انتباہ: یہ مضمون محترم حامد کمال صاحب کا ہے، یہ ان کا کتابی موقف ہے، نجی مجالس میں ان کا بیان اس مضمون سے متضاد ہے، اور اس معاملےمیں وہ بھی افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ اللہ تعالی ان کو ہدایت کی نعمت سے سرفراز کرے۔ آمین
حکم، ظاہر پر لگایا جاتا ہے نہ کہ پوشیدہ امور پر یہ ”اطلاق“ واضح ہو جانا چاہیے کہ ”اصولِ اہلسنت کی رو سے حکم صرف ظاہر پر لگتا ہے“....
فقہائے اسلام کے ہاں یہ قاعدہ بیان ہوتا ہے:
لَنَا الْحُکْمُ عَلَی الظَّاہِرِ، وَرَبُّنَا یَتَوَلّٰی السَّرَائِرَ
یعنی:ہمارا کام ہے کہ ظاہر پر حکم لگائیں۔ رہ گئے وہ امور جو ہم پر پوشیدہ ہیں، تو اُن کا فیصلہ کرنا ہمارے پروردگار کام ہے۔
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا۔ صبح سویرے ہم نے قبیلہ جہینہ کے ایک گوت ”حرقات“ پر چڑھائی کر دی۔ میں نے (اُن میں سے) ایک آدمی کو جا لیا، تو اُس نے بول دیا: ”نہیں کوئی عبادت کے لائق، مگر اللہ“۔ میں نے نیزہ مار کر (اُس کا کام تمام کر دیا)۔ میرے نفس میں اِس سے خلجان پیدا ہوا تو میں نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کیا، اُس نے لا الٰہ الا اللہ کہا اور تم نے اُسے قتل کر ڈالا؟“ اسامہؓ کہتے ہیں: میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! اُس نے ہتھیار کے ڈر سے یہ الفاظ کہہ دیے تھے۔ آپ نے فرمایا: اَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہ حَتّیٰ تَعْلَمَ اَقَالَہَا اَمْ لَا ”تو تم نے اُس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا کہ یہ کلمہ اُس نے (دل سے) کہا تھا یا نہیں؟“ اسامہؓ کہتے ہیں: نبی ﷺ اپنے یہ الفاظ دہراتے ہی جا رہے تھے، یہاں تک کہ میرا دل چاہا کہ کاش میں آج ہی ایمان لایا ہوتا۔
(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم قتل الکافر بعد أن قال لا الٰہ الا اللہ)
یہ اور اِسی طرح کے اَن گنت شرعی دلائل کی بنیاد پر علمائے اہل سنت کے ہاں یہ ایک قطعی قاعدہ ہے کہ حکم صرف اُس چیز پر لگایا جائے گا جو ایک آدمی سے ظاہر ہو۔ رہ گیا دلوں کا معاملہ اور وہ امور جو ہم پر ظاہر نہیں، تو یہ مسئلہ اللہ کے سپرد کر رکھا جائے گا اور ہرگز ہرگز اپنے ہاتھ میں نہ لیا جائے گا۔ کوئی شخص کتنا بڑا نفاق اپنے اندر چھپائے بیٹھا ہے، یہ دیکھنا اور اِسکا فیصلہ کرنا اللہ رب العزت کا کام ہے۔
یہ بات بالکل حق ہے۔ دلوں کو ٹٹولنا یا کسی شخص کے باطن کے پیچھے جانا انسانوں کا اختیار ہے اور نہ انسان اس بات کے مجاز۔ مگر اس حوالے سے یہ بات سمجھ لی جانا ضروری ہے کہ ”ظاہر“ ہم کہتے کسے ہیں؟ کسی کا لا الہ الا اللہ پڑھنا ”ظاہر“ ہے۔ ہم اسی پر حکم لگانے کے پابند ہیں۔ پس ایک کلمہ گو کو مسلمان ماننا ہم پر لازم ہے۔ البتہ جس طرح کسی کا کلمہ پڑھنا ایک ”ظاہر“ ہے جس پر ہم انسان حکم لگاتے ہیں.... بعینہ اسی طرح کسی کا نواقضِ اسلام کا مرتکب ہونا بھی ایک ”ظاہر“ ہے جس پر ہم انسان حکم لگاسکتے ہیں۔ مثلاً کسی کا شرک کرنا، جادو کے اعمال کرنا، رسول اللہ ﷺ کی شریعت پر کسی اور حکم یا قانون کو ترجیح دینا.. ایسے افعال کی بنا پر کسی شخص پہ حکم لگانا در اصل ”ظاہر“ پر ہی حکم لگانا ہے۔
چنانچہ واجب ہو گا کہ ہر ”کلمہ گو“ کو مسلمان سمجھتے ہوئے اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ رکھا جائے اور جب تک اسلام سے خارج کر دینے والا کوئی قول یا عمل واضح اور ظاہر طور پر اس سے سرزد نہ ہو، کسی ظن اور قیاس آرائی کی بنا پر اسے کافرنہ کہا جائے۔ کیونکہ ایسی صورت میں کفر کا فتویٰ خود لگانے والے پر پلٹ آئے گا۔ مسلمان بھائی کو کافر کہنے کی ممانعت والی حدیث کا مصداق وہی آدمی ہو سکتا ہے جو نواقض اسلام کا واضح طور پر مرتکب نہ ہو۔ البتہ جب کسی نے نواقضِ ا سلام ہی کا ارتکاب کرلیا تو پھر ’مسلمان بھائی کو کافر کہنے سے ممانعت‘ والی حدیث کے حوالے دیے جانا چہ معنیٰ دارد؟! ورنہ فقہ اسلامی میں مرتد کا باب سرے سے نہ ہوتا کیونکہ ہر آدمی جانتا ہے ارتداد کا حکم غیر کلمہ گو پر نہیں کلمہ گو پر ہی لگتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس صورت میں جو بات احتیاط کی ہو سکتی ہے وہ دو چیزیں ہیں:
1) اس بات کو یقینی بنانا کہ شخص متعلقہ کی بابت موانعِ تکفیر تو نہیں پائے جاتے، مثلاً:
- آدمی کا اپنے فعل کی بابت لا علم ہونا، یا
- کوئی ایسی تاویل رکھنا جس سے اس پر کفر کا حکم ٹل سکے،
- یا پھر کسی اکراہ (زبردستی) کے زیرِ اثر ہونا۔
2) اس بات کو یقینی بنانا کہ کسی شخص کو ، چاہے وہ نواقضِ اسلام کا مرتکب ہو، کافر قرار دیئے جانے کا فتوی معتبر اہلِ علم کے ہاں سے ہی صادر ہو نہ کہ فتوی صادر کرنے کا کام عام لوگ کرنے لگیں۔
یہ دو باتیں چونکہ حد درجہ اہم ہیں، لہٰذا آپ انہیں ہمارے ہاں بکثرت پائیں گے۔
