• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مدخلیت: جہمیتِ جدیدہ کا فکری تسلسل

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
656
ری ایکشن اسکور
198
پوائنٹ
77
مدخلیت: جہمیتِ جدیدہ کا فکری تسلسل

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

٣١٦٥٢ - حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: ٧٩] قَالَ: «يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ»

مفسر قرآن تابعی امام مجاہد بن جبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ {عنقریب آپ کا پروردگار آپ کو مقام محمود تک پہنچائے گا} [الإسراء: ٧٩] کی تفسیر یہ ہے کہ اللہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا۔


[مصنف ابن أبي شيبة، ج : ٦، ص : ٣٠٥، حديث : ٣١٦٥٢]

یہ اثر امام المفسرین مجاہد بن جبر رحمہ اللہ کا ہے، جسے اہل السنۃ نے نسل در نسل قبول کیا۔

عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہما اللہ فرماتے ہیں:

سَمِعْتُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ جَمَاعَةٍ، وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ الْمُحَدِّثِينَ يُنْكِرُهُ، وَكَانَ عِنْدَنَا فِي وَقْتٍ مَا سَمِعْنَاهُ مِنَ الْمَشَايِخِ أَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ إِنَّمَا تُنْكِرُهُ الْجَهْمِيَّةُ، وَأَنَا مُنْكَرٌ عَلَى كُلِّ مَنْ رَدَّ هَذَا الْحَدِيثَ، وَهُوَ مُتَّهِمٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

میں نے یہ حدیث محدثین کی کئی جماعتوں سے سنی، اور میں نے محدثین میں سے کسی کو بھی اس حدیث کا انکار کرتے ہوئے نہیں پایا۔ بلکہ یہ بات ایک زمانے تک ہمارے یہاں معروف تھی، اور ہم نے اسے مشائخ سے خود سنا تھا کہ اس حدیث کا انکار صرف جہمیہ ہی کرتے ہیں۔ اور میں ہر اُس شخص پر نکیر کرتا ہوں (رد کرتا ہوں) جو اس حدیث کو رد کرے، کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگانے والا ہے۔


[السنة لأبي بكر بن الخلال، ج : ١، ص : ٢٤٤]

کیا اس حدیث کو رد کرنے والا منہج سلف پر ہو سکتا ہے؟ نہیں! ہرگز نہیں! ربیع مدخلی جسے اس کے مقلدین "منہج سلف کا علمبردار" کہہ کر پکارتے ہیں، دراصل جہمیہ کے قافلۂ بدبختاں کا ایک موجودہ علمبردار ہے، جس نے سلف صالحین کے فہم کو ٹھکرا کر مجاہد بن جبر رحمہ اللہ جیسے تابعی امام کی روایت کو رد کرتے ہوئے اپنا چہرہ، زندقہ و ضلالت کے غبار میں مزید آلودہ کر لیا۔

ربیع مدخلی اس اثر پر زبان درازی کرتے ہوئے کہتا ہے :

لا يصحّ هذا من كلام مجاهد ، وهو لا يثبت ، وليس من كلام الرّسول الكريم - عليه الصّلاة والسّلام - .. لو أخبرنا رسول الله أنّه وصل إلى العرش ، وجلس على العرش ؛ ليس في الشّرع ولا في العقل ما يمنعه ؛ لكن لم يثبت لنا الحديث ؛ لأنّ الأمر لا نتديّن ولا نؤمن به إلا إذا ثبت بالدّليل الصّحيح إلى الرّسول الكريم - عليه الصّلاة والسّلام - ؛ أمّا قول مجاهد غفر الله له ؛ فممكن أن يكون أخذه من الإسرائيلياتأمّا قول مجاهد غفر الله له ؛ فممكن أن يكون أخذه من الإسرائيليات

