makki pakistani
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 25، 2011
- پیغامات
- 1,323
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 282
مسئلہ میلاد اسلام کی نظر میں
تالیف: فضیلۃ الشیخ ابی بکر جابر الجزائری حفظہ اللہ
مترجم: سیّد محمد غیاث الدین مظاہری
نظر ثانی: شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنی
ناشر: شعبہ مطبوعات ونشر وزارت کے زیر نگرانی طبع شُدہ ریاض , سعودی عرب
پیش لفظ
الحمد للہ وحدہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ وعلی آلہ وصحبہ ومن والاہ أمابعد:
بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام وتعظیم کی وجہ سے میلاد نبوی کے موضوع پر لکھنے میں مجھے بہت تردّد رہا ,لیکن جب اس سلسلہ میں مسلمان ایک دوسرے کو کا فر بنانے لگے اور باہم لعنت کرنے لگے تو میں یہ رسالہ لکھنے کےلئے مجبور ہوگیا کہ شاید یہ اس فتنہ کی روک تھام کرسکے جو ہر سال ابھارا جاتا ہے اور جس میں کچہ مسلمان ہلاک وبرباد ہوتے ہیں ,ولا حول ولا قوۃ إلا باللہ.
میں نے ماہ میلاد ربیع الأول سے متعلق کچہ پہلے بی –بی سی لندن کے نشریہ سے یہ خبر سنی کہ سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیر ابن بازحفظہ اللہ ان لوگوں کو کافر قرار دیتے ہیں جو میلا د نبوی کی محفل کریں, اس خبر نے عالمِ اسلام کو غیظ وغضب سے بھر دیا,میں یہ جھوٹی اور خوفناک خبر سن کرحیرت میں پڑگیا , کیونکہ حضرت مفتی صاحب (حضرت مفتی شیخ عبد العزیز بن بازرحمہ اللہ نے بدعت مولود کے ردذ و انکار میں کئی مضامین لکھے ہیں , لیکن کہیں بھی مولود کرنے والوں کو کا فر نہیں کہا ہے .بی –بی- سی لندن کی خبر محض جھوٹ اور افواہ ہے , جو فتنہ پھیلانے کے لئے گھڑی گئی ہے ورنہ تو مفتی صاحب کی تحریریں موجود ہیں انہیں دیکھا جا سکتا ہے) کا جو قول مشہور ومعروف ہے وہ یہ ہے کہ میلاد بدعت ہے اور وہ اس سے منع فرماتے ہیں , جو شخص میلاد کی یاد گار منائے یا اس کی محفل قائم کرے وہ اس کی تکفیر نہیں کرتے ,غالباً یہ ان رافضیوں کا مکروکید ہے جو مملکت سعودیہ سے بغض وحسد رکھتے ہیں کیونکہ وہاں بدعت وخرافات اور شرک وگمراہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے.
بہر حال معاملہ اہم ہے اور اہل علم پر لازم ہے کہ وہ اس اہم مسئلہ کے متعلق حق بات کو واضح کریں , جس سے یہ نوبت پہنچ گئی ہےکہ مسلمان باہم ایک دوسرے سے بغض رکھنے لگے ہیں اور ایک دوسرے پر لعنت کرتے ہیں , کتنے لوگ ازراہ خیرخواہی مجھ سے کہتے ہیں کہ :فلاں شخص کہتا ہے کہ میں فلاں شخص سے بغض رکھتا ہوں ,کیونکہ وہ محفل مولود کا منکرہے , محھے اس کی اس بات سے تعجب ہوتا ہے
میں کہتا ہوں کہ جو شخص بدعت کا انکار کرے اور اس کو ترک کرنے کو کہے’ کیا مسلمان اس کو دشمن بنا لیتے ہیں ؟ انہیں تو لازم تھا کہ اس سے محبت کرتے نہ یہ کہ اس سے بغض کرتے ‘ اور ستم بالائے ستم یہ کہ مسلمانوں کے درمیان اس کی اشاعت کی جاتی ہے کہ جو لوگ مولود کی بدعت کا انکار کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھتے ہیںاور آپ سے محبت نہیں کرتے ‘ حالانکہ یہ بدتریں جرم اور گناہ ہے جو کسی ایسے بندہ سے کیسے ہوسکتا ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو ؟کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھنا یا آپ سے محبت نہ کرنا کھلا ہو کفر ہے ‘ ایسے شخص کو اسلام سے ذرا بھی نستب باقی نہیں رہ جاتی ‘ والعیاذ باللہ.
آخر میں یہ عرض ہےکہ انہیں اسباب کی بناء پر میں نے یہ رسالہ لکھا تاکہ ایک اعتبار سے تو وہ ذمہ داری ادا ہوجائے جو حق کے واضح کرنے کی عائد ہوتی ہے اوردوسری میری یہ خواہش بھی تھی کہ ہر سال ابھرنے اوراسلام کی آزمائش میں اضافہ کرنے والے اس فتنہ کی روک تھام ہو- واللہ المستعان وعلیہ التکلان .
ایک اہم علمی مقدمہ
شریعت اسلامیہ میں میلاد نبوی کا حکم معلوم کرنے کے لئے جو شخص اس رسالہ کا مطالعہ کرے میں اسے انتہائی خیرخواہی کے ساتہ یہ کہتا ہوں کہ وہ اس مقدمہ کو بہت ہی توجہ کے ساتھ کئی مرتبہ ضرور پڑھ لے یہاں تک کہ اس کو خوب اچھی طرح سمجہ لے ‘ اگرچہ اس کو دس مرتبہ ہی کیوں نہ پڑھنا پڑے ‘ اور اگرنہ سمجہ میں آئے تو کسی عالم سے خوب سمجہ کر پڑھ لے تاکہ کوئی غلطی نہ رہ جائے ‘ کیونکہ اس مقدمہ کا سمجھنا صرف مسئلہ مولود کے لئے ہی نہیں مفید ہے بککہ یہ بہت سے دینی مسائل میں مفید ہے .جس میں لوگ عام طور سے اختلافات کرتے رہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے یا سنت ‘ اور اگر بدعت ہے تو بدعت ضلالت ہے یا بدعت حسنہ ؟
میں ان شاء اللہ قارئین کے سامنے تفصیل سے بیان کروں گا اور اشارات کو قریب کروں گا . اورمثالوں سے وضاحت کروں گا ‘ اور معنی ومراد کو قریب لانے کی کوشش کروں گا ‘ تا کہ قاری اس مقدمہ کو سمجھ لے ‘ جو پیچیدہ اختلافی مسائل کے سمجھنے کے کلید ہے کہ آیا وہ دین وسنت ہیں جو قابل عمل ہیں یا گمراہی اوربدعت ہے جس کا ترک کرنا اور جس سے دور رہنا ضروری اور واجب ہے-
اب اللہ کانا م لے کر یہ کہتا ہوں کہ اے میرے مسلمان بھائی! تمہیں معلوم ہونا چاھئے کہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنا کر مبعوث فرمایا اور ان پر لوگوں کی ہدایت اوراصلاح کے لئے اپنی کتا ب قرآن کریم نازل فرمائی تاکہ لوگ اس سے ہدایت یاب ہو کر دنیا وآخرت میں کامیابی وسعادت حاصل کریں ‘ جیساکہ اللہ نے ارشاد فرمایا :
’’ اے لوگو! یقیناً تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل آچکی ہے اور ہم نے تمہارے پاس ایک صاف نور بھیجا ہے ‘ سو جولوگ اللہ پر ایمان لائے ‘ اور انہوں نے اللہ کو مضبوط پکڑا ‘ سو ایسوں کو اللہ اپنی رحمت میں داخل کریں گے ‘اور اپنے فضل میں ‘ اور اپنے تک ان کو سیدھا راستہ بتلا دیں گے۔‘‘ [ النساء] (بہت سے مفسرین کے نزدیک آیت میں "برهان "سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ‘ اور "نور" سے مراد قرآن کریم ہے)
اس سے معلوم ہوا کہ لوگوں کی ہدایت اور اصلاح جس سے روح میں کمال اور اخلاق میں حُسن وفضیلت حاصل ہو اس وحی الہی کے بغیر نہیں ہوسکتی جو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں جلوہ گر ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالى أحکام کی وحی فرماتے ہیں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تبلیغ فرماتے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی کیفیت بیان فرماتے ہیں اور اہل ایمان اس پر عمل کرتے ہیں ‘ اور اس طرح وہ کمال وسعادت کی نعمت سے ہم کنار ہوتےہیں –
اے معززقاری! ہم قسم کھا کرکہتے ہیں کہ ہدایت اور اصلاح کے بعد اس راستہ کے سوا کوئی اور راستہ کمال وسعادت کے حصول کا نہیں ہے ‘ اور وہ راستہ ہے وحی الہی پر عمل کرنا جوکتاب وسنت میں موجود ہے
محترم قارئیں !اس کا رازیہ ہے کہ اللہ تعالى سارے جہاں کا رب ہے ‘یعنی ان کا خالق ومربی اور ان کے تما م معا ملات کی تدبیر وانتظام کرنے والا اور انکا مالک ہے ‘ سارے لوگ اپنے وجود میں اوراپنی پیدائش میں ‘ اپنے رزق وامداد میں اور تربیت وہدایت اور اصلاج میں دونوں جہاں کی زندگی کی تکمیل وسعادت کے لئے اس کے محتا ج محض ہیں ‘ اللہ تعالى نے تخلیق کے کچہ قوانین مقرر فرمائے ہیں ‘ انہی قوانین کے مطابق وہ انجام پاتی ہے اور وہ قانوں ہے نر اورمادہ کے باہم اختلاط کا ‘ اسی طرح اللہ تعالى نے مخلوق کی ہدایت اوراصلاح کا بھی قانون مقرر فرمادیا ہے اور جس طرح تخلیق کا عمل بغیر اس کے قانون کے نہیں انجام پاسکتا جو لوگوں میں جاری ہے اسی طرح ہدایت اور اصلاح کا کام بھی اللہ تعالى کے قانون کے مطابق ہی انجام پاتا ہے اور وہ قانون ہے ان احکام وتعلیمات پر عمل کرنا جو اللہ تعالى نے اپنی کتاب میں اور اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر مشروع فرمادیا ہے ‘اور ان کو اس طریقہ کے مطابق نافذ اور جاری کرنا جو طریقہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے . اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ کوئی بھی ایسی ہدایت یا سعادت یا کمال جو اللہ تعالى کے مشروع کئے ہوئے طریق کے علاوہ کسی اور طریق سے آئے کسی بھی حال میں قابل قبول نہیں ہے .
تم باطل دین والوں کو مثلاً یہودونصارى اورمجوسیوں وغیرہ کو دیکھتے ہو تو کیا یہ سب راہ ہدایت پاگئے ہیں یاکمال وسعادت سے حصہ پا چکے ہیں ؟ہرگز نہیں اور وجہ ظاہر ہے کہ یہ سب اللہ تعالى کےنازل کئے ہوئے طریقے نہیں ہیں’اسی طرح ہم ان قوانین کو دیکھتے ہیں جن کو انسانوں نے عدل وانصاف کے حصول ‘ لوگوں کے مال وجان ‘ ان کی عزت وآبرو کی حفاظت اوران کے اخلاق کی تکمیل کے لئے بنائے ہیں ‘کیا یہ قوانین جس مقصد کے لئے بنائے گئے تھے وہ مقصد حاصل ہوئے ؟جواب یہ ہے کہ نہیں ‘ کیونکہ زمین جرائم اورہلاکت خیزیوں سے بھری ہوئی ہے ‘ اسی طرح امت اسلامیہ کے اندر اہل بدعت کو دیکھتے ہیں ‘ بدعتیوں میں بھی زیادہ پست اور گھٹیا درجہ کے لوگ ہیں ‘ نیز اسی طرح اور بھی اکثرمسلمانوں کو دیکھتے ہیں کہ جب وہ اللہ کے بنائے ہوئے قانون سے ہٹ کر انسان کے بنائے ہوئے قانوں کی طرف مائل ہوئے تو ان کے اندر اختلاف پیدا ہوگیا ‘ان کا مرتبہ گھٹ گیا اوروہ ذلیل ورسوا ہوگئے ‘اور اس کا سبب یہی ہے کہ یہ لوگ وحی الہی کو چھوڑکردوسرے طریقوں پر عمل کرتے ہیں غور سے سنو اور دیکھو کہ اللہ تعالى شریعت اسلامیہ کے علاوہ ہر قانون وشریعت کی کیسی مذمت فرمارہے ہیں .ارشاد باری تعالى ہے : {أَمْ لَهُمْ شُرَكَاء شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ} (21) سورة الشورى]
"کیا ان لوگوں نے ایسے اللہ کے شریک مقرر کر رکھے ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کردئیے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں اگر فیصلے کے دن کا وعدہ نہ ہوتا تو ابھی ہی ان میں فیصلہ کردیا جاتا’ یقیناً ان ظالموں کے لئے ہی دردناک عذاب ہے "
اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ (من أحدث فی أمرنا ھذا مالیس منہ فہوردّ)" جس نے ہمارے اس امر(دین) میں کوئی ایسی بات نکالی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے (یعنی مقبول نہیں ہے " اور فرمایا ( من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فہو ردّ) (مسلم)" اور جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے تو وہ رد ہے یعنی مقبول نہیں ہے ". اور اس پر اس کو کوئی ثواب نہیں ملے گا ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالى نے جس امر کو مشروع نہیں فرمایا ہے وہ عمل نفس کے تزکیہ وتطہیر میں مؤثر نہیں ہوسکتا ‘کیونکہ وہ تطہیروتزکیہ کے اس مادہ سے خالی ہے جو اللہ تعالى نے ان اعمال میں پیدا فرمایا ہے ‘ جن کو مشروع کیا ہے اور جن کے کرنے کی اجازت عطا فرمائی ہے
دیکھو اللہ تعالى نے اناج’ پھلوں اور گوشت کے اندر کس طرح غذائیت کا مادہ پیدا فرمادیا ہے ‘ لہذا ان کے کھانے سے جسم کو غذا ملتی ہے جس سے جسم کی نشوونما ہوتی ہے اور قوت کی حفاظت ہوتی ہے اور مٹی لکڑی اور ہڈی کو دیکھو کہ اللہ تعالی نے ان کو غذائیت کے مادہ سے خالی رکھا ہے .اسلئے یہ غذائیت نہیں پہنچا تیں ‘اس سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ بدعت پر عمل کرنا ایسا ہی ہے جیسے مٹی ‘ ایندھن اور لکڑی سے غذائیت حاصل کرنا ‘ اگر ان چیزوں کا کھانے والا غذائیت حاصل نہیں کرسکتا تو بدعت پر عمل کرنے والے کی روح بھی پاک وصاف نہیں ہوسکتی اس بناء پر ہر ایسا عمل جس کے ذریعہ اللہ تعالى کے تقرب کی نیت کی جائے تاکہ شقاوت ونقصان سے نجات و کمال اورسعادت حاصل ہو ‘ سب سے پہلے ان اعمال میں سے ہونا چاہئے جن کو اللہ تعالى نے اپنی کتاب میں اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر مشروع فرمایا ہے اور دوسری بات یہ کہ وہ اسی طریقہ سے اداکیا جائے جس طریقہ سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا فرمایا ہے ‘ اس میں اس کی کمیت کی رعایت اس طرح ہو کہ اس کی تعداد میں زیادتی ہو اور نہ کمی ‘ اور کیفیت کی رعایت اس طرح ہو کہ اس کے کسی جزء کو کسی جزءپر مقدم ومؤخرنہ کیا جائے ‘اور وقت کی رعایت اسطرح ہو کہ وقت غیرمعینہ میں اس کو نہ کرےاورجگہ کی بھی رعایت ہو کہ جس جگہ کو شریعت نے مقرر کردیا ہے اس کے علاوہ اسکو دوسری جگہ ادانہ کرے ‘ اور کرنے والا اس سے اللہ کی اطاعت وفرمابرداری اوراس کی رضا وخوشنودی اور قرب کے حصول کی نیت کرے اسلئے کہ ان شروط میں سے کسی ایک کے نہ پائے جانے سے وہ عمل باطل ہوجائے گا ‘وہ شروط یہی ہیں کہ وہ عمل مشروع ہو اور اس کو اسی طریقہ سے ادا کرے جس طریقہ سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اداکیا ہے اور اس سے صرف اللہ تعالی کی رضامندی کی نیت رکھے کہ غیر اللہ کی طرف توجہ اور التفات نہ کرے ‘ اورجب عمل باطل ہو جائے گا تو وہ نفس کے تزکیہ اور تطہیر میں مؤثر نہیں ہو گا ‘ بلکہ ممکن ہے کہ اس کی گندگی اور نجاست کا سبب بن جائے ‘ مجھے مہلت دیجئے تو میں یہ حقیقت ذیل کی مثالوں سے واضح کردوں :
1-نماز :
كتاب الله سے اس کی مشروعیت ثابت ہے ‘ اللہ تعالى کا ارشاد ہے:" پس نماز کو قاعدہ کے مطابق پڑھو ‘یقیناًنماز مومنوں پرمقررہ وقتتوں پر فرض ہے"(النساء)
اور سنت سے بھی ثابت ہے ‘رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " خمس صلوات کتبھن اللہ "الحدیث (رواہ مالک)"پانچ نمازیں ہیں اللہ نے انھیں فرض کیا ہے " اب غور کرو کہ کیا بندہ کے لئے یہ کافی ہے کہ جس طرح چاہے اور جب چاہے اور جس وقت چاہے اور جس جگہ چاہے نماز پڑھ لے ؟جواب یہ ہے کہ نہیں :بلكہ دوسری حیثیتوں یعنی تعداد وکیفیت اور وقت وجگہ کی رعایت بھی ضروری ہے ‘لہذا اگر مغرب میں جان بوجہ کر ایک رکعت کا اضافہ کرکے چار رکعت پڑھ لے تو نماز باطل ہوجائے گی ‘ اور فجر کی نماز میں ایک رکعت کم کرکے ایک ہی رکعت پڑھے تو وہ بھی صحیح نہیں ‘ اور اسی طرح اگر کیفیت کی رعایت نہ کرے کہ ایک رکن کو دوسرے رکن پرمقدم کردے تو بھی صحیح نہیں ‘ اور اسی طرح وقت اور جگہ کا بھی حال ہے کہ اگر مغرب غروب آفتاب سے پہلے پڑھ لے’ یاظہر زوال سے پہلے پڑھ لے تو نماز صحیح نہ ہوگی ‘ اسی طرح اگر مذبح یا کوڑی خانہ میں نماز پڑھےتو بھی نماز صحیح نہ ہوگی ‘ کیونکہ اس کے لئے جیسی جگہ شرط ہے یہ ویسی جگہ نہیں ہے
2-حج:
اس کی بھی مشروعیت کتاب وسنت دونوں سے ثابت ہے اللہ تعالى کا ارشاد ہے: "اللہ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راہ پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کردیاہے اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالى (اس سے بلکہ) تما م دنیا سے بے پرواہ ہے" (آل عمران) اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ "اے لوگو! اللہ نے تمہارے اوپر حج فرض کیا ہے پس تم حج کرو"(رواہ مسلم)
اب یہ دیکھوکہ کیا بندہ کو یہ حق ہے کہ جس طرح چاہے اور جب چاہے حج کرلے ؟یہاں بھی جواب نہیں میں ہے ‘ بلکہ اس کے ذمہ لازم ہے کہ چاروں حیثیتوں کی رعایت کرے ورنہ تو اسکا حج صحیح نہ ہوگا ‘یعنی کمیت (مقدار) کی ‘ پس طواف اور سعی میں شوط(چکّر) کے عدد کی رعایت کرے ‘ اگر عمداً اس میں کمی یا زیادتی کی تو وہ فاسد ہوجائگا ‘ اور کیفیت کی رعایت کرے ‘ چنانچہ اگر طواف احرام سے پہلے کرلیا’ یا سعی طواف سے پہلے کرلی تو حج صحیح نہ ہوگا ‘ اور وقت کی رعایت کرے ‘چنانچہ اگر وقوف عرفہ 9ذی الحجہ کے علاوہ کسی اوروقت ہو تو صحیح نہ ہوگا ‘ اور جگہ اورمقام کی رعایت کرے ‘ چنانچہ اگربیت الحرام کے سوا کسی اور جگہ کا طواف کرے یا صفا ومروہ کے علاوہ کسی دوسری دو جگہوں کے درمیان سعی کرے یا عرفہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ وقوف کرے تو حج نہ ہوگا .
