عامر عدنان
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 22، 2015
- پیغامات
- 921
- ری ایکشن اسکور
- 264
- پوائنٹ
- 142
مرزا قادیانی پر سب سے پہلا متفقہ فتویٰ تکفیر
علماء لدھیانہ کے فتویٰ(۱۳۰۱ھ) کا مختصر تحقیقی جائزہ
(انجنیئر صالح حسن)
علماء لدھیانہ کے فتویٰ(۱۳۰۱ھ) کا مختصر تحقیقی جائزہ
(انجنیئر صالح حسن)
مرزا غلام احمد قادیانی اپنے مختلف دعاویٰ مہدویت، مسیحیت اور نبوت وغیرہ سے قبل ایک مسلمان کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اسی دوران اس نے اپنی پہلی کتاب" براہینِ احمدیہ" کی تالیف کا کام شروع کیا ۔
رفیق دلاوری دیوبندی لکھتے ہیں:
"حسبِ بیان صاحبزادہ میاں مرزا بشیر احمد ان کے والد مرزا غلام احمد صاحب ۱۸۷۸ء میں براہین کی تیاریوں میں مصروف ہوئے۔ ۱۸۷۹ء میں اس کا مسودہ شروع کیا ۔۱۸۸۰ء میں پہلا اور دوسرا حصہ شائع کیا (جن میں سے پہلا حصہ ایک اشتہار کو قرار دے لیا)۱۸۸۲ء میں تیسرا اور ۱۸۸۴ء میں چوتھا حصہ شائع کیا۔( سیرۃ المہدی ج2ص51)" (رئیس قادیان ج1ص139)
مصنف تاریخ احمدیت لکھتے ہیں:
"براہین ِاحمدیہ" کے پہلے دو حصے ۱۸۸۰ء میں ، تیسرا حصہ ۱۸۸۲ء میں اور چوتھا حصہ ۱۸۸۴ء میں شائع ہوا۔"
"(تاریخ احمدیت ج1ص191)
براہینِ احمدیہ کے اصل مخاطب ہندو، عیسائی اور آریہ وغیرہ غیر مسلم تھے ۔
ابو الحسن علی ندوی دیوبندی لکھتے ہیں:
" یہ دور مذہبی مناظروں کا دور تھا اور اہلِ علم کے طبقے میں سب سے بڑا ذوق، مقابلۂ مذاہب اور فِرق کا پایا جاتا تھا۔۔ مرزا صاحب کی حوصلہ مند طبیعت اور دوربین نگاہ نے اس میدان کو اپنی سرگرمیوں کے لیئے انتخاب کیا۔ انہوں نے ایک بہت بڑی ضخیم کتاب کی تصنیف کا بیڑا اٹھایا۔ جس میں اسلام کی صداقت ، قرآن کے اعجاز اور رسول اللہ ﷺ کی نبوت کو بدلائل عقلی ثابت کیا جائے گا ارو بیک وقت مسیحت، سناتن دھرم ، آریہ سماج اور برہمو سماج کی تردید ہو گی۔ انہوں نے اس کتاب کا نام براہینِ احمدیہ تجویز کیا۔"(قادیانیت، مطالعہ و جائزہ ص 38،37)
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ براہینِ احمدیہ کے شائع ہوتے ہی علماء نےمرزا کی تکفیر کا فتویٰ شائع کر دیا تھا، ان میں لدھیانہ کے بعض مولوی حضرات کا نام لیا جاتا ہے۔
محمد یوسف لدھیانوی دیوبندی لکھتے ہیں:
"اکابر دیوبند کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کا تعاقب سب ے پہلے کیا اور ۱۳۰۱ھ میں جب مرزا قادیانی نے مجددیت کے پردے میں اپنے الہامات "وحی الہٰی" کی حیثیت سے براہینِ احمدیہ میں شائع کیا تو دھیانہ کےعلماء( مولانا محمد، مولانا عبداللہ ، مولانا اسمٰعیل رحمہم اللہ ) نے جو حضرات دیوبند کے منتسبین میں سے تھے ، فتویٰ صادر فرمایا کہ یہ شخص مسلمان نہیں بلکہ اپنے عقائد و نظریات کے اعتبار سے زندیق اور خارج از اسلام ہے۔" (تحفہ قادیانیت ج1ص135،134)
