مدارس کی وجہ سے آج هم لوگ اپنے دین کو پهچانتے هیں ورنہ ان کالجز یونیورسٹیز نے مسلمانوں کو کہیں کا نہی چهوڑا..
شیخ عبد اللہ ناصر رحمانی حفظ اللہ
نے جو فرمایا لفظ بلفظ صحیح ہے ،فی الواقعہ دینی مدارس خواہ کسی سطح کے ہوں ،اسلام کی ترویج و بقاء اور فروغ کا مؤثر ذریعہ ہیں ؛
اور مشہور عربی محاورہ ’’ الاشیاء تعرف باضدادہا ‘‘ کہ چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں
مدارس کی اہمیت اس سے واضح ہے کہ ’’ دین مخالفوں کو سب سے زیادہ جس چیز کا وجود کھٹکتا ہے وہ ’’ مدارس دینیہ ‘‘ ہی تو ہیں
یعنی ان کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہے کہ :
اگر دین کی آواز دبانی ہو تو ۔۔ مکتب و ملا ۔۔کا گلا گھونٹ دو ،
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیّلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
مُلّا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
اہلِ حرم سے ان کی روایات چھین لو
آہو کو مرغزارِ ختن سے نکال دو
اور اہل حرم کے مدارس چونکہ بغیر مادی سرمایہ کے صدیوں سے وحی ربانی کی ترجمانی کرتے ہوئے صدہا کمزوریوں کے باوجود طاغوتی نظاموں کیلئے چیلنج بنے ہوئے ہیں ۔اور اسلام کو بار بار ابھرنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں ،اس لئے کفریہ طاقتوں کو صدیوں سے اپنی راہ میں بڑی رکاوٹ نظر آتے ہیں ؛
کالجز اور یونیورسٹیز کے فارغ التحصیل مذہبی سکالر بھی گاہے گاہے اپنی افادیت کا احساس دلاتے ہیں ؛
تاہم ان اداروں کے نکلنے والے اکثر حضرات منہج حق ،اور دینی حکمتوں سے بے بہرہ ہونے کی بنا پر ’’ کسی نہ کسی گڑبڑ ‘‘
کا شکار ہوکر عامۃ الناس کیلئے دینی رہنمائی کے بجائے ’’ تشکیک ‘‘ اور تشویش کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔
پاکستان میں کئی دینی ’’ انجینئرز اور پروفیسرز ‘‘ اصلاح اور تحقیق کے عنوان سے ’’ تخریب و بگاڑ ‘‘ کے سامان مہیا کرتے نظر آتے ہیں ۔اگر میں بطور مثال نام لے دوں تو خود ’’ تخریب ‘‘ کا نشانہ بننے کا اندیشہ ہے ،