3-روزہ:
یہ بھی عبادت مشروعہ ہے ‘اللہ تعالى فرماتا ہے کہ: اے ایمان والو!تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے۔(البقرة) اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :" چاند دیکھ کرروزہ رکھو اورچاند دیکھکر افطار کرو پس اگر بدلی ہوجائے تو شعبان کو تیس دن پوراکرلو"(بخاری ومسلم)
اب کیا بندہ کویہ حق حاصل ہے جس طرح چاہے اورجب چاہے روزہ رکھے ‘ جواب نہیں میں ہے ‘ بلکہ چاروں حیثیتوں کی رعایت ضروری ہے ‘ یعنی کمیت (مقدار) کی ‘پس اگر انتیس یا تیس سے کم رکھے گا تو روزہ صحیح نہ ہوگا ‘ اسی طرح اگر ایک دن یا کئی دن کا اضافہ کرے گا ‘تب بھی صحیح نہ ہوگا کیونکہ اس نے مقدار اورتعداد میں خلل پیدا کردیا اور اللہ تعالى کا ارشاد ہے کہ (ولتکملوا العِدّۃ)"اور تاکہ تم شمار پورا کرو" اسی طرح کیفیت کی رعایت بھی ضروری ہے ‘ اگر اس میں بھی اس نے تقدیم وتاخیر کردی کہ رات میں روزہ رہا اوردن میں افطار کیا تو یہ بھی صحیح نہیں اور زمانہ کی بھی رعایت ضروری ہے ‘ چنانچہ اگر رمضان کے بدلہ شعبان یا شوال میں روزہ رہا تو یہ بھی صحیح نہیں’ اورجگہ اورمکان کی بھی رعایت ضروری ہے اور اس سے مراد وہ شخص ہے ‘ جوروزہ رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو’ لہذا اگر حائضہ یا نفاس والی عورت روزہ رکھے تو اس کا روزہ صحیح نہیں ہوگا –اسی طرح تمام عبادتوں کا حال ہے کہ اسی وقت صحیح اور قبول ہوتی ہیں جب ان کے تمام شرائط کی رعایت کی جائے ‘ اوروہ شرائط یہ ہیں :
1- يہ کہ ان کی مشروعیت وحی الہی سے ہوئی ہو ‘ کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ( من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فہو ردّ)( مسلم) "جس نے کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے دین میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے " یعنی قابل قبول نہیں .
2-یہ کہ اسکو صحیح طور پر اداکرے اورچاروں حیثیات یعنی کمیت ومقدار اور کیفیت یعنی وہ طریقہ جس کے مطابق وہ عبادت اداکی جائے اور زمانہ جواس کے لئے مقرر کیا گیا ہے اورجگہ جو اس کے لئے متعین کی گئی ہے اس کا لحاظ اور اسکی رعایت ہو.
3- اوروہ خالص اللہ تعالى کے لئے ہو اس میں کسی اور کو خواہ وہ کوئی بھی ہو اللہ کا شریک نہ ٹھرائے
اے مسلمان بھائی! اس وجہ سے بدعت باطل اور گمراہی ہے ‘باطل تو اسلئے ہے کہ وہ روح کو پاک نہیں کرتی ‘ کیونکہ وہ اللہ تعالى کی مشروع کی ہوئی نہیں ہے ‘ یعنی اس کے لئے اللہ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہیں ہے ‘ اور ضلالت وگمراہی اس لئے ہے کہ بدعت نے بدعتی کو حق سے جھٹکا دیا اور اس شرعی عمل سے اس کو دور کردیا جو اس کے نفس کا تزکیہ کرتا اورجس پر اس کا پروردگار اس کو جزاوثواب عطا کرتا تنبیہ: برادر مسلم !آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ جو عبادت کتاب وسنت سے مشروع ہے یعنی جس کے لئے اللہ ورسول کا حکم ہے کبھی کبھی اس میں بدعت خواہ اس کی کمیت میں یا اس کی کیفیت یا زمان ومکان مین داخل ہوجاتی ہے ‘ اوروہ اس عبادت کرنے والے کے عمل کو غارت کردیتی ہے اوراس کو ثواب سے محروم کردیتی ہے ‘یہاں پر ہم آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرتے ہیں " ذکراللہ " اللہ کے ذکرکی یہ ایک عبادت ہے جوکتاب وسنت سے مشروع ہے’ اللہ تعالى کا ارشاد ہے ( یآأیہا اللذین آمنوا أذکرواللہ کثیرا) "اے ایمان والو!اللہ کا کثرت سے ذکر کرو" اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ " اس شخص کی مثال جو رب کا ذکر کرتا ہے اور جوذکر نہیں کرتا’زندہ اورمردہ کی مثال ہے "(بخاری)( اور مسلم کے الفاظ یہ ہیں "اس گھر کی مثال جس میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے ‘ اور اس گھر کی مثال جس میں اللہ کا ذکر نہیں کیا جاتا ‘ زندہ اور مردہ کی مثال ہے .)
اور اس کی مشروعیت کے باوجود بہت سے لوگوں کےیہاں اس میں بدعت داخل ہوگئی ہے ‘ اور اس بدعت نے ان کے ذکر کو تباہ کردیا اوران کو اسکے ثمرہ اور فائدہ یعنی تزکیہ نفس ‘ صفائے روح اور اس پر چلنے والے اجروثواب اورخوشنودی الہی سے ان کو محروم کردیا ‘ کیونکہ بعض لوگ غیر مشروع الفاظ سے ذکر کیا کرتے ہیں مثلاً "اسم مفرد" اللہ’اللہ ‘ اللہ’یاضمیر غائب مذکر ھو ‘ھو ‘ھو سے ذکر کرنا ‘ اور بعض لوگ دسیوں مرتبہ حرف نداء کے ساتہ اللہ کا ذکر کرتے ہیں ‘ اوراس سے کچہ سوال ودعا نہیں کرتے ‘ اس طرح جیسے یا لطیف ‘یا لطیف ‘یالطیف اور بعض آلات طرب کے ساتہ ذکر کرتے ہیں ‘اور بعض لوگ الفاظ مشروعہ مثلاً " لاإلہ إلا اللہ " کے ساتھ ہی ذکرکرتے ہیں لیکن جماعت بناکر ایک آواز کرتے ہیں یہ ان چیزوں میں سے ہے کہ جس کو شارع نے نہ خودکیاہے’ نہ اس کے کرنے کا حکم دیا ہے اورنہ اس کی اجازت دی ہے’ ذکر تو ایک فضیلت والی عبادت ہے
لیکن اس کی کمیت اور کیفیت اورہیئت وشکل میں جو بدعت داخل ہوگئی اس کی وجہ سے اس کا کرنے والا اس کے اجروثواب سے محروم ہوگیا ‘
اب آخر میں معززقارئین کے سامنے اس مفید مقدمہ کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے عرض کررہا ہوں کہ :بندہ جس عمل کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے اور اس کی عبادت کرتا ہے تاکہ دنیا میں فضائل نفس کی تکمیل اور اپنے معاملہ کی درستگی کرلینے کے بعد آخرت میں اللہ کے عذاب سے نجات پائے اور اس کے قرب میں دائمی نعمت سے سرفراز ہو’ وہ عمل اورعبادت وہی ہوسکتی ہے جو مشروع ہو ‘ اللہ تعالى نے اپنی کتاب میں جس کا حکم فرمایا ہو’ یا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جس کی ترغیب دی ہو اور یہ کہ مومن اس کو صحیح طریقہ سے ادا کرے اور چاروں حیثیات یعنی کمیت و کیفیت اور زمان ومکان کی رعایت کرے اور ساتہ ہی اس میں اللہ تعالى کے لئے اخلاص بھی ہو’ پس اگر عبادت کی مشروعیت وحی الہی سے ثابت نہیں ہے تو وہ بدعت اور ضلالت ہے’ اور اگر مشروع ہے لیکن اس کی ادائیگی میں خلل اور رخنہ ہے کیونکہ اس میں اس کی چاروں حیثیات کی رعایت نہیں ہے یا اس میں بدعت داخل ہوگئی ہے تو بھی وہ قربت فاسدہ اور عبادت فاسدہ ہے ‘اور اگر اس میں شرک کی آمیزش ہوگئی تو پھر وہ غارت ہوجانے والی اوربالکل باطل عبادت ہے جس سے نہ کوئی راحت پہنچ سکتی ہے’ اور نہ وہ کوئی بلا اور مصیبت دور کرسکتی ہے’ والعیاذ باللہ
سنت اوربدعت کا بیان
بدعت کی تعریف سے پہلے سنت کی تعریف ضروری ہے کیونکہ سنت کا تعلق فعل اور عمل سے ہے اور بدعت کا تعلق ترک سے ہے اور فعل ترک پر مقدم ہوتا ہے ‘نیز سنت کی تعریف سے بدعت کی تعریف بھی بدیہی طور پر معلوم ہوجائے گی
سنت کیا ہے : سنت كے معنی لغت میں "طریقہ متبعہ "(وہ طریقہ جس کی پیروی کی جائے) اس کی جمع "سنن" ہے اور شریعت میں سنت سے مراد وہ اچھے طریقے ہیں جن کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امّت کے لئے اللہ کے حکم سے مشروع فرمائے ہیں . نیز وہ آداب وفضائل جن کی آپ نے ترغیب دی ہے تاکہ ان سے آراستہ ہوکر کمالات وسعادت حاصل ہو’ پس اگر وہ سنت ایسی ہے کہ آپ نے اس کے انجام دینے اور اس کی پابندی کا حکم فرمایا ہے تو وہ ان سنن واجبہ میں سے ہے جن کا ترک کرنا مسلمان کو جائز نہیں ہے ‘ ورنہ تو وہ سنن مستحبہ ہیں جن کے کرنے والے کو ثواب ہوگا اور اس کے ترک کرنے والے کو عقاب نہ ہوگا
یہ بھی جان لینا چاہئے کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے سنت کا ثبوت ہوتا ہے ‘ اسی طرح آپ کے فعل اورتقریر( یعنی آپ کے سامنے کسی نے کوئی فعل کیا اور آپ اس پر خاموش رہے )سے بھی ثابت ہوجاتی ہے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کوئی فعل کیا اور پابندی کے ساتہ اس کو بار بار آپ کرتے رہے تو وہ فعل امت کے لئے سنت ہو جائیگا مگر یہ کہ کسی کو دلیل سے یہ معلوم ہوجائے کہ یہ فعل آپ کی خصوصیات میں سے ہے ‘ مثلاً آپ کا متواتر روزے رکھنا ‘ اور اگر آپ نے صحابہ کے درمیان کوئی چیز دیکھی یا سُنی اور وہ چیز کئی مرتبہ ہوئی اور آپ نے اس کی نکیر نہیں فرمائی تو وہ بھی سنت ہوجائے گی ‘ کیونکہ آپ نے اس کی تقریر اورتثبیت فرمادی ‘ لیکن اگریہ فعل اور دیکھنا اورسننا باربار نہ ہو تو یہ سنت نہ ہوگا کیونکہ "سنت"کا لفظ تکرار سے مشتق ہے اور غالباً وہ "سنّ السکّین" (یعنی چھری کو دھاربنانے والے اوزار پر باربار رکھا یہاں تک کہ وہ دھار والی ہوگئی ) سے ماخوذ ہے .جو کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار کیا اور پھر دوبارہ اسکو نہیں کیا اوروہ فعل سنت نہیں ہوا اسکی مثال یہ ہے کہ آپ نے بغیر کسی عذر سفر یا مرض یا بارش کے ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کی نماز کو جمع کرکے پڑھا ‘اسی لئے یہ تمام مسلمانوں کے نزدیک قابل اتباع سنت نہیں ہے ‘ جو کام آپ کے سامنے ایک مرتبہ کیا گیا اورآپ اس پر خاموش رہے اوراس کو برقرار رکھا ‘ جس کی وجہ سے وہ ایسی سنت نہ قرارپائی جس پر مسلمان عمل کریں ‘ اس کی مثال یہ واقعہ ہے کہ:" ایک عورت نے منت مانی کہ اگر اللہ تعالی نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر سے سلامتی کے ساتہ واپس لایا تو وہ اس خوشی میں اپنے سرپر دف رکھ کر بجائے گی –چنانچہ اس عورت نے ایسا ہی کیا" (ابوداودوترمذی)اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکو نہ روک کراس کو برقرار رکھا لیکن یہ ایک ہی بار ہوا اس لئے یہ عمل سنت نہیں قرار پایا ‘ کیونکہ یہ باربار نہیں ہوا-
اور اسکی مثال کہ جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے باربار کیا ہو اوروہ بلاکسی نکیر کے سنت بن گیا جس پر مسلمان عمل کرتے ہیں وہ فرض نماز کے بعد صف کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا چہرہ کرکے بیٹھنا ہے ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھنے کی اس ہیئت کا حکم نہیں فرمایا ‘ لیکن آپ نے اسکو کیا اور سینکڑوں بار کیا ‘ اسلئے یہ ہر امام جو لوگوں کونمازپڑھائے اس کے لئے سنت بن گیا .
اوراسکی مثال کہ جس کو آپ نے باربار دیکھا اور سنا ‘ اوراس کو برقرار رکھا اس لئے وہ عمل سنت ہوگیا ‘ جنازہ کے آگے اور اس کے پیچھے چلنا ہے ‘ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو دیکھتے تھے کہ بعض حضرات جنازہ کے پیچھے چل رہے ہیں اور بعض اس کے آگے ‘ اور آپ نے یہ بارباردیکھا ‘ اور خاموش رہے ‘ اس طرح اس عمل کو برقرار رکھا ‘ اس لئے جنازہ کے پیچھے اوراس کے آگے چلنا ایک سنت بن گیا جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے .
