محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
انسانی ذہن میں کبھی یہ بات تھی کہ سائنس اور مذہب کے مقاصد آپس میں متضاد ہیں لیکن جب عملی زندگی میں سائنس کے آثار ظاہر ہوئے اور مذہب کے سلسلے میں بھی لوگ واقعیت پسندی کی راہ پر آئے تو دونوں موضوعات سے متعلق اربابِ فکر نے یہ محسوس کیا کہ مذہب اور سائنس کے مقاصد میں باہمی تضاد کی بات بے بنیاد ہے کیونکہ سائنس کا بنیادی مقصد یہ بتایا جاتا ہے کہ دنیا میں انسان کو با عزت وخوش گوار زندگی حاصل ہو اور انسانوں کی ناتجربہ کاری سے انھیں جو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں ان سے وہ محفوظ رہیں۔ زندگی کے جن میدانوں میں سائنس کی تگ ودو کا سلسلہ جاری ہے ان میں ہم نتیجے کے طور پر انسانی مفاد کے پہلو کو محسوس کرسکتے ہیں، خواہ اس کا تعلق کسی فرد سے ہو یا پورے معاشرے سے۔مذہب اور سائنس کی حقیقت
اسی طرح انبیاء علیہم السلام کی دعوت اور مذاہب کی تعلیمات پر نظر ڈالی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ پُر سکون وخوش گوار زندگی کو مذاہب کی تعلیمات میں بھی اہمیت دی گئی ہے بلکہ خوش گوار ابدی زندگی کو انسان کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا گیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ مذہب وسائنس کے مقاصد میں اتحاد یا قربت کے باوجود دونوں کے مابین تضاد وتعارض کی بات کیوں اور کہاں سے مشہور ہوئی؟
اس سوال کے جواب کے لیے دینی تاریخ کا تتبع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے مابین تضاد کی بات ان لوگوں نے پھیلائی ہے جنھیں مذہب سے دشمنی تھی۔ سائنس کے تجربات وتحقیقات سے جب بہت سی مذہبی حقیقتوں کی صداقت عیاں ہونے لگی اور اس طرح تجربی دور میں بھی مذہب کی بالا دستی کا سکہ بیٹھنے لگا تو الحاد پرستوں کو اس سے سخت مایوسی ہوئی اور انھوں نے مذہب پر حملہ کرتے ہوئے یہ مشہور کرنا چاہا کہ اس کے نظریات تحقیق وتجربہ کی میزان پر پورے نہیں اتر سکتے، اس کے عروج وترقی کا دور اب ختم ہوچکا ہے۔ آج کا انسان ایسی کسی بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جس کا وہ مشاہدہ وتجربہ نہ کرسکے۔ اہل الحاد مذہب کے خلاف چونکہ کوئی علمی یا تجربی دلیل نہیں پیش کرسکے، اس لیے اس بات کا سہارا لیا کہ مذہب کو بدنام کیا جائے اور لوگوں کو اس کے سائے تلے آنے سے محروم رکھا جائے۔
(ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری)
بہ شکریہ ہفت روزہ الاعتصام