lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,898
- پوائنٹ
- 436
مرض وفات کا ایک مشھور واقعہ ہے کہ صحیح بخاری کے مطابق جمعرات کے دن یعنی نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات سے چار دن پہلے، نبی صلی الله علیہ وسلم نے شدت مرض میں حکم دیا
قَالَ النَّبِى (صلى الله عليه وسلم) : (هَلُمَّ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لا تَضِلُّوا بَعْدَهُ) ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ النَّبِى عليه السلام قَدْ غَلَبَ عَلَيْهِ الْوَجَعُ، وَعِنْدَكُمُ الْقُرْآنُ، حَسْبُنَا كِتَابُ اللَّهِ، فَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْبَيْتِ
جاؤ میں کچھ تمھارے لئے تحریرلکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو. پس عمر نے کہا کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم پر بیماری کا غلبہ ہو رہا ہے اور تمہارےپاس قرآن ہے ،کتاب الله ہمارے لئے کافی ہے ، پس اہل بیت کا اس پر اختلاف ہو گیا
نبی صلی الله علیہ وسلم کے سامنے شور ہوا کہ جاو قلم و تختی لےآؤ بعض نے کہا نہیں اس پر آوازیں بلند ہوئیں اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے سب کو اٹھ جانے کا حکم دیا
صحیح مسلم ، دار إحياء التراث العربي – بيروت کی تعلیق میں محمد فؤاد عبد الباقي لکھتے ہیں
(فقال ائتوني أكتب لكم كتابا) اعلم أن النبي صلى الله عليه وسلم معصوم من الكذب ومن تغير شيء من الأحكام الشرعية في حال صحته وحال مرضه ومعصوم من ترك بيان ما أمر ببيانه وتبليغ ما أوجب الله عليه تبليغه وليس معصوما من الأمراض والأسقام العارضة للأجسام ونحوها مما لا نقص فيه لمنزلته ولا فساد لما تمهد من شريعته وقد سحر النبي صلى الله عليه وسلم حتى صار يخيل إليه أنه فعل الشيء ولم يكن فعله ولم يصدر منه صلى الله عليه وسلم في هذا الحال كلام في الأحكام مخالف لما سبق من الأحكام التي قررها فإذا علمت ما ذكرناه فقد اختلف العلماء في الكتاب الذي هم النبي صلى الله عليه وسلم به فقيل أراد أن ينص على الخلافة في إنسان معين لئلا يقع فيه نزاع وفتن وقيل أراد كتابا يبين فيه مهمات الأحكام ملخصة ليرتفع النزاع فيها ويحصل الاتفاق على المنصوص عليه وكان النبي صلى الله عليه وسلم هم بالكتاب حين ظهر له أنه مصلحة أو أوحي إليه بذلك ثم ظهر أن المصلحة تركه أو أوحي إليه بذلك ونسخ ذلك الأمر الأول وأما كلام عمر رضي الله عنه فقد اتفق العلماء المتكلمون في شرح الحديث على أنه من دلائل فقه عمر وفضائله ودقيق نظره لأنه خشي أن يكتب صلى الله عليه وسلم أمورا ربما عجزوا عنها واستحقوا العقوبة عليها لأنها منصوصة لا مجال للاجتهاد فيها فقال عمر حسبنا كتاب الله لقوله تعالى {ما فرطنا في الكتاب من شيء} وقوله {اليوم أكملت لكم دينكم} فعلم أن الله تعالى أكمل دينه فأمن الضلال على الأمة وأراد الترفيه على رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان عمر أفقه من ابن عباس وموافقيه.