*****
نواقض اسلام کو جاننا ہر کسی کیلئے ضروری ہے
البتہ لوگوں کو کافر قرار دینا عام آدمی کا منصب نہیں:
ہمارے ہاں ایک انتہا یہ ہے کہ کسی بہت ہی ناکافی بنیاد پر اور کوئی بھی شرعی علم رکھے بغیر آدمی دوسرے پر کفر کا یا شرک کا فتویٰ لگائے۔ یہ انتہا بھی ہمارے ہاں بہت پائی جاتی ہے۔
دوسری انتہا یہ ہے کہ خواہ کوئی لاکھ انداز میں اللہ رب العالمین کے ساتھ واضح ترین انداز میں شرک کرے اور نواقض اسلام کا کھلا کھلا ارتکاب کرے اول تو اس پر اسے ٹوکنے اور خدا کی پکڑ سے ڈرانے اور شرک سے روکنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی جائے۔ اور اگر کوئی دوسرا یہ فرض انجام دے تو اس کو بھی خوامخواہ کا تشدد سمجھا جائے۔ پھر اگر کسی پر اس کا شرک پوری طرح واضح کر دیا گیا ہو اور اس کو علم کی بنیاد پر خدا سے ڈرا لیا گیا ہو مگر وہ اپنے اس شرک یا اس کفریہ رویے پر ہی پوری طرح مصر ہو تو بھی نہ صرف اس کو مسلمان ہی سمجھا جائے بلکہ موحد اہل علم کی جانب سے اس کی تکفیر کی جانے کو بلکہ نواقضِ اسلام کے کھلم کھلا ارتکاب پر تکفیر کا سوال ہی اٹھ کھڑا ہوجانے کو ’خارجیت‘ باور کیا جائے! یہ دوسری انتہا بھی ہمارے معاشرے میں خاصی زیادہ پائی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے جو ہم نے کہا ہے کہ اگر ایک شخص کو خواہ جتنا مرضی وہ خدا کے ساتھ شرک اور اس کے خلاف بغاوت کرلے ہر حال میں مسلمان ہی شمار ہونا ہے تو فقہ اسلامی میں مرتد کا باب سرے سے ہوتا ہی کیوں؟ کیا مرتد کا حکم فقہ اسلامی میں ’غیر کلمہ‘ گو پر لگایا جاتا ہے!؟
اِس سلسلہ میں چند امور واضح ہو جانے چاہئیں:
نواقض اسلام سے خبردار ہونا اور خبردار کرنا تو ہر کسی کا کام ہے۔ اس کی سنگینی سے ہر شخص کو واقف ہونا چاہیے۔ نواقض اسلام جب ان باتوں کو کہتے ہیں جو آدمی کو دین سے خارج کر دیں تو پھر ان سے بچنے اور بچانے کا کام ہر کسی کو کرنا ہے۔ عوام الناس میں نواقض اسلام کا علم عام کرنے سے بنیادی طور پر ہماری یہی غرض ہونی چاہیے کہ لوگ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ کی اسیری سے خود بچیں اور مل کر ایک دوسرے کو بچائیں۔
لہٰذا سب سے پہلے تو نواقض اسلام کا جاننا ہر شخص کے اپنے فائدے کیلئے ہے پھر اس کے ساتھ ساتھ جہاں تک ہو سکے وہ اوروں کو نواقضِ اسلام کی بابت اِنذار و خبردار کرے۔ آدمی کسی کو جہنم میں پڑنے سے بچا سکتا ہو تو اس میں ہرگز کوتاہی نہ کرے۔ ایک کم علم سے کم علم آدمی بھی مسلم معاشرے کے اندر ایک کفریہ قول یا کفریہ رویے کو کفر ہی پکارے گا۔
نواقض اسلام سے خود بچنا اور دوسروں کو بچانا .... یہ دو باتیں تو ہر کسی کیلئے ہیں خواہ کوئی عامی ہے یا عالم۔
البتہ ایک تیسری بات ہے اور اس کا تعلق عوام الناس سے نہیں۔ یہ صرف اہل علم کا شعبہ ہے۔ اسی کی طرف ابھی اوپر اشارہ ہوا ہے۔ اور وہ یہ کہ اگر کوئی شخص نواقض اسلام میں سے کسی ایک کا مرتکب ہو رہا ہے تو اس کی بابت کب یہ فیصلہ کیا جائے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا ہے؟ ہاں یہ فیصلہ بہرحال عوام الناس کے کرنے کانہیں نہ تو کسی گروہ کے بارے میں اور نہ کسی فرد کے بارے میں۔ اس کا فیصلہ وہی لوگ کریں گے جو علم اور فقہ پر دسترس رکھتے ہوں۔ ہاں عوام الناس کا اس تیسری بات سے اس حد تک تعلق ضرور ہے کہ اہل علم ایک بار جب کسی شخص یا گروہ پر کوئی حکم لگا دیں تو پھر ضرور وہ بھی (یعنی عوام بھی) اس پر وہ حکم لگائیں، اسی کو معاشرے کے اندر نشر کریں اور اسی پر معاشرے کو مجتمع و یک آواز کرنے کی کوشش۔
تکفیر میں مصالح اور مفاسد کا اعتبار ضروری ہے
موانعِ تکفیر زائل ہو گئے ہیں
تو بھی آپ تکفیر کرنے کے پابند نہیں
ہمارے کچھ جذباتی نوجوان بالعموم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ: چلیں مان لیا یہ تین یا پانچ چیزیں موانع تکفیر ہیں (یعنی آدمی کی تکفیر کرنے میں مانع ہیں): لاعلمی، تاویل، اِکراہ، خطا اور نسیان.... تو اب اگر ہم کسی کفریہ فعل میں ملوث شخص کی بابت یہ دیکھ لیتے ہیں کہ نہ تو وہ لا علم ہے، نہ اُس کے ہاں کوئی ایسی تاویل پائی جاتی ہے جو اُس پر وہ حکم لگانے میں مانع ہوتی ہو، نہ اُس پر وہ کفریہ فعل کروانے کیلئے کسی نے بندوق تان رکھی ہے کہ ہم کہیں وہ کسی اِکراہ کا شکار ہے، نہ وہ خطا (یعنی بغیر قصد) وہ کام کر رہا ہے (بلکہ جانتے بوجھتے ہوئے اور بقائمی ہوش و حواس اُس حرکت کا مرتکب ہو رہا ہے)، اور پھر نہ ہی وہ کسی نسیان کا شکار ہے.... یعنی موانع تکفیر میں سے کوئی ایک بھی مانع اُس شخص کے حق میں نہیں پایا جاتا تو آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اُس شخص کو کافر نہ کہیں؟ یہ نوجوان کسی وقت یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ علماءنے ایسے کسی شخص کو کافر کیوں نہیں کہا؟!
