کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
مردم شماری کیوں ضروری ہے؟
ارشد راجپوتجمعرات 25 فروری 2016
مردم شماری وہ پیمانہ ہے جس کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ملک کی آبادی کتنی ہے، اُس کی ضروریات کیا ہیں، ملک کو کن کن مسائل کا سامنا ہے، اور ان معلومات کی بناء پر ہی وہ مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔
عوام کو حاصل بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا دارومدار آبادی کے درست اعداد و شمار پر ہوتا ہے۔ مردم شماری صرف سروں کی گنتی کا نام نہیں بلکہ مردم شماری وہ پیمانہ ہے جس کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ملک کی ضروریات کیا ہیں،
ملک کو کن کن مسائل کا سامنا ہے،
ملک کی آبادی میں کمی یا اضافہ کتنا ہوا ہے،
ملک کی اکثریتی آبادی کا تعلق کس نسل یا زبان سے ہے،
کتنے فیصد طبقہ تعلیم یافتہ ہے اور کتنا نہیں،
خواندگی کی شرح کیا ہے؟
اس کےعلاوہ ہم معاشرے میں رہنے والے مختلف قسم کے لوگوں کے معیار زندگی کا مطالعہ بھی بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔
مردم شماری کے ذریعے ہم ملک کی کُل آبادی، مردوں، عورتوں اور بچوں کی تعداد، شرح نمو، شرح اموات، حاملہ خواتین کی تعداد، ملک کے اندرونی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد اور شرح، بیرون ملک کام کرنے والوں کی تعداد، غیر شادی شدہ اور شادی شدہ افراد کی تعداد، گھروں کی تعداد، زراعت، صنعت یا ذاتی کاروبار سے منسلک افراد کی تعداد، پرائمری اور میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد، ذرائع آمدن، گریجویٹ کی تعداد، غربت کی شرح وغیرہ وغیرہ معلوم کر سکتے ہیں۔ وہ قوم جو اپنے نفوس کی تعداد گننے میں دلچسپی رکھتی ہے تو وہ قوم سیاسی، معاشی، سماجی اور ترقیاتی اعتبار سے مضبوط ہوتی ہے۔
آپ اُس وقت تک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتے جب تک آپ کو اپنے ملک کی آبادی کے اعداد و شمار درست طور پر معلوم نہ ہوں۔ مردم شماری کے تحت ملکی آبادی کا تعین ہی وہ بنیادی عمل ہے جس کے ذریعے آپ اپنے معاشرے کے مسائل کی نشاندہی بہتر انداز میں کر کے انہیں حل کرنے کیلئے اپنی حکمت عملی مرتب کر سکتے ہیں۔ مردم شماری کے تحت حاصل ہونے والے مواد اور اعداد و شمار کے ذریعے محققین اور تجزیہ نگار معاشرے میں مختلف امور پر معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں کے ختم یا پیدا ہونے والے رحجان کی نشاندہی کرتے ہیں اور مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔
پھر اس مواد اور اعداد و شمار کے ذریعے مختلف علاقوں اور یونٹس کی عوام الناس کی طرز زندگی کا مطالعہ کر سکتے ہیں اور انہیں بہتر انداز سے جانچ سکتے ہیں کہ فلاں علاقے کے لوگ کس قسم کے ہیں، کیا پسند کرتے ہیں، کس پیشہ سے وابستہ ہیں؟ آیا کہیں دہشتگردی میں ملوث تو نہیں؟ مردم شماری کے اعداد و شمار کی بنیاد پر یونٹس اور صوبوں میں قومی وسائل کی تقسیم کا حصہ طے کیا جاتا ہے اور آبادی کے تناسب سے وسائل کی منصفانہ تقسیم شفاف انداز سے کرنے میں مردم شماری کے اعداد و شمار معاون اور کار آمد ہوتے ہیں۔ اسی طرح مردم شماری کے اعداد و شمار کی بنیاد پر ملک کے پالیسی ساز مختلف شعبوں میں پالیسیاں بہتر انداز سے بنا سکتے ہیں۔ انہی اعداد و شمار کو سامنے رکھتے ہوئے حکومتیں اپنا لائحہ عمل طے کرتی ہیں۔
آئین پاکستان میں ہر 10 سال بعد مردم شماری کے عمل کو ضروری قرار دیا گیا ہے لیکن انتہائی افسوسناک امر اور مقامِ شرمندگی یہ ہے کہ ہم پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لیکر اب تک صرف 5 بار ہی مردم شماری کرا سکے ہیں۔ پہلی مردم شماری 1951، پھر بالترتیب 1961، 1972، 1981 اور آخری بار 1998 میں ہوئی۔ یہ ہمارے حکمرانوں کی غفلت اور کوتاہی ہے کہ وہ تواتر کے ساتھ مردم شماری کرانے میں ناکام رہے، جسکا خمیازہ آج پاکستان مسائل کے انبار کی صورت میں بھگت رہا ہے۔