پس (نبی صلی الله علیہ وسلم کا) یہ کہنا کہ کچھ تحریر لکھ دوں. جان لو کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم معصوم من الکذب ہیں اور اس سے معصوم ہیں کہ شریعت کے احکام میں تبدیلی کریں حالت صحت اور مرض دونوں میں اور اس سے بھی معصوم ہیں کہ وہ تبلیغ جس کا کیا جانا واجب ہے اس کو نہ کیا ہو . لیکن وہ امراض و اسقام ، عارضہ اجسام اور اسی نو کی چیزوں سے معصوم نہیں جس سے نبی کے درجے اور منزلت میں کوئی تنقیص نہیں آتی اور نہ کوئی فساد شریعت ہوتا ہے اور بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم پر جادو ہوا حتی کہ انہیں خیال ہوا کہ انہوں نے کوئی کام کیا ہے لیکن نہیں کیا ہوتا تھا اور اس حال میں نبی سے کوئی ایسا حکم بھی نہیں صادر ہوا جو پہلے سے الگ ہو پس جو ہم نے کہا اگر تم نے جان لیا تو پس (سمجھو) علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ وہ کیا تحریر تھی جو نبی صلی الله علیہ وسلم لکھوانا چاہتے تھے. کہا جاتا ہے کہ کسی انسان کو خلافت پر مقرر کرنا چاہتے تھے تاکہ نزآع یا فتنہ رونما نہ ہو اور کہا جاتا ہے کہ تحریر لکھوانا چاہتے تھے جس میں اہم احکام کی وضاحت کریں جو نزآع بڑھا سکتے ہوں اور ان پر اتفاق حاصل کرنا چاہتے تھے … اور جہاں تک عمر رضی الله عنہ کے قول کا تعلق ہے تو اس پر متکلم علماء کا اتفاق ہے ،اس حدیث کی شرح میں کہ یہ عمر کی دقیق النظری اور فضیلت کی دلیل ہے کہ وہ ڈرے ہوئے تھے کہ کہیں نبی صلی الله علیہ وسلم ایسا حکم نہ لکھوا دیں جس کو کر نہ سکیں …
روایت کے الفاظ قَدْ غَلَبَ عَلَيْهِ الْوَجَع ( بے شک ان پر بیماری کی شدت ہے) کی شرح کی جاتی ہے
شرح صحيح البخارى میں ابن بطال المتوفی ٤٤٩ ھ لکھتے ہیں
فقنع عمر بهذا، وأراد الترفيه عن النبى (صلى الله عليه وسلم) ، لاشتداد مرضه وغلبة الوجع عليه
پس عمر نے اس (کتاب الله) پر قناعت کی ان کا ارادہ نبی کو خوش کرنے کا تھا، کیونکہ نبی پر مرض کی شدت اور بیماری غالب آ رہی ہے
ایک دوسری روایت میں ہے فقالوا ما شأنه ؟ أهجر
پس صحابہ نے کہا ان کی کیا کیفیت ہے کیا انکو ھجر ہوا
أهجر کے شروحات میں مختلف مفہوم ہیں
ابن الملقن المتوفی ٨٠٤ ھ کتاب آلتوضيح لشرح الجامع الصحيح میں لکھتے ہیں
أهجر سلف بيانه، وهو سؤال ممن حضر في البيت، هل هو هذيان؟ يقال: هجر العليل: إذا هذى، ويحتمل أن يكون من قائله على وجه الإنكار، كأنه قال: أتظنونه هجر؟ وقيل: إن عمر قال: غلبه الوجع، فيجوز أن يكون قال للذي ارتفعت أصواتهم على جهة الزجر، كقول القائل: نزل فلان الوجع فلا تؤذوه بالصوت
أهجر … یہ سوال تھا انکا جو گھر میں اس وقت موجود تھے کیا یہ ہذیان ہے کہا هجر العليل (بیمار کو هجر) جب وہ ہذیان کہے اور احتمال ہے کہ کہنے والا اس کیفیت کا انکاری ہو جسے کہے کیا سمجھتے ہو کہ یہ ہذیان ہے ؟ اور کہا جاتا ہے عمر نے کہا ان پر بیماری کی شدت ہے پس جائز ہے کہ انہوں نے شور کرنے والوں کو ڈآٹنے کے لئے ایسا کہا ہو جیسے کوئی قائل کہے ان پر بیماری آئی ہے پس اپنی آوازوں سے ان کو اذیت نہ دو
القسطلاني (المتوفى: 923هـ) کتاب إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري میں لکھتے ہیں
وقال النووي: وإن صح بدون الهمزة فهو لما أصابه الحيرة والدهشة لعظيم ما شاهده من هذه الحالة الدالة على وفاته وعظم المصيبة أجرى الهجر مجرى شدة الوجع. قال الكرماني: فهو مجاز لأن الهذيان الذي للمريض مستلزم لشدة وجعه فأطلق الملزوم وأراد اللازم، وللمستملي والحموي: أهجر بهمزة الاستفهام الإنكاري أي أهذى إنكارًا على من قال: لا تكتبوا أي لا تجعلوه كأمر من هذى في كلامه أو على من ظنه بالنبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- في ذلك الوقت لشدة المرض عليه.