میرے بھائی !جیساکہ بیان ہواکہ یہی سنت ہے اس کو ہمیشہ یا د رکھو اوراسی کے ساتہ چاروں خلفائے راشدین ‘ حضرت ابوبکر ‘حضرت عمر ‘حضرت عثمان’حضرت علی رضی اللہ عنہم أجمعین کی سنت کو بھی ملالو ‘کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہےک(فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین من بعدی عضوا علیہا بالنواجذ)(ابوداود ترمذی) "تمہارے اوپر میری سنت اورمیرے بعد خلفائے راشدین کی لازم ہے اس کو دانت سے پکڑلویعنی مضبوطی سے "
بدعت :
اب رہی بدعت تو یہ سنت کی نقیض اور ضد ہے جو (ابتدع الشیء ) "بغیر کسی پہلی مثال کے کوئی نئی چیز نکا لنا"سے مشتق ہے اور شریعت کی اصطلاح میں ہر اس چیز کو بدعت کہتے ہیں جس کو اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں یا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے مشروع نہ فرمایاہو ‘ خواہ وہ عقیدہ ہو یا قول یا فعل ہو اورآسان عبارت میں یوں کہ سکتے ہیں کہ بدعت ہروہ چیز ہے جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ کے زمانہ میں دینی حیثیت سے نہ رہی ہو کہ اس کے ذریعہ اللہ کی عبادت اوراسکا قرب حاصل کیا جاتا ہو ‘ خواہ عقیدہ ہویاقول وعمل اورخواہ اس کو کتنا ہی تقدس دینی اور قربت وطاعت کا رنگ دیا گیا ہو
اب ہم بدعت اعتقادی ‘بدعت قولی ‘ اوربدعت عملی میں سے ہر ایک کی مثال دے کر بدعت کی حقیقت واضح کریں گے . واللہ یہدی من یشاء إلی صراط مستقیم.
بدعت اعتقادی:
بہت سے مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ اولیاء اللہ کا بھی اس دنیا سے متعلق ایک انتظامی نظام ہے جو "خفیہ حکومت" سے بہت زیادہ مشابہ ہے جس کے ذریعہ معزولی وتقرری ‘عطا ومنع ‘ ضررونفع کے کام انجام پاتے ہیں اوریہ لوگ اقطاب وابدال کہلاتے ہیں اوربہت مرتبہ ہم نے لوگوں کو اس طرح فریاد کرتے سنا کہ اے انتظام عالم سے تعلق رکھنے والے مردان خدا! اوراے اصحاب تصرف!
اسی طرح یہ اعتقاد کہ اولیاء کی ارواح اپنی قبروں میں ان لوگوں کی شفاعت کرتی ہیں اوران کی ضروریات پوری کرتی ہیں جو ان کی زیارت کو جاتے ہیں ‘ اسی واسطے وہ لوگ ان کے پاس اپنے مریضوں کو لے جاتے ہیں تاکہ ان سے شفاعت کروائیں ‘ وہ لوگ کہتے ہیں کہ " جو شخص اپنے معا ملات سے تنگ اور عاجز آگیا ہوتو اس کو اصحاب قبور کے پاس آنا چاہئے "(موضوع حدیث) اسی طرح یہ عقیدہ کہ اولیاء اللہ غیب کی باتیں جانتے ہیں اورلوح محفوظ میں دیکھ لیتے ہیں اور ایک قسم کا تصرف کیا کرتے ہیں ‘ خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ اسی لئے وہ ان کے لئے محفلیں قائم کرتے ہیں ’ اورنذرونیاز پیش کرتے ہیں اورخاص خاص رسومات کے ساتہ ان کا عرس مناتے ہیں –
یہ اوراس طرح کی بہت سی اعتقادی بدعتیں ہیں ‘ جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود نہیں تھیں ‘ اورنہ صحابہ کے زمانہ میں ‘ اورنہ ان تینوں زمانوں میں جس کے صلاح وخیرکی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں شہادت آئی ہے (خیر القرون قرنی ثم اللذین یلونہم ثم اللذین یلونہم )(بخاری و مسلم) "یعنی بہترین زمانہ میرازمانہ ہے ‘پھر ان لوگوں کا جو ان سے متصل ہیں پھر ان کا جو ان سے متصل ہیں"
بدعت قولی:
اس کی مثال اللہ تعالی سے اس طرح سوال کرنا ہے کہ اے اللہ! بجاہ فلاں اوربحق فلاں ہماری دعا قبول فرمالے ‘ اس طرح دعا کرنے کی عام عادت ہوگئی ہے ‘ جس میں چھوٹے ‘بڑے اول وآخر اورجاہل وعالم سب مبتلا ہیں ‘ اس کو لوگ بہت بڑا وسیلہ سمجھتے ہیں ‘ کہ اس پر اللہ تعالی وہ چیزیں عطا فرماتے ہیں ‘ جو دوسرے طریقہ سے نہیں عطافرماتے ‘ اس وسیلہ کے انکار کی کوئی کوشش جرأت بھی نہیں کرسکتا ‘ کیونکہ ایسا شخص دین سے خارج اوراولیاء وصالحین کا دشمن سمجھا جاتا ہے جب کہ یہ بدعت قولیہ جس کا نام وسیلہ ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورسلف صالح کےعہد میں موجود نہ تھی ‘ اورنہ کتاب وسنت میں اس کا کوئی ذکر ہے’اور اس سلسلہ میں سب سے زیادہ درست بات یہ ہے کہ فرقہ باطنیہ کےغالی بددین لوگوں نے اس کو ایجاد کیا تاکہ اس طرح وہ مسلمانوں کو ان مفید اورنافع وسائل سے روک دیں جن سے مسلمانوں کی پریشانیاں دوراوران کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں ‘ جیسے نماز وصدقہ ‘ اور ادعیہ واذکار ماثورہ وغیرہ.
اسی بدعت قولی میں سے وہ بھی ہے جو اکثر متصوفین کے یہاں متعارف ہے ‘ یعنی ذکر کے حلقے قائم کرنا ‘ کبھی ھو ‘ ھو’ھی’ ھی’ کےالفاظ سے اور کبھی اللہ ‘اللہ کے الفاظ سے ‘ اورکھڑے ہو کر اپنی پوری بلند آواز سےٍ ‘ اسی طرح ایک گھنٹہ یا دو گھنٹہ کرتے ہیں یہاں تک کہ بعض بے ہوش ہو جاتےہیں اور یہاں تک کہ بعض خلاف شرع باتیں کرنے لگتے ہیں اورکفر بکنے لگتے ہیں’ انہی میں سے ایک شخص نے اپنے بھائی کو قتل کردیا تھا اوراسے یہ خبر نہ تھی کہ وہ چھری کہاں ماررہا ہے.
اسی طرح مد حیہ قصائد واشعار کا بے ریش لڑکوں اورداڑھی منڈوں کی آوازسے سننا اور عودومزامیر اور دف کا سننا ہے ‘ یہ اور اس طرح کی قولی بدعات بہت ہیں ‘ حالانکہ اللہ کی قسم!یہ ساری چیزیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانہ میں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں نہیں تھیں ‘ بلکہ یہ سب زندیقوں ‘ دین اسلام میں تخریب پیدا کرنے والوں اورامت محمدیہ میں فساد پیدا کرنے والوں کی ایجاد ہے تاکہ مسلمانوں کو مفید اورنافع شئے سے مضر چیز کی طرف اور حقیقت وسنجیدگی سے لہوولعب کی طرف متوجہ کردیں
بدعت فعلی:
اس کی مثال قبروں پر عمارت بنانا ہے اور خاص طور سے ان لوگوں کی قبروں پر جن کی نیکی اور بزرگی کے معتقد ہیں اور ان کی قبروں پر گنبد بنانا اور ان کی زیارت کے لئے سفر کرنا اور وہاں مقیم ہونا’ اور انکے پاس گائے اوربکری ذبح کرنا ‘ اور وہاں کھانا کھلانا ‘ یہ ساری چیزیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ رضی اللہ عنہم کے یہاں معروف نہ تھیں ‘ اوراسی طرح ایک بدعت مسجد حرام اور مسجد نبوی سے الٹے پاؤں نکلنا ہے تاکہ خانہ کعبہ یا قبرنبوی کی طرف نکلتے وقت اس کی پشت نہ ہو ‘ یہ بھی بدعت فعلی ہے ‘ جو امت کے قرونِ اولى میں نہ تھی ‘لیکن اس کو تشدد پسند لوگوں نے ایجاد کیا ‘ اسی طرح اولیاء کی قبور کے اوپر لکڑی کے تابوت رکھنا اوراس کو لباس فاخرہ پہنانا اورخوشبو لگانا ‘ اورچراغاں کرنا بھی بدعت ہے –
معززقارئین!
یہ اعتقاد اور قول وعمل کی بدعات کی چند مثالیں ہیں جن پر عبادات کی چھاپ پڑگئی ہے ‘ اسی طرح معاملات کے اندر بھی بدعات پیدا ہوگئی ہیں ‘ مثلاً زانی کے اوپر زنا کی حد قائم کرنے کے بجائے قید میں ڈال دینا ‘ اسی طرح چور کے اوپر چوری کی حد جاری کرنے کے بجائے قید میں ڈال دینا ‘ اورمثلاً گھروں ‘سڑکوں ‘ اور بازاروں میں گانوں کا رواج دینا ‘ کیونکہ اس طرح کی بیہودہ ‘طرب انگیزیاں اور مدح خوانیاں اس امت کے قرون اولی میں نہ تھیں ‘ اورانہی عملی بدعات میں سے سود کی منصوبہ کاری اور اسکا اعلان نیز اس کا انکار نہ کرنا ہے ‘ اور اسی طرح عورتوں کا بے پردہ نکلنا اور عام وخاص مقامات میں گھومنا پھرنا اور مردوں کے ساتھ ان کا اختلاط ہے ‘ یہ ساری چیزیں بدترین بدعات ہیں اور امت اسلامیہ کو انحطاط وزوال کے خطرہ سے دوچار کرنے والی چیزیں ہیں ‘ جس کے آثاربھی ظاہر ہوگئے ہیں جس کے لئے کسی دلیل وحجت کی ضرورت نہیں ‘ ولا حول ولا قوۃ إلاباللہ.العظیم ( اگریہ کہا جائے کہ ہم نے یہاں لاحول الخ کیوں کہا تو اس کا جواب یہ ہے کہ غم دور کرنے کے لئے کیونکہ حضر ت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "لاحول ولا قوۃ إلا باللہ" ننانوے بیماریوں کی دوا ہے جن میں سب سے آسان غم ہے ‘(رواہ ابن ابی الدنیا وحسنہ السیوطی)
بدعت اور مصالح مرسلہ کے درمیان فرق
برادران محترم! آپ کومعلوم ہونا چاہئے کہ تشریع اسلامی ‘ جو صرف اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے ‘ جو نافع اور نفس کا تزکیہ کرنے والا روح کو پاک کرنے والا ‘مسلمان کو دنیا وآخرت کی سعادت وکمال دینے والا ہے ‘ اس کے اندر کچہ لوگوں نے بدعت حسنہ کے نام سے مسلمانوں کے لئے ایسی بدعات ایجاد کیں جن کے ذریعہ انہوں نے سنتوں کو مردہ کردیا و اورقرآن وسنت والی امت کو بدعت کے سمندر میں غرق کردیا ‘ جس کے سبب امت اسلام کے اکثرلوگ طریق حق اور راہ ہدایت سے ہٹ گئے اور باہم لڑنے جھگڑنے والے مذاہب پیدا ہوگئے ‘ اورمختلف راستے اور طریقے نکلے ‘ جو اس امت کے انحراف کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہے . اس کا سبب بدعت کو اچھا سمجھنا ہے ‘ اور بدعت کو حس قراردینا ہے ‘ ایک شخص چند بدعات ایجاد کرتا ہے جو سنن ہدى کے خلاف ہیں اورکہتا ہے کہ یہ حسن اوراچھی ہیں وہ اپنی بدعت کو رواج دیتے وقت کہتا ہے کہ یہ بدعت حسنہ ہے ‘ تاکہ یہ بدعت مقبول ہو جائے اور اس پر عمل کیا جانے لگے ‘ حالانکہ ایسا کہنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے خلاف ہے ‘ آپ نے فرمایا ( کل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار )"ہربدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا ٹھکانہ جہنم ہے"
افسوس ہے کہ بعض اہل علم اس تضلیل سے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق تشریع میں کھلی زیادتی ہے دھوکہ کھا گئے ‘ اور انہوں نے کہا کہ بدعت میں شریعت کے پانچوں احکام یعنی وجوب ‘ندب ‘اباحت ‘ کراہت اورحرام جاری ہوں گے ‘ لیکن امام شاطبی رحمہ اللہ نے اس کو سمجھا ‘ اورمیں یہاں پر بدعت کی اس تقسیم پر امام شاطبی رحمہ اللہ کی تردید اوربدعت حسنہ کے وجود کے انکار کی تقریر پیش کرتا ہوں ‘ وہ فرماتے ہیں :
" بدعت کی تقسیم سیئہ اور حسنہ کی طرف اورپانچوں احکام ( وجوب ندب اباجت کراہت حرمت ) کا ان پر جاری کرنا ایک گھڑی ہوئی بات ہے جس کی کوئی دلیل شرعی نہیں ‘ بلکہ اسکا رد خود اس کے اندر موجود ہے ‘ کیونکہ بدعت کی حقیقت یہ ہے کہ اس کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہوا کرتی ‘ نہ نصوص شرع سے اورنہ قواعد شرع سے ‘ اسلئے کہ اگر وہاں کوئی دلیل شرعی اس کے وجوب یا ندب یا اباحت کی ہوتی تو پھر وہ بدعت نہ ہوتی اوروہ عمل ان اعمال میں داخل ہوتا جن کا حکم دیا گیا ہے یا جن کا اختیار دیا گیا ہے ‘ لہذا ان اشیاءکو بدعت بھی شمار کرنا ارو اس کے وجوب یا ندب یا اباحت کی دلیل کا بھی ہونا اجتماع متناقضین ہے "((الموافقات ج/1ص/191)
محترم قارئین! آپ نے دیکھا کہ امام شاطبی رحمہ اللہ نے بدعت کے حسنہ ہونے کا کس طرح انکار کیا ہے اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم اسکے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ گمراہی ہے اور اس شخص پر کس طرح نکیر فرمائی جس کا یہ گمان ہے کہ بدعت پر پانچوں احکام جاری ہوتے ہیں (اس کو قرافی رحمہ اللہ نے "الفروق" میں نقل کیا ہے اورافسوس کہ وہ بھی فریب کھا گئے)
یعنی یہ کہ بدعت واجب ہوتی ہے یا مندوب ہوتی ہے ‘یا مباح ہوتی ہے یا مکروہ ہوتی ہے یا حرام ہوتی ہے ‘ کیونکہ بدعت تو وہ ہے جس پر شریعت یعنی کتاب وسنت اوراجماع وقیاس کی کوئی دلیل نہ ہو ‘ اگر اس پر کوئی دلیل شرعی ہو تو وہ دین وسنت ہوگی نہ کہ بدعت ‘ اس کو خوب سمجھ لو !
اب اگر یہ کہو کہ قرافی جیسے جلیل القدر علماء اس غلطی میں کیسے پڑگئے اورانہوں نے بدعت میں پانچوں احکام کے جاری ہونے کو کیسے کہ دیا؟ تو میں جواب میں عرض کروں گا کہ اس کا سبب غفلت ہے اور بدعت کے ساتہ مصالحہ مرسلہ کا اشتباہ اور التباس ہے جسکی تفصیل یہ ہے کہ :
مصالح مرسله
" مصالح مرسله "ميں "مصالح" مصلحۃ" کی جمع ہے جس کے معنی ہیں وہ چیزجو خیر لائے اور ضرر کو دور کرے اورشریعت میں اس کے ثبوت یا نفی کی کوئی دلیل نہ ہو اور یہی "مرسلہ" کے معنی ہیں کہ شریعت میں اس کے اعتبارکرنے کی یا اس کو لغو اور اس کی نفی کی کوئی قید نہ ہو ‘ اسی لئے بعض علماء نے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے کہ " مصالح مرسلہ "ہر وہ منفعت ہےجو شریعت کے مقاصد میں داخل ہو بدون اسکے کہ اس کے اعتبار یا الغاء ( لغو قراردینے) کا کوئی شاہد اوردلیل ہو " اورشریعت کے مقاصد میں داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ شریعت جلب منافع اور دفع ضرر کی بنیاد پر قائم ہے ‘ تو جس چیز سے مسلمان کو خیر پہنچےٍ اورشر دور ہو مسلمان کے لئے اسکا استعمال جائز ہے ‘بشرطیکہ شریعت نے اس کو کسی ظاہری یا پوشیدہ فساد کی وجہ سے لغو اورباطل قرارنہ دیا ہو" چنانچہ کسی عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ مادی منفعت حاصل کرنےکے لئے زنا کرے اس لئے کہ اس وسیلہ کو جو منفعت کےمثل ہے شارع نے لغو اورباطل کردیا ہے ‘ اسی طرح مرد کو یہ حق نہیں ہے کہ جھوٹ یا خیانت یا سود کے ذریعہ اپنا کوئی ذاتی مقصد پورا کرے یا دولت حاصل کرے کیونکہ ان مصلحتوں اورمنفعتوں کو شریعت نے لغو اور باطل کردیا ہے اورانکا اعتبارنہیں کیا ہے کیونکہ یہ شریعت کے پڑے مقاصد یعنی روح اور جسم کی سعادت کے منافی ہیں.