مسلکی تعصب اور لدھیانوی خاندان سے محبت کا دم بھرنے کے لیئے لدھیانوی صاحب نے رائی کا پہاڑ بنا دیا ہے حالانکہ حقیقت اس سے کافی مختلف ہے۔ لدھیانوی صاحب کے مطابق علماء لدھیانہ نے مرزا کی تکفیر 1301ھ (مطابق 1884ء) میں کی تھی ۔ ہم اوپر بتا چکے ہیں کہ ۱۸۸۴ءتک مرزا کی کتاب براہینِ احمدیہ (چار حصے)ہی منظر عام پرآئی تھی۔ اس وقت تک مرزا نے دبے لفظوں میں صرف مجددیت کا دعویٰ ہی کیا تھا۔بلکہ رفیق دلاوری دیوبندی کے مطابق براہین احمدیہ میں مرزا نے کوئی نئی تحقیق پیش نہیں کی بلکہ علماء سلف کے اقوال ہی پیش کیئے ہیں لکھتے ہیں:
"اور پھر جہاں تک خاکسار راقم الحروف کی تحقیق کو دخل ہے مرزا صاحب نے اس کتاب میں اپنی کاوش طبع سےشاید ایک حرف بھی نہیں لکھا بلکہ جو کچھ زیب رقم فرمایا ہے وہ یا تو علماء سلف کی کتابوں سے اخذ کیا ہے یا علماء معاصرین کے سامنے کاسہ گدائی پھرا کر ان کی علمی تحقیقات حاصل کر لی گئی ہیں۔"(رئیس قادیان ج1ص110)
اب سوال یہ ہے کہ اگر اس کتاب میں مرزا نے محض علماء سلف کی تحقیقات ہی پیش کی ہیں تو کیا یہ عبارات واقعتاً قابلِ تکفیر تھیں؟
ابو الحسن علی ندوی لکھتے ہیں:
"۱۸۹۰ء تک مرزا صاحب کا دعویٰ: مرزا صاحب نے اس وقت تک صرف مجّدد و مامور ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔"(قادیانیت، مطالعہ و جائزہ ص55)
لدھیانوی صاحب اور ان کے ہمنوا ۱۸۸۴ء میں مرز اکی تکفیر ثابت کر رہے ہیں جبکہ ابھی مرزا نے نہ مہدویت، نہ مسیحیت اور نہ ہی نبوت کا دعویٰ کیا تھا بلکہ یہ دعاویٰ ۱۸۸۴ء کے چھ سال بعد ۱۸۹۱ء میں سامنے آتے ہیں جب مرزا کے رسائل "فتح السلام" اور "توضیح المرام" شائع ہوئے ۔پھر یہ تکفیر کس بنیاد پر کی جا رہی تھی؟
تکفیر کا واقعہ :
تکفیر کا یہ واقعہ ۱۸۸۴ء کا بتایا جاتا ہے جب مرزا قادیانی پہلی بار لدھیانہ پہنچا۔ قادیانی مؤرخ عبدالقادر لکھتا ہے:
حضرت اقدس ۱۸۸۹ء کے شروع میں لودھیانہ تشریف لے گئے اور ایک اشتہار کے ذریعے احباب میں اعلان فرمایا کہ تاریخ ہذا سے جو ۴مارچ ۱۸۸۹ء ہے ۲۵مارچ تک یہ عاجز لودھیانہ میں مقیم ہے۔ "(حیاتِ طیبہ ص72)
یعنی مصنف حیات طیبہ کے نزدیک مرزا نے پہلی بار مارچ ۱۸۸۹ء میں لدھیانہ کا سفر کیا تھا۔ لیکن مصنف تاریخ احمدیت نے ۱۸۸۴ء میں بھی مرزا کا لدھیانہ کا سفر لکھا ہے۔ مصنف حیات طیبہ کا ۱۸۸۹ء میں پہلا سفر لدھیانہ بتاتا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ۱۸۸۴ء میں مرزا اگر لدھیانہ گیا تھا تو یہ قیام بہت قلیل تھا جیسا کہ بعض جگہ مذکور ہے اس کے علاوہ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس پہلے سفر(۱۸۸۴ء) کے دوران کوئی قابلِ ذکر واقعہ پیش نہیں آیا ۔ اگر کوئی فتویٰ تکفیر اس وقت جاری کیا جاتا تو مرزا کو اس کا ضرور علم ہو جاتا لیکن اس کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔
مؤرخ دیوبند رفیق دلاوری صاحب لکھتے ہیں:
