• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ تکفیر کچھ ضروری گزارشات

اہل سلف

مبتدی
شمولیت
جولائی 04، 2011
پیغامات
33
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
0
1۔مخصوص، استثنائی اور ناگزیر حالات میں تکفیر ایک شرعی حکم ہے لیکن عام حالات میں تکفیر کی عمومی تحریکیں چلانا ایک تخریبی عمل ہے نہ کہ تعمیری۔ بلاشبہ 'نقض توحید کفر وشرک ہے' لیکن ہر ناقض توحید کو کافر ومشرک حقیقی بنا دینا دین اسلام کے ساتھ ظلم عظیم ہے۔
2۔ اگر ہر ناقض توحید کافر ومشرک حقیقی ہوتا تو سلفیہ کے نزدیک توحید اسماء وصفات کے ناقض معتزلہ، اشاعرہ یعنی شافعیہ اور مالکیہ، ماتریدیہ یعنی حنفیہ کافر ومشرک حقیقی قرار پاتے۔ اگر ہر ناقض توحید کافر ہوتا تو سلفیہ کے نزدیک توحید الوہیت کے ناقض بریلوی اور وحدت الوجود کے قائل صوفیااور ان کے سلاسل اربعہ ، دیوبندی مکتبہ فکر میں وحدت الوجود کے قائل دیوبندی علماء کافر قرار پاتے۔اگر ہر ناقض توحید کافر ہوتا توسلفیہ کے نزدیک توحید حاکمیت کے ناقض مسلمان حکمران، ان کی اسمبلیاں، ان اسمبلیوں کو منتخب کرنے والے عوام، ان کی عدالتیں اور ان عدالتوں میں مقدمات کا دفاع کرنے والے وکلا، ان وکلا کو تعلیم دینے والے کالجز اور یونیورسٹیاں، ان کالجز اور یونیورسٹیوں میں لاء کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبااور تعلیم دینے والے اساتذہ، ان عدالتوں سے فیصلہ کروانے والے عوام بھی 'تحاکم الی الطاغوت' کے تحت کافر قرار پاتے ہیں۔اگر ناقض توحید کافر ومشرک حقیقی ہے تو سلفیہ کے نزدیک 'اتخذوا أحبارھم ورھبانھم أربابا من دون اللہ' کے تحت توحید ربوبیت کے ناقض مقلدین یعنی حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کافر ومشرک حقیقی قرار پاتے ہیں۔
3۔۔'نقض توحید' کا قاعدہ تو بعد کی بات ہے لوگوں کو اگر کافر بنانا ہی مقصود ہے تو 'تارک صلوة' کے کافر حقیقی ہونے کے بارے کبار سعودی سلفی علماء کا فتوی ہی کافی ہے۔٩٨ فی صد عوام بے نماز ہونے کی وجہ سے ویسے ہی کافر وہ جائے گی لہذا لوگوں کو کافر بنانے کے لیے کسی توحید حاکمیت وغیرہ کے اصول کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔
4۔علمی دیانت کاتقاضا یہ ہے کہ جو سلفی توحید حاکمیت کی بنا پر حکمرانوں کی تکفیر کے قائل ہیں انہیں تکفیر کی ان تمام صورتوں میں یکساں طور پر تکفیر کا حکم لگانا چاہیے اور حکمرانوں کے ساتھ عوام اور مقلدین کی بھی تکفیر کرنی چاہیے اور شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی طرح ان بریلویوں، دیوبندیوں، مقلدوں، وجودیوں، صوفیوں، اشاعرة ، ماتریدیہ اور طاغوتوں کو مباح الدم قرار دیتے ہوئے ان سب سے قتال کرنا چاہے تاکہ ان کی اپنے نظریہ توحید میں صداقت واضح ہو سکے ۔اور غور کریں تو 'جماعة المسلمین' نے یہی تو کام کیا ہے اور آج یہی'جماعت المسلین' چار دھڑوں میں بٹ گئی ہے اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کی تکفیر کر رہاہے۔یہی حال اس وقت عالم عرب اور یورپ میں سلفیہ کا بھی ہے۔توحید حاکمیت کی بنیاد پر حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے مسئلے میں سلفیہ کے تین گروپس بنے اور یہ تینوں سلفی گروپس ایک دوسرے کی بھی تکفیر کر رہے ہیں اور بڑے بڑے سلفی محققین ما شاء اللہ تکفیر کی یہ دینی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزار رحمہ اللہ نے کیا خوبصورت بات کی تھی کہ ١٤ صدیوں میں ہم نے اتنے مسلمان نہیں بنائے جتنے اس ایک صدی میں کافر بنا دیے ہیں۔یہ وصف ہمارے لیے فخر کا باعث ہے یا ندامت وشرمندگی کا؟ اس کا فیصلہ ہم میں سے ہر ایک نے خود کرنا ہے۔یعنی اللہ تعالی مجھ سے قیامت کے دن یہ سوال کرے کہ میرے بندے دنیا میں میرے دین کی کیا خدمت کی ہے؟ تو میں جواب دوں:یا اللہ!تیرے اتنے بندوں کو کافر بنا کے آیا ہے!!!