اور النووی کہتے ہیں اور اگر یہ لفظ همزة (استفھامیہ) کے بغیر ہے (یعنی اس وقت کسی نے یہ سوال نہیں کیا بلکہ انہوں نے ایسا کہا ) تو پس جو انہوں نے یہ کیفیت دیکھی تو اس کو نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات جانا اور بڑی دہشت کے عالم میں ان سے یہ الفاظ ادا ہوئے کہ بیماری کی شدت ہے . کرمانی کہتے ہیں یہ مجاز ہے کیونکہ هذيان اس مریض کے لئے ہے جس پر بیماری کی شدت ہو
اس روایت کو شیعہ دلیل بناتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم ، علی رضی الله تعالی عنہ کی امامت و خلافت کا حکم کرنے والے تھے جس کو بھانپتے ہوئے نعوذ باللہ عمر رضی الله تعالی عنہ نے یہ چال چلی اور کہنا شروع کر دیا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر بیماری کی شدت ہے
نبی صلی الله علیہ وسلم تو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے صلح حدیبیہ میں بھی محمد رسول الله کے الفاظ علی رضی الله تعالی عنہ سے پوچھ کر منہا کئے لہذا عمررضی الله تعالی عنہ اس کیفیت کو پہچان گئے نبی صلی الله علیہ وسلم کا فرمانا کہ میں لکھ دو اس بات کا غماز ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر بیماری کی شدت تھی. اس کے بعد چار دن میں کسی بھی وقت اپ نے واپس ایسا حکم نہیں دیا
لہذا غالب رائے یہی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر بیماری کی شدت تھی ورنہ اپ ایسا حکم نہیں دیتے
ھجر کی شرح امام احمد ، مسند احمد ج ٣ ص ٤٠٨ ح ١٩٣٥میں کرتے ہیں
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ، خَالِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، يَقُولُ [ص:409]: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَوْمُ الْخَمِيسِ، وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟، ثُمَّ بَكَى حَتَّى بَلَّ دَمْعُهُ – وَقَالَ مَرَّةً: دُمُوعُهُ – الْحَصَى، قُلْنَا: يَا أَبَا الْعَبَّاسِ: وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟ قَالَ: اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، فَقَالَ: «ائْتُونِي أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا، فَتَنَازَعُوا وَلا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ» فَقَالُوا: مَا شَأْنُهُ أَهَجَرَ – قَالَ سُفْيَانُ: يَعْنِي هَذَى – اسْتَفْهِمُوهُ، فَذَهَبُوا يُعِيدُونَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: «دَعُونِي فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونِي إِلَيْهِ» ، وَأَمَرَ بِثَلاثٍ – وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: أَوْصَى بِثَلاثٍ – قَالَ: «أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ» وَسَكَتَ سَعِيدٌ عَنِ الثَّالِثَةِ، فَلا أَدْرِي أَسَكَتَ عَنْهَا عَمْدًا – وَقَالَ مَرَّةً: أَوْ نَسِيَهَا – وقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: وَإِمَّا أَنْ يَكُونَ تَرَكَهَا، أَوْ نَسِيَهَا