بلاشبہ کسی وقت ہوسکتا ہے کوئی شخص نواقضِ اسلام کا مرتکب بھی ہو اور اس کے حق میں موانعِ تکفیر (یعنی لاعلمی، خطا، تاویل یا اکراہ وغیرہ) بھی نہ پائے جاتے ہوں.... یعنی اصولاً وہ پوری طرح تکفیر کا مستحق ہو، پھر بھی، کسی شرعی مصلحت کے پیشِ نظر یا دفعِ مفسدت کو مد نظر رکھتے ہوئے، اہل علم اس کی تکفیر کے معاملہ میں توقف کئے رکھیں، یعنی اس پر ارتداد کے احکام لاگو نہ کریں اور معاشرے کے اندر ایک مسلمان سمجھا جانے کا اسٹیٹس کسی خاص وقت تک اس سے پھر بھی سلب نہ کریں۔
جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ میں عقیدہ کے استاد اور ایک ممتاز عالم شیخ احمد آل عبد اللطیف اس کی دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں:
”نبوی معاشرے کے اندر منافقین کے کفریہ افعال عمومی طور پر چھپے رہتے تھے، یہ درست ہے، مگر یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ چند خاص منافقین کے کفریہ افعال ریکارڈ پر بھی آگئے تھے۔ منافقین میں سے چند متعین لوگوں کانواقضِ اسلام کا مرتکب ہوناان کے باطن تک محدود نہ رہ گیا تھا کہ جس کا مؤاخذہ صرف اللہ عالم الغیب کی ذات ہی قیامت کے روز جا کر کرے گی، بلکہ ان کے ارتکابِ کفر پر صاف بین شواہد پائے گئے تھے، یہاں تک کہ ان کے ارتکابِ کفر کا پول کھولنے والے صحابہؓ کی گواہی کی تائید میں آیاتِ وحی اتری تھیں۔ مثلاً:
- آیت ”لاَ تَعْتَذِرُواْ قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ“ یعنی ”عذرات مت تراشو، یقینا تم ایمان لے آنے کے بعد کفر کرچکے ہو“ (التوبۃ: 66) خاص متعین لوگوں کی بابت اتری تھی۔
- ”وَلَقَدْ قَالُواْ كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُواْ بَعْدَ إِسْلاَمِهِمْ“ یعنی ”یقینا یہ کفر کی بات بک چکے ہیں اور اپنے اسلام لے آنے کے بعد کفر کر چکے ہیں“ (التوبۃ: 74) بھی کچھ خاص لوگوں کی بابت اتری تھی جن کا کفر طشت ازبام ہو گیا تھا۔
- ”وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُؤُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ“ یعنی ”جب ان سے کہا جائے اؤ، اللہ کا رسول تمہارے لئے استغفار کردے، تو وہ (گھمنڈ سے) اپنے سر موڑ لیں اور تم دیکھو کہ وہ باز رہتے ہیں اس حال میں کہ وہ تکبر کر رہے ہوتے ہیں“ (المنافقون:5)، نیز ”هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنفِقُوا عَلَى مَنْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنفَضُّوا“ یعنی ”یہی ہیں جو کہتے ہیں مت خرچ کرو ان لوگوں پر جو رسول اللہ کے پاس ہیں یہاں تک کہ یہ (آپ کے گرد سے) چھٹ جائیں“ (المنافقون:7)، علاوہ ازیں ”يَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ“ یعنی ”کہتے ہیں، یقینا اگر ہم مدینہ واپس گئے تو جو زیادہ عزت دار ہوگا وہ ذلت دار کو وہاں سے نکال باہر کرے گا“ (المنافقون: 8)....
یہ سب، متعین لوگوں کے معاملہ میں پیش آیا۔ یوں مستند روایات میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں کہ مدینہ کے اندر کچھ کلمہ گو لوگوں کا مرتکبِ کفر ہونا ”باطن“ کے دائرہ سے نکل کر ”ظاہر“ کے دائرہ میں آتا تھا، جبکہ ہم جانتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے کچھ خاص مصالح کے پیش نظر، ان کا کفر واضح اور معاشرتی سطخ پر ان کے قابل مؤاخذہ ہونے کے باوجود، ان لوگوں پر ارتداد کے احکام لاگو نہیں کئے“۔
اِس کے رد میں بعض لوگوں کی جانب سے اگر یہ کہا جائے کہ یہ باتیں نبی ﷺ کو وحی کے ذریعے بتائی گئی تھیں، جبکہ دنیوی احکام لاگو کرنے کیلئے معلومات کے انسانی ذرائع ضروری ہیں، اس لئے نبی ﷺ نے اُن لوگوں کی تکفیر نہ کی تھی۔ یا وہ یہ کہیں کہ منافقین کا اِس بات سے مکرنا کہ انہوں نے ایسی حرکات کی تھیں یا اس پر ایک طرح کا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنا اِس بات پر دلیل ہوئی کہ وہ اپنے اُس کفریہ فعل پر قائم بہرحال نہ رہے تھے لہٰذا اس کو ایک طرح کا ظاہری رجوع باور کرتے ہوئے اُن کی تکفیر سے اجتناب برتا گیا ....
