کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
نوٹ: میری پوسٹ کا کسی کی پسند اور ناپسند سے کوئی تعلق نہیں بلکہ مطالعہ کے لئے ہوتی ہیں، پوسٹ پر اپنے اپنے ویوز جس طرح کے چاہیں لکھیں مگر اگر مطالعہ سے ہٹ کر کسی کو ناپسند ہوں تو انتظامیہ سے اسے ہٹانے پر رپورٹ کریں، انتظامیہ فل فل اسے اسی وقت ہٹا سکتی ھے۔ ابتسامہ
مذاہب کیسے بدلتے ہیں
ولیم کریمر بی بی سی ورلڈ سروس
منگل 21 مئ 2013 , 15:12 GMT 20:12 PST
ایک زمانہ تھا جب جانوروں کی قربانی ایک ہندؤ کی زندگی میں بہت اہمیت کی حامل تھی، کیتھولک پادری مجرد نہیں رہتے تھے اور پیغمبرِ اسلام کی تصویری عکاسی اسلامی فنون کا اہم حصہ تھا۔
اور جلد ہی برطانیہ میں کچھ چرچ ہم جنس پرست جوڑوں کے شادیاں بھی کرنا شروع کر دیں گے۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذہب اپنی سوچ میں تبدیلی کیسے لاتا ہے؟ مذہب کیسے بدلتا ہے؟
1889 میں ولفرڈ ووڈرف مارمن چرچ کے سربراہ بنے اور صدر کے طور پر انہیں ایک زندہ نبی کے طور پر مانا جاتا تھا جو یسوع مسیح سے براہ راست وحی کے ذریعے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔
چالیس سال تک ان کے چرچ اور امریکی کانگریس کے درمیان تعداد ازدواج کے بارے میں لڑائی چلتی رہی جس کے بارے میں اس چرچ کے مرد ماننے والوں میں بہت حمایت پائی جاتی تھی۔ حکومت کا کہنا تھا کہ یہ غیر قانونی ہے اور اس کے دفاع میں دیے گئے مذہبی حوالے صحیح نہیں ہیں۔
ووڈرف اور ان کے ساتھی ایک بہت ہی مشتبہ زندگی گزار رہے تھے کیونکہ قانون انہیں دو شادیوں کی وجہ سے گرفتار کرنے کے لیے ان کے پیچھے تھا اور وہ اس سے بچنے کے لیے روپوش ہوئے پھر رہے تھے۔
1890 میں حکومت نے ان کے چرچ کی تمام جائیداد ضبط کر لی جس کے بعد ووڈرف نے کہا کہ یسوع مسیح نے انہیں خواب میں آکر مارمن چرچ کے مستقبل کے بارے میں بات کی کہ اگر تعدد ازواج کا رواج ختم نہیں کیا جاتا تو چرچ کا مستقبل خطرے میں ہے۔ اس کے بعد انہوں تعدد ازواج کی مخالفت تو نہیں کی مگر اس پر پابندی کا اعلان کیا۔
ولفرڈ ووڈرف کی 1889 کی تصویر جن کی سات بیویاں اور ان سے تینتیس بچے تھے
پروفیسر کیتھلین فلیک جو وینڈربلٹ یونیورسٹی میں امریکی مذہب کی تاریخ پڑھاتی ہیں کا کہنا ہے کہ اگر اس سے لگتا ہے کہ ایک مسئلہ آسانی سے حل ہو گیا ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ ’مارمن چرچ کی بنیادوں میں یہ ایک اہم ستون تھا اور اس تبدیلی نے پورے چرچ کو بدل دیا۔ اس پر سوال یہ اٹھنے لگا کہ مارمن چرچ کی اصل تعلیمات کیا ہیں۔‘
فلیک کہتی ہیں کہ ’جو مذہب تبدیل نہیں ہوتا وہ جلد ہی ختم ہو جاتا ہے۔‘
اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے مذاہب جن میں زندہ نبی نہیں ہوتے وہ کیسے بدلتے ہیں؟
مسلمانوں کے لیے آخری نبی پیغمبرِ اسلام اب سے چودہ سو سال قبل وفات پا گئے تھے۔ اس کے بعد اب علمائے اسلام ہیں جو اسلامی شرعی قوانین کی رو سے کام کرتے ہیں جن کی بنیاد قران اور سنت پر ہے۔ سنت پیغمبرِ اسلام کی تعلیمات اور زندگی کے واقعات پر مبنی واقعات کا مجموعہ ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ساتویں صدی کی عرب دنیا پر اطلاق پانے والے قوانین کیسے اکیسویں صدی کی دنیا پر اطلاق پائیں گے؟ اس پر ہمیں حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ مختلف ممالک کے علما مخلتف طریقے سے ان قوانین کی تشریح کرتے ہیں۔