امام احمد، سفیان ابْن عُيَيْنَة کے حوالے سے واقعہ قرطاس پر حدیث لکھتے ہیں .حدیث میں ھجر کے الفاظ کی تشریح کی ضرورت نہیں تھی لیکن اس کی شرح سفیان ابْن عُيَيْنَة کے لفظ هَذَى یعنی ہذیان سے کرتے ہیں
شاید یہ سب سے قدیم شرح ہے جو حدیث ہی کی کتاب میں ملتی ہے نہ کہ ان پر لکھی جانے والی شروحات میں
آخر امام احمد نے ایسا کیوں کیا وہ چاہتے تو سفیان ابْن عُيَيْنَة کے الفاظ نقل نہ کرتے اور ان کو چھپاتے
سفیان ابْن عُيَيْنَة کے الفاظ نقل کرنے کا مطلب ہے احمد کی بھی یہی رائے ہے
غور کریں نبی صلی الله علیہ وسلم کیا کہہ رہے ہیں اکتب لکم کتابا کہ میں لکھ دوں ایک تحریر جبکہ اپ صلی الله علیہ وسلم لکھنا پڑھنا نہیں جانتے. نبی صلی الله علیہ وسلم کو جب کچھ لکھوانا ہوتا تھا تو اپ حکم کرتے جیسے اپ نے ایک صحابی کی درخواست پر، حج کے موقعہ پر فرمایا اکتبو لابی شاہ کہ ابی شاہ کے لئے لکھ دو
واقعہ قرطاس بہت سادہ سا وقوعہ ہے جس کو بحث نے غیر ضروری طور پر اہم بنا دیا ہے. نبی صلی الله علیہ وسلم کو بیماری کی شدت تھی اس کیفیت میں اپ نے ایک بات کہ دی جو حقیقت حال کے خلاف تھی. صحابہ اور اہل بیت نے اس پر عمل نہیں کیا اور نہ ہی بعد میں اس پر کوئی جھگڑا ہوا اور نہ ہی طنزا علی رضی الله تعالی عنہ نے اس کو کبھی استمعال کیا نہ حسن نے نہ حسین نے . نبی صلی الله علیہ وسلم نے اگلے چار دن واپس اس کا حکم نہیں دیا ، بس اور یہ کچھ بھی نہیں
شیعہ حضرات کے لئے اس میں دلیل نہیں کیونکہ اگر نبی صلی الله علیہ وسلم ، علی کی خلافت کا حکم لکھوا بھی دیتے تو بھی علی خلیفہ نہیں بن پاتے کیونکہ ان کے خیال میں تو سب صحابہ نعوذ باللہ منافق تھے . علی رضی الله تعالی عنہ اس نوشتہ کو بھی علم باطن ، قرآن اور علم جفر کی طرح چھپا کر ہی رکھتے. یاد رہے کہ شیعوں کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم حجه الوداع سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر دبے لفظوں میں علی کو دوست کہہ چکے ہیں لیکن کھل کر ایک دفعہ بھی ان کو خلیفہ نہیں بتایا
مسلمانوں کی خلافت پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے کسی کو بھی مقرر نہیں کیا کیونکہ ان کا مقصد ہدایت پہنچانا تھا جو انہوں نے کر دیا تھا. اصل مسئلہ شرک کی طرف صحابہ کا پلٹنا تھا جس کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے خود واضح فرمایا بخاری کی حدیث ہے
وإني والله ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي
اور الله کی قسم مجھے اس کا خوف نہیں کہ تم شرک کرو گے