"جس روز قادیانی صاحب لدھیانہ میں قدوم فرما ہوئے ، مولوی محمد، مولوی عبداللہ اور مولوی اسمٰعیل صاحبان نے کتاب براہین کا نظر غائر سے مطالعہ کیا۔ اس میں کلمات کفر یہ کی بڑی کثرت اور فراوانی پائی۔ اس کے بعد شہر میں اعلان کر دیا کہ یہ شخص مجّدد نہیں بلکہ زندیق اور خارج از اسلام ہے اور فتوے چھپوا کر گردو نواع کے شہروں میں روانہ کیئے کہ یہ شخص مرتد ہے۔"(رئیس قادیان ص371)
مولوی محمد لدھیانوی لکھتے ہیں:
"جس روز قادیانی شہر لدھیانہ میں وارد ہوا تھا راقم الحروف اعنی محمد، مولوی عبداللہ صاحب و مولوی اسمٰعیل صاحب نے براہین کو دیکھا تو اس میں کلمات کفریہ انبار در انبار پائے اور لوگوں کو قبل از دوپہر اطلاع کر دی گئی کہ یہ شخص مجّدد نہین زندیق و ملحد ہے
؎ برعکس نہند نام زنگی کافور
اور گردو نواع کے شہروں میں فتوے لکھ کر روانہ کیئے گئے کہ یہ شخص مرتد ہے۔ اس کی کتاب کو کوئی نہ خریدے۔"
(فتاویٰ قادریہ ص3)
مرزا صاحب لدھیانہ پہنچے ہیں اور چند گھنٹوں میں ان تین مولویوں نے براہین احمدیہ کی چار جلدیں پڑھ ڈالی ، اس میں سے کفریہ کلمات و عبارات بھی تلاش کر لیئے اور اس پر غور و خوض کے بعد فتویٰ تکفیر بھی مرتب کر دیا۔ اور چھپوا کر ارد گرد شہروں میں بھی پہنچا دیا اور یہ ساری کارروائی دوپہر سے قبل مکمل ہو گئی۔
یہ عبارت ہی بتا رہی ہے اس بیان میں کس قدر سچائی ہے۔ یہ واقعہ "فتاویٰ قادریہ" کے حوالے سے نقل کیا جاتا ہے ، لیکن اس کے نام سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے کیونکہ یہ وہ مزعومہ فتویٰ تکفیر نہیں ہے بلکہ ایک الگ کتاب ہے جو ۱۸۸۴ء کے سترہ (17) سال بعد ۱۳۱۹ھ مطابق ۱۹۰۱ء میں شائع ہوئی(دیکھئے فتاویٰ ختم نبوت ج2ص8)۔اصل فتویٰ جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے کہیں موجود نہیں نہ ہی آج تک کوئی شخص وہ فتویٰ مکمل متن کے ساتھ پیش کر سکا ہے ۔
اس عبارت سے صرف اتنا پتا چلتا ہے کہ مرزا کی تکفیر کی بحث شروع ہوئی تھی لیکن کیا مرزا کی تکفیر پر علماء متفق ہو گئے تھے؟
مولوی محمد لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں:
"اس موقع پر اکثر علماء نے تکفیر کی رائے کو تسلیم نہ کیا ۔ بلکہ مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی نے ہماری تحریر کی تردید میں ایک طومار لکھ کر ہمارے پاس روانہ کیا اور قادیانی کو مرد صالح قرار دیا۔"(فتاویٰ قادریہ ص3)
دلاوری صاحب لکھتے ہیں:
"جن حضرات نے فتویٰ تکفیر سے اختلاف کیا ان میں حضرت مولانا رشید احمد صاحب چشتی گنگوہی جو ان دنوں علماء حنفیہ میں انتہائی ممتاز حیثیت رکھتےتھے ۔۔ سب سے پیش پیش تھے۔انہوں نے علماء لدھیانہ کے فتویٰ تکفیر کی مخالفت میں ایک مقالہ لکھ کر قادیانی صاحب کو ایک مرد صالح قرار دیا۔"(رئیس قادیان ج2ص372)