تو ان شبہات کے جواب میں ہم کہیں گے کہ کئی ایک باتیں ایسی بھی ریکارڈ پر ہیں کہ کسی منافق نے کھلم کھلا ایک کفریہ قول یا رویہ ظاہر کیا (اور اُس کو جاننے کیلئے وحی واحد ذریعہ نہ رہا)۔ نیز اپنے اُس کفریہ قول یا رویہ پر اُس کا کوئی معذرت خواہانہ رویہ بھی ہرگز ریکارڈ پر نہیں۔ مثال کے طور پر صحیح بخاری میں عبد اللہ بن اُبی کا یہ رویہ کہ :جب رسول اللہ ﷺ ایک گدھے پر سوار عبد اللہ بن اُبی کے پاس پہنچے تو وہ بے لحاظ بکنے لگا: اِلَیْکَ عَنِّیْ، وَاللّٰہِ لَقَدْ آذَانِیْ نَتْنُ حِمَارِکَ ”پرے ہٹو، واللہ تمہارے گدھے کی سڑاند میرے ناک میں دم کر رہی ہے“۔ تب انصارؓ میں سے ایک صحابیؓ سے نہ رہا گیا اور وہ عبد اللہ بن اُبی کو مخاطب کر کے بولا: وَاللّٰہِ لَحِمَارُ رَسُولِ اللّٰہِ اَطْیَبُ رِیْحاً مِنْکَ ”واللہ! رسول اللہ ﷺ کا گدھا بو میں تم سے کہیں بہتر ہے“۔ تب عبد اللہ بن اُبی کے قبیلے کا ایک آدمی عبد اللہ بن اُبی کیلئے طیش میں آیا اور اُس انصاریؓ کو گالیاں بکنے لگا۔ اِس پر ہر دو کے قبیلے کے لوگ اپنے اپنے آدمی کیلئے بھڑک اٹھے اور دونوں گروہوں کے مابین کھجور کی چھڑیوں، ہاتھوں اور جوتوں سے مار پیٹ ہونے لگی۔
(صحیح البخاری، کتاب الصلح، باب ما جاءفی الاِصلاح بین الناس اِذا تفاسدوا)
غرض بعض افراد سے اِس قسم کے کفریہ افعال اور رویے کھلم کھلا سرزد ہونے کے باوجود ___ بعض شرعی مصالح کے پیش نظر ___ اُن لوگوں کی تکفیر سے احتراز برتا گیا اور دنیوی امور میں اُن کا حکم ایک مسلمان کا سا رکھا گیا۔ یہاں تک کہ ایک علیحدہ نص کے ذریعہ سے جب تک اُن کی نمازِ جنازہ سے نہ روک دیا گیا، آپ نے اُن کا جنازہ پڑھنا تک موقوف نہ کیا۔
مقصد یہ کہ کسی شخص کے حق میں موانع تکفیر اگر زائل بھی ہو گئے ہوں، لیکن کچھ مصالح اہل علم کی نظر میں ایسے ہوں جو اُس کی تکفیر کی بابت سکوت کا تقاضا کریں، یا اُس کی تکفیر کرنے کی صورت میں وہ کچھ مفاسد اٹھ کھڑے ہونے کا اندیشہ محسوس کریں، تو اس صورت میں تکفیر سے احتراز کر رکھنا اُن کے حق میں ایک جائز و شرعی رویہ ہو گا۔ عام لوگوں کو بہرحال اہل علم ہی کے پیچھے چلنا ہے۔
پس اگر کسی وقت شرعی اتھارٹی (جوکہ آج اس وقت علماءہیں) کسی شخص یا گروہ پر نواقض اسلام کے ارتکاب کے باوجود اس کو معین کرکے تکفیر کا حکم عائد کرنے سے محترز رہتے ہیں یا اس کے معاملہ میں، بوجوہ، صرفِ نظر کر رکھتے ہیں، جس کی بنیاد کوئی خاص حفظِ مصالح یا دفعِ مفاسد ہو، جبکہ ان مصالح اور مفاسد کا موازنہ بھی ظاہر ہے اہل علم ہی کرسکتے ہیں، تو یہ بات شرعا غلط نہیں۔
*****
یہ سب امور دین کے داعی طبقوں پرواضح ہو جائیں اور ان کی پابندی ہونے لگے تو افراط اور تفریط کے بہت سے مظاہر ختم یا کم ہو سکیں گے۔ لوگ نواقض اسلام کامطلب ’فتویٰ لگانا یا نہ لگانا‘ لیتے ہیں۔ اس غلط فہمی میں دونوں طبقے شریک ہیں وہ بھی جو نواقض اسلام کے موضوع کو اہمیت اور توجہ دینے میں غلو سے کام لیتے ہیں اور وہ بھی جو نواقض اسلام کے موضوع کو سرے سے توجہ نہیں دیتے۔ چنانچہ دونوں کے مابین اصل جھگڑا اور اصل مسئلہ ’فتوی لگانا یا نہ لگانا‘ بن جاتا ہے۔ رہا اصل کام یعنی اسلام اور کفر کی حدوں کا علم عام کرنا اور مخلوق کو ان سے خبردار کرنا اور معاشرے کے اندر مسلسل اِنذار کا فریضہ سر انجام دینا، تو وہ دونوں نہیں کرتے، الا ما شاءاللہ .... کیونکہ دونوں کا موضوع لوگوں پر حکم لگانا یا نہ لگانا ہو جاتا ہے۔
اصل کام یہ ہے کہ نواقض اسلام سے ڈرانے اور خبردار کرنے کا کام دین کے داعی سب طبقے کریں۔ کوئی بھی دیندار ہو وہ اپنے گرد نواقض اسلام کا ارتکاب ہوتا دیکھے تو اس پر اپنے آپ کو چیلنج ہوتا ہوا پائے اور ان کو ختم کرنے پر اپنی پوری توانائی صرف کردے۔
مراد یہ ہے کہ نواقض اسلام کی سنگینی کو دعوت کا ایک موضوع بنانا ’فتوے‘ لگائے بغیر بھی ممکن ہے اور ہماری اس تحریر کی دراصل یہی غایت ہے۔
*****
حکم، ظاہر پر لگایا جاتا ہے نہ کہ پوشیدہ امور پر یہ ”اطلاق“ واضح ہو جانا چاہیے کہ ”اصولِ اہلسنت کی رو سے حکم صرف ظاہر پر لگتا ہے“....