نبی صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ امت بارہ خلفاء تک سر بلند رہے گی اور وہ سب قریشی ہونگے
اور تاریخ گواہ ہے ایسا ہی ہوا
قَالَ النَّبِى (صلى الله عليه وسلم) : (هَلُمَّ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لا تَضِلُّوا بَعْدَهُ) ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ النَّبِى عليه السلام قَدْ غَلَبَ عَلَيْهِ الْوَجَعُ، وَعِنْدَكُمُ الْقُرْآنُ، حَسْبُنَا كِتَابُ اللَّهِ، فَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْبَيْتِ
جاؤ میں کچھ تمھارے لئے تحریرلکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو. پس عمر نے کہا کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم پر بیماری کا غلبہ ہو رہا ہے اور تمہارےپاس قرآن ہے ،کتاب الله ہمارے لئے کافی ہے ، پس اہل بیت کا اس پر اختلاف ہو گیا
نبی صلی الله علیہ وسلم کے سامنے شور ہوا کہ جاو قلم و تختی لےآؤ بعض نے کہا نہیں اس پر آوازیں بلند ہوئیں اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے سب کو اٹھ جانے کا حکم دیا
صحیح مسلم ، دار إحياء التراث العربي – بيروت کی تعلیق میں محمد فؤاد عبد الباقي لکھتے ہیں
(فقال ائتوني أكتب لكم كتابا) اعلم أن النبي صلى الله عليه وسلم معصوم من الكذب ومن تغير شيء من الأحكام الشرعية في حال صحته وحال مرضه ومعصوم من ترك بيان ما أمر ببيانه وتبليغ ما أوجب الله عليه تبليغه وليس معصوما من الأمراض والأسقام العارضة للأجسام ونحوها مما لا نقص فيه لمنزلته ولا فساد لما تمهد من شريعته وقد سحر النبي صلى الله عليه وسلم حتى صار يخيل إليه أنه فعل الشيء ولم يكن فعله ولم يصدر منه صلى الله عليه وسلم في هذا الحال كلام في الأحكام مخالف لما سبق من الأحكام التي قررها فإذا علمت ما ذكرناه فقد اختلف العلماء في الكتاب الذي هم النبي صلى الله عليه وسلم به فقيل أراد أن ينص على الخلافة في إنسان معين لئلا يقع فيه نزاع وفتن وقيل أراد كتابا يبين فيه مهمات الأحكام ملخصة ليرتفع النزاع فيها ويحصل الاتفاق على المنصوص عليه وكان النبي صلى الله عليه وسلم هم بالكتاب حين ظهر له أنه مصلحة أو أوحي إليه بذلك ثم ظهر أن المصلحة تركه أو أوحي إليه بذلك ونسخ ذلك الأمر الأول وأما كلام عمر رضي الله عنه فقد اتفق العلماء المتكلمون في شرح الحديث على أنه من دلائل فقه عمر وفضائله ودقيق نظره لأنه خشي أن يكتب صلى الله عليه وسلم أمورا ربما عجزوا عنها واستحقوا العقوبة عليها لأنها منصوصة لا مجال للاجتهاد فيها فقال عمر حسبنا كتاب الله لقوله تعالى {ما فرطنا في الكتاب من شيء} وقوله {اليوم أكملت لكم دينكم} فعلم أن الله تعالى أكمل دينه فأمن الضلال على الأمة وأراد الترفيه على رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان عمر أفقه من ابن عباس وموافقيه.