پاکستان کی آبادی تیز رفتاری کے ساتھ بڑھ رہی ہے، پاپولیشن کونسل کی مرتب کردہ فہرست کے مطابق پاکستان آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ہے اور اگر اسی رفتار سے آبادی بڑھتی رہی تو 2050 میں پاکستان آبادی کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر آجائے گا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستانیوں کو اپنی آبادی کا سرے سے علم ہی نہیں اور نہ ہی اسکا تعین کیا جا سکا ہے۔ آخری بار 1998 میں کی گئی مردم شماری کی بنیاد پر قومی و صوبائی حلقہ بندیاں ترتیب دی گئی ہیں، جس میں شہری علاقوں میں نئے ضلعے اور دیہی علاقے شامل کر کے رد و بدل کیا گیا ہے۔ اس لئے موجودہ حلقہ بندیاں قطعی طور پر زمینی حقائق کی عکاسی نہیں کرتیں۔ دیہی علاقوں کو زیادہ جبکہ شہری علاقوں کو کم نمائندگی دی گئی ہے، حالانکہ گزشتہ دو دہائیوں سے شہری آبادی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
انتخابی حلقہ بندیوں میں آج کی صورتحال کو مدِ نظر رکھ کر نشستوں کی فراہمی ممکن بنائی جائے ناں کہ ماضی کے مطابق۔ ماضی میں ہونے والی مردم شماری پر بھی اعتراض اٹھائے گئے۔ 1961 میں ہونے والی مردم شماری پر مشرقی پاکستان کی جانب سے یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ ان کی آبادی کو کم ظاہر کر کے ان کے وسائل پر ڈاکا مارا جا رہا ہے۔ اسی طرح 1982 میں بھی کراچی کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا اور سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جس پر اس وقت کے سیکرٹری داخلہ محمد خان جونیجو نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انہوں نے وفاق کے دباؤ پر کراچی کی آبادی کے اعداد و شمار میں رد و بدل کیا۔ 1991 کی مردم شماری بھی سیاست کی نظر ہو گئی تھی اس وقت بلوچستان اور کراچی کی آبادیوں میں غلطیاں اور تضاد پایا گیا تھا۔
1998 کی مردم شماری کو آج تقریباً اٹھارہ سال ہو چکے ہیں، چھٹی مردم شماری 2008 میں ہونا تھی مگر اس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت نے مردم شماری کرانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ موجودہ نواز حکومت کی جانب سے مشترکہ مفادات کونسل میں چاروں صوبوں کی رائے سے مارچ 2016 میں ملک کی چھٹی مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا گیا، لیکن اب موجودہ حکومت کا فیصلہ بھی سیاست کی نظر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ حکومت بھی تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے اور امن و امان کے مسئلے کو بنیاد بنا کر ایک بار پھر راہِ فرار ہونا چاہتی ہے۔ جب انتخابات کی بات آئے تو چاہے کتنے ہی مسائل کیوں نہ ہوں یہ کہا جاتا ہے کہ انتخابات نہ ہوئے تو یہ آئین کی پامالی ہو گی، جمہوریت کی نفی ہوگی اور پھر ہر صورت میں انتخابات کرائے جاتے ہیں لیکن مردم شماری میں امن و امان کا مسئلہ یاد آجاتا ہے۔
حکومت پاکستان کو چاہیئے کہ مردم شماری کی حساسیت اور سنگینی کو سمجھے اور فوراً مردم شماری کرائے کیونکہ مردم شماری کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم ہوتی ہے اور عوامی ضروریات کے مطابق منصوبوں کیلئے وسائل مختص کئے جاتے ہیں۔ یہ بالکل واضح ہے کہ کوئی بھی ملک اپنی آبادی کے اعداد و شمار کے درست اعداد و شمار کو جانے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔
ح