فقہائے اسلام کے ہاں یہ قاعدہ بیان ہوتا ہے:
لَنَا الْحُکْمُ عَلَی الظَّاہِرِ، وَرَبُّنَا یَتَوَلّٰی السَّرَائِرَ
یعنی:ہمارا کام ہے کہ ظاہر پر حکم لگائیں۔ رہ گئے وہ امور جو ہم پر پوشیدہ ہیں، تو اُن کا فیصلہ کرنا ہمارے پروردگار کام ہے۔
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا۔ صبح سویرے ہم نے قبیلہ جہینہ کے ایک گوت ”حرقات“ پر چڑھائی کر دی۔ میں نے (اُن میں سے) ایک آدمی کو جا لیا، تو اُس نے بول دیا: ”نہیں کوئی عبادت کے لائق، مگر اللہ“۔ میں نے نیزہ مار کر (اُس کا کام تمام کر دیا)۔ میرے نفس میں اِس سے خلجان پیدا ہوا تو میں نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کیا، اُس نے لا الٰہ الا اللہ کہا اور تم نے اُسے قتل کر ڈالا؟“ اسامہؓ کہتے ہیں: میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! اُس نے ہتھیار کے ڈر سے یہ الفاظ کہہ دیے تھے۔ آپ نے فرمایا: اَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہ حَتّیٰ تَعْلَمَ اَقَالَہَا اَمْ لَا ”تو تم نے اُس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا کہ یہ کلمہ اُس نے (دل سے) کہا تھا یا نہیں؟“ اسامہؓ کہتے ہیں: نبی ﷺ اپنے یہ الفاظ دہراتے ہی جا رہے تھے، یہاں تک کہ میرا دل چاہا کہ کاش میں آج ہی ایمان لایا ہوتا۔
(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم قتل الکافر بعد أن قال لا الٰہ الا اللہ)
یہ اور اِسی طرح کے اَن گنت شرعی دلائل کی بنیاد پر علمائے اہل سنت کے ہاں یہ ایک قطعی قاعدہ ہے کہ حکم صرف اُس چیز پر لگایا جائے گا جو ایک آدمی سے ظاہر ہو۔ رہ گیا دلوں کا معاملہ اور وہ امور جو ہم پر ظاہر نہیں، تو یہ مسئلہ اللہ کے سپرد کر رکھا جائے گا اور ہرگز ہرگز اپنے ہاتھ میں نہ لیا جائے گا۔ کوئی شخص کتنا بڑا نفاق اپنے اندر چھپائے بیٹھا ہے، یہ دیکھنا اور اِسکا فیصلہ کرنا اللہ رب العزت کا کام ہے۔
یہ بات بالکل حق ہے۔ دلوں کو ٹٹولنا یا کسی شخص کے باطن کے پیچھے جانا انسانوں کا اختیار ہے اور نہ انسان اس بات کے مجاز۔ مگر اس حوالے سے یہ بات سمجھ لی جانا ضروری ہے کہ ”ظاہر“ ہم کہتے کسے ہیں؟ کسی کا لا الہ الا اللہ پڑھنا ”ظاہر“ ہے۔ ہم اسی پر حکم لگانے کے پابند ہیں۔ پس ایک کلمہ گو کو مسلمان ماننا ہم پر لازم ہے۔ البتہ جس طرح کسی کا کلمہ پڑھنا ایک ”ظاہر“ ہے جس پر ہم انسان حکم لگاتے ہیں.... بعینہ اسی طرح کسی کا نواقضِ اسلام کا مرتکب ہونا بھی ایک ”ظاہر“ ہے جس پر ہم انسان حکم لگاسکتے ہیں۔ مثلاً کسی کا شرک کرنا، جادو کے اعمال کرنا، رسول اللہ ﷺ کی شریعت پر کسی اور حکم یا قانون کو ترجیح دینا.. ایسے افعال کی بنا پر کسی شخص پہ حکم لگانا در اصل ”ظاہر“ پر ہی حکم لگانا ہے۔
چنانچہ واجب ہو گا کہ ہر ”کلمہ گو“ کو مسلمان سمجھتے ہوئے اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ رکھا جائے اور جب تک اسلام سے خارج کر دینے والا کوئی قول یا عمل واضح اور ظاہر طور پر اس سے سرزد نہ ہو، کسی ظن اور قیاس آرائی کی بنا پر اسے کافرنہ کہا جائے۔ کیونکہ ایسی صورت میں کفر کا فتویٰ خود لگانے والے پر پلٹ آئے گا۔ مسلمان بھائی کو کافر کہنے کی ممانعت والی حدیث کا مصداق وہی آدمی ہو سکتا ہے جو نواقض اسلام کا واضح طور پر مرتکب نہ ہو۔ البتہ جب کسی نے نواقضِ ا سلام ہی کا ارتکاب کرلیا تو پھر ’مسلمان بھائی کو کافر کہنے سے ممانعت‘ والی حدیث کے حوالے دیے جانا چہ معنیٰ دارد؟! ورنہ فقہ اسلامی میں مرتد کا باب سرے سے نہ ہوتا کیونکہ ہر آدمی جانتا ہے ارتداد کا حکم غیر کلمہ گو پر نہیں کلمہ گو پر ہی لگتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس صورت میں جو بات احتیاط کی ہو سکتی ہے وہ دو چیزیں ہیں:
1) اس بات کو یقینی بنانا کہ شخص متعلقہ کی بابت موانعِ تکفیر تو نہیں پائے جاتے، مثلاً:
- آدمی کا اپنے فعل کی بابت لا علم ہونا، یا
- کوئی ایسی تاویل رکھنا جس سے اس پر کفر کا حکم ٹل سکے،
- یا پھر کسی اکراہ (زبردستی) کے زیرِ اثر ہونا۔
2) اس بات کو یقینی بنانا کہ کسی شخص کو ، چاہے وہ نواقضِ اسلام کا مرتکب ہو، کافر قرار دیئے جانے کا فتوی معتبر اہلِ علم کے ہاں سے ہی صادر ہو نہ کہ فتوی صادر کرنے کا کام عام لوگ کرنے لگیں۔
یہ دو باتیں چونکہ حد درجہ اہم ہیں، لہٰذا آپ انہیں ہمارے ہاں بکثرت پائیں گے۔
*****
نواقض اسلام کو جاننا ہر کسی کیلئے ضروری ہے
البتہ لوگوں کو کافر قرار دینا عام آدمی کا منصب نہیں:
ہمارے ہاں ایک انتہا یہ ہے کہ کسی بہت ہی ناکافی بنیاد پر اور کوئی بھی شرعی علم رکھے بغیر آدمی دوسرے پر کفر کا یا شرک کا فتویٰ لگائے۔ یہ انتہا بھی ہمارے ہاں بہت پائی جاتی ہے۔
دوسری انتہا یہ ہے کہ خواہ کوئی لاکھ انداز میں اللہ رب العالمین کے ساتھ واضح ترین انداز میں شرک کرے اور نواقض اسلام کا کھلا کھلا ارتکاب کرے اول تو اس پر اسے ٹوکنے اور خدا کی پکڑ سے ڈرانے اور شرک سے روکنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی جائے۔ اور اگر کوئی دوسرا یہ فرض انجام دے تو اس کو بھی خوامخواہ کا تشدد سمجھا جائے۔ پھر اگر کسی پر اس کا شرک پوری طرح واضح کر دیا گیا ہو اور اس کو علم کی بنیاد پر خدا سے ڈرا لیا گیا ہو مگر وہ اپنے اس شرک یا اس کفریہ رویے پر ہی پوری طرح مصر ہو تو بھی نہ صرف اس کو مسلمان ہی سمجھا جائے بلکہ موحد اہل علم کی جانب سے اس کی تکفیر کی جانے کو بلکہ نواقضِ اسلام کے کھلم کھلا ارتکاب پر تکفیر کا سوال ہی اٹھ کھڑا ہوجانے کو ’خارجیت‘ باور کیا جائے! یہ دوسری انتہا بھی ہمارے معاشرے میں خاصی زیادہ پائی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے جو ہم نے کہا ہے کہ اگر ایک شخص کو خواہ جتنا مرضی وہ خدا کے ساتھ شرک اور اس کے خلاف بغاوت کرلے ہر حال میں مسلمان ہی شمار ہونا ہے تو فقہ اسلامی میں مرتد کا باب سرے سے ہوتا ہی کیوں؟ کیا مرتد کا حکم فقہ اسلامی میں ’غیر کلمہ‘ گو پر لگایا جاتا ہے!؟
اِس سلسلہ میں چند امور واضح ہو جانے چاہئیں:
نواقض اسلام سے خبردار ہونا اور خبردار کرنا تو ہر کسی کا کام ہے۔ اس کی سنگینی سے ہر شخص کو واقف ہونا چاہیے۔ نواقض اسلام جب ان باتوں کو کہتے ہیں جو آدمی کو دین سے خارج کر دیں تو پھر ان سے بچنے اور بچانے کا کام ہر کسی کو کرنا ہے۔ عوام الناس میں نواقض اسلام کا علم عام کرنے سے بنیادی طور پر ہماری یہی غرض ہونی چاہیے کہ لوگ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ کی اسیری سے خود بچیں اور مل کر ایک دوسرے کو بچائیں۔
لہٰذا سب سے پہلے تو نواقض اسلام کا جاننا ہر شخص کے اپنے فائدے کیلئے ہے پھر اس کے ساتھ ساتھ جہاں تک ہو سکے وہ اوروں کو نواقضِ اسلام کی بابت اِنذار و خبردار کرے۔ آدمی کسی کو جہنم میں پڑنے سے بچا سکتا ہو تو اس میں ہرگز کوتاہی نہ کرے۔ ایک کم علم سے کم علم آدمی بھی مسلم معاشرے کے اندر ایک کفریہ قول یا کفریہ رویے کو کفر ہی پکارے گا۔
نواقض اسلام سے خود بچنا اور دوسروں کو بچانا .... یہ دو باتیں تو ہر کسی کیلئے ہیں خواہ کوئی عامی ہے یا عالم۔
البتہ ایک تیسری بات ہے اور اس کا تعلق عوام الناس سے نہیں۔ یہ صرف اہل علم کا شعبہ ہے۔ اسی کی طرف ابھی اوپر اشارہ ہوا ہے۔ اور وہ یہ کہ اگر کوئی شخص نواقض اسلام میں سے کسی ایک کا مرتکب ہو رہا ہے تو اس کی بابت کب یہ فیصلہ کیا جائے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا ہے؟ ہاں یہ فیصلہ بہرحال عوام الناس کے کرنے کانہیں نہ تو کسی گروہ کے بارے میں اور نہ کسی فرد کے بارے میں۔ اس کا فیصلہ وہی لوگ کریں گے جو علم اور فقہ پر دسترس رکھتے ہوں۔ ہاں عوام الناس کا اس تیسری بات سے اس حد تک تعلق ضرور ہے کہ اہل علم ایک بار جب کسی شخص یا گروہ پر کوئی حکم لگا دیں تو پھر ضرور وہ بھی (یعنی عوام بھی) اس پر وہ حکم لگائیں، اسی کو معاشرے کے اندر نشر کریں اور اسی پر معاشرے کو مجتمع و یک آواز کرنے کی کوشش۔
تکفیر میں مصالح اور مفاسد کا اعتبار ضروری ہے
موانعِ تکفیر زائل ہو گئے ہیں
تو بھی آپ تکفیر کرنے کے پابند نہیں
ہمارے کچھ جذباتی نوجوان بالعموم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ: چلیں مان لیا یہ تین یا پانچ چیزیں موانع تکفیر ہیں (یعنی آدمی کی تکفیر کرنے میں مانع ہیں): لاعلمی، تاویل، اِکراہ، خطا اور نسیان.... تو اب اگر ہم کسی کفریہ فعل میں ملوث شخص کی بابت یہ دیکھ لیتے ہیں کہ نہ تو وہ لا علم ہے، نہ اُس کے ہاں کوئی ایسی تاویل پائی جاتی ہے جو اُس پر وہ حکم لگانے میں مانع ہوتی ہو، نہ اُس پر وہ کفریہ فعل کروانے کیلئے کسی نے بندوق تان رکھی ہے کہ ہم کہیں وہ کسی اِکراہ کا شکار ہے، نہ وہ خطا (یعنی بغیر قصد) وہ کام کر رہا ہے (بلکہ جانتے بوجھتے ہوئے اور بقائمی ہوش و حواس اُس حرکت کا مرتکب ہو رہا ہے)، اور پھر نہ ہی وہ کسی نسیان کا شکار ہے.... یعنی موانع تکفیر میں سے کوئی ایک بھی مانع اُس شخص کے حق میں نہیں پایا جاتا تو آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اُس شخص کو کافر نہ کہیں؟ یہ نوجوان کسی وقت یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ علماءنے ایسے کسی شخص کو کافر کیوں نہیں کہا؟!