شارع نے جن چیزوں کا اعتبار کیا ہے اس میں سے بھنگ کی تحریم ہے .کیونکہ اگرچہ اس کی تحریم کی نص نہیں ہے لیکن وہ تحریم شراب میں داخل ہے ‘اس لئے یہ نہیں کہا جائے گا کہ بھنگ کی حرمت مصالح مرسلہ میں سے ہے ‘ کیونکہ شارع نے شراب کو حرام کردیا ‘ کیونکہ اس میں ضرر اور نقصان ہے ‘اور بھنگ بھی اسی طرح ہے اس لئے وہ شرعی قیاس سے حرام ہے ‘ اس مصلحت کی وجہ سے نہیں کہ اس کی وجہ سے مسلمان سے شر دفع ہورہا ہے ‘ اور اسی قبیل سے مفتی کا مال دار شخص پر کفارہ میں روزہ کا لازم کرنا ہے ‘ کیونکہ غلام آزاد کرنا ‘یا کھانا کھلانا اس کے لئے آسان ہے ‘ اس لئے مصلحت شرعیہ کی طرف نظر کرتے ہوئے کہ اس کی بے حرمتی کی مالدارلوگ جرأت نہ کریں ‘ مالداروں پر روزہ ہی لازم کردیا جائے ‘ تو یہ مصلحت باطل ہے’ اس لئے کہ شارع نے اس کے لغو کرنے کا اعتبار کیا ہے اور مصالح مرسلہ وہ ہیں کہ شریعت نے نہ اس کا اعتبار کیا ہو اورنہ اس کو لغو کیا ہو ‘اوریہاں پر شارع نے اس کو لغو قراردیا ہے کیونکہ روزہ کی اجازت اسی وقت دی ہے جب عتق یا اطعام سے عاجز ہو ‘ اللہ تعالى کا ارشاد ہے:
"پس اس کا کفارہ دس مسکینوں کا کھلانا ہےاس درمیانہ درجہ سے جس سے تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو’ یا ان کو کپڑا دینا ہے ‘ یا گردن (غلام) آزاد کرنا’ پس جو نہ پائے تو تین دن کا روزہ رکھنا’ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا لو "
اور کفارہ یمین ہی کی طرح رمضان کے دن میں جماع کرنے کا کفارہ بھی ہے ‘ لہذا مفتی کویہ حق نہیں ہےکہ عتق یا اطعام کو چھوڑ کر روزے کا فتوى دے ‘
محترم قارئین کو معلوم ہونا چاہئے کہ مصالح مرسلہ اور وہ چیز جس کا نام بدعت کے جاری کرنے والوں نے بدعت حسنہ رکھا ہے ‘ یہ ضرورت اورحاجیات اورتحسینات میں ہوا کرتی ہے’
ضروریات سے مراد وہ چیزیں ہیں ‘ جو فرد یا جماعت کی زندگی کے لئے ضروری اورناگزیر ہیں’ اورحاجیات سے مراد وہ چیزیں ہیں جو فرد یا جماعت کی حاجت کی ہوں اگرچہ ان کے لئے ضروری اورناگزیرنہ ہوں ‘ اورتحسینات سے مراد صرف جمالیات وزینت اورآراستگی کی چیزیں ہیں ‘ نہ وہ ضروری اورناگزیرہیں اورنہ ان کی حاجت ہی ہے ‘ مثال کے طور پرعرض ہے ‘حصر مقصود نہیں کہ جیسے مصحف شریف کی کتابت اور قرآن مجید کے جمع وتدوین کا کا م جو حضرت ابوبکرصدیق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے عہد میں ہوا تو یہ عمل بدعت نہیں ہے (مزید برآں یہ خلفائے راشدین کی سنت بھی ہے جن کے اتباع کا ہمیں حکم دیا گیا ہے) ‘بلکہ یہ مصالح مرسلہ کے باب سے ہے ‘ کیونکہ کمی اورزیادتی سے قرآن کی حفاظت اور قرآن کی پوری پوری حفاظت مسلمانوں پر واجب ہے ‘ تو جب ان کو قرآن کے ضائع ہوجانے کا خوف اورخدشہ ہو ا تو انھوں نے اس کا وسیلہ اورذریعہ تلاش کیا جس سے یہ مقصد حاصل ہو تو اللہ تعالی نے ان حضرات کو اسکے جمع وتدوین اوراسکی کتابت کی رہنمائی فرمائی ‘ اس لئے ان حضرات کا یہ عمل مصلحت مرسلہ ہے کیونکہ شریعت میں نہ اس کے اعتبارکی دلیل ہے اورنہ اس کے الغاء کی بلکہ وہ مقاصد عامہ میں سے ہے اب اسکے بعد بھی کیا کوئی یہ کہ سکتا ہے کہ یہ بدعت حسنہ یا بدعت سئیہ ہے ‘ نہیں !بلکہ یہ مصالح مرسلہ ضروریہ میں سے ہے.
اورمصالح مرسلہ حاجیہ کی مثال :مسجد میں قبلہ کی طرف محراب بنانا ہے .کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجدوں میں محراب نہیں ہوتے تھے ‘ جب اسلام پھیلا اورمسلمانوں کی کثرت ہوگئی اور آدمی مسجد میں داخل ہونے کے بعد قبلہ کی جہت معلوم کیا کرتا تھا ‘اورکبھی کوئی شخص نہ ملتا جس سے وہ معلوم کرے تو وہ حیرت میں پڑجاتا اس لئے ضرورت پیش آئی کہ مسجد میں قبلہ کی طرف محراب بنایا جائے جس سے اجنبی کو قبلہ معلوم ہوجائے
اور اسی کے مثل نماز جمعہ میں اذانِ اوّل کی زیادتی ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کی کیونکہ جب مدینہ بڑا ہوگیا اوراسلام کا دارالحکومت ہوگیا اوراس کی آبادی اوربازاربہت وسیع ہوگئے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی یہ رائے ہوئی کہ وقت سے پہلے اذان دے دی جائے تاکہ خرید وفروخت کی غفلت میں جولوگ پڑے ہوئےہیں وہ باخبراورمتنبہ ہوجائیں ‘ اسکے بعد جب لوگ آجاتے اوروقت ہو جاتا اور مؤذن اذان دیتا’ توآپ کھڑے ہوکرخطبہ دیتے اورنماز پڑھاتے ‘ اس لئے یہ بدعت نہیں ہے ‘ کیونکہ اذان نماز کے لئے مشروع ہے. اورکبھی کبھی فجرکی نمازکے لئے بھی دو اذانیں دی جاتیں ‘ لیکن یہ بھی مصالح مرسلہ میں سے ہے ‘ جس میں مسلمانوں کا نفع ہے ‘ اگر چہ یہ ان کی ضروریات سے نہیں ہے لیکن یہ ان کو فائدہ پہنچاتی ہے کہ نماز جو ان پر واجب ہے اس کے وقت کے قریب ہونے پر تنبیہ کرتی ہے ‘ اور چونکہ شریعت میں مسئلہ محراب یا مسئلہ اذان کے اعتبار یا الغاء کی کوئی دلیل اورشاہد نہیں ہے ‘ اور دونوں مسئلے مقاصد شرع میں داخل ہیں اس لئے یہ کہنا صحیح ہے کہ یہ مصالح مرسلہ میں سے ہیں پہلی تو حاجیات (ضرورتوں ) کے قبیل سے ہے اوردوسری تحسینات کے قبیل سے .
اورانہی مصالح مرسلہ میںسے جس میں بعض اہل علم غلطی میں پڑگئے اورانہون نے کہا کہ یہ بدعت حسنہ ہے اوراس پربہت سی بدعات ممنوعہ کو قیاس کرلیا ‘ مسجد میں مناروں اوراذان گاہوں کا تعمیرکرنا ہے تاکہ مؤذن کی آواز شھراوردیہات کے اطراف تک پہنچے’ جس سے لوگوں کو وقت کے ہوجانے کا یا وقت قریب ہونے کا علم ہوجائے ‘ اور اذان گاہوں ہی کی طرح امام کا خطبہ اس کی قرأت اورنماز کی تکبیرات سننے کے لئے لاؤڈ اسپیکر لگانا ہے ‘ اوراسی طرح مکاتب میں حفط قرآن کے لئے اجتماعی قرأت اورتلاوت ہے (بلاد مغرب میں اس مسئلہ پر بے حد قیل وقال ہے کیونکہ تونس ‘جزائر اور مراکش کے لو گ بعض نمازوں کے بعد حزب پڑھتے ہیں یعنی بیک آواز اجتماعی قرأت کرتے ہیں ‘ اورقرأت کی یہ ہیئت بدعت ہے .بعض اہل علم نے اس سے منع کیا ہے کیونکہ یہ بعد کی ایجاد اوربدعت ہے ‘ جوعہد سلف میں معروف نہ تھی ‘ اور بعض اہل علم نے اسکی اجازت دی ہے اسلئے کہ یہ حفظ قرآن کا وسیلہ اور ذریعہ ہے اوران لوگوں سے میں نے جو بات کہی وہ دونوں آراء کی جامع تھی وہ یہ کہ اگراس اجتماعی قرأت سے مراد تعبد اورعبادت ہے تو یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ محدثہ اوربدعت ہے اوراگراس سے مراد قرآن کی حفاظت ہے تاکہ وہ ضائع نہ ہو تو ان مصالح مرسلہ میں سے ہے جس کی اجازت اہل علم دیتے ہیں واللہ اعلم.) یہ ان مصالح مرسلہ میں سے ہے کہ شارع نے جس کے اعتبارکی یا الغاء کی شہادت نہیں دی ہے لیکن یہ مقاصد عامہ کے تحت داخل ہے ‘ اسلئے کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں حاصل ہے کہ یہ بدعت حسنہ ہے اورپھر اس پر اس بدعت کو قیاس کرے جس کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے (إیاکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ ) " تم (دین میں )نئی ایجاد کردہ چیزوں سے بچو’اسلئےکہ ہرنئی نکالی ہوئی چیز بدعت ہے اورہربدعت گمراھی ہے ".
قاری محترم! خلاصہ یہ ہے کہ مصالح مرسلہ اورہیں اوربدعت محدثہ اور’ مصالح مرسلہ بالذات مقصود ومطلوب نہیں ہوتیں بلکہ کسی واجب کی حفاظت یا اس کی ادائیگی کے وسیلہ کے طورپر مطلوب ہوتی ہیں یا پھر کسی مفسدہ کو دفع کرنے کے لئے ان کا ارادہ کیا جاتا ہے ‘لیکن
بدعت تو ایک شریعت سازی ہے ‘جوشریعت الہی کے مشابہ ہے اوروہ بالذات مقصود ہوتی ہے ‘ اوروہ جلب منفعت یا دفع مضرت کے لئے وسیلہ نہیں ہوتی ‘ اوروہ تشریع جو مقصود بالذات ہو وہ صرف اللہ تعالى کا حق ہے ‘کیونکہ اللہ تعالى کے سوا کوئی بھی ایسی عبادت وضع کرنے پر قادر نہیں ہے جو انسانی نفس میں تطہیر وتزکیہ کا عمل کرسکے ‘ انسان کبھی بھی اسکا اہل نہیں ہوسکتا ‘
اس لئے اس کے لئے لازم ہے کہ اپنی حد میں رہے ‘ اور وہی طلب کرے جو اس کے لئے مناسب ہے اورجوچیز اس کے لئے مناسب نہیں ہے اس کو ترک کردے اس لئے کہ یہی اس کے لئے بہتر اورباعث سلامتی ہے
محفل مولود اسلام کی نظر میں
لفظ موالد’مولِد کی جمع ہے ‘اس کے معنی اورمطلب ہر اسلامی ملک میں ایک ہی ہیں ‘البتہ یہ لفظ خاص "مولد" (مولود) ہر اسلامی ملک میں نہیں بولا جاتا ‘کیونکہ مغرب اقصی یعنی مراکش کے لوگ اس کو "مواسم" کے نام سے یاد کرتے ہیں ‘چنانچہ کہا جاتا ہے مولائی ادریس کا موسم ‘ اور مغرب اوسط یعنی جزائر کے لوگ اس کو "زرد" کا نام دیتے ہیں جو "زردہ" کی جمع ہے ‘چنانچہ کہا جاتا ہے "سیّدی ابو الحسن شاذلی کا زردہ" اور اہل مصر اورشرق اوسط کے لوگ اسکو "مولد" کہتے ہیں ‘چنانچہ وہ کہتے ہیں "سیّدہ زینب کا مولد" یا "سید بدوی کا مولِد"
اہل مغرب اس کو "مواسم " اس لئے کہتے ہیں کہ وہ لوگ اسے سال میں ایک مرتبہ کرتے ہیں’ اوراہل جزائر اس کو "زردہ" اس اعتبار سے کہتے ہیں کہ اس میں وہ کھانے کھائے جاتے ہیں جو ان مذبوح جانوروں سے پکتے ہیں جو وہاں ولی کے نام پر ذبح کئے جاتے ہیں یا اس کے اوپر چڑھائے جاتے ہیں ‘ جیسی بھی اس چڑھاوا چڑھانے والے کی نیت ہوتی ہے’ اوربعض لوگ اس کو "حضرۃ" کہتے ہیں یا تو اس وجہ سے کہ وہاں اس ولی کی روح آتی ہے ‘خواہ توجہ اوربرکت ہی کے طورپر یا اس وجہ سے کہ وہاں یہ جشن منانے والے آتے ہیں اورقیام کرتے ہیں ‘ یہ تو وجہ تسمیہ تھی ‘ اب رہے وہ اعمال جو وھاں ہوتے ہیں ‘تو وہ ہر ملک کے لوگوں کےشعور اورفقر وغناء کے اعتبار سے کیفیت اورکمیت میں مختلف ہیں ‘ لیکن ان میں جو چیز قدرمشترک ہے وہ درج ذیل ہے:
1- جس ولي كے لئے یہ موسم یا زردہ یا مولد یا حضرۃ قائم کیا گیا ہے اس کے لئے نزو ونیاز اورجانور ذبح کرنا .
2- اجنبی مردوں اورعورتوں کا اختلاط
3- رقص و سرود اورمختلف دف ومزامیر وباجے بجانا .
4- خرید وفروخت کے لئے بازارلگانا ‘لیکن یہ مقصود نہیں ہوتا ‘مگر تاجرلوگ ایسے بڑے بڑے مجمعوں میں نفع اندوزی کرتے ہیں اوروہاں اپنا سامان تجارت لے جاتے ہیں جب سامان سامنے آتا ہے اورلوگ اس کو طلب کرتے ہیں تو اس طرح بازار قائم ہی ہوجاتا ہے ‘مثال کے لئے منى اورعرفات کے بازار کا فی ہیں .
5- ولی یا سیّد سے فریاد طلب کرنا اوران سے استغاثہ کرنا اور شفاعت اورمدد طلب کرنا اوراپنی ہر وہ حاجت اورمرغوب چیز مانگنا جس کا حصول دشوار ہو حالانکہ یہ شرک اکبر ہے والعیاذ باللہ.
6- کبھی کبھی فسق وفجور اورشراب نوشی وغیرہ بھی ہوجاتی ہے لیکن یہ ہر ملک اورہر مولد میں نہیں ہوتا .
7- حکومتیں ان مواسم کو قائم کرنے کےلئے سہولتیں فراہم کرتی ہیں ‘ اور کبھی کبھی مال یا گوشت یا کھانا وغیرہ دے کربھی اس میں حصہ لیتی ہیں’ حتى کہ فرانس بھی مغرب کے تینوں ملکوں میں اس سلسلے میں تعاون کیا کرتا تھا ‘یہاں تک کہ ٹرین کے کرایہ میں تخفیف کردی جاتی تھی ‘ اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ حکومتِ مصر بھی اسی طرح کرتی ہے ‘ اورعجیب ترین بات اس سلسلہ میں جو ہم نے سنی ہے وہ یہ ہے کہ جنوبی یمن کی حکومت جو کہ خالِص کمیونسٹ نظریہ کی ہے وہ بھی ان موالد کی حوصلہ افزائی کرتی ہے’ اگر چہ یہ حوصلہ افزائی خاموشی اختیا ر کرکے ہو ‘مجھے یہ بات خود جنوبی یمن کے لوگوں نے بتائی ‘حالانکہ یہی وہ حکومت ہے جس نے تمام اسلامی عقائد ‘عبادات اوراحکام کا انکارکردیا ‘اوریہ اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ یہ عرس میلا د صرف اسلام کو نقصان پہنچانے ہی کے لئے اوراسکا خاتمہ ہی کرنے کے لئے ایجادکئے گئےہیں ‘اور اسی سبب ان موالدومواسم اورزردہ وحضرۃ کا حکم اسلام میں بالکل او رقطعی ممانعت اورحرمت ہے ‘ اوریہ اس لئے کہ یہ بدعات عقیدہ اسلامیہ کوپامال کرنے اور مسلمانوں کے حالات کو تباہ کرنے کی بنیاد پر قائم ہیں ‘ جس کی دلیل یہ ہے کہ اہل باطل ان بدعات کی نصرت اورتعاون کرتے ہیں اوراس کے ساتھ پوری ہمنوائی کرتےہیں ‘ اوراگر اس میں کوئی ایسی چیز ہوتی جو روح اسلامی کو بیدار کرتی ہو یا مسلمانوں کے ضمیر کو حرکت میں لاتی ہو تو تم ان باطل حکومتوں کو دیکھتے کہ وہ ان سے جنگ اوران کے خاتمہ کے درپے ہوجاتیں.