5۔ہمارے خیال میں فی زمانہ تکفیر سے زیادہ معاشرے کی اصلاح کے لیے دعوت اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ضرورت ہے جبکہ حکمرانوں کے ظلم وستم کے خلاف پرامن آئینی، قانونی، تحریکی ،انقلابی اور احتجاجی جدوجہدکی ضرورت ہے۔علاوہ ازیں اس دعوت اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی میں ظلم کو ظلم ،فسق کو فسق، کفر کو کفر اور شرک کو شرکہر حال میں کہنا چاہیے اور اس پر کوئی مداہنت نہ ہو۔ اسی طرح اپنی دعوت میں زور اور تاکید پیدا کرنے کے لیے کفر اور شرک کے مرتکبین کو مجازاً کافر اور مشرک کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ ہم کسی کو اپنی زبان میں 'بے ایمان' کہہ دیتے ہیں حالانکہ 'بے ایمان' کہنے سے ہماری مراد اس کی تکفیر ہر گز نہیں ہوتی ہے۔جہاں تک ایسی تکفیر کا معاملہ ہے کہ جس کے ذریعے کسی مسلمان فرد یا جماعت کو دائرہ اسلام سے خارج کرنا مقصود ہو توایسی تکفیر راقم کی رائے میں اسی صورت درست ہے جبکہ مختلف مکاتب فکر کے علماء کا اس تکفیر پر اتفاق ہو جائے۔
6۔باقی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تکفیر کی ہے لیکن آج کس کے پاس ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسا علم وبصیرت یافہم وفقاہت یا تقوی وتدین یا حکمت وفراست ہے؟ اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تکفیر بھی کوئی عمومی تکفیر نہیں تھی بلکہ انہوں نے بھی اصلاً کفریہ وشرکیہ افکار ونظریات کا کفر وشرک واضح کیا ہے اور اس کی وضاحت میں چند ایک افراد پر فتوی بھی لگا دیا۔اہل سنت کے اس امام کے بارے ان کے سلفی متبعین میں سے بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ وہ کسی آیت مبارکہ کی تفسیر یا اہم رائے کے اظہار سے پہلے سینکڑوں کتب کا مطالعہ کرتے تھے اور اگرپھر بھی دل مطمئن نہ ہوتا تو صرف اسی پر اکتفا نہیں بلکہ دمشق کی ویران مساجد کی مٹی میں اپنے گالوں کو رلا دیتے تھے۔ فجر کی نماز سے طلوع آفتاب تک سورة فاتحہ کی تکرار کے ذریعے صراط مستقیم کے طلب گار رہتے ۔ یاحی یا قیوم کہنے پر ان کی روح وجد میں آ جاتی اور اپنی جنت اپنے سینے میں لیے پھرتے تھے۔آج ایسا خوف خدا یا تقوی وتدین کس مفتی کے پاس ہے؟
7۔باقی رہی قرآن وسنت کی نصوص، تو ان میں کسی متعین شخص یا جماعت کی تکفیر نہیں کی گئی ہے بلکہ ان میں اطلاق ہے اور ان نصوصکی تطبیق (application) کر کے ہی کسی شخص یا جماعت کی تکفیر ممکن ہے اور قرآن وسنت کی نصوص کاتطبیق کا نام ہی' اجتہاد' ہے اور اجتہاد سے حاصل شدہ علم ظنی ہوتا ہے الا یہ کہ اس اجتہاد پر اجماع ہو جائے۔ آج اگر کوئی علم وفضل اور تقوی وللہیت میں ان جیسا ہے تو اسے تکفیر کر لینی چاہیے۔ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ جس مسلمان معاشرے میں اصلاح باطن ، تزکیہ نفس، دعوت الی اللہ اورامربالمعروف ونہی عن المنکرکا کام نبوی اخلاص،جذبے،منہج، ایثار وقربانی اور محنت و مشقت کے ساتھ ہو رہا ہو اس معاشرے میں تکفیر کی کبھی سوچ اور خیال بھی پیدا نہیں ہو سکتا ہے۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے کہا تھا:
ان أریدا لا الاصلاح ما استطعت۔
میرا مقصود صرف اور اصلاح ہے جس قدر میں اس کی استطاعت رکھتا ہوں۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
مختصر مگر جامع۔ بہت ہی خوب تجزیہ ہے۔
معلوم نہیں اتنا عرصہ اس پوسٹ پر تبصرہ ہونے سے کیسے رہ گیا۔ اللہم زدفزد۔
 
Top