پس (نبی صلی الله علیہ وسلم کا) یہ کہنا کہ کچھ تحریر لکھ دوں. جان لو کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم معصوم من الکذب ہیں اور اس سے معصوم ہیں کہ شریعت کے احکام میں تبدیلی کریں حالت صحت اور مرض دونوں میں اور اس سے بھی معصوم ہیں کہ وہ تبلیغ جس کا کیا جانا واجب ہے اس کو نہ کیا ہو . لیکن وہ امراض و اسقام ، عارضہ اجسام اور اسی نو کی چیزوں سے معصوم نہیں جس سے نبی کے درجے اور منزلت میں کوئی تنقیص نہیں آتی اور نہ کوئی فساد شریعت ہوتا ہے اور بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم پر جادو ہوا حتی کہ انہیں خیال ہوا کہ انہوں نے کوئی کام کیا ہے لیکن نہیں کیا ہوتا تھا اور اس حال میں نبی سے کوئی ایسا حکم بھی نہیں صادر ہوا جو پہلے سے الگ ہو پس جو ہم نے کہا اگر تم نے جان لیا تو پس (سمجھو) علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ وہ کیا تحریر تھی جو نبی صلی الله علیہ وسلم لکھوانا چاہتے تھے. کہا جاتا ہے کہ کسی انسان کو خلافت پر مقرر کرنا چاہتے تھے تاکہ نزآع یا فتنہ رونما نہ ہو اور کہا جاتا ہے کہ تحریر لکھوانا چاہتے تھے جس میں اہم احکام کی وضاحت کریں جو نزآع بڑھا سکتے ہوں اور ان پر اتفاق حاصل کرنا چاہتے تھے … اور جہاں تک عمر رضی الله عنہ کے قول کا تعلق ہے تو اس پر متکلم علماء کا اتفاق ہے ،اس حدیث کی شرح میں کہ یہ عمر کی دقیق النظری اور فضیلت کی دلیل ہے کہ وہ ڈرے ہوئے تھے کہ کہیں نبی صلی الله علیہ وسلم ایسا حکم نہ لکھوا دیں جس کو کر نہ سکیں …
روایت کے الفاظ قَدْ غَلَبَ عَلَيْهِ الْوَجَع ( بے شک ان پر بیماری کی شدت ہے) کی شرح کی جاتی ہے
شرح صحيح البخارى میں ابن بطال المتوفی ٤٤٩ ھ لکھتے ہیں
فقنع عمر بهذا، وأراد الترفيه عن النبى (صلى الله عليه وسلم) ، لاشتداد مرضه وغلبة الوجع عليه
پس عمر نے اس (کتاب الله) پر قناعت کی ان کا ارادہ نبی کو خوش کرنے کا تھا، کیونکہ نبی پر مرض کی شدت اور بیماری غالب آ رہی ہے
ایک دوسری روایت میں ہے فقالوا ما شأنه ؟ أهجر
پس صحابہ نے کہا ان کی کیا کیفیت ہے کیا انکو ھجر ہوا
أهجر کے شروحات میں مختلف مفہوم ہیں
ابن الملقن المتوفی ٨٠٤ ھ کتاب آلتوضيح لشرح الجامع الصحيح میں لکھتے ہیں
أهجر سلف بيانه، وهو سؤال ممن حضر في البيت، هل هو هذيان؟ يقال: هجر العليل: إذا هذى، ويحتمل أن يكون من قائله على وجه الإنكار، كأنه قال: أتظنونه هجر؟ وقيل: إن عمر قال: غلبه الوجع، فيجوز أن يكون قال للذي ارتفعت أصواتهم على جهة الزجر، كقول القائل: نزل فلان الوجع فلا تؤذوه بالصوت
أهجر … یہ سوال تھا انکا جو گھر میں اس وقت موجود تھے کیا یہ ہذیان ہے کہا هجر العليل (بیمار کو هجر) جب وہ ہذیان کہے اور احتمال ہے کہ کہنے والا اس کیفیت کا انکاری ہو جسے کہے کیا سمجھتے ہو کہ یہ ہذیان ہے ؟ اور کہا جاتا ہے عمر نے کہا ان پر بیماری کی شدت ہے پس جائز ہے کہ انہوں نے شور کرنے والوں کو ڈآٹنے کے لئے ایسا کہا ہو جیسے کوئی قائل کہے ان پر بیماری آئی ہے پس اپنی آوازوں سے ان کو اذیت نہ دو
القسطلاني (المتوفى: 923هـ) کتاب إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري میں لکھتے ہیں
وقال النووي: وإن صح بدون الهمزة فهو لما أصابه الحيرة والدهشة لعظيم ما شاهده من هذه الحالة الدالة على وفاته وعظم المصيبة أجرى الهجر مجرى شدة الوجع. قال الكرماني: فهو مجاز لأن الهذيان الذي للمريض مستلزم لشدة وجعه فأطلق الملزوم وأراد اللازم، وللمستملي والحموي: أهجر بهمزة الاستفهام الإنكاري أي أهذى إنكارًا على من قال: لا تكتبوا أي لا تجعلوه كأمر من هذى في كلامه أو على من ظنه بالنبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- في ذلك الوقت لشدة المرض عليه.
