• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مرض وفات میں آپﷺ کا ارادہ تحریر اور سيدنا عمرفاروق کی تجویز ۔۔۔ حدیث قرطاس (حسبنا كتاب الله)

Hafizabdulwahab

مبتدی
شمولیت
اپریل 03، 2012
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
9
السلام علیکم
I need some clarification on this hadith e mubarka from Bukhari Sahif that what is the meaning of this haidth
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 115
یحیی بن سلیمان، ابن وہب، یونس، ابن شہا ب، عبیداللہ بن عبداللہ ، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض میں
شدت ہوگئی تو آپ نے فرمایا کہ میرے پاس لکھنے کی چیزیں لاؤ، تاکہ میں تمہارے لئے ایک نوشتہ لکھ دوں کہ اس کے بعد پھر تم گمراہ نہ ہو گے، عمر نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مرض غالب ہے اور ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، وہ ہمیں کافی ہے، پھر صحابہ نے اختلاف کیا، یہاں تک کہ شور بہت ہو گیا تو آپ نے فرمایا کہ میرے پاس سے اٹھ جاؤ اور میرے پاس تمہیں جھگڑا نہیں کرنا چاہئے، یہاں تک بیان کر کے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی جگہ سے یہ کہتے ہوئے باہر آگئے کہ
بے شک مصیبت ہے اور بڑی (سخت) مصیبت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریر کے درمیان یہ چیز حائل ہو گئی

?in this hadith who is Umar
?and what is the meaning of this hadith
Waiting for your urgent reply
Hafiz Abdul wahab Salafi
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
1. یہ واقعہ نبی کریمﷺ کے مرض الموت کا ہے، لیکن آپ کے اس واقعہ کے کئی دن بعد فوت ہوئے۔
2. ظاہر یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اختلاف سے بچنے کیلئے کچھ چیزوں پر زور دینا چاہتے تھے یا آئندہ خلفاء کے بارے میں وضاحت فرمانا چاہتے تھے، تو سیدنا عمر﷜ ودیگر بعض صحابہ کرام﷢ (جو اس وقت ان کے مؤید تھے) کو خیال ہوا کہ شائد نبی کریمﷺ کچھ لمبا لکھوانا چاہتے ہیں، اور ان کی طبیعت کافی ناساز ہے، تو نبی کریمﷺ کو زحمت دینے سے بچانے کیلئے انہوں نے عرض کیا کہ نبی کریمﷺ کو تکلیف نہ دی جائے۔ ہمارے پاس اللہ کی کتاب (بمعہ اپنی تبیین یعنی ذخیرۂ احادیث کے) موجود ہے، جو اختلاف کو ختم کرنے کیلئے کافی ہے۔
3. وہاں کافی صحابہ کرام﷢ موجود تھے، ان میں اختلاف ہوگیا اور شور مچ گیا، کچھ نے سیدنا عمر﷜ کی تائید کی اور کچھ نے مخالفت
4. نبی کریمﷺ نے اس اختلاف اور شور کو پسند نہ فرمایا اور صحابہ کرام﷢ کو وہاں سے اٹھا دیا۔ جس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ مریض کی عیادت کے وقت وہاں زیادہ دیر بیٹھنا اور شور نہیں کرنا چاہئے۔
5. سیدنا عمر﷜ کے اس فعل کے بارے میں علمائے کرام ﷭ کی دو آراء ہیں:
بعض کا خیال یہ ہے کہ عمر﷢ وغیرہ نے نبی کریمﷺ کے قلم دوات وغیرہ لانے کے حکم کو اپنے وجوب پر نہیں سمجھا تھا، (ان کا خیال تھا کہ نبی کریمﷺ پہلی بیان کی گئی کتاب وسنت کی ہدایات کا اعادہ فرمائیں گے) لہٰذا انہوں نے رائے ظاہر کی کہ اتنی تکلیف میں نبی کریمﷺ کو زحمت نہ دی جائے۔
جبکہ دیگر بعض کا خیال یہ ہے نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا، نبی کریمﷺ کے ارشادات کو لکھ لینا ہی بہتر تھا کہ اس سے نبی کریمﷺ کے حکم کی تعمیل بھی ہو جاتی اور ممکن ہے اس میں پچھلے احکامات پر کچھ اضافہ بھی ہوتا۔
امام ابن حجر﷫ وغیرہ نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے، ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر نبی کریمﷺ نے جو کچھ لکھوانا تھا اگر اسے نبی کریمﷺ بہت زیادہ ضروری سمجھتے تو صحابہ کرام﷢ کو خاموش کرا کر دوبارہ لکھوا دیتے، لیکن آپﷺ نے ان کے اختلاف اور شور کو نا پسند کرتے ہوئے انہیں اٹھا دیا، دوبارہ قلم دوات لانے کا حکم صادر نہیں فرمایا۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ اس واقعہ کے بعد نبی کریمﷺ کئی دن حیات رہے اس کے باوجود آپ نے ایسا ارادہ دوبارہ نہیں فرمایا۔ واللہ اعلم!
بلکہ بہت سے علماء نے اسے سیدنا عمر﷜ کی ان موافقات میں شامل کیا ہے جن میں ان کی رائے وحی کے مطابق ہوگئی تھی۔
واللہ تعالیٰ اعلم!
(تلخیص من فتح الباری)
 

Hafizabdulwahab

مبتدی
شمولیت
اپریل 03، 2012
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
9
!JazakAllah u Khairan ya Akhi
!Aj Fajar kay baad hee mujhay Ustad sahab nai iss silsalay mai yehi same rehnumai dee thee
mai just baad mai aa ka issi kaa jawab post karna bhool gia tha
ap ka buhat buhat shukria mufassal jawad denay ka
umeed hai kay Allah mustaqbil mai bhi issi tarha hum bhaion ko aik dosray kee ILMI rehnumai karnay ka moqa
Atta farmain gaye
!InshaAllah
Again JazakAllah u khairan
!AsalamuAlikum Wa rehmat ullahi wa barakatuh
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
بلکہ بہت سے علماء نے اسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی ان موافقات میں شامل کیا ہے جن میں ان کی رائے وحی کے مطابق ہوگئی تھی۔
بے شک اوریہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر کوئی مشورہ دیا ہو، بلکہ اس سے قبل بھی اسی سے ملتے جلتے متعدد واقعات منقول ہیں مثلا صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ :
«اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ، فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ، فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ [صحيح مسلم 1/ 60 رقم 31] ۔

اس پر عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے کہا:
فَلَا تَفْعَلْ، فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا، فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَخَلِّهِمْ» [صحيح مسلم 1/ 60 رقم 31] ۔

یہاں پر بھی عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمان کی اشاعت کو روک دیا ، اور یہاں پر نہ کوئی بیماری کا موقع تھا اور نہ ہی کسی قسم کاشور ہورہا تھا ۔

معلوم ہواکہ اس بیماری کے موقع پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی تجویز سے متفق تھے ، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا مطالبہ ضرور دہراتے ۔
 
Top