اس کے بعد دونوں اطراف (لدھیانوی، گنگوہی) تحریروں کا تبادلہ ہوا لیکن بات کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکی چونکہ دونوں طرف احناف تھے اس لیئے یہ معاملہ مولانا یعقوب نانوتوی صدر مدرس دارالعلوم دیوبند کے سامنے پیش کیا گیا اور انہیں اس معاملہ میں حکم بنایا گیا۔
چنانچہ مولوی محمد لدھیانوی لکھتے ہیں:
" پھر اس تحریر کو ہم تینوں(مولوی محمد، عبداللہ ، اسماعیل لدھیانوی) ساتھ لے کر جلسہ دستار بندی مدرسہ دیوبند بتاریخ ۱۲ جمادی الاول ۱۳۰۱ھ میں پہنچے۔ دوسرے روز مولوی رشید احمد صاحب ملاقات کے واسطے تشریف لائے۔ بعد ازاں مولوی محمد یعقوب صاحب بھی براہ مہمان نوازی ملنے کو آئے۔ راقم الحروف نے کچھ حال قادیانی کا بطوراجمال زبانی بیان کیا۔ مولانا محمد یعقوب صاحب نے فرمایا کہ اگر بطور ظلیت آنحضرت ﷺ کا ورود الہامات اس پر ہوتا ہو تو کیا عجب ہے؟ میں نے کہا اگر اہل کتاب یہود و نصاریٰ یہ اعتراض کریں کہ جیسا کہ قادیانی پر بسبب ظلیت آیات قرآنی نازل ہو رہی ہیں، ایسا ہی تمھارے پیشواخود مستقل پیغمبر نہیں تھے بلکہ بسبب اتباع ابراہیم علیہ السلام کے ان پر قرآن بطور الہام نازل ہوا ہو گا تو پھر آپ کیا جواب دو گے؟ مولوی صاحب نے لاجواب ہو کریہ فرمایا میں اس شخص کو اپنی تحقیق میں غیر مقلد جانتا ہوں۔"(فتاویٰ قادریہ ص 15)
گنگوہی صاحب سے لدھیانوی علماء نے ایک تحریر تھما کر دوبارہ جواب طلب کیا تو۔۔
"مولوی صاحب (گنگوہی) نے تحریر کو واپس دے کر فرمایا ہمارے سب کے مولانا محمد یعقوب بڑے ہیں۔ اس باب میں جو ارشاد کریں مجھ کو منظور ہے۔"(فتاویٰ قادریہ ص16)
اس کے بعد یعقوب نانوتوی صاحب سےعلماء لدھیانہ نے تحریری فتویٰ طلب کیا ، لکھتے ہیں:
"چنانچہ مولانا (یعقوب) صاحب نے حسب وعدہ ایک فتویٰ اپنے ہاتھ سے لکھ کر ہمارے پاس ڈاک میں ارسال فرمایا جس کا مضمون یہ تھا کہ "یہ شخص (مرزا) میری دانست میں غیر مقلد معلوم ہوتا ہے اور اس کے الہامات اولیاء اللہ کے الہامات سے کچھ علاقہ نہیں رکھتے اور نیز اس شخص نے کسی اہل اللہ کی صحبت میں رہ کر فیض باطنی حاصل نہیں کیا،معلوم نہیں کہ اس کو کس روح کی اویسیت ہے۔"(فتاویٰ قادریہ ص 17)
اس ساری تفصیل سے یہ پتا چلتا ہے کہ مرزا قادیانی کی تکفیر کے مسئلہ پر احناف کے دو گروہوں میں اختلاف ہوا تھا جن میں ایک طرف لدھیانہ والے (مولوی محمد، عبداللہ اور اسماعیل لدھیانوی ) جو تکفیر کے قائل تھے اور دوسری طرف مولوی رشید احمد گنگوہی اور ان کے ہمنوا مولوی حکیم مسعود احمد بن مولوی رشید احمد گنگوہی،مولوی محمود حسن دیوبندی ، مولوی شاہ دین لدھیانوی ، مولوی عبدالقاادر لدھیانوی وغیرہ تھے جو تکفیر کے خلاف تھے۔ اس مسئلہ میں دونوں طرف سے دلائل پیش کیئے گئے ۔ اس کے بعد مولوی یعقوب صاحب نانوتوی صدر مدرس دارالعلوم دیوبند کو حکم مقرر کیا گیا جنہوں نے ۱۸۸۴ء کے مرزا کو غیر مقلد (مسلمان) قرار دیا۔ اس لیئے اس بحث کا حتمی فیصلہ وہی تھا جو حکم یعنی مولوی یعقوب صاحب نے سنایا۔