اور النووی کہتے ہیں اور اگر یہ لفظ همزة (استفھامیہ) کے بغیر ہے (یعنی اس وقت کسی نے یہ سوال نہیں کیا بلکہ انہوں نے ایسا کہا ) تو پس جو انہوں نے یہ کیفیت دیکھی تو اس کو نبی صلی الله علیہ وسلم کی وفات جانا اور بڑی دہشت کے عالم میں ان سے یہ الفاظ ادا ہوئے کہ بیماری کی شدت ہے . کرمانی کہتے ہیں یہ مجاز ہے کیونکہ هذيان اس مریض کے لئے ہے جس پر بیماری کی شدت ہو
اس روایت کو شیعہ دلیل بناتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم ، علی رضی الله تعالی عنہ کی امامت و خلافت کا حکم کرنے والے تھے جس کو بھانپتے ہوئے نعوذ باللہ عمر رضی الله تعالی عنہ نے یہ چال چلی اور کہنا شروع کر دیا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر بیماری کی شدت ہے
نبی صلی الله علیہ وسلم تو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے صلح حدیبیہ میں بھی محمد رسول الله کے الفاظ علی رضی الله تعالی عنہ سے پوچھ کر منہا کئے لہذا عمررضی الله تعالی عنہ اس کیفیت کو پہچان گئے نبی صلی الله علیہ وسلم کا فرمانا کہ میں لکھ دو اس بات کا غماز ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر بیماری کی شدت تھی. اس کے بعد چار دن میں کسی بھی وقت اپ نے واپس ایسا حکم نہیں دیا
لہذا غالب رائے یہی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم پر بیماری کی شدت تھی ورنہ اپ ایسا حکم نہیں دیتے
ھجر کی شرح امام احمد ، مسند احمد ج ٣ ص ٤٠٨ ح ١٩٣٥میں کرتے ہیں
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ، خَالِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، يَقُولُ [ص:409]: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَوْمُ الْخَمِيسِ، وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟، ثُمَّ بَكَى حَتَّى بَلَّ دَمْعُهُ – وَقَالَ مَرَّةً: دُمُوعُهُ – الْحَصَى، قُلْنَا: يَا أَبَا الْعَبَّاسِ: وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟ قَالَ: اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، فَقَالَ: «ائْتُونِي أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا، فَتَنَازَعُوا وَلا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ» فَقَالُوا: مَا شَأْنُهُ أَهَجَرَ – قَالَ سُفْيَانُ: يَعْنِي هَذَى – اسْتَفْهِمُوهُ، فَذَهَبُوا يُعِيدُونَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: «دَعُونِي فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونِي إِلَيْهِ» ، وَأَمَرَ بِثَلاثٍ – وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: أَوْصَى بِثَلاثٍ – قَالَ: «أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ» وَسَكَتَ سَعِيدٌ عَنِ الثَّالِثَةِ، فَلا أَدْرِي أَسَكَتَ عَنْهَا عَمْدًا – وَقَالَ مَرَّةً: أَوْ نَسِيَهَا – وقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: وَإِمَّا أَنْ يَكُونَ تَرَكَهَا، أَوْ نَسِيَهَا
