ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 594
- ری ایکشن اسکور
- 188
- پوائنٹ
- 77
مسئلہ تدلیس پر امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کی توضیح
از قلم : محمد خبیب احمد
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(✿) امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(①) ’’جس شخص کے بارے میں ہمیں علم ہو جائے کہ اس نے صرف ایک ہی دفعہ تدلیس کی ہے تو اس کا باطن اس کی روایت پر ظاہر ہوگیا۔
(②) اسی لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم مدلس کی حدیث اتنی دیر تک قبول نہیں کرتے، جتنی دیر تک وہ ’’حدثنی‘‘ یا ’’سمعت‘‘ نہ کہے (صراحتِ سماع نہ کرے)۔‘‘
[ الرسالۃ للإمام الشافعي، ص: ۳۷۹،۳۸۰، فقرہ: ۱۰۳۳، ۱۰۳۵ ]
ان کے مذکورہ بالا کلام کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں فرمایا کہ جو راوی صرف ایک ہی بار تدلیس کرے اس کی ہر معنعن روایت قابلِ رد ہوگی۔ گویا ان کے ہاں راوی کے سماع کے تتبع کے لیے تدلیس کا مکرر ہونا یا اس کی مرویات پر تدلیس کا غالب آنا شرط نہیں، بلکہ تدلیس کا ثبوت ہی کافی ہے۔
(✬) حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے بھی امام شافعی رحمہ اللہ کے اس قول کی یہی تعبیر کی ہے۔
[ شرح علل الترمذی، ج:٢، ص:٥٨٢–٥٨٣ ]
مدلس کی ایک ہی بار تدلیس کے حوالے سے حافظ المشرق خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔
[ الکفایۃ للخطیب البغدادي، ج:٢، ص:٣٨٩–٣٩٠ و٣٨٦ ]
امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنے کلام کے دوسرے حصہ میں صراحت فرمائی ہے کہ مدلس راوی کی معنعن روایت قابلِ قبول نہیں ہے۔ یہی موقف متعدد محدثین کا ہے۔ مگر کثیر التدلیس راوی کے بارے میں ہے۔
بعض لوگوں نے حافظ ابن حبان رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف بیان کیا ہے۔ بلاشبہ انھوں نے اسی مسلک کو اپناتے ہوئے صراحت بھی فرمائی ہے کہ یہ امام شافعی رحمہ اللہ اور ہمارے دیگر اساتذہ کا موقف ہے۔
[ مقدمۃ المجروحین لابن حبان، ج:١، ص:٩٢ ]
مگر معلوم ہوتا ہے کہ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ کا یہ موقف مطلق طور پر نہیں ہے، کیونکہ ان کے ہاں جو مدلس صرف ثقہ راوی سے تدلیس کرتا ہے، اس کی روایت سماع کی صراحت کے بغیر بھی قبول کی جائے گی۔
چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
’’ایسا مدلس جس کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ وہ صرف ثقہ ہی سے تدلیس کرتا ہے تو اس کی روایت عدمِ صراحتِ سماع کے باوجود قبول کی جائے گی۔ دنیا میں صرف سفیان بن عیینہ ایسے ہیں، جو ثقہ متقن سے تدلیس کرتے ہیں۔ سفیان بن عیینہ کی کوئی حدیث ایسی نہیں ہے، جس میں وہ تدلیس کریں اور اسی حدیث میں ان کے اپنے جیسے ثقہ راوی سے سماع کی وضاحت موجود ہوتی ہے۔‘‘
[ مقدمۃ صحیح ابن حبان، ج:١، ص:٩٥ ۔الإحسان ]
ان کے اس قول سے اشتباہ ہوتا ہے کہ موصوف کے ہاں جو صرف ثقہ سے تدلیس کرتے ہیں، وہ صرف ابن عیینہ ہیں!