ایک صدی قبل ریڈیو یا لاؤڈ سپیکر استعمال کرنا حرام سمجھا جاتا تھا آج اسلام کے پیروکاروں کے اپنے ریڈیو، ٹی وی اور حتیٰ کے یو ٹیوب چینلز ہیں۔
1979 میں ایرانی انقلاب کے وقت علما نے کہا کہ خاندانی منضوبہ بندی حرام ہے جبکہ آج ک کے استعمال کی حوصلہ افزائی کا جاتی ہے جس میں ریاست کے زیرِ انتظام ک بنانے کی فیکٹریاں اور شادی سے پہلے کی منصوبہ بندی کے سبق شامل ہیں۔
یونیورسٹی آف ڈیلا وئیر کے مقتدر خان کا کہنا ہے کہ ’ایک وقت تھا جب یہ تصور کیا جاتا تھا کہ مغرب کی جانب سے آنے والی ہر چیز اسلام کو نقصان پہنچانے والی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’مغربی طرز زندگی میں مسلمانوں کے لیے روزانہ کی بنیاد پر مسائل ہوتے ہیں مثال کے طور پر مسلمان مردوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے عام پبلک بیت الخلا میں پیشاب کرنا۔ مسلمانوں میں یہ روایت ہے کہ مسلمان مرد بیٹھ کر پیشاب کرتے ہیں کیونکہ یہ واحد طریقہ تھا جس سے ایک مسلمان نمازی اپنے کپڑوں کو پیشاب کے چھینٹوں سے بچا سکتا تھا۔ اب ایسا یورینل پسند کرنے والے مغرب میں ہر جگہ ممکن نہیں ہے۔‘
’دوسرا چیلنج ہے مغربی طرز تعمیر جن میں عورت اور مرد کی کوئی تقسیم نہیں ہے۔ اگر آپ ایک مسلمانوں والی پارٹی کرنا چاہتے ہیں تو عورتوں کے لیے علیحدہ جگہ دینا ممکن نہیں ہوتا۔‘
ڈاکٹر مقتدر خان کہتے ہیں کہ صرف اسی وجہ سے میں اپنے بیٹے کی تین یا چار سالگرہ کی تقاریب میں شرکت نہیں کر سکے۔
مقتدر خان کا کہنا ہے کہ ’بعض اوقات ایسے معاشروں میں جہاں مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے افراد رہتے ہیں ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان تعلیمات کی از سر نو تشریح کی جائے۔
اس میں علما کے لیے دو باتیں ہیں کہ یا تو وہ قرآن کی معین تشریح کریں یا پھر اس کی تعلیمات میں پنہاں گہرے معانی کی تلاش کریں۔
طارق رمضان جن کا تعلق آکسفورڈ یونیورسٹی سے ہے کا کہنا ہے کہ ’اسلام کے پیغام سے وابستگی میں کوئی بڑی بات نہیں ہے جب تک آپ اپنی سوچ میں تبدیلی نہیں لاتے ہیں۔‘
طالمود جو یہودیوں کی مشہور کتاب ہے میں ایک مشہور کہانی ہے جس میں مستقبل کی بظاہر بات کی گئی ہے جہاں مقدس قانون کی لوگ اپنی مرضی کے مطابق تشریح کریں گے
طارق رمضان نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’جب قران میں ایک آیت ہے جو بظاہر عورت کو مارنے کی اجازت دیتی ہے وہیں بہترین مثال پیغمبرِ اسلام کی ہے جنہوں نے کبھی بھی عورت پر ہاتھ نہیں اٹھایا‘۔
اروند شرما جو میک گِل یونیورسٹی میں موازنۂ مذاہب پڑھاتے ہیں کا کہنا ہے کہ ہندو مذہب میں کرم کا ذکر ہے جس میں ہندوؤں کو ان کے اعمال کی جزا یا سزا دی جاتی ہے۔ انہوں نے گاندھی کے حوالے سے ایک مثال پیش کی۔
شرما کا کہنا ہے کہ کرم کی بات ہندو مذہب میں اچھوت کے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔
اب کہا جاتا ہے کہ ’ایک شخص اچھوت اس لیے پیدا ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے پچھلے جنم میں گناہوں کا کفارہ ادا کر رہا ہوتا ہے۔‘
شرما کے مطابق گاندھی نے نکتہ اٹھایا کہ ’ہندوؤں کی تمام ذاتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو برطانوی نو آبادیاتی حکمران اچھوت سمجھا کرتے تھے جو اپنے کلبوں کے باہر لکھ کر لگاتے تھے کہ
’کتوں اور بھارتیوں کا داخلہ ممنوع ہے‘۔
اس نکتے کو اٹھا کر گاندھی ہندوؤں میں کرم کے اصول کی بعض اوقات نفی کرتے تھے۔