امام احمد، سفیان ابْن عُيَيْنَة کے حوالے سے واقعہ قرطاس پر حدیث لکھتے ہیں .حدیث میں ھجر کے الفاظ کی تشریح کی ضرورت نہیں تھی لیکن اس کی شرح سفیان ابْن عُيَيْنَة کے لفظ هَذَى یعنی ہذیان سے کرتے ہیں
شاید یہ سب سے قدیم شرح ہے جو حدیث ہی کی کتاب میں ملتی ہے نہ کہ ان پر لکھی جانے والی شروحات میں
آخر امام احمد نے ایسا کیوں کیا وہ چاہتے تو سفیان ابْن عُيَيْنَة کے الفاظ نقل نہ کرتے اور ان کو چھپاتے
سفیان ابْن عُيَيْنَة کے الفاظ نقل کرنے کا مطلب ہے احمد کی بھی یہی رائے ہے
غور کریں نبی صلی الله علیہ وسلم کیا کہہ رہے ہیں اکتب لکم کتابا کہ میں لکھ دوں ایک تحریر جبکہ اپ صلی الله علیہ وسلم لکھنا پڑھنا نہیں جانتے. نبی صلی الله علیہ وسلم کو جب کچھ لکھوانا ہوتا تھا تو اپ حکم کرتے جیسے اپ نے ایک صحابی کی درخواست پر، حج کے موقعہ پر فرمایا اکتبو لابی شاہ کہ ابی شاہ کے لئے لکھ دو
واقعہ قرطاس بہت سادہ سا وقوعہ ہے جس کو بحث نے غیر ضروری طور پر اہم بنا دیا ہے. نبی صلی الله علیہ وسلم کو بیماری کی شدت تھی اس کیفیت میں اپ نے ایک بات کہ دی جو حقیقت حال کے خلاف تھی. صحابہ اور اہل بیت نے اس پر عمل نہیں کیا اور نہ ہی بعد میں اس پر کوئی جھگڑا ہوا اور نہ ہی طنزا علی رضی الله تعالی عنہ نے اس کو کبھی استمعال کیا نہ حسن نے نہ حسین نے . نبی صلی الله علیہ وسلم نے اگلے چار دن واپس اس کا حکم نہیں دیا ، بس اور یہ کچھ بھی نہیں
شیعہ حضرات کے لئے اس میں دلیل نہیں کیونکہ اگر نبی صلی الله علیہ وسلم ، علی کی خلافت کا حکم لکھوا بھی دیتے تو بھی علی خلیفہ نہیں بن پاتے کیونکہ ان کے خیال میں تو سب صحابہ نعوذ باللہ منافق تھے . علی رضی الله تعالی عنہ اس نوشتہ کو بھی علم باطن ، قرآن اور علم جفر کی طرح چھپا کر ہی رکھتے. یاد رہے کہ شیعوں کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم حجه الوداع سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر دبے لفظوں میں علی کو دوست کہہ چکے ہیں لیکن کھل کر ایک دفعہ بھی ان کو خلیفہ نہیں بتایا
مسلمانوں کی خلافت پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے کسی کو بھی مقرر نہیں کیا کیونکہ ان کا مقصد ہدایت پہنچانا تھا جو انہوں نے کر دیا تھا. اصل مسئلہ شرک کی طرف صحابہ کا پلٹنا تھا جس کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے خود واضح فرمایا بخاری کی حدیث ہے
وإني والله ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي
اور الله کی قسم مجھے اس کا خوف نہیں کہ تم شرک کرو گے
نبی صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ امت بارہ خلفاء تک سر بلند رہے گی اور وہ سب قریشی ہونگے
اور تاریخ گواہ ہے ایسا ہی ہوا