مجاہد کا یہ کلام صحیح نہیں ہے، اور نہ ہی یہ ثابت ہے، اور نہ ہی یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں سے ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہوتا کہ وہ عرش تک پہنچے اور عرش پر بیٹھے، تو نہ شریعت میں اور نہ ہی عقل میں کوئی چیز اسے مانع ہوتی۔ لیکن یہ حدیث ہمارے لیے ثابت نہیں ہے، کیونکہ ہم کسی چیز پر دین کے مطابق عمل نہیں کرتے اور نہ ہی اس پر ایمان لاتے ہیں جب تک کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح دلیل کے ذریعے ثابت نہ ہو۔ رہا مجاہد کا قول تو اللہ انہیں معاف کرے ہو سکتا ہے کہ انہوں نے یہ بات اسرائیلیات سے لی ہو۔


[شرح السنة البربهاري لربيع المدخلي، ج : ١، ص : ٤٥٣]

ربیع مدخلی کی یہ جسارت ایک زندیق جہمی کی ہرزہ گوئی ہے، یہ ایسا طعن ہے جو کسی زبردست زندیق کے قلم سے ہی صادر ہو سکتا ہے۔ امام مجاہد جیسے تابعی کی تفسیر پر اسرائیلیات کی تہمت لگا کر مدخلی اپنے دل کی جہمی خباثت ظاہر کر رہا ہے۔ ربیع مدخلی کی یہ جرأت نہ صرف سلف صالحین کے قبول کردہ اثر کی توہین ہے، بلکہ یہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کا بھی انکار ہے۔

امام ابو بكر الخلال رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

فَسَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ أَحْمَدَ بْنِ وَاصِلٍ، قَالَ: مَنْ رَدَّ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ فَهُوَ جَهْمِيُّ
میں نے محمد بن احمد بن واصل کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو شخص مجاہد رحمہ اللہ کی حدیث کا انکار کرے، وہ جہمی ہے۔


[السنة لأبي بكر بن الخلال، ج : ١، ص : ٢١٤]

ربیع مدخلی نے اس اثر کا انکار کر کے خود کو اہلِ جہمیہ کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ وہ خود اپنے عمل سے یہ گواہی دے رہا ہے کہ وہ بدعتی ہے۔ محمد بن احمد بن واصل رحمہ اللہ کا فتویٰ نہایت واضح اور دو ٹوک ہے، اور ربیع مدخلی اس کا مصداق کامل ہے۔

محمد بن عبد الملک الدقیقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

سَمِعْتُ هَذَا الحَدِيْثَ مُنْذُ خَمْسِيْن سَنَةً، مَا سَمِعْتُ أَحَدًا يُنْكِرُهُ، إِنَّمَا يُكَاذِبُهُ الزَّنَادِقَةُ والجَهْمِيَّةُ.

میں نے یہ حدیث پچاس برس قبل سنی تھی، اور میں نے کسی کو نہیں پایا کہ اس کا انکار کرتے ہو۔ بس صرف زنادقہ اور جہمیہ ہی اسے جھٹلاتے ہیں۔


[طبقات الحنابلة، ج : ٣، ص : ٢١]

ابراہیم اَصْبہانی رحمہ اللہ نے فرمایا:

هَذَا الْحَدِيثُ حَدَّثَ بِهِ الْعُلَمَاءُ مُنْذُ سِتِّينَ وَمِائَةِ سَنَةٍ، وَلَا يَرُدُّهُ إِلَّا أَهْلُ الْبِدَعِ، قَالَ: وَسَأَلْتُ حَمْدَانَ بْنَ عَلِيٍّ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: كَتَبْتُهُ مُنْذُ خَمْسِينَ سَنَةً، وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا يَرُدُّهُ إِلَّا أَهْلُ الْبِدَعِ

اس حدیث کو علما ساٹھ برسوں سے روایت کرتے چلے آ رہے ہیں، اور اس کا انکار صرف اہلِ بدعت ہی کرتے ہیں۔ نیز فرمایا: میں نے حمدان بن علی سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: میں نے اسے پچاس برس پہلے لکھا تھا، اور میں نے کسی کو اس کا انکار کرتے نہیں دیکھا، سوائے اہلِ بدعت کے۔


[السنة لأبي بكر بن الخلال، ج : ١، ص : ٢١٧]

