ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 620
- ری ایکشن اسکور
- 193
- پوائنٹ
- 77
مرزا جہلمی کے پیروکاروں کا دوغلا معیار
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مقلدینِ مرزا ہماری بات پر غور کریں نیچے صحیح بخاری حدیث ۱۱۲۷ آپ کے سامنے ہے:
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ , قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ , قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَام لَيْلَةً فَقَالَ: أَلَا تُصَلِّيَانِ؟ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا، فَانْصَرَفَ حِينَ قُلْنَا ذَلِكَ وَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا، ثُمَّ سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُوَلٍّ يَضْرِبُ فَخِذَهُ , وَهُوَ يَقُولُ: وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا".
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو تہجد کی نماز پڑھنے کا فرمایا۔ انہوں نے جواب دیا: انفسنا بيد الله فإذا شاء ان يبعثنا بعثنا "ہماری روحیں اللہ کے قبضہ میں ہیں، جب وہ چاہے گا ہمیں اٹھا دے گا۔"
اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو کر واپس چلے گئے اور جاتے ہوئے قرآن کی آیت تلاوت فرمائی، ران پر ہاتھ مارا اور فرمایا: وكان الإنسان اكثر شيء جدلا
"آدمی سب سے زیادہ جھگڑالو ہے۔"

مولانا داود راز فرماتے ہیں :
چونکہ رات کا وقت تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ سے چھوٹے اور داماد تھے، لہٰذا آپ نے اس موقع پر تطویل بحث اور سوال جواب کو نامناسب سمجھ کر جواب نہ دیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جواب سے افسوس ہوا۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، فوائد و مسائل، تحت الحديث : ۱۱۲۷]
حافط عبدالستار الحماد فرماتے ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تقدیر پر بھروسا کرنے کو پسند نہیں فرمایا، کیونکہ اگر کسی کو کوئی کام کرنے کی طاقت نہ ہو تو وہ معذور ہے مگر جو شخص اپنے آپ کو قدرت کے باوجود عمل کے لیے تیار نہیں کرتا بلکہ تقدیر کا بہانہ بنا کر پست ہمتی کا شکار ہوتا ہے تو وہ مجادل ہے، معذور نہیں۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، فوائد و مسائل، تحت الحديث :۱۱۲۷]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو کر چلے گئے، آیت تلاوت فرمائی اور "جھگڑالو" کہا، لیکن یہ ناراضی وقتی تھی، ہمیشہ کے لیے نہیں۔

ہم نے یہی مفہوم اپنے علماء سے سنا ہے، اور ہمارے نزدیک یہی صحیح مفہوم ہے۔
لیکن...
اب ذرا فرض کریں کہ اگر اس حدیث میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی جگہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام ہوتا، تو کیا آج جہلمی فرقے والے خاموش بیٹھتے؟
نہیں، بالکل نہیں!
اگر بالفرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو تہجد پڑھنے کا فرمایا ہوتا اور وہ یہی جواب دیتے کہ "ہماری روحیں اللہ کے قبضے میں ہیں، جب چاہے گا اٹھا دے گا۔" اور اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوتے، قرآن کی آیت تلاوت فرماتے اور "جھگڑالو" کہتے، تو کیا یہ لوگ وہی مفہوم مانتے جو آج ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کر رہے ہیں؟
نہیں! بلکہ انہوں نے پروپیگنڈا یوں کرنا تھا:
ہر جگہ ۱۱۲۷ لکھ کر نمایاں کرتے، جیسے ۲۸۱۳ لکھتے ہیں۔
کہتے: "تمہارا ماموں بہانے باز تھا!"
کہتے: "تمہارے ماموں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ناراض کر دیا!"
کہتے: "تمہارے ماموں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی آیت فٹ کر دی!"
کہتے: "تمہارا ماموں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو الٹا جواب دیتا تھا!"
کہتے: "تمہارا ماموں تہجد سے فرار کے بہانے بناتا تھا!"
نعرہ لگاتے: "معاویہؓ جھگڑالو! (بخاری:۱۱۲۷)"
کہتے: "ماموں کو نیند زیادہ پسند تھی، اس لیے تہجد نہ پڑھنے کا بہانہ بنایا!"

مگر چونکہ یہاں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نام ہے، تو فوراً مفہوم سمجھ آ گیا اور خاموشی اختیار کر لی۔
حاصلِ گفتگو:
جب سوچ ہی منفی ہو، تو پھر کسی پر بھی الزامات لگائے جا سکتے ہیں، اور حدیث کے ظاہری الفاظ کی بنیاد پر جس کے خلاف جو چاہے پروپیگنڈا کھڑا کیا جا سکتا ہے۔
اس لیے صحابہ و اہلِ بیت کے بارے میں ہمیشہ مثبت سوچ رکھیں، اللہ بہتری کرے گا۔