کیا غیر اللہ سے دعا کرنا اورغیراللہ کے نام پر ذبح کرنا اوران کے لئے نزرونیاز ماننا شرک کے سوا کچہ اورہے جو باطل اورحرام ہے ‘ اور ان عرس ومیلاد کی محفلوں کی ساری بنیاد ہی اس پر قائم ہے اورکیا رقص وسرود اورعورتوں مردوں کا اختلاط فسق وفجور اورحرام کے سوا اور کچہ ہے ؟ یہ عرس ومیلاد اورمواسم جب ان چیزوں سے خالی نہیں تو بھلا یہ حرام کیسے نہ ہو ں گے ‘ اورکیا ان عرس وموالدکو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ اور صحابہ کے تابعین بھی جانتے تھے ؟جواب یہی ہے کہ نہیں نہیں!تو پھر جو چیزرسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے زمانہ میں دین نہ رہی ہو کیا وہ اب دین ہو جائے گی ؟ اورجو چیز دین نہ ہوگی تو وہ بدعت ہوگی اورھربدعت گمراہی ہے اورہر گمراھی دوزخ میں لے جانے والی ہے ‘ امام مالک رحمہ اللہ علیہ سے اس گانے کے بارے میں دریافت کیا گیا جس کی بعض اہل مدینہ رخصت دیا کرتے تھے ‘ تو آپ نے پوچھنے والے سے کہا کہ کیا گانا حق ہے ؟.تو اس نے کہا نہیں ‘ تو آپ نے فرمایا حق کے بعد گمراہی کے سوا کچھ بھی نہیں ‘ پس یہ موالد ومواسم بشمول ان چیزوں کے جوان میں حق ہے ‘ اورجو حق نہیں ہے ‘باطل ہی ہیں ‘ کیونکہ حق کے بعد گمراہی کے سوا کچہ بھی نہیں .
اور اب مولود نبوی شریف سے وہ اجتماعات مراد ہیں جو مسجدوں میں اورمالدار مسلمانوں کے گھروں میں ہوتے ہیں’ جو اکثر پہلی ربیع الأول سے بارہ ربیع الأول تک ہوتے ہیں ‘جن میں سیرت نبویہ کا کچہ حصہ پڑھا جاتا ہے ‘مثلا نسب پاک ‘قصہ ولادت اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعض جسمانی اوراخلاقی شمائل اورخصوصیات اورساتھ ہی بارہ ربیع الأول کو عید کا دن مناتے ہیں ‘ جس میں اہل وعیال پر خرچ کرنے پر وسعت کرتے ہیں اورمدارس ومکاتب بند کردئے جاتے ہیں اوربچے اس دن طرح طرح کے کھیل کودکھیلتے ہیں ‘ یہ مولود وہ ہے جو ہم بلاد مغرب میں جانتے تھے ‘لیکن جب ہم بلا د مشرق میں آئے تو ہم نے دیکھا کہ یہاں مولد سے مراد وہ اجتماعات ہیں جو مالداروں اورخوشحال لوگوں کے گھروں میں مولود نبوی شریف کی یاد گارکے طورپر منعقد ہوتے ہیں ‘ اوروہ ان کے یہاں ماہ ربیع الأول اوربارہ ربیع الأول کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ‘بلکہ موت وحیات یا کسی بھی نئی بات کے موقع پر یہ محفل قائم کرلیتے ہیں.
اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جانورذبح کئے جاتے ہیں کھانا تیار ہوتا ہے دوست واحبا ب ورشتہ دار اورتھوڑے سے فقیر ومحتاج لوگ بھی بلالئے جاتے ہیں ‘ پھر سب لوگ سننے کے لئے بیٹھتے ہیں ‘ ایک خوش آوازنوجوان آگے بڑھتا ہے ‘ اوراشعار پڑھتا ہے اورمدحیہ قصیدے ترنم کے ساتھ پڑہتا ہے ‘ اورسننے والے بھی اس کے ساتھ
یش کرکے اللہصلوات پڑھتے ہیں اس کے بعد ولادت مبارکہ کا قصہ پڑھتا ھے ‘ اورجب یہاں پہنچتا ہےکہ حضرت آمنہ کے شکم مبارک سے آپ مختون پیدا ہوئے ‘تو سب لوگ تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں اورکچھ دیررسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت آمنہ کے شکم مبارک سے پیدائش کا تخیل باندہ کر تعظیم وادب کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں ‘ پھر دھونی اورخوشبو لائی جاتی ہے ‘ اور سب لوگ خوشبو لگاتے ہیں ‘ اس کے بعد حلال مشروب کے پیالےآتے ہیں ‘ اور سب لوگ پیتے ہیں پھر کھانے کی قابیں پیش کی جاتی ہیں ‘ اس کو لوگ کھا کر اس اعتقاد کے ساتھ واپس ہوتے ہیں کہ انھون نے بارگاہ الہی میں بہت بڑی قربت پ کا تقر ب حاصل کرلیا ہے .
یہاں اس بات پر متنبہ کردینا ضروری ہے کہ اکثر قصیدے اورمدحیہ اشعار جو ان محفلوں میں ترنم کے ساتھ پڑہے جاتے ہیں وہ شرک اورغلو سےنہیں خالی ہوتے ‘جس سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے جیسا کہ آپ کا فرمان ہے (لاتطرونی کما أطرت النصاری عیسی ابن مریم وإنما أنا عبداللہ ورسولہ ‘فقولو ا عبداللہ ورسولہ )(بخاری ومسلم)
"تم مجھے حد سے نہ بڑھانا ‘جس طرح نصارى نے عیسی بن مریم کو حد سے بڑھایا ‘ میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں ‘ پس اللہ کا بندہ اوراسکا رسول کہو" اسی طرح یہ محفلیں ایسی دعاؤں پر ختم ہوتی ہیں جس میں توسل کے غیر شرعی الفاظ اور شرکیہ حرام کلمات ہوتے ہیں ‘ کیونکہ اکثر حاضرین عوام ہوتے ہیں ‘یا اس باطل کی محبت میں غلو کرنے والے ہوتے ہیں جن سے علماء نے منع فرمایا ہے ‘جیسے بجاہ فلاں اوربحق فلاں کہ کردعا کرنا والعیاذباللہ تعالی ‘واللہم صل علی محمد وآلہ وصحیہ وسلم تسلیما کثیرا.
یہ ہے وہ مولدجو اپنے ایجاد کے زمانہ یعنی ملک مظفرکے عہد 625ھ سے آج تک چلی آرہی ہے .
اب رہا شریعت اسلامیہ میں اس کے حکم کا سوال تو اس کا فیصلہ ہم قاری کے لئے چھوڑدیتے ہیں ‘کیونکہ جب اس بحث سے یہ معلوم ہوگیا کہ میلاد ساتویں صدی کی پیداوار ہے ‘ اورہر وہ چیز جورسو ل صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کے عہد میں دینی حیثیت سے نہ رہی ہو ‘ وہ بعد والوں کے لئے بھی دینی حیثیت اختیار نہ کرے گی ‘ اورجو مولود آج لوگوں کے درمیان رائج ہے’
یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ کے عہد میں اورقرون مشہود لہا بالخیر میں اورساتوں صدی کی ابتداء تک جو کہ فتنوں اورآزمائشوں کی صدی تھی نہیں موجود تھا ‘ پھر بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ بلکہ یہ بدعت اورگمراہی ہے کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے (إیا کم ومحدثات الأمورفإن کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالہ ) (رواہ اصحاب السنن) "کہ تم (دین میں ) ہرنئی ایجاد کردہ چیز سے بچو کونکہ ہر بدعت گمراہی ہے "
حکم شرع کی مزید وضاحت کے لئے ہم کہتے ہیں کہ جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو دین میںنکالی ہو ئی نئی باتوں سے پرہیزکا حکم دیا ہے اوریہ بتایا ہے کہ ہر ایسی نئی چیز بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے ‘ اوراما م مالک رحمہ اللہ نے اپنے شاگرد اما م شافعی رحمہ اللہ علیہ ( اوریہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ابن ماجشون رحمہ اللہ سے فرمایا ) سے فرمایا کہ :" کہ ہر وہ چیز جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب کے زمانہ میں دین نہیں تھی ‘ وہ آج بھی دین نہیں بنے گی " اورفرمایا کہ: "جس نے اسلام کے اندر کوئی بدعت نکالی اوراس کو اچھا سمجھا تو اس نے یہ گمان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت کے پہنچانے میں خیانت کی ہے کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے (المائدۃ :3) " آج کے دن تمہارے لئے ‘تمہارے دین کو میں نے کامل کردیا ‘ اورمیں نے تم پر اپنا انعام تمام کردیا اورمیں نے اسلام کوتمہارے لئے بطوردین پسند کرلیا "
اورامام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ " ہر وہ چیز جو کتاب وسنت اوراجماع کے خلاف کی جائے تو وہ بدعت ہے " توکیا مروجہ میلاد نبوی بدعت نہ ہوگا ‘ جب کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورخلفائے راشدین کی سنت نہ تھی ‘ اورنہ سلف صالح کا عمل تھا ‘ بلکہ تاریخ اسلام کے تاریک دور میں اس کی ایجاد ہوئی ‘ جب کہ فتنے پیدا ہوچکے تھے ‘ اورمسلمانوں میں اختلاف پھوٹ چکا تھا ‘ پھر اگر ہم یہ تسلیم ہی کرلیں کہ میلاد قربت کی چیز ہے بایں معنی کہ وہ عبادت شرعیہ ہےجس سے آدمی اللہ تعالى کا قرب حاصل کرتا ہے تاکہ اللہ تعالى اس کو اپنے عذاب سے نجات دے کرجنت میں داخل کردے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ اس عبادت کو مشروع کس نے کیا ‘ اللہ تعالى نے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ؟ جواب یہ ہے کہ کسی نے نہیں ‘ پھر یہ عبادت کس طرح ہوسکتی ہے جب کہ اللہ اور اسکے رسول نے اس کو مشروع نہیں کیا ‘ یہ محال ہے ‘ دوسرے یہ کہ عبادت کے لئے چار حیثیتیں ضروری ہیں یعنی کمیت ومقدار ‘کیفیت اورزمان ومکان ‘
اورکون ان حیثیات کو ایجاد اوران کی حدبندی کرسکتا ہے ؟ کوئی نہیں ‘ اورجب یہ ہے تو پھر میلاد کسی بھی صورت نہ قربت ہے نہ عبادت ‘ اورجب یہ نہ قربت ہے اورنہ عبادت توپھر بدعت کے سوا اورکیا ہوسکتا ہٍے؟
میلاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کی نظر میں
میلاد کی تعریف:
عربی زبان میں میلاد نبوی شریف اس جگہ یا اس زمانہ کو کہتے ہیں جس میں خاتم الأنبیاء ‘امام المرسلین’ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے پس آپ کی جائے پیدائش (فداہ ابی وامی ) ابو یوسف کا وہ گھرہےجہاں پر آج مکہ مکرمہ میں پبلک لائبریری بن گئی ہے ‘ اورآپ کا زمانہ پیدائش ‘مشہورترین اورصحیح ترین روایت کی بناء پر 12ربیع الأول عام الفیل مطابق اگست 570 ءھے .
لغت کے لحاظ سے لفظ "مولد شریف" کا یہی مطلب ہے اوریہی معنی ہے جس کو مسلمان نزول وحی کے زمانہ سے لے کر سوا چہ صدی تک ‘یعنی ساتویں صدی کی ابتداء تک جانتے رہے پھر خلافت راشدہ اسلامیہ کے سقوط اورممالک اسلامیہ کی تقسیم کے بعد اورعقائد وسلوک میں ضعف اورانحراف اورحکومت وانتظامیہ میں فساد کے ظہورکے بعد مولود شریف کی یہ بدعت ضعف و انحراف کا ایک مظہر بن کر ظاہر ہوئی ‘ اس بدعت کو سب سے پہلے ملک شام کے علاقہ اربل (صحیح یہ ہے کہ اربل موصل کا علاقہ ہے ) کے بادشاہ ملک مظفرنے ایجاد کیا ‘ غفراللہ لنا ولہ ‘ اورمولد کےموضوع پر سب سے پہلی تالیف ابو الخطاب بن دحیہ کی ہے ‘ جس کا نام "التنویر فی مولد البشیرالنذیر" ہے جس کو انہوں نے ملک مظفر کے سامنے پیش کیا اوراس نے انہیں ایک ہزار اشرفیاں انعام دیں.
اس سلسلہ میں ایک لطیفہ یہ ہے کہ امام سیوطی نے اپنی کتاب "حاوی " میں ذکرکیاہے کہ ملک مظفر جو اس بدعت مولود کا موجد ہے ‘ اس نے اسی طرح کی محفل مولود کے ایک موقع پر دسترخوان لگوایا ‘ جس پر پانچ ہزار بُھنی ہوئی بکریاں اوردس ہزار مرغیاں اورسوگھوڑےاورایک لاکہ مکھن اورحلوہ کی تیس ھزار پلیٹیں تھیں ‘ اورصوفیاءکے لئے محفل سماع قائم کی جو ظہرسے لے کر فجر کے وقت تک جاری رہی اوراس میں رقص کرنے والوں کے ساتھ وہ خود بھی رقص کرتا رہا’ بھلا وہ امت کیسے زندہ رہ سکتی ہے جس کے سلاطین درویش ہوں ‘اوراس طرح کی غلط محفلوں میں ناچتے ہوں ‘ إناللہ و'نا إلیہ راجعون.
اگریہ کہا جائے کہ اگریہ میلاد بدعت ہے تو کیا اس کے کرنے والے کو ان نیک اعمال کا بھی ثواب نہ ملے گا جو اس کے اندرہوتے ہیں یعنی ذکر ودعا اورکھانا کھلانے کا ؟
ہم عرض کریں گے کہ کیا ناوقت نماز پڑھنے پر ثواب ملے گا ؟ کیا بےموقع صدقہ کرنے میں ثواب ملے گا ؟ کیا نا وقت حج کرنے میں ثواب ملےگا ؟ کیا غیر کعبہ کے طواف میں ثواب ملےگا؟ کیا غیر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے میں ثواب ملےگا ؟ اگر ان سب کا جواب نفی میں ہے تو ان نیک اعمال کے متعلق بھی جو محفل میلاد کے ساتھ کئے جاتے ہیں یہی جواب ہوگا کیونکہ ان کے ساتھ بدعت لگی ہوئی ہے .
اس لئے کہ اگر وہ صحیح ہوجائے اورمقبول ہوجائے تو پھر احداث فی الدین ممکن ہوجائے گا ‘ حالانکہ یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے مردود ہے ‘ آپ نے فرمایا " جسنے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات نکالی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے".
محفل میلاد کے ثابت کرنے کےلیے جو دلیلیں دی جاتی ہیں، وہ غیر کافی ہیں
میلاد منعقد کرنے والے جو پانچ دلیلیں دیتے ہیں ‘ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں شریعت کو چھوڑ کر اتباع نفس کارفرما ہے ‘دلیلیں درج ذیل ہیں :-
1- سا لانہ یاد گار ہونا’ جس میں مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یادگار مناتےہیں ‘ جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی عظمت اورمحبت میں اضافہ ہوتا ہے
2- بعض شمائل محمدیہ کا سننا اورنسب نبوی شریف کی معرفت حاصل کرنا –
3- رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر اظہار خوشی ‘کیونکہ یہ محبت رسول اورکمال ایمان کی دلیل ہے
4- کھانا کھلانا اوراس کا حکم ہے اور اس میں بڑا ثواب ہے خصوصاً جب اللہ تعالى کا شکرادا کرنے کی نیت سے ہو.
5- اللہ تعالی کا ذکر یعنی قرأت قرآن اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف کے لئے جمع ہونا.
یہ وہ پانچ دلیلیں ہیں ‘ جنہیں میلاد کو جائز کہنے والے بعض حضرات پیش کرتے ہیں ‘ اورجیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں یہ دلیلیں بالکل ناکافی ہیں اورباطل بھی ہیں ‘ کیونکہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شارع علیہ الصلوۃ والسلام سے کوئی چوک ہوگئی تھی جس کی تلافی اس طرح کی گئی ہے کہ ان چیزوں کو ان لوگوں نے مشروع کردیا ‘ جن کو شارع علیہ الصلوۃ والسلام نے باوجود ضرورت کے مشروع نہیں کیا تھا ‘ اوراب قاری کے سامنے یکے بعد دیگرے ان دلیلوں کا بطلان پیش ہے .
