا ہوتا ہے۔
سائنس کے کئی شعبہ جات میں سے صرف ایک شعبے میڈیکل میں جب سپیشلائزیشن کی بات آتی ہے تو ایم بی بی ایس کرنے کے بعد کوئی دل کے امراض کے حوالے سے خصوصی نصاب پڑھ رہا ہوتا ہے تو کوئی دماغ کے حوالے سے، کوئی جلدی امراض پر خاص دھیان دے رہا ہے تو کوئی آنکھ ناک اور گلے کی بیماریوں پر توجہ مرکوز کیے ہوتا ہے، کوئی جگر کی پیچیدگیوں پر مہارت حاصل کر رہا ہے تو کوئی معدے میں پیدا ہونے والے نقائص پر، یوں شعبہ ہائے علوم میں سے صرف ایک میڈیکل کے بلا مبالغہ سینکڑوں ذیلی شعبہ جات ہیں کہ ایک وقت میں ایک شخص ان میں سے صرف اور صرف ایک میں ہی مکمل مہارت حاصل کر پاتا ہے۔
کتنی غیر منطقی بات ہو جو کوئی سربراہ مملکت اعلان کر دے کہ آئندہ میڈیکل انسٹی ٹیوشنز سے ایک ہارٹ سپیشلسٹ (ماہر امراض قلب) ای این ٹی سپیشلسٹ (ماہر امراض ناک کان گلا) بھی بن کر نکلا کرے گا!معلوم شد کہ تعلیم کے کئی شعبہ جات میں سے سائنس کے ایک ہی شعبے میڈیکل سے وابسطہ ہونے اور ایک ہی وجود کو لاحق ہونے والے امراض کا علاج سیکھنے کے باوجود ایک ڈاکٹر ایک ہی حصے کے علاج کا ماہر بن سکتا ہے۔
اس سے بھی بڑی بے وقوفی یہ ہو کہ طلبہ کو ایم بی بی ایس کے ساتھ ساتھ انجنیئرنگ کی تعلیم بھی دے کر "ٹو ان ون (Tow in One) " یا ڈاکٹر مع انجینئر (Doctor cum Engineer) بنانے کی خواہش کی جائے۔
تو بھلے مانسو، دینی علوم کا میدان بھی ایسا ہی ہے، اس میں ابتدائی تعلیم کے بعد سائنس وآرٹس کی طرح حدیث، تفسیر، فقہ، لغت، ادب وغیرہ جیسے کئی بڑے شعبہ جات ہیں، جن کے اپنے اندر مزید کئی ذیلی شعبے ہیں۔ ایک ذیلی شعبے کے ایک میدان میں مہارت حاصل کرنے والا بیک وقت اسی ذیلی شعبے کے دوسرے میدان میں اسی طرح کی مہارت حاصل نہیں کر سکتا، تو دوسرے ذیلی یا بنیادی شعبہ جات میں ٹانگ کیسے اڑا سکتا ہے؟ ایک اسلامی شعبے کے ساتھ دوسرے اسلامی شعبے کی مہارت تامہ ممکن نہیں، تو اس کے ساتھ ڈاکٹری یا انجینئرنگ کے خواب کیسے دیکھے جا سکتے ہیں؟
جب آپ ایک ڈاکٹر کو انجینئر اور ماہر امراض دل کو ماہر امراض ناک کان گلا بنانے کی تھیوری کو بھی غیر منطقی سمجھتے ہیں تو ایک محدث یا مفسر یا فقیہ یا ادیب کو ڈاکٹر اور انجینئر بنانے کی خواہش کیسے دانش مندی ہو سکتی ہے؟
اگرخدانخواستہ مدارس میں ڈاکٹری اور میڈیکل کالجز میں درس نظامی کی تعلیم شروع ہوئی اور یوں مدارس میں مولوی ڈاکٹر اور میڈیکل کالجز میں ڈاکٹر مولوی پیدا ہونے شروع ہوئے تو یہ انتہائی فضول پریکٹس ہو گی۔ ایسے لوگ تیار ہوں گے، جو دو کشتیوں میں پاؤں رکھنے کی وجہ سے کسی بھی کشتی کے سوار نہیں رہیں گے۔