بلاشبہ کسی وقت ہوسکتا ہے کوئی شخص نواقضِ اسلام کا مرتکب بھی ہو اور اس کے حق میں موانعِ تکفیر (یعنی لاعلمی، خطا، تاویل یا اکراہ وغیرہ) بھی نہ پائے جاتے ہوں.... یعنی اصولاً وہ پوری طرح تکفیر کا مستحق ہو، پھر بھی، کسی شرعی مصلحت کے پیشِ نظر یا دفعِ مفسدت کو مد نظر رکھتے ہوئے، اہل علم اس کی تکفیر کے معاملہ میں توقف کئے رکھیں، یعنی اس پر ارتداد کے احکام لاگو نہ کریں اور معاشرے کے اندر ایک مسلمان سمجھا جانے کا اسٹیٹس کسی خاص وقت تک اس سے پھر بھی سلب نہ کریں۔
جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ میں عقیدہ کے استاد اور ایک ممتاز عالم شیخ احمد آل عبد اللطیف اس کی دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں:
”نبوی معاشرے کے اندر منافقین کے کفریہ افعال عمومی طور پر چھپے رہتے تھے، یہ درست ہے، مگر یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ چند خاص منافقین کے کفریہ افعال ریکارڈ پر بھی آگئے تھے۔ منافقین میں سے چند متعین لوگوں کانواقضِ اسلام کا مرتکب ہوناان کے باطن تک محدود نہ رہ گیا تھا کہ جس کا مؤاخذہ صرف اللہ عالم الغیب کی ذات ہی قیامت کے روز جا کر کرے گی، بلکہ ان کے ارتکابِ کفر پر صاف بین شواہد پائے گئے تھے، یہاں تک کہ ان کے ارتکابِ کفر کا پول کھولنے والے صحابہؓ کی گواہی کی تائید میں آیاتِ وحی اتری تھیں۔ مثلاً:
- آیت ”لاَ تَعْتَذِرُواْ قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ“ یعنی ”عذرات مت تراشو، یقینا تم ایمان لے آنے کے بعد کفر کرچکے ہو“ (التوبۃ: 66) خاص متعین لوگوں کی بابت اتری تھی۔
- ”وَلَقَدْ قَالُواْ كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُواْ بَعْدَ إِسْلاَمِهِمْ“ یعنی ”یقینا یہ کفر کی بات بک چکے ہیں اور اپنے اسلام لے آنے کے بعد کفر کر چکے ہیں“ (التوبۃ: 74) بھی کچھ خاص لوگوں کی بابت اتری تھی جن کا کفر طشت ازبام ہو گیا تھا۔
- ”وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُؤُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ“ یعنی ”جب ان سے کہا جائے اؤ، اللہ کا رسول تمہارے لئے استغفار کردے، تو وہ (گھمنڈ سے) اپنے سر موڑ لیں اور تم دیکھو کہ وہ باز رہتے ہیں اس حال میں کہ وہ تکبر کر رہے ہوتے ہیں“ (المنافقون:5)، نیز ”هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنفِقُوا عَلَى مَنْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنفَضُّوا“ یعنی ”یہی ہیں جو کہتے ہیں مت خرچ کرو ان لوگوں پر جو رسول اللہ کے پاس ہیں یہاں تک کہ یہ (آپ کے گرد سے) چھٹ جائیں“ (المنافقون:7)، علاوہ ازیں ”يَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ“ یعنی ”کہتے ہیں، یقینا اگر ہم مدینہ واپس گئے تو جو زیادہ عزت دار ہوگا وہ ذلت دار کو وہاں سے نکال باہر کرے گا“ (المنافقون: 8)....
یہ سب، متعین لوگوں کے معاملہ میں پیش آیا۔ یوں مستند روایات میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں کہ مدینہ کے اندر کچھ کلمہ گو لوگوں کا مرتکبِ کفر ہونا ”باطن“ کے دائرہ سے نکل کر ”ظاہر“ کے دائرہ میں آتا تھا، جبکہ ہم جانتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے کچھ خاص مصالح کے پیش نظر، ان کا کفر واضح اور معاشرتی سطخ پر ان کے قابل مؤاخذہ ہونے کے باوجود، ان لوگوں پر ارتداد کے احکام لاگو نہیں کئے“۔
اِس کے رد میں بعض لوگوں کی جانب سے اگر یہ کہا جائے کہ یہ باتیں نبی ﷺ کو وحی کے ذریعے بتائی گئی تھیں، جبکہ دنیوی احکام لاگو کرنے کیلئے معلومات کے انسانی ذرائع ضروری ہیں، اس لئے نبی ﷺ نے اُن لوگوں کی تکفیر نہ کی تھی۔ یا وہ یہ کہیں کہ منافقین کا اِس بات سے مکرنا کہ انہوں نے ایسی حرکات کی تھیں یا اس پر ایک طرح کا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنا اِس بات پر دلیل ہوئی کہ وہ اپنے اُس کفریہ فعل پر قائم بہرحال نہ رہے تھے لہٰذا اس کو ایک طرح کا ظاہری رجوع باور کرتے ہوئے اُن کی تکفیر سے اجتناب برتا گیا ....
