ظفر اقبال
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 22، 2015
- پیغامات
- 282
- ری ایکشن اسکور
- 22
- پوائنٹ
- 104
مذہبی و سیاسی انتہا پسندی اورامن پسندی کی حالیہ کاوشیوں کا تجزیاتی مطالعہ!
قارئین اکرام ذرا توجہ طلب بات یہ ہے کہ ملک پاکستان اس وقت انتہائی مشکل مراحل سے گزر رہا ہے چار سو دشمن مسلما نان پاکستان کو بھوکے بھیڑیے کی طرح للچائی ہوئی نظرو سے ہمیں تر نوالہ بنانے کی خاطرشب و روز اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے اپنے اتحادیو اورجدید اسلحہ سے لیس ہم پرچارو طرف سے ٹوٹ پڑا ہے مگر ہم ہیں کےباہم دست و گریباں ہیں ایک دوسرے کے خلاف نفرت وعداوت اورالزام تراشی سے ناصرف ملکی بد امنی میں اضافہ ہوا ہے بلکہ دشمن کواپنی من مانی کا موقع مل رہا ہے اور ہمیں الگ الگ پلیٹ فارم پہ ایک دوسرے کے خلاف بد کلامی اور بد گمانی پر اکسا رہا ہے اور اس طرح وہ اسلامی ا سٹیٹ کوسیکولراسٹیٹ بنانی کی جسارت کرنے کی جرت کر رہا ہےاس طرح ہمیں کمزور کرتا ہوا وہ اپنے مفادات اور اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے مگر ہم پھر بھی نہ سجھ سکے کے اصل دشمن کون ہے اور مذہب کے نام پرہونے والی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے مسئلےکو خاص اشوء بنا کرعلماء حق پر مقدمات اور تعزیرات کی صورت میں تشدد کا آج تک بازار گرم کر رکھا ہے جس میں تقریرو تحریر اوران کے خلاف عوام النّاس میں نفرت کے طوفان کھڑے کرنے میں ہماری عسکری اور سیاسی قیادت نے مذہب کو نشانے پر رکھ کر علماء حق کو پابندِ سلاسل کیا اور کر رہے ہیں ۔کبھی لاؤڈاسپیکر پر پابندی تو کبھی اجتماعات پرمگر میں ان تمام باتوں اورحالات کو حقائق کی کسوٹی میں جانچنے کی کوشش کرتا ہواور حکومت وقت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حالیہ امن پسند پالیسوں اور حالیہ کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہومگر میں کہنا یہ چاہتا ہو کہ اگر حکومت وقت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے واقعتاُ بدامنی کو جڑھ سے اکھاڑ پھینکنےمیں سنجیدہ ہیں۔تو پھرانتہا پسندی کو انصاف کی آنکھ سے دیکھتے ہوئے کراچی میں ہونے والے پی آئی اے کے ملازمین کی طرف سے حالیہ ہڑتال تین سے زائد قتل اور کوٹلی واقع اور اسلام آباد لانگ مارچ کے علاوہ حال ہی میں ہونے والے انتخابات میں ہونے والی بد مزجگی ثبوت کے لیےکافی ہے۔مگروہ پھر بھی امن پسند اور بے چینی پیدا کرنے اور خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرنا احق سمجھتے ہیں ۔خدانخواستہ اگر اس طرح کا کوئی واقع کسی مذہبی جماعت سے ہوتا تو سارا مڈیا بے لگام ہو جاتا اوراخلاقیات کی وہ دہجیا اڑتیں کے اللہ میری توبہ ۔خدا راہ انصاف اور سنجیدگی سے کام لیں اور مذہبی اور سیاسی دہشت گردی مذ ہبی فرقہ ورایت اورسیاسی فرقہ ورایت وجماعت بندی کے نام پر ہونے والی انتہا پسندی کو روکیں ورنہ یہ مذہبی و سیاسی تفریق اور استثنی ایک دوسری خانہ جنگی و بد امنی کو ہوا دینے کے مترادف ہو گی ۔جیسا کہ اسلام آباد لانگ مارچ و سانحہ ماڈل ٹاؤن اوربعد میں ہونے والے سیاسی چال بازی اس تجزیہ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اگر مذہبی فرقہ ورایت میں سےایک آدمی زخمی ہوتا ہے تو سارا مڈیا حواس باختہ ہو جاتنا ہےاور تحزیہ نگاہ تجزیہ کرتے اخلاقیات کی وہ دہجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں کہ انسانی سوچ دہنگ رہ جاتی ہے (مجھے قتل کرو دار پہ کھینچوں مجھ کو ........میں نے یہ جرم کیا ہے کہ میں سچ بولتا ہو)