1- پہلی دلیل’ اس وقت دليل بن سكتی ہے ‘ جبکہ مسلمان ایسا ہو کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر دن بھرمیں دسیوں مرتبہ نہ کیا کرتا ہو تو اس کے لئے سالانہ یا ماہانہ یادگاری محفلیں قائم کی جائیں ‘ جس میں وہ اپنے نبی کا ذکرکرے تاکہ اس کے ایمان ومحبت میں زیادتی ہو ‘ لیکن مسلمان تو رات اوردن میں جو نماز بھی پڑھتا ہے اس میں اپنے رسول کا ذکرکرتا ہے ‘ اوران پر درود وسلام بھیجتا ہے اورجب بھی کسی نماز کا وقت ہوتا ہے ‘ اورجب بھی نماز کے لئے اقامت کہی جاتی ہے تو اس میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اورآپ پر درود سلام ہوتا ہے ‘ بھول جانے کے اندیشہ سے تو اسکی یاد گار قائم کی جاتی ہے جسکا ذکر ہی نہ ہوتا ہو ‘ لیکن جس کا ذکر ہی ذکرہوتا ہو جوبھلایا نہ جاسکتا ہو ‘ بھلا اس کے نہ بھولنے کے لئے کس طرح کی محفل منعقد کی جائےگی ‘ کیا یہ تحصیل حاصل نہیں ہے ‘حالانکہ تحصیل حاصل لغو اورعبث ہے ‘ جس سے اہل عقل دوررہتے ہیں .
2- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض خصائل طیبہ اورنسب شریف کا سننا ‘
یہ دلیل بھی محفل میلاد قائم کرنے کے لئے کافی نہیں ہے ‘ کیونکہ آپکے خصائل اورنسب شریف کی معرفت کے لئے سال بھر میں ایک دفع سُن لینا کا فی نہیں ہے ‘ ایک دفع سننا کیسے کافی ہوسکتا ہے جب کہ وہ عقیدہ اسلامیہ کا جزء ہے؟
ہرمسلمان مرد اورعورت پر واجب ہے کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب پاک اوران کی صفات کو اس طرح جانے جس طرح اللہ تعالی کو اس کے ناموں اورصفتوں کے ساتھ جانتا ہے اوریہ وہ چیز ہے کہ جس کی تعلیم انتہائی ضروری اورناگزیر ہے ‘ اس کے لئے سال میں ایک مرتبہ محض واقعہ پیدائش کا سن لینا کافی نہیں ہے .
3- تیسری دلیل بھی بالکل واہی تباہی دلیل ہے ‘کیونکہ خوشی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے یا اس دن کی ہے جس میں آپ کی پیدائش ہوئی ‘ اگرخوشی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے تو ہمیشہ جب بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرآئے خوشی ہونی چاہئے ‘ اورکسی وقت کے ساتھ خاص نہیں ہونا چاہئے ‘ اور اگرخوشی اس دن کی ہے جس دن آپ پیدا ہوئے تو یہی وہ دن بھی ہے جس میں آپ کی وفات ہوئی ‘ اورمیں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی ایسا عقلمند شخص ہوگا جو اس دن مسرّت اورخوشی کا جشن منائے گا جس دن اس کے محبوب کی موت واقع ہوئی ہو حالانکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سب سے بڑی مصیبت ہے جس سے مسلمان دوچار ہوئے حتى کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کہا کرتے تھے کہ !جس پر کوئی مصیبت آئے تو اس کو چاہئے کہ اس مصیبت کویاد کرلے جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہنچی ہے’ نیز انسانی فطرت اس کی متقاضی ہے کہ انسان بچہ کی پیدائش کے دن خوشی مناتا ہے اوراسکی موت کے دن غمگین ہوتا ہے ‘لیکن تعجب ہے کہ کس دھوکہ میں یہ انسان فطرت کو بدلنے کے لئے کوشاں ہے .
4-چوتھی دلیل یعنی کھانا کھلانا’ یہ پچھلی سب دلیلوں سے زیادہ کمزور ہے ‘ کیونکہ کھانا کھلانےکی ترغیب اس وقت دی گئی جب اس کی ضرورت ہو’ مسلمان مہمان کی مہمان نوازی کرتا ہے ‘ بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے اور صدقہ وخیرات کرتا ہے اور یہ پورے سال ہوتا ہے ‘ اس کے لئے سال میں کسی خاص دن کی ضرورت نہیں ہے کہ اسی دن کھانا کھلائے’ اس بناء پر یہ ایسی علت نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے کسی بھی حال میں کسی بدعت کا ایجاد کرنا لازم ہو .
5- پانچویں دلیل یعنی ذکر کے لئے جمع ہونا ‘ یہ علت بھی فاسد اورباطل ہے ‘ کیونکہ بیک آواز ذکر کےلئے اجتماع سلف کے یہاں معروف نہیں تھا. اسلئے یہ اجتماع فی نفسہ ایک قابل نکیر بدعت ہے اورطرب انگیز آواز سے مدحیہ اشعار اورقصائد پڑھنا تو اور بھی بدترین بدعت ہے ‘ جسے وہی لوگ کرتے ہیں جنہیں اپنے دین پر اطمینان نہیں ہوتا ‘ حالانکہ ساری دنیا کے مسلمان رات اوردن میں پانچ مرتبہ مسجدوں میں اورعلم کے حلقوں میں علم ومعرفت کی طلب کے لئے جمع ہوتے ہیں ‘ اس لئے ان کو ایسے سالانہ جلسوں اورمحفلوں کی ضرورت نہیں ہے جن میں اکثر حظوظ نفسانیہ یعنی طرب انگیز اشعار کے سننے اورکھانے پینے کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے .
محفل میلاد کو جائز کہنے والوں کے چند کمزور شبہات
برادران اسلام! پ کو معلوم ہونا چاہئے کہ جب ساتویںصدی کے آغاز میں میلاد کی بدعت ایجاد ہوئی ‘اورلوگوں کے درمیان پھیل گئی ‘ کیونکہ اس وقت مسلمانوں کے اندرروحانی اورجسمانی خلاء پیدا ہوگیا تھا ‘ اس لئے کہ انہوں نے جہاد کوترک کردیا تھا ‘ اور فتنوں کی اس آگ کے بجھانے میں مشغول ہوگئے تھے جو اسلام کے دشمن یہودیوں ‘عیسائیوں اورمجوسیوں نے بھڑ کا رکھا تھا ‘ اوریہ بدعت نفوس میں جڑ پکڑگئی ‘ اوربہت سے جاہلوں کے عقیدہ کا جزء بن گئی ‘ جس کی وجہ سے بعض اہل علم مثلاً سیوطی رحمہ اللہ نے اس کے سوا اورکوئی چارہ کارنہ دیکھا کہ ایسے شبہات تلاش کرکے اس کے لئے جواز نکالا جائے ‘جن سے اس بدعت مولود کے جواز پر استدلال کیا جاسکے ‘ اوریہ اس لئے تاکہ عوام الناس اور بلکہ خواص بھی راضی ہوجائیں ‘ اوردوسری طرف علماء کا اس سے رضامند ہونے اوراس پر حکام وعوام کے ڈرسے خاموش رہنے کا جوازنکل آئے
اب ہم یہاں ان شبہات کوبیان کرتے ہیں اورساتھ ہی ان کا ضعف وبطلان بھی ‘تاکہ اس مسئلہ میں مزید بصیرت حاصل ہو ‘ جس پر بحث کرنے اوراس میں حق کی وضاحت کرنے کے لئے ہم مجبو ر ہوئے ہیں ‘ ان شبہات کا مدار ایک تاریخی نقل اورتین احادیث نبویہ پرہے ‘ ان شبہات کے ابھارنے والے اوراجاگر کرنے والے سیوطی غفراللہ لنا ولہ ہیں ‘ حالانکہ وہ اس طرح کی چیزوں سے مستغنی ہو سکتے تھے ‘ وہ دسویں صدی کے علماء میں سے ہیں جو فتنوں اورآزمائشوں کا زمانہ تھا ‘ تعجب یہ ہے کہ ان شبہات پر وہ مسرور ہیں ‘ اور ان پر فخر کرتے ہیں ‘ کہتے ہیں کہ !مجھے شریعت میں میلاد کی اصل مل گئی ہے اورمیں نے اس کی تخریج کرلی ہے (الحاوی فی الفتاوى للسیوطی )
لیکن سیوطی سے اس طرح کی باتوں کا کچہ تعجب نہیں ‘ جب کہ ان کے متعلق کہا گیا ہے وہ " حاطب لیل " (رات کے اندھیروں میں لکڑی جمع کرنے والے کی طرح ہیں )یعنی صحیح وضعیف سب کو جمع کرنے والے تھے . .
جاری
تالیف: فضیلۃ الشیخ ابی بکر جابر الجزائری حفظہ اللہ
مترجم: سیّد محمد غیاث الدین مظاہری
نظر ثانی: شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنی
ناشر: شعبہ مطبوعات ونشر وزارت کے زیر نگرانی طبع شُدہ ریاض , سعودی عرب
پیش لفظ
الحمد للہ وحدہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ وعلی آلہ وصحبہ ومن والاہ أمابعد:
بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام وتعظیم کی وجہ سے میلاد نبوی کے موضوع پر لکھنے میں مجھے بہت تردّد رہا ,لیکن جب اس سلسلہ میں مسلمان ایک دوسرے کو کا فر بنانے لگے اور باہم لعنت کرنے لگے تو میں یہ رسالہ لکھنے کےلئے مجبور ہوگیا کہ شاید یہ اس فتنہ کی روک تھام کرسکے جو ہر سال ابھارا جاتا ہے اور جس میں کچہ مسلمان ہلاک وبرباد ہوتے ہیں ,ولا حول ولا قوۃ إلا باللہ.
میں نے ماہ میلاد ربیع الأول سے متعلق کچہ پہلے بی –بی سی لندن کے نشریہ سے یہ خبر سنی کہ سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیر ابن بازحفظہ اللہ ان لوگوں کو کافر قرار دیتے ہیں جو میلا د نبوی کی محفل کریں, اس خبر نے عالمِ اسلام کو غیظ وغضب سے بھر دیا,میں یہ جھوٹی اور خوفناک خبر سن کرحیرت میں پڑگیا , کیونکہ حضرت مفتی صاحب (حضرت مفتی شیخ عبد العزیز بن بازرحمہ اللہ نے بدعت مولود کے ردذ و انکار میں کئی مضامین لکھے ہیں , لیکن کہیں بھی مولود کرنے والوں کو کا فر نہیں کہا ہے .بی –بی- سی لندن کی خبر محض جھوٹ اور افواہ ہے , جو فتنہ پھیلانے کے لئے گھڑی گئی ہے ورنہ تو مفتی صاحب کی تحریریں موجود ہیں انہیں دیکھا جا سکتا ہے) کا جو قول مشہور ومعروف ہے وہ یہ ہے کہ میلاد بدعت ہے اور وہ اس سے منع فرماتے ہیں , جو شخص میلاد کی یاد گار منائے یا اس کی محفل قائم کرے وہ اس کی تکفیر نہیں کرتے ,غالباً یہ ان رافضیوں کا مکروکید ہے جو مملکت سعودیہ سے بغض وحسد رکھتے ہیں کیونکہ وہاں بدعت وخرافات اور شرک وگمراہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے.
بہر حال معاملہ اہم ہے اور اہل علم پر لازم ہے کہ وہ اس اہم مسئلہ کے متعلق حق بات کو واضح کریں , جس سے یہ نوبت پہنچ گئی ہےکہ مسلمان باہم ایک دوسرے سے بغض رکھنے لگے ہیں اور ایک دوسرے پر لعنت کرتے ہیں , کتنے لوگ ازراہ خیرخواہی مجھ سے کہتے ہیں کہ :فلاں شخص کہتا ہے کہ میں فلاں شخص سے بغض رکھتا ہوں ,کیونکہ وہ محفل مولود کا منکرہے , محھے اس کی اس بات سے تعجب ہوتا ہے
میں کہتا ہوں کہ جو شخص بدعت کا انکار کرے اور اس کو ترک کرنے کو کہے’ کیا مسلمان اس کو دشمن بنا لیتے ہیں ؟ انہیں تو لازم تھا کہ اس سے محبت کرتے نہ یہ کہ اس سے بغض کرتے ‘ اور ستم بالائے ستم یہ کہ مسلمانوں کے درمیان اس کی اشاعت کی جاتی ہے کہ جو لوگ مولود کی بدعت کا انکار کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھتے ہیںاور آپ سے محبت نہیں کرتے ‘ حالانکہ یہ بدتریں جرم اور گناہ ہے جو کسی ایسے بندہ سے کیسے ہوسکتا ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو ؟کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھنا یا آپ سے محبت نہ کرنا کھلا ہو کفر ہے ‘ ایسے شخص کو اسلام سے ذرا بھی نستب باقی نہیں رہ جاتی ‘ والعیاذ باللہ.
آخر میں یہ عرض ہےکہ انہیں اسباب کی بناء پر میں نے یہ رسالہ لکھا تاکہ ایک اعتبار سے تو وہ ذمہ داری ادا ہوجائے جو حق کے واضح کرنے کی عائد ہوتی ہے اوردوسری میری یہ خواہش بھی تھی کہ ہر سال ابھرنے اوراسلام کی آزمائش میں اضافہ کرنے والے اس فتنہ کی روک تھام ہو- واللہ المستعان وعلیہ التکلان .
ایک اہم علمی مقدمہ
شریعت اسلامیہ میں میلاد نبوی کا حکم معلوم کرنے کے لئے جو شخص اس رسالہ کا مطالعہ کرے میں اسے انتہائی خیرخواہی کے ساتہ یہ کہتا ہوں کہ وہ اس مقدمہ کو بہت ہی توجہ کے ساتھ کئی مرتبہ ضرور پڑھ لے یہاں تک کہ اس کو خوب اچھی طرح سمجہ لے ‘ اگرچہ اس کو دس مرتبہ ہی کیوں نہ پڑھنا پڑے ‘ اور اگرنہ سمجہ میں آئے تو کسی عالم سے خوب سمجہ کر پڑھ لے تاکہ کوئی غلطی نہ رہ جائے ‘ کیونکہ اس مقدمہ کا سمجھنا صرف مسئلہ مولود کے لئے ہی نہیں مفید ہے بککہ یہ بہت سے دینی مسائل میں مفید ہے .جس میں لوگ عام طور سے اختلافات کرتے رہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے یا سنت ‘ اور اگر بدعت ہے تو بدعت ضلالت ہے یا بدعت حسنہ ؟
میں ان شاء اللہ قارئین کے سامنے تفصیل سے بیان کروں گا اور اشارات کو قریب کروں گا . اورمثالوں سے وضاحت کروں گا ‘ اور معنی ومراد کو قریب لانے کی کوشش کروں گا ‘ تا کہ قاری اس مقدمہ کو سمجھ لے ‘ جو پیچیدہ اختلافی مسائل کے سمجھنے کے کلید ہے کہ آیا وہ دین وسنت ہیں جو قابل عمل ہیں یا گمراہی اوربدعت ہے جس کا ترک کرنا اور جس سے دور رہنا ضروری اور واجب ہے-
اب اللہ کانا م لے کر یہ کہتا ہوں کہ اے میرے مسلمان بھائی! تمہیں معلوم ہونا چاھئے کہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنا کر مبعوث فرمایا اور ان پر لوگوں کی ہدایت اوراصلاح کے لئے اپنی کتا ب قرآن کریم نازل فرمائی تاکہ لوگ اس سے ہدایت یاب ہو کر دنیا وآخرت میں کامیابی وسعادت حاصل کریں ‘ جیساکہ اللہ نے ارشاد فرمایا :
’’ اے لوگو! یقیناً تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل آچکی ہے اور ہم نے تمہارے پاس ایک صاف نور بھیجا ہے ‘ سو جولوگ اللہ پر ایمان لائے ‘ اور انہوں نے اللہ کو مضبوط پکڑا ‘ سو ایسوں کو اللہ اپنی رحمت میں داخل کریں گے ‘اور اپنے فضل میں ‘ اور اپنے تک ان کو سیدھا راستہ بتلا دیں گے۔‘‘ [ النساء] (بہت سے مفسرین کے نزدیک آیت میں "برهان "سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ‘ اور "نور" سے مراد قرآن کریم ہے)
اس سے معلوم ہوا کہ لوگوں کی ہدایت اور اصلاح جس سے روح میں کمال اور اخلاق میں حُسن وفضیلت حاصل ہو اس وحی الہی کے بغیر نہیں ہوسکتی جو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں جلوہ گر ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالى أحکام کی وحی فرماتے ہیں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تبلیغ فرماتے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی کیفیت بیان فرماتے ہیں اور اہل ایمان اس پر عمل کرتے ہیں ‘ اور اس طرح وہ کمال وسعادت کی نعمت سے ہم کنار ہوتےہیں –
اے معززقاری! ہم قسم کھا کرکہتے ہیں کہ ہدایت اور اصلاح کے بعد اس راستہ کے سوا کوئی اور راستہ کمال وسعادت کے حصول کا نہیں ہے ‘ اور وہ راستہ ہے وحی الہی پر عمل کرنا جوکتاب وسنت میں موجود ہے
محترم قارئیں !اس کا رازیہ ہے کہ اللہ تعالى سارے جہاں کا رب ہے ‘یعنی ان کا خالق ومربی اور ان کے تما م معا ملات کی تدبیر وانتظام کرنے والا اور انکا مالک ہے ‘ سارے لوگ اپنے وجود میں اوراپنی پیدائش میں ‘ اپنے رزق وامداد میں اور تربیت وہدایت اور اصلاج میں دونوں جہاں کی زندگی کی تکمیل وسعادت کے لئے اس کے محتا ج محض ہیں ‘ اللہ تعالى نے تخلیق کے کچہ قوانین مقرر فرمائے ہیں ‘ انہی قوانین کے مطابق وہ انجام پاتی ہے اور وہ قانوں ہے نر اورمادہ کے باہم اختلاط کا ‘ اسی طرح اللہ تعالى نے مخلوق کی ہدایت اوراصلاح کا بھی قانون مقرر فرمادیا ہے اور جس طرح تخلیق کا عمل بغیر اس کے قانون کے نہیں انجام پاسکتا جو لوگوں میں جاری ہے اسی طرح ہدایت اور اصلاح کا کام بھی اللہ تعالى کے قانون کے مطابق ہی انجام پاتا ہے اور وہ قانون ہے ان احکام وتعلیمات پر عمل کرنا جو اللہ تعالى نے اپنی کتاب میں اور اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر مشروع فرمادیا ہے ‘اور ان کو اس طریقہ کے مطابق نافذ اور جاری کرنا جو طریقہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے . اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ کوئی بھی ایسی ہدایت یا سعادت یا کمال جو اللہ تعالى کے مشروع کئے ہوئے طریق کے علاوہ کسی اور طریق سے آئے کسی بھی حال میں قابل قبول نہیں ہے .