تو ان شبہات کے جواب میں ہم کہیں گے کہ کئی ایک باتیں ایسی بھی ریکارڈ پر ہیں کہ کسی منافق نے کھلم کھلا ایک کفریہ قول یا رویہ ظاہر کیا (اور اُس کو جاننے کیلئے وحی واحد ذریعہ نہ رہا)۔ نیز اپنے اُس کفریہ قول یا رویہ پر اُس کا کوئی معذرت خواہانہ رویہ بھی ہرگز ریکارڈ پر نہیں۔ مثال کے طور پر صحیح بخاری میں عبد اللہ بن اُبی کا یہ رویہ کہ :جب رسول اللہ ﷺ ایک گدھے پر سوار عبد اللہ بن اُبی کے پاس پہنچے تو وہ بے لحاظ بکنے لگا: اِلَیْکَ عَنِّیْ، وَاللّٰہِ لَقَدْ آذَانِیْ نَتْنُ حِمَارِکَ ”پرے ہٹو، واللہ تمہارے گدھے کی سڑاند میرے ناک میں دم کر رہی ہے“۔ تب انصارؓ میں سے ایک صحابیؓ سے نہ رہا گیا اور وہ عبد اللہ بن اُبی کو مخاطب کر کے بولا: وَاللّٰہِ لَحِمَارُ رَسُولِ اللّٰہِ اَطْیَبُ رِیْحاً مِنْکَ ”واللہ! رسول اللہ ﷺ کا گدھا بو میں تم سے کہیں بہتر ہے“۔ تب عبد اللہ بن اُبی کے قبیلے کا ایک آدمی عبد اللہ بن اُبی کیلئے طیش میں آیا اور اُس انصاریؓ کو گالیاں بکنے لگا۔ اِس پر ہر دو کے قبیلے کے لوگ اپنے اپنے آدمی کیلئے بھڑک اٹھے اور دونوں گروہوں کے مابین کھجور کی چھڑیوں، ہاتھوں اور جوتوں سے مار پیٹ ہونے لگی۔
(صحیح البخاری، کتاب الصلح، باب ما جاءفی الاِصلاح بین الناس اِذا تفاسدوا)
غرض بعض افراد سے اِس قسم کے کفریہ افعال اور رویے کھلم کھلا سرزد ہونے کے باوجود ___ بعض شرعی مصالح کے پیش نظر ___ اُن لوگوں کی تکفیر سے احتراز برتا گیا اور دنیوی امور میں اُن کا حکم ایک مسلمان کا سا رکھا گیا۔ یہاں تک کہ ایک علیحدہ نص کے ذریعہ سے جب تک اُن کی نمازِ جنازہ سے نہ روک دیا گیا، آپ نے اُن کا جنازہ پڑھنا تک موقوف نہ کیا۔
مقصد یہ کہ کسی شخص کے حق میں موانع تکفیر اگر زائل بھی ہو گئے ہوں، لیکن کچھ مصالح اہل علم کی نظر میں ایسے ہوں جو اُس کی تکفیر کی بابت سکوت کا تقاضا کریں، یا اُس کی تکفیر کرنے کی صورت میں وہ کچھ مفاسد اٹھ کھڑے ہونے کا اندیشہ محسوس کریں، تو اس صورت میں تکفیر سے احتراز کر رکھنا اُن کے حق میں ایک جائز و شرعی رویہ ہو گا۔ عام لوگوں کو بہرحال اہل علم ہی کے پیچھے چلنا ہے۔
پس اگر کسی وقت شرعی اتھارٹی (جوکہ آج اس وقت علماءہیں) کسی شخص یا گروہ پر نواقض اسلام کے ارتکاب کے باوجود اس کو معین کرکے تکفیر کا حکم عائد کرنے سے محترز رہتے ہیں یا اس کے معاملہ میں، بوجوہ، صرفِ نظر کر رکھتے ہیں، جس کی بنیاد کوئی خاص حفظِ مصالح یا دفعِ مفاسد ہو، جبکہ ان مصالح اور مفاسد کا موازنہ بھی ظاہر ہے اہل علم ہی کرسکتے ہیں، تو یہ بات شرعا غلط نہیں۔
*****
یہ سب امور دین کے داعی طبقوں پرواضح ہو جائیں اور ان کی پابندی ہونے لگے تو افراط اور تفریط کے بہت سے مظاہر ختم یا کم ہو سکیں گے۔ لوگ نواقض اسلام کامطلب ’فتویٰ لگانا یا نہ لگانا‘ لیتے ہیں۔ اس غلط فہمی میں دونوں طبقے شریک ہیں وہ بھی جو نواقض اسلام کے موضوع کو اہمیت اور توجہ دینے میں غلو سے کام لیتے ہیں اور وہ بھی جو نواقض اسلام کے موضوع کو سرے سے توجہ نہیں دیتے۔ چنانچہ دونوں کے مابین اصل جھگڑا اور اصل مسئلہ ’فتوی لگانا یا نہ لگانا‘ بن جاتا ہے۔ رہا اصل کام یعنی اسلام اور کفر کی حدوں کا علم عام کرنا اور مخلوق کو ان سے خبردار کرنا اور معاشرے کے اندر مسلسل اِنذار کا فریضہ سر انجام دینا، تو وہ دونوں نہیں کرتے، الا ما شاءاللہ .... کیونکہ دونوں کا موضوع لوگوں پر حکم لگانا یا نہ لگانا ہو جاتا ہے۔
اصل کام یہ ہے کہ نواقض اسلام سے ڈرانے اور خبردار کرنے کا کام دین کے داعی سب طبقے کریں۔ کوئی بھی دیندار ہو وہ اپنے گرد نواقض اسلام کا ارتکاب ہوتا دیکھے تو اس پر اپنے آپ کو چیلنج ہوتا ہوا پائے اور ان کو ختم کرنے پر اپنی پوری توانائی صرف کردے۔
مراد یہ ہے کہ نواقض اسلام کی سنگینی کو دعوت کا ایک موضوع بنانا ’فتوے‘ لگائے بغیر بھی ممکن ہے اور ہماری اس تحریر کی دراصل یہی غایت ہے۔
*****