قارئین اکرام ذرا توجہ طلب بات یہ ہے کہ ملک پاکستان اس وقت انتہائی مشکل مراحل سے گزر رہا ہے چار سو دشمن مسلما نان پاکستان کو بھوکے بھیڑیے کی طرح للچائی ہوئی نظرو سے ہمیں تر نوالہ بنانے کی خاطرشب و روز اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے اپنے اتحادیو اورجدید اسلحہ سے لیس ہم پرچارو طرف سے ٹوٹ پڑا ہے مگر ہم ہیں کےباہم دست و گریباں ہیں ایک دوسرے کے خلاف نفرت وعداوت اورالزام تراشی سے ناصرف ملکی بد امنی میں اضافہ ہوا ہے بلکہ دشمن کواپنی من مانی کا موقع مل رہا ہے اور ہمیں الگ الگ پلیٹ فارم پہ ایک دوسرے کے خلاف بد کلامی اور بد گمانی پر اکسا رہا ہے اور اس طرح وہ اسلامی ا سٹیٹ کوسیکولراسٹیٹ بنانی کی جسارت کرنے کی جرت کر رہا ہےاس طرح ہمیں کمزور کرتا ہوا وہ اپنے مفادات اور اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے مگر ہم پھر بھی نہ سجھ سکے کے اصل دشمن کون ہے اور مذہب کے نام پرہونے والی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے مسئلےکو خاص اشوء بنا کرعلماء حق پر مقدمات اور تعزیرات کی صورت میں تشدد کا آج تک بازار گرم کر رکھا ہے جس میں تقریرو تحریر اوران کے خلاف عوام النّاس میں نفرت کے طوفان کھڑے کرنے میں ہماری عسکری اور سیاسی قیادت نے مذہب کو نشانے پر رکھ کر علماء حق کو پابندِ سلاسل کیا اور کر رہے ہیں ۔کبھی لاؤڈاسپیکر پر پابندی تو کبھی اجتماعات پرمگر میں ان تمام باتوں اورحالات کو حقائق کی کسوٹی میں جانچنے کی کوشش کرتا ہواور حکومت وقت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حالیہ امن پسند پالیسوں اور حالیہ کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہومگر میں کہنا یہ چاہتا ہو کہ اگر حکومت وقت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے واقعتاُ بدامنی کو جڑھ سے اکھاڑ پھینکنےمیں سنجیدہ ہیں۔تو پھرانتہا پسندی کو انصاف کی آنکھ سے دیکھتے ہوئے کراچی میں ہونے والے پی آئی اے کے ملازمین کی طرف سے حالیہ ہڑتال تین سے زائد قتل اور کوٹلی واقع اور اسلام آباد لانگ مارچ کے علاوہ حال ہی میں ہونے والے انتخابات میں ہونے والی بد مزجگی ثبوت کے لیےکافی ہے۔مگروہ پھر بھی امن پسند اور بے چینی پیدا کرنے اور خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرنا احق سمجھتے ہیں ۔خدانخواستہ اگر اس طرح کا کوئی واقع کسی مذہبی جماعت سے ہوتا تو سارا مڈیا بے لگام ہو جاتا اوراخلاقیات کی وہ دہجیا اڑتیں کے اللہ میری توبہ ۔خدا راہ انصاف اور سنجیدگی سے کام لیں اور مذہبی اور سیاسی دہشت گردی مذ ہبی فرقہ ورایت اورسیاسی فرقہ ورایت وجماعت بندی کے نام پر ہونے والی انتہا پسندی کو روکیں ورنہ یہ مذہبی و سیاسی تفریق اور استثنی ایک دوسری خانہ جنگی و بد امنی کو ہوا دینے کے مترادف ہو گی ۔جیسا کہ اسلام آباد لانگ مارچ و سانحہ ماڈل ٹاؤن اوربعد میں ہونے والے سیاسی چال بازی اس تجزیہ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اگر مذہبی فرقہ ورایت میں سےایک آدمی زخمی ہوتا ہے تو سارا مڈیا حواس باختہ ہو جاتنا ہےاور تحزیہ نگاہ تجزیہ کرتے اخلاقیات کی وہ دہجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں کہ انسانی سوچ دہنگ رہ جاتی ہے (مجھے قتل کرو دار پہ کھینچوں مجھ کو ........میں نے یہ جرم کیا ہے کہ میں سچ بولتا ہو)