تم باطل دین والوں کو مثلاً یہودونصارى اورمجوسیوں وغیرہ کو دیکھتے ہو تو کیا یہ سب راہ ہدایت پاگئے ہیں یاکمال وسعادت سے حصہ پا چکے ہیں ؟ہرگز نہیں اور وجہ ظاہر ہے کہ یہ سب اللہ تعالى کےنازل کئے ہوئے طریقے نہیں ہیں’اسی طرح ہم ان قوانین کو دیکھتے ہیں جن کو انسانوں نے عدل وانصاف کے حصول ‘ لوگوں کے مال وجان ‘ ان کی عزت وآبرو کی حفاظت اوران کے اخلاق کی تکمیل کے لئے بنائے ہیں ‘کیا یہ قوانین جس مقصد کے لئے بنائے گئے تھے وہ مقصد حاصل ہوئے ؟جواب یہ ہے کہ نہیں ‘ کیونکہ زمین جرائم اورہلاکت خیزیوں سے بھری ہوئی ہے ‘ اسی طرح امت اسلامیہ کے اندر اہل بدعت کو دیکھتے ہیں ‘ بدعتیوں میں بھی زیادہ پست اور گھٹیا درجہ کے لوگ ہیں ‘ نیز اسی طرح اور بھی اکثرمسلمانوں کو دیکھتے ہیں کہ جب وہ اللہ کے بنائے ہوئے قانون سے ہٹ کر انسان کے بنائے ہوئے قانوں کی طرف مائل ہوئے تو ان کے اندر اختلاف پیدا ہوگیا ‘ان کا مرتبہ گھٹ گیا اوروہ ذلیل ورسوا ہوگئے ‘اور اس کا سبب یہی ہے کہ یہ لوگ وحی الہی کو چھوڑکردوسرے طریقوں پر عمل کرتے ہیں غور سے سنو اور دیکھو کہ اللہ تعالى شریعت اسلامیہ کے علاوہ ہر قانون وشریعت کی کیسی مذمت فرمارہے ہیں .ارشاد باری تعالى ہے : {أَمْ لَهُمْ شُرَكَاء شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ} (21) سورة الشورى]
"کیا ان لوگوں نے ایسے اللہ کے شریک مقرر کر رکھے ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کردئیے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں اگر فیصلے کے دن کا وعدہ نہ ہوتا تو ابھی ہی ان میں فیصلہ کردیا جاتا’ یقیناً ان ظالموں کے لئے ہی دردناک عذاب ہے "
اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ (من أحدث فی أمرنا ھذا مالیس منہ فہوردّ)" جس نے ہمارے اس امر(دین) میں کوئی ایسی بات نکالی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے (یعنی مقبول نہیں ہے " اور فرمایا ( من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فہو ردّ) (مسلم)" اور جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے تو وہ رد ہے یعنی مقبول نہیں ہے ". اور اس پر اس کو کوئی ثواب نہیں ملے گا ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالى نے جس امر کو مشروع نہیں فرمایا ہے وہ عمل نفس کے تزکیہ وتطہیر میں مؤثر نہیں ہوسکتا ‘کیونکہ وہ تطہیروتزکیہ کے اس مادہ سے خالی ہے جو اللہ تعالى نے ان اعمال میں پیدا فرمایا ہے ‘ جن کو مشروع کیا ہے اور جن کے کرنے کی اجازت عطا فرمائی ہے
دیکھو اللہ تعالى نے اناج’ پھلوں اور گوشت کے اندر کس طرح غذائیت کا مادہ پیدا فرمادیا ہے ‘ لہذا ان کے کھانے سے جسم کو غذا ملتی ہے جس سے جسم کی نشوونما ہوتی ہے اور قوت کی حفاظت ہوتی ہے اور مٹی لکڑی اور ہڈی کو دیکھو کہ اللہ تعالی نے ان کو غذائیت کے مادہ سے خالی رکھا ہے .اسلئے یہ غذائیت نہیں پہنچا تیں ‘اس سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ بدعت پر عمل کرنا ایسا ہی ہے جیسے مٹی ‘ ایندھن اور لکڑی سے غذائیت حاصل کرنا ‘ اگر ان چیزوں کا کھانے والا غذائیت حاصل نہیں کرسکتا تو بدعت پر عمل کرنے والے کی روح بھی پاک وصاف نہیں ہوسکتی اس بناء پر ہر ایسا عمل جس کے ذریعہ اللہ تعالى کے تقرب کی نیت کی جائے تاکہ شقاوت ونقصان سے نجات و کمال اورسعادت حاصل ہو ‘ سب سے پہلے ان اعمال میں سے ہونا چاہئے جن کو اللہ تعالى نے اپنی کتاب میں اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر مشروع فرمایا ہے اور دوسری بات یہ کہ وہ اسی طریقہ سے اداکیا جائے جس طریقہ سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا فرمایا ہے ‘ اس میں اس کی کمیت کی رعایت اس طرح ہو کہ اس کی تعداد میں زیادتی ہو اور نہ کمی ‘ اور کیفیت کی رعایت اس طرح ہو کہ اس کے کسی جزء کو کسی جزءپر مقدم ومؤخرنہ کیا جائے ‘اور وقت کی رعایت اسطرح ہو کہ وقت غیرمعینہ میں اس کو نہ کرےاورجگہ کی بھی رعایت ہو کہ جس جگہ کو شریعت نے مقرر کردیا ہے اس کے علاوہ اسکو دوسری جگہ ادانہ کرے ‘ اور کرنے والا اس سے اللہ کی اطاعت وفرمابرداری اوراس کی رضا وخوشنودی اور قرب کے حصول کی نیت کرے اسلئے کہ ان شروط میں سے کسی ایک کے نہ پائے جانے سے وہ عمل باطل ہوجائے گا ‘وہ شروط یہی ہیں کہ وہ عمل مشروع ہو اور اس کو اسی طریقہ سے ادا کرے جس طریقہ سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اداکیا ہے اور اس سے صرف اللہ تعالی کی رضامندی کی نیت رکھے کہ غیر اللہ کی طرف توجہ اور التفات نہ کرے ‘ اورجب عمل باطل ہو جائے گا تو وہ نفس کے تزکیہ اور تطہیر میں مؤثر نہیں ہو گا ‘ بلکہ ممکن ہے کہ اس کی گندگی اور نجاست کا سبب بن جائے ‘ مجھے مہلت دیجئے تو میں یہ حقیقت ذیل کی مثالوں سے واضح کردوں :
1-نماز :
كتاب الله سے اس کی مشروعیت ثابت ہے ‘ اللہ تعالى کا ارشاد ہے:" پس نماز کو قاعدہ کے مطابق پڑھو ‘یقیناًنماز مومنوں پرمقررہ وقتتوں پر فرض ہے"(النساء)
اور سنت سے بھی ثابت ہے ‘رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " خمس صلوات کتبھن اللہ "الحدیث (رواہ مالک)"پانچ نمازیں ہیں اللہ نے انھیں فرض کیا ہے " اب غور کرو کہ کیا بندہ کے لئے یہ کافی ہے کہ جس طرح چاہے اور جب چاہے اور جس وقت چاہے اور جس جگہ چاہے نماز پڑھ لے ؟جواب یہ ہے کہ نہیں :بلكہ دوسری حیثیتوں یعنی تعداد وکیفیت اور وقت وجگہ کی رعایت بھی ضروری ہے ‘لہذا اگر مغرب میں جان بوجہ کر ایک رکعت کا اضافہ کرکے چار رکعت پڑھ لے تو نماز باطل ہوجائے گی ‘ اور فجر کی نماز میں ایک رکعت کم کرکے ایک ہی رکعت پڑھے تو وہ بھی صحیح نہیں ‘ اور اسی طرح اگر کیفیت کی رعایت نہ کرے کہ ایک رکن کو دوسرے رکن پرمقدم کردے تو بھی صحیح نہیں ‘ اور اسی طرح وقت اور جگہ کا بھی حال ہے کہ اگر مغرب غروب آفتاب سے پہلے پڑھ لے’ یاظہر زوال سے پہلے پڑھ لے تو نماز صحیح نہ ہوگی ‘ اسی طرح اگر مذبح یا کوڑی خانہ میں نماز پڑھےتو بھی نماز صحیح نہ ہوگی ‘ کیونکہ اس کے لئے جیسی جگہ شرط ہے یہ ویسی جگہ نہیں ہے
2-حج:
اس کی بھی مشروعیت کتاب وسنت دونوں سے ثابت ہے اللہ تعالى کا ارشاد ہے: "اللہ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راہ پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کردیاہے اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالى (اس سے بلکہ) تما م دنیا سے بے پرواہ ہے" (آل عمران) اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ "اے لوگو! اللہ نے تمہارے اوپر حج فرض کیا ہے پس تم حج کرو"(رواہ مسلم)
اب یہ دیکھوکہ کیا بندہ کو یہ حق ہے کہ جس طرح چاہے اور جب چاہے حج کرلے ؟یہاں بھی جواب نہیں میں ہے ‘ بلکہ اس کے ذمہ لازم ہے کہ چاروں حیثیتوں کی رعایت کرے ورنہ تو اسکا حج صحیح نہ ہوگا ‘یعنی کمیت (مقدار) کی ‘ پس طواف اور سعی میں شوط(چکّر) کے عدد کی رعایت کرے ‘ اگر عمداً اس میں کمی یا زیادتی کی تو وہ فاسد ہوجائگا ‘ اور کیفیت کی رعایت کرے ‘ چنانچہ اگر طواف احرام سے پہلے کرلیا’ یا سعی طواف سے پہلے کرلی تو حج صحیح نہ ہوگا ‘ اور وقت کی رعایت کرے ‘چنانچہ اگر وقوف عرفہ 9ذی الحجہ کے علاوہ کسی اوروقت ہو تو صحیح نہ ہوگا ‘ اور جگہ اورمقام کی رعایت کرے ‘ چنانچہ اگربیت الحرام کے سوا کسی اور جگہ کا طواف کرے یا صفا ومروہ کے علاوہ کسی دوسری دو جگہوں کے درمیان سعی کرے یا عرفہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ وقوف کرے تو حج نہ ہوگا .
3-روزہ:
یہ بھی عبادت مشروعہ ہے ‘اللہ تعالى فرماتا ہے کہ: اے ایمان والو!تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے۔(البقرة) اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :" چاند دیکھ کرروزہ رکھو اورچاند دیکھکر افطار کرو پس اگر بدلی ہوجائے تو شعبان کو تیس دن پوراکرلو"(بخاری ومسلم)
اب کیا بندہ کویہ حق حاصل ہے جس طرح چاہے اورجب چاہے روزہ رکھے ‘ جواب نہیں میں ہے ‘ بلکہ چاروں حیثیتوں کی رعایت ضروری ہے ‘ یعنی کمیت (مقدار) کی ‘پس اگر انتیس یا تیس سے کم رکھے گا تو روزہ صحیح نہ ہوگا ‘ اسی طرح اگر ایک دن یا کئی دن کا اضافہ کرے گا ‘تب بھی صحیح نہ ہوگا کیونکہ اس نے مقدار اورتعداد میں خلل پیدا کردیا اور اللہ تعالى کا ارشاد ہے کہ (ولتکملوا العِدّۃ)"اور تاکہ تم شمار پورا کرو" اسی طرح کیفیت کی رعایت بھی ضروری ہے ‘ اگر اس میں بھی اس نے تقدیم وتاخیر کردی کہ رات میں روزہ رہا اوردن میں افطار کیا تو یہ بھی صحیح نہیں اور زمانہ کی بھی رعایت ضروری ہے ‘ چنانچہ اگر رمضان کے بدلہ شعبان یا شوال میں روزہ رہا تو یہ بھی صحیح نہیں’ اورجگہ اورمکان کی بھی رعایت ضروری ہے اور اس سے مراد وہ شخص ہے ‘ جوروزہ رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو’ لہذا اگر حائضہ یا نفاس والی عورت روزہ رکھے تو اس کا روزہ صحیح نہیں ہوگا –اسی طرح تمام عبادتوں کا حال ہے کہ اسی وقت صحیح اور قبول ہوتی ہیں جب ان کے تمام شرائط کی رعایت کی جائے ‘ اوروہ شرائط یہ ہیں :
1- يہ کہ ان کی مشروعیت وحی الہی سے ہوئی ہو ‘ کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ( من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فہو ردّ)( مسلم) "جس نے کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے دین میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے " یعنی قابل قبول نہیں .
2-یہ کہ اسکو صحیح طور پر اداکرے اورچاروں حیثیات یعنی کمیت ومقدار اور کیفیت یعنی وہ طریقہ جس کے مطابق وہ عبادت اداکی جائے اور زمانہ جواس کے لئے مقرر کیا گیا ہے اورجگہ جو اس کے لئے متعین کی گئی ہے اس کا لحاظ اور اسکی رعایت ہو.
3- اوروہ خالص اللہ تعالى کے لئے ہو اس میں کسی اور کو خواہ وہ کوئی بھی ہو اللہ کا شریک نہ ٹھرائے
اے مسلمان بھائی! اس وجہ سے بدعت باطل اور گمراہی ہے ‘باطل تو اسلئے ہے کہ وہ روح کو پاک نہیں کرتی ‘ کیونکہ وہ اللہ تعالى کی مشروع کی ہوئی نہیں ہے ‘ یعنی اس کے لئے اللہ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہیں ہے ‘ اور ضلالت وگمراہی اس لئے ہے کہ بدعت نے بدعتی کو حق سے جھٹکا دیا اور اس شرعی عمل سے اس کو دور کردیا جو اس کے نفس کا تزکیہ کرتا اورجس پر اس کا پروردگار اس کو جزاوثواب عطا کرتا تنبیہ: برادر مسلم !آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ جو عبادت کتاب وسنت سے مشروع ہے یعنی جس کے لئے اللہ ورسول کا حکم ہے کبھی کبھی اس میں بدعت خواہ اس کی کمیت میں یا اس کی کیفیت یا زمان ومکان مین داخل ہوجاتی ہے ‘ اوروہ اس عبادت کرنے والے کے عمل کو غارت کردیتی ہے اوراس کو ثواب سے محروم کردیتی ہے ‘یہاں پر ہم آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرتے ہیں " ذکراللہ " اللہ کے ذکرکی یہ ایک عبادت ہے جوکتاب وسنت سے مشروع ہے’ اللہ تعالى کا ارشاد ہے ( یآأیہا اللذین آمنوا أذکرواللہ کثیرا) "اے ایمان والو!اللہ کا کثرت سے ذکر کرو" اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ " اس شخص کی مثال جو رب کا ذکر کرتا ہے اور جوذکر نہیں کرتا’زندہ اورمردہ کی مثال ہے "(بخاری)( اور مسلم کے الفاظ یہ ہیں "اس گھر کی مثال جس میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے ‘ اور اس گھر کی مثال جس میں اللہ کا ذکر نہیں کیا جاتا ‘ زندہ اور مردہ کی مثال ہے .)