ایک دانا شخص کبھی اپنے دل کا معائنہ کسی ماہر امراض ناک کان گلا سے کرانے پر راضی نہیں ہو گا، حالانکہ میدان دونوں کا طب ہی ہے، تو کوئی ذی شعور کسی مدرسے میں بنائے گئے مولوی ڈاکٹر سے دل کا آپریشن کیسے کرائے گا اور اس کے برعکس کوئی سیانا کسی میڈیکل کالج کے ڈاکٹر مولوی سے تفسیر، حدیث، فقہ اور ادب کی الجھی گتھیاں سلجھانے کی التجا کیوں کر کرے گا؟
ہاں، ایک صورت ہے، اگر میڈیکل کالج کو دینی مدرسہ اور دینی مدرسے کو میڈیکل کالج میں بدل دیا جائے تو یہ ممکن ہے، لیکن کسی عقل مند کو ایسا مشکل تبادلہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ مدارس کو مدارس اور میڈیکل کالجز کو میڈیکل کالجز رہنے دیجیے اور کالجز ومدارس ہر دو کے پیشہ ورانہ امور پر نظر رکھیے کہ وہ اپنے مقاصد میں کام یاب ہیں یا ناکام؟
پاکستان میں دینی مدارس کی محرومی ختم کرنے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ مدارس کو ان کے اپنے نصاب تعلیم اور اساتذہ سمیت حکومتی سرپرستی حاصل ہو جائے۔ مدارس میں کالجز اور یونیورسٹیز کی سہولتیں مہیا کر دی جائیں، مدارس کے طلبہ کو کالجز اور یونیورسٹیز کے سٹوڈنٹس جیسا سٹیٹس مل جائے، شیوخ الحدیث پروفیسرز، نائب شیوخ الحدیث ایسوسی ایٹ پروفیسرز، کچھ تجربہ رکھنے والے اسسٹنٹ پروفیسرز اور نئے بھرتی ہونے والے لیکچررز کے گریڈز اور مراعات دے دئیے جائیں۔
یقین جانیے کہ مدارس کے طلبہ واساتذہ میں ایک سے بڑھ کر ایک ٹیلینٹ موجود ہے، صرف سہولیات اور وسائل کی کمی کی بنا پر نہ نئے شعبہ جات کھولے جا سکتے ہیں، نہ اسلامک سائنس (علوم اسلامیہ) کی نئی جہتیں متعارف ہو پاتی ہیں، ورنہ یونیورسٹیز میں اسلامک ڈیپارٹمنٹس ایک صدی میں اتنی علمی کنٹری بیوشن نہ کر پائیں جتنی مدارس ایک سال میں کر جائیں۔ اس کا تھوڑا سا اندازہ لگانے کے لیے بڑی سرکاری وغیر سرکاری یونیورسٹیز میں علوم اسلامیہ کی ایم فل اور پی ایچ ڈی کی کلاسز کا وزٹ کر لیجیے۔
حاصل کلام یہ کہ مدارس میں اصلاحات کی ایک ہی صورت ہے کہ مدارس کو یونیورسٹیز کے اسلامک ڈیپارٹمنس کا مقام دے دیا جائے۔
موجودہ صورت حال میں اہل مدارس کو بھی مل بیٹھ کر اپنا لائحہ عمل طے کرنا چاہیے جو حکومت وقت کے سامنے رکھ کر علم دین کے ممکنہ قحط الرجال کو روکا جا سکے۔
بندہ ناچیز چونکہ مدرسہ اور یونیورسٹی دونوں سے فیض یافتہ ہے اور دونوں کےماحول سے واقف ہے، (فاضل درس نظامی ومتخصص فی علوم الحدیث اور پی ایچ ڈی ریسرچ سکالر، شعبہ علوم اسلامیہ،پنجاب یونیورسٹی) اس لیے اپنی گزارشات ومحسوسات لکھ دی ہیں۔
اصولا تو کبار شیوخ اور ماہر پروفیسرز کی موجودگی میں میرے جیسے طالب علم کی رائے سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ رائے ایک صحت مند بحث کا نقطہ آغاز ثابت ہو اور تردید وتائید دونوں صورتوں میں غوروفکر پر مبنی وقت کی اہم ضرورت پوری ہو جائے۔
اللہ تعالی اسلام اور پاکستان دونوں کی حفاظت فرمائے، آمین