طالمود جو یہودیوں کی مشہور کتاب ہے میں ایک مشہور کہانی ہے جس میں مستقبل کی بظاہر بات کی گئی ہے جہاں مقدس قانون کی لوگ اپنی مرضی کے مطابق تشریح کریں گے۔
اس کہانی میں پیغمبر موسیٰ جب کوہِ سینا پر تورات لینے خدا کے پاس جاتے ہیں تو خدا اس کتاب کے الفاظ کی جگہ چھوٹے چھوٹے ستارے لگا رہے ہوتے ہیں۔
نیو یارک کی جیویش تھیولوجیکل درسگاہ کے ربی برٹ وسوٹسکی کا کہتے ہیں ’پیغمبر موسیٰ نے خدا سے دست بستہ عرض کی کہ میں اسے سادہ ہی لوں گا جس پر خدا نے جواب دیا کہ نہیں کیونکہ اب سے صدیوں بعد ایک ربی ہو گا جس کا نام ہے اکیوا اور وہ ان ستاروں والے الفاظ سے یہودی قوانین بنائے گا۔‘
جب خدا نے ربی اکیوا کی تعلیمات کی ایک جھلک ایک خوابی حالت میں موسیٰ کو دکھائی تو پیغمبر موسیٰ اس پر بہت پریشان ہوئے کیونکہ انہیں اس میں سے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔
مذہب کو بدلنے پر مجبور کرنے والی قوتوں میں سے ایک سائنس ہے۔
کوپر نیکس کے انقلاب جب ماہرین نے کہا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے نا کہ اس کے برعکس جو کہ ایک واضح مثال ہے۔
یہ چرچ کی تعلیمات کے مکمل طور پر خلاف تھی جس کے نتیجے میں گیلیلیو کو ملحد قرار دیا گیا اور انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دس سال اپنے گھر میں قید میں گزارے۔
گیلیلیو نے طبیعات اور فلکیات کے علاوہ دو کتابچے انجیل کی تشریحات پر بھی لکھے تھے جن میں انہوں نے کہا کہ انجیل یہ بتاتی ہے کیسے جنت میں جانا ہے نہ کہ کیسے جنت بنی ہے یا کیسے اس کا نظام چلتا ہے۔
کیرن کہتی ہیں کہ ’لوگ اکثر سوچتے ہیں مذہب آسان ہے مگر در حقیقت اس کے لیے بہت زیادہ شعوری، عقلی، روحانی اور تصوراتی کوششوں کی ضرورت ہے۔ اور یہ ایک نہ رکنے والی جدوجہد ہے‘
آج کیتھولک چرچ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ گیلیلیو درست تھا اور 1992 میں پوپ جان پال دوئم نے باقاعدہ انہیں معاف کیا مگر سائنس آج بھی چرچ کے لیے مشکل سوالات اٹھاتی رہتی ہے۔
جنیٹکس، مالیکیولر حیاتیات اور ارتقا وہ عمومی علاقے ہیں جو چرچ کے لیے باقاعدہ ایک چیلنج ہیں۔
مبصرین کہتے ہیں کہ ان سب کی موجودگی میں ایمان والوں کے لیے مسئلہ ہے کہ وہ اس تمام کے درمیان سے کیسے گزرتے ہیں۔ چرچ کی تعلیمات اور سائنس کی دریافتیں جو انسانیت کے لیے مواقع پیدا کرتی ہے ان دونوں کے درمیان میں مذہب کا پیروکار پھنسا ہے۔
مذہب کی تعلیمات پر عمل کرنے والے کے لیے یہ مشکل سولات بچ جاتے ہیں کہ وہ کس پر یقین کریں اور کس پر یقین نہ کریں نہ کہ مذہب کا پرچار کرنے والوں پر۔
خدا کی تاریخ کتاب اور مذہب پر بیس اور کتابوں کی مصنف کیرن آرم سٹرونگ کا کہنا ہے کہ ’ہمیں بلآخر اپنے آپ کے بارے میں خود کو سوچنا ہوتا ہے اور حل نکالنا ہوتا ہے۔‘
کیرن کا کہنا ہے کہ ’جیسا کہ اس سوال کا جواب کہ کیسے زندگی گزاری جائے ان آسمانی صحیفوں سے ملتا ہے مگر سارے سوالوں کے جواب شاید نہیں۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ گاڑی چلانے کی صلاحیت آپ کو گاڑی کے ساتھ ملنے والے طریقۂ استعمال میں نہیں ملتی ہے۔‘
کیرن اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ ایسے لوگ جو ایک تیزی سی بدلتی دنیا میں اپنے مذہب کی جانب استحکام یا تسلی کے لیے دیکھتے ہیں ان کے لیے کوئی جوابات کے حصول کا آسان ذریعہ نہیں ہے۔
کیرن کہتی ہیں کہ ’لوگ اکثر سوچتے ہیں مذہب آسان ہے مگر در حقیقت اس کے لیے بہت زیادہ شعوری، عقلی، روحانی اور تصوراتی کوششوں کی ضرورت ہے۔ اور یہ ایک نہ رکنے والی جدوجہد ہے‘۔
ح