یہ عبارت اس بات پر دلالت ہے کہ مذکورہ حدیث اہلِ سنت کے نزدیک قدیم العہد سے معروف و مقبول ہے، اور صرف اہلِ بدعت ہی اس پر اعتراض یا انکار کرتے ہیں۔ پس ربیع مدخلی کا انکار درحقیقت صدیوں کی سلفی روایت کا انکار ہے۔ اس کی یہ ہرزہ سرائی اس بات کی دلیل ہے کہ مدخلی فرقہ اہلِ بدعت کے جدید جامے میں ملبوس ایک فتّان گروہ ہے، جو اجماعِ سلف کو رد کر تفسیرِ سلف کا گلا گھونٹ کر اہلِ بدعت کا ہمنوا بنا ہوا ہے۔

ابو بکر بن ابو طالب رحمہ اللہ نے فرمایا:

مَنْ رَدَّهُ فَقَدْ رَدَّ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَنْ كَذَّبَ بِفَضِيلَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ كَفَرَ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ

جو شخص اس (اثرِ مجاہد) کو رد کرے، اُس نے اللہ عز و جل کا رد کیا۔ اور جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت (یعنی عرش پر بٹھائے جانے) کی تکذیب کرے، اُس نے اللہ تعالیٰ عظیم کا کفر کیا۔


[السنة لأبي بكر بن الخلال، ج : ١، ص : ٢١٥]

یعنی جو مقامِ محمود کے اس عظیم الشان مفہوم کا انکار کرے، وہ کفر کرنے والا ہے۔ یہ عبارت براہِ راست ربیع مدخلی کے لیے تازیانہ ہے۔ اس کا انکار صرف ایک بدعت ہی نہیں، بلکہ کفر کے دروازے پر کھڑے ہونے کے مترادف ہے۔ وہ عرش پر نبی کے بٹھائے جانے کی فضیلت کا منکر بن کر مقامِ محمود کی حقیقت کا انکار کر رہا ہے۔

امام ابو داود سجستانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

مَنْ أَنْكَرَ هَذَا فَهُوَ عِنْدَنَا مُتَّهَمٌ، وَقَالَ: مَا زَالَ النَّاسُ يُحَدِّثُونَ بِهَذَا، يُرِيدُونَ مُغَايَظَةَ الْجَهْمِيَّةِ، وَذَلِكَ أَنَّ الْجَهْمِيَّةَ يُنْكِرُونَ أَنَّ عَلَى الْعَرْشِ شَيْئًا

جو شخص اس (اثرِ مجاہد) کا انکار کرے، وہ ہمارے نزدیک متہم (یعنی مشتبہ العقیدہ و قابلِ الزام) ہے۔ نیز فرمایا: لوگ ہمیشہ سے اس حدیث کو روایت کرتے چلے آئے ہیں، اور وہ اس حدیث کو جہمیہ کے خلاف غصے کے اظہار کے طور پر نقل کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہمیہ فرقہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ عرش پر کچھ بھی نہیں۔


[السنة لأبي بكر بن الخلال، ج : ١، ص : ٢١٣]

ربیع مدخلی کے رد سے یہ واضح ہے کہ وہ درحقیقت انہی جہمیہ کا ہم عقیدہ ہے، جن کے خلاف اہلِ حدیث اس اثر کو بطور اسلحہ استعمال کرتے رہے۔ ربیع مدخلی بھی اس غصے اور نفرت کئے جانے کے قابل ہے جو سلف نے جہمیہ کے لیے روا رکھا۔

ربیع مدخلی نہ صرف منہجِ سلف سے منحرف ہے، بلکہ اس نے فہم سلف اور اجماعِ محدثین کو ٹھکرا کر خود کو زندقہ، جہمیت، اور بدعت کا جیتا جاگتا نمونہ بنا دیا ہے۔ اہلِ حدیثوں پر لازم ہے کہ وہ اس فتنۂ مدخلیت کا علمی و فکری قلع قمع کریں۔

اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعه، وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه۔
 
Top