مگر یہ فہم درست نہیں کیونکہ وہ اپنے ہی جیسے ثقہ متقن راوی سے تدلیس کرتے ہیں۔ عام ثقات سے نہیں۔ اور یہ عمومی قاعدہ ہے۔ اس سے وہ روایات مستثنیٰ ہوں گی، جن میں تدلیس پائی جائے گی۔
امام شافعی رحمہ اللہ اور حافظ بغدادی رحمہ اللہ کا مذکورۃ الصدر موقف محلِ نظر ہے، بلکہ جمہور محدثین اور ماہرینِ فن کے خلاف ہے۔
(✪) امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کا جواب:
[①] حافظ زرکشی کا رد:
حافظ بدر الدین الزرکشی رحمہ اللہ ۷۹٤ھ امام شافعی رحمہ اللہ کے اس قول کا تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وھو نص غریب لم یحکمہ الجمھور‘‘
’’یہ انتہائی غریب دلیل ہے، جمہور کا یہ فیصلہ نہیں۔‘‘
[ النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح للزرکشی، ص: ۱۸۸]
[②] شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن السعد (حفظہ اللہ) فرماتے ہیں:
’’یہ کلام صرف نظریات کی حد تک ہے، بلکہ ممکن ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے خود اس پر عمل نہ کیا ہو۔ اپنی اسی کتاب (الرسالۃ) میں متعدد مقامات پر ابن جریج کی معنعن روایت سے احتجاج کیا ہے۔ اس حدیث میں امام شافعی رحمہ اللہ نے ابن جریج کی اپنے شیخ سے صراحتِ سماع ذکر نہیں کی، اسی طرح ابو الزبیر کا معاملہ ہے۔‘‘
[ مقدمۃ منھج المتقدمین في التدلیس، ص:۲۳ ]
[③] دوسرے شیخ ناصر بن حمد الفہد (فک اللہ اسرہ) رقمطراز ہیں:
’’امام شافعی رحمہ اللہ کے اس قول کی موافقت ائمۂ حدیث نہیں کرتے، جیسا کہ امام احمد، ابن مدینی، ابن معین اور فسوی رحمهم الله کا موقف ہے۔ امام شافعی امت کے فقہاء اور علمائے اسلام میں سے ہیں، مگر حدیث کے بارے میں ان کی معرفت ان حفاظ جیسی نہیں ہے۔۔۔ اور اگر ہم امام شافعی رحمہ اللہ کے قول کا اعتبار کریں تو ہمیں بہت سی ایسی صحیح احادیث بھی رد کرنا ہوں گی، جنھیں کسی نے بھی رد نہیں کیا، یہاں تک (کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی موافقت میں) شوافع نے بھی رد نہیں کیں، بلکہ انھوں نے مدلسین کے مراتب بنائے۔‘‘
[ منھج المتقدمین في التدلیس، ص:۱۷۱ ]
[④] شیخ محمد بن طلعت نے ان دونوں شیوخ کی تائید کی ہے۔
[ معجم المدلسین للشیخ محمد طلعت، ص:٢١٦،٢١٨ ]
[⑤] شیخ ابو عبیدہ مشہور بن حسن فرماتے ہیں:
’’جس موقف پر ائمۂ نقد گامزن رہے وہ یہ تھا کہ انھوں نے مشاہیر کی تدلیس کا تتبع کیا۔ اور انھوں نے مسموع اور تدلیس شدہ روایات میں امتیاز کیا، پہلی صورت (مسموع) کو قبول کیا، اگرچہ ان (مدلسین) سے سماع کی صراحت نہ تھی۔ امام شافعی رحمہ اللہ کی عبارت میں بنیاد ہے۔ مگر تطبیقی اعتبار سے وہ مطلق طور پر اختیار نہیں کی جائے گی۔‘‘
[ التعلیق علی الکافي في علوم الحدیث للأردبیلی، ص:۳۸۹ ]
علامہ زرکشی رحمہ اللہ کا تعاقب آپ اوپر پڑھ آئے ہیں کہ انھوں نے امام شافعی رحمہ اللہ کے اس قول کو غریب اور جمہور کے خلاف قرار دیا ہے۔
جس سے معلوم ہوا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف محلِ نظر ہے۔ جس کے دلائل درج ذیل ہیں۔
➀ محدثین کے ہاں تدلیس کی سبھی صورتوں کا حکم یکساں نہیں ہے۔ (دیکھیے، ص:٤٩)
➁ مدلسین کے مختلف طبقات ہیں۔ (دیکھیے، ص:٥١)
➂ محدثین کے ہاں تدلیس کی کمی و زیادتی کا اعتبار کیا جائے گا۔ (دیکھیے، ص:٥٢)
➃ ثقہ اور ضعیف راویوں سے تدلیس کرنے کا حکم یکساں نہیں ہے۔ (دیکھیے، ص:٧١)
➄ مدلس راوی کسی ایسے شخص سے عنعنہ سے بیان کرے، جس سے اس کی رفاقت معروف ہو تو اس کے عنعنہ کو سماع پر محمول کیا جائے گا۔ (دیکھیے، ص:٧٢)
➅ جو مدلس مخصوص اساتذہ سے تدلیس کرے تو اس کی باقی شیوخ سے معنعن روایت سماع پر محمول کی جائے گی۔ (دیکھیے، ص:٧٧)