اور اس کی مشروعیت کے باوجود بہت سے لوگوں کےیہاں اس میں بدعت داخل ہوگئی ہے ‘ اور اس بدعت نے ان کے ذکر کو تباہ کردیا اوران کو اسکے ثمرہ اور فائدہ یعنی تزکیہ نفس ‘ صفائے روح اور اس پر چلنے والے اجروثواب اورخوشنودی الہی سے ان کو محروم کردیا ‘ کیونکہ بعض لوگ غیر مشروع الفاظ سے ذکر کیا کرتے ہیں مثلاً "اسم مفرد" اللہ’اللہ ‘ اللہ’یاضمیر غائب مذکر ھو ‘ھو ‘ھو سے ذکر کرنا ‘ اور بعض لوگ دسیوں مرتبہ حرف نداء کے ساتہ اللہ کا ذکر کرتے ہیں ‘ اوراس سے کچہ سوال ودعا نہیں کرتے ‘ اس طرح جیسے یا لطیف ‘یا لطیف ‘یالطیف اور بعض آلات طرب کے ساتہ ذکر کرتے ہیں ‘اور بعض لوگ الفاظ مشروعہ مثلاً " لاإلہ إلا اللہ " کے ساتھ ہی ذکرکرتے ہیں لیکن جماعت بناکر ایک آواز کرتے ہیں یہ ان چیزوں میں سے ہے کہ جس کو شارع نے نہ خودکیاہے’ نہ اس کے کرنے کا حکم دیا ہے اورنہ اس کی اجازت دی ہے’ ذکر تو ایک فضیلت والی عبادت ہے
لیکن اس کی کمیت اور کیفیت اورہیئت وشکل میں جو بدعت داخل ہوگئی اس کی وجہ سے اس کا کرنے والا اس کے اجروثواب سے محروم ہوگیا ‘
اب آخر میں معززقارئین کے سامنے اس مفید مقدمہ کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے عرض کررہا ہوں کہ :بندہ جس عمل کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے اور اس کی عبادت کرتا ہے تاکہ دنیا میں فضائل نفس کی تکمیل اور اپنے معاملہ کی درستگی کرلینے کے بعد آخرت میں اللہ کے عذاب سے نجات پائے اور اس کے قرب میں دائمی نعمت سے سرفراز ہو’ وہ عمل اورعبادت وہی ہوسکتی ہے جو مشروع ہو ‘ اللہ تعالى نے اپنی کتاب میں جس کا حکم فرمایا ہو’ یا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جس کی ترغیب دی ہو اور یہ کہ مومن اس کو صحیح طریقہ سے ادا کرے اور چاروں حیثیات یعنی کمیت و کیفیت اور زمان ومکان کی رعایت کرے اور ساتہ ہی اس میں اللہ تعالى کے لئے اخلاص بھی ہو’ پس اگر عبادت کی مشروعیت وحی الہی سے ثابت نہیں ہے تو وہ بدعت اور ضلالت ہے’ اور اگر مشروع ہے لیکن اس کی ادائیگی میں خلل اور رخنہ ہے کیونکہ اس میں اس کی چاروں حیثیات کی رعایت نہیں ہے یا اس میں بدعت داخل ہوگئی ہے تو بھی وہ قربت فاسدہ اور عبادت فاسدہ ہے ‘اور اگر اس میں شرک کی آمیزش ہوگئی تو پھر وہ غارت ہوجانے والی اوربالکل باطل عبادت ہے جس سے نہ کوئی راحت پہنچ سکتی ہے’ اور نہ وہ کوئی بلا اور مصیبت دور کرسکتی ہے’ والعیاذ باللہ
سنت اوربدعت کا بیان
بدعت کی تعریف سے پہلے سنت کی تعریف ضروری ہے کیونکہ سنت کا تعلق فعل اور عمل سے ہے اور بدعت کا تعلق ترک سے ہے اور فعل ترک پر مقدم ہوتا ہے ‘نیز سنت کی تعریف سے بدعت کی تعریف بھی بدیہی طور پر معلوم ہوجائے گی
سنت کیا ہے : سنت كے معنی لغت میں "طریقہ متبعہ "(وہ طریقہ جس کی پیروی کی جائے) اس کی جمع "سنن" ہے اور شریعت میں سنت سے مراد وہ اچھے طریقے ہیں جن کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امّت کے لئے اللہ کے حکم سے مشروع فرمائے ہیں . نیز وہ آداب وفضائل جن کی آپ نے ترغیب دی ہے تاکہ ان سے آراستہ ہوکر کمالات وسعادت حاصل ہو’ پس اگر وہ سنت ایسی ہے کہ آپ نے اس کے انجام دینے اور اس کی پابندی کا حکم فرمایا ہے تو وہ ان سنن واجبہ میں سے ہے جن کا ترک کرنا مسلمان کو جائز نہیں ہے ‘ ورنہ تو وہ سنن مستحبہ ہیں جن کے کرنے والے کو ثواب ہوگا اور اس کے ترک کرنے والے کو عقاب نہ ہوگا
یہ بھی جان لینا چاہئے کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے سنت کا ثبوت ہوتا ہے ‘ اسی طرح آپ کے فعل اورتقریر( یعنی آپ کے سامنے کسی نے کوئی فعل کیا اور آپ اس پر خاموش رہے )سے بھی ثابت ہوجاتی ہے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کوئی فعل کیا اور پابندی کے ساتہ اس کو بار بار آپ کرتے رہے تو وہ فعل امت کے لئے سنت ہو جائیگا مگر یہ کہ کسی کو دلیل سے یہ معلوم ہوجائے کہ یہ فعل آپ کی خصوصیات میں سے ہے ‘ مثلاً آپ کا متواتر روزے رکھنا ‘ اور اگر آپ نے صحابہ کے درمیان کوئی چیز دیکھی یا سُنی اور وہ چیز کئی مرتبہ ہوئی اور آپ نے اس کی نکیر نہیں فرمائی تو وہ بھی سنت ہوجائے گی ‘ کیونکہ آپ نے اس کی تقریر اورتثبیت فرمادی ‘ لیکن اگریہ فعل اور دیکھنا اورسننا باربار نہ ہو تو یہ سنت نہ ہوگا کیونکہ "سنت"کا لفظ تکرار سے مشتق ہے اور غالباً وہ "سنّ السکّین" (یعنی چھری کو دھاربنانے والے اوزار پر باربار رکھا یہاں تک کہ وہ دھار والی ہوگئی ) سے ماخوذ ہے .جو کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار کیا اور پھر دوبارہ اسکو نہیں کیا اوروہ فعل سنت نہیں ہوا اسکی مثال یہ ہے کہ آپ نے بغیر کسی عذر سفر یا مرض یا بارش کے ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کی نماز کو جمع کرکے پڑھا ‘اسی لئے یہ تمام مسلمانوں کے نزدیک قابل اتباع سنت نہیں ہے ‘ جو کام آپ کے سامنے ایک مرتبہ کیا گیا اورآپ اس پر خاموش رہے اوراس کو برقرار رکھا ‘ جس کی وجہ سے وہ ایسی سنت نہ قرارپائی جس پر مسلمان عمل کریں ‘ اس کی مثال یہ واقعہ ہے کہ:" ایک عورت نے منت مانی کہ اگر اللہ تعالی نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر سے سلامتی کے ساتہ واپس لایا تو وہ اس خوشی میں اپنے سرپر دف رکھ کر بجائے گی –چنانچہ اس عورت نے ایسا ہی کیا" (ابوداودوترمذی)اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکو نہ روک کراس کو برقرار رکھا لیکن یہ ایک ہی بار ہوا اس لئے یہ عمل سنت نہیں قرار پایا ‘ کیونکہ یہ باربار نہیں ہوا-
اور اسکی مثال کہ جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے باربار کیا ہو اوروہ بلاکسی نکیر کے سنت بن گیا جس پر مسلمان عمل کرتے ہیں وہ فرض نماز کے بعد صف کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا چہرہ کرکے بیٹھنا ہے ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھنے کی اس ہیئت کا حکم نہیں فرمایا ‘ لیکن آپ نے اسکو کیا اور سینکڑوں بار کیا ‘ اسلئے یہ ہر امام جو لوگوں کونمازپڑھائے اس کے لئے سنت بن گیا .
اوراسکی مثال کہ جس کو آپ نے باربار دیکھا اور سنا ‘ اوراس کو برقرار رکھا اس لئے وہ عمل سنت ہوگیا ‘ جنازہ کے آگے اور اس کے پیچھے چلنا ہے ‘ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو دیکھتے تھے کہ بعض حضرات جنازہ کے پیچھے چل رہے ہیں اور بعض اس کے آگے ‘ اور آپ نے یہ بارباردیکھا ‘ اور خاموش رہے ‘ اس طرح اس عمل کو برقرار رکھا ‘ اس لئے جنازہ کے پیچھے اوراس کے آگے چلنا ایک سنت بن گیا جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے .
میرے بھائی !جیساکہ بیان ہواکہ یہی سنت ہے اس کو ہمیشہ یا د رکھو اوراسی کے ساتہ چاروں خلفائے راشدین ‘ حضرت ابوبکر ‘حضرت عمر ‘حضرت عثمان’حضرت علی رضی اللہ عنہم أجمعین کی سنت کو بھی ملالو ‘کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہےک(فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین من بعدی عضوا علیہا بالنواجذ)(ابوداود ترمذی) "تمہارے اوپر میری سنت اورمیرے بعد خلفائے راشدین کی لازم ہے اس کو دانت سے پکڑلویعنی مضبوطی سے "
بدعت :
اب رہی بدعت تو یہ سنت کی نقیض اور ضد ہے جو (ابتدع الشیء ) "بغیر کسی پہلی مثال کے کوئی نئی چیز نکا لنا"سے مشتق ہے اور شریعت کی اصطلاح میں ہر اس چیز کو بدعت کہتے ہیں جس کو اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں یا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے مشروع نہ فرمایاہو ‘ خواہ وہ عقیدہ ہو یا قول یا فعل ہو اورآسان عبارت میں یوں کہ سکتے ہیں کہ بدعت ہروہ چیز ہے جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ کے زمانہ میں دینی حیثیت سے نہ رہی ہو کہ اس کے ذریعہ اللہ کی عبادت اوراسکا قرب حاصل کیا جاتا ہو ‘ خواہ عقیدہ ہویاقول وعمل اورخواہ اس کو کتنا ہی تقدس دینی اور قربت وطاعت کا رنگ دیا گیا ہو
اب ہم بدعت اعتقادی ‘بدعت قولی ‘ اوربدعت عملی میں سے ہر ایک کی مثال دے کر بدعت کی حقیقت واضح کریں گے . واللہ یہدی من یشاء إلی صراط مستقیم.
بدعت اعتقادی:
بہت سے مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ اولیاء اللہ کا بھی اس دنیا سے متعلق ایک انتظامی نظام ہے جو "خفیہ حکومت" سے بہت زیادہ مشابہ ہے جس کے ذریعہ معزولی وتقرری ‘عطا ومنع ‘ ضررونفع کے کام انجام پاتے ہیں اوریہ لوگ اقطاب وابدال کہلاتے ہیں اوربہت مرتبہ ہم نے لوگوں کو اس طرح فریاد کرتے سنا کہ اے انتظام عالم سے تعلق رکھنے والے مردان خدا! اوراے اصحاب تصرف!
اسی طرح یہ اعتقاد کہ اولیاء کی ارواح اپنی قبروں میں ان لوگوں کی شفاعت کرتی ہیں اوران کی ضروریات پوری کرتی ہیں جو ان کی زیارت کو جاتے ہیں ‘ اسی واسطے وہ لوگ ان کے پاس اپنے مریضوں کو لے جاتے ہیں تاکہ ان سے شفاعت کروائیں ‘ وہ لوگ کہتے ہیں کہ " جو شخص اپنے معا ملات سے تنگ اور عاجز آگیا ہوتو اس کو اصحاب قبور کے پاس آنا چاہئے "(موضوع حدیث) اسی طرح یہ عقیدہ کہ اولیاء اللہ غیب کی باتیں جانتے ہیں اورلوح محفوظ میں دیکھ لیتے ہیں اور ایک قسم کا تصرف کیا کرتے ہیں ‘ خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ اسی لئے وہ ان کے لئے محفلیں قائم کرتے ہیں ’ اورنذرونیاز پیش کرتے ہیں اورخاص خاص رسومات کے ساتہ ان کا عرس مناتے ہیں –
یہ اوراس طرح کی بہت سی اعتقادی بدعتیں ہیں ‘ جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود نہیں تھیں ‘ اورنہ صحابہ کے زمانہ میں ‘ اورنہ ان تینوں زمانوں میں جس کے صلاح وخیرکی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں شہادت آئی ہے (خیر القرون قرنی ثم اللذین یلونہم ثم اللذین یلونہم )(بخاری و مسلم) "یعنی بہترین زمانہ میرازمانہ ہے ‘پھر ان لوگوں کا جو ان سے متصل ہیں پھر ان کا جو ان سے متصل ہیں"
بدعت قولی:
اس کی مثال اللہ تعالی سے اس طرح سوال کرنا ہے کہ اے اللہ! بجاہ فلاں اوربحق فلاں ہماری دعا قبول فرمالے ‘ اس طرح دعا کرنے کی عام عادت ہوگئی ہے ‘ جس میں چھوٹے ‘بڑے اول وآخر اورجاہل وعالم سب مبتلا ہیں ‘ اس کو لوگ بہت بڑا وسیلہ سمجھتے ہیں ‘ کہ اس پر اللہ تعالی وہ چیزیں عطا فرماتے ہیں ‘ جو دوسرے طریقہ سے نہیں عطافرماتے ‘ اس وسیلہ کے انکار کی کوئی کوشش جرأت بھی نہیں کرسکتا ‘ کیونکہ ایسا شخص دین سے خارج اوراولیاء وصالحین کا دشمن سمجھا جاتا ہے جب کہ یہ بدعت قولیہ جس کا نام وسیلہ ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورسلف صالح کےعہد میں موجود نہ تھی ‘ اورنہ کتاب وسنت میں اس کا کوئی ذکر ہے’اور اس سلسلہ میں سب سے زیادہ درست بات یہ ہے کہ فرقہ باطنیہ کےغالی بددین لوگوں نے اس کو ایجاد کیا تاکہ اس طرح وہ مسلمانوں کو ان مفید اورنافع وسائل سے روک دیں جن سے مسلمانوں کی پریشانیاں دوراوران کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں ‘ جیسے نماز وصدقہ ‘ اور ادعیہ واذکار ماثورہ وغیرہ.
اسی بدعت قولی میں سے وہ بھی ہے جو اکثر متصوفین کے یہاں متعارف ہے ‘ یعنی ذکر کے حلقے قائم کرنا ‘ کبھی ھو ‘ ھو’ھی’ ھی’ کےالفاظ سے اور کبھی اللہ ‘اللہ کے الفاظ سے ‘ اورکھڑے ہو کر اپنی پوری بلند آواز سےٍ ‘ اسی طرح ایک گھنٹہ یا دو گھنٹہ کرتے ہیں یہاں تک کہ بعض بے ہوش ہو جاتےہیں اور یہاں تک کہ بعض خلاف شرع باتیں کرنے لگتے ہیں اورکفر بکنے لگتے ہیں’ انہی میں سے ایک شخص نے اپنے بھائی کو قتل کردیا تھا اوراسے یہ خبر نہ تھی کہ وہ چھری کہاں ماررہا ہے.
اسی طرح مد حیہ قصائد واشعار کا بے ریش لڑکوں اورداڑھی منڈوں کی آوازسے سننا اور عودومزامیر اور دف کا سننا ہے ‘ یہ اور اس طرح کی قولی بدعات بہت ہیں ‘ حالانکہ اللہ کی قسم!یہ ساری چیزیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانہ میں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے میں نہیں تھیں ‘ بلکہ یہ سب زندیقوں ‘ دین اسلام میں تخریب پیدا کرنے والوں اورامت محمدیہ میں فساد پیدا کرنے والوں کی ایجاد ہے تاکہ مسلمانوں کو مفید اورنافع شئے سے مضر چیز کی طرف اور حقیقت وسنجیدگی سے لہوولعب کی طرف متوجہ کردیں
بدعت فعلی:
اس کی مثال قبروں پر عمارت بنانا ہے اور خاص طور سے ان لوگوں کی قبروں پر جن کی نیکی اور بزرگی کے معتقد ہیں اور ان کی قبروں پر گنبد بنانا اور ان کی زیارت کے لئے سفر کرنا اور وہاں مقیم ہونا’ اور انکے پاس گائے اوربکری ذبح کرنا ‘ اور وہاں کھانا کھلانا ‘ یہ ساری چیزیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ رضی اللہ عنہم کے یہاں معروف نہ تھیں ‘ اوراسی طرح ایک بدعت مسجد حرام اور مسجد نبوی سے الٹے پاؤں نکلنا ہے تاکہ خانہ کعبہ یا قبرنبوی کی طرف نکلتے وقت اس کی پشت نہ ہو ‘ یہ بھی بدعت فعلی ہے ‘ جو امت کے قرونِ اولى میں نہ تھی ‘لیکن اس کو تشدد پسند لوگوں نے ایجاد کیا ‘ اسی طرح اولیاء کی قبور کے اوپر لکڑی کے تابوت رکھنا اوراس کو لباس فاخرہ پہنانا اورخوشبو لگانا ‘ اورچراغاں کرنا بھی بدعت ہے –
معززقارئین!
یہ اعتقاد اور قول وعمل کی بدعات کی چند مثالیں ہیں جن پر عبادات کی چھاپ پڑگئی ہے ‘ اسی طرح معاملات کے اندر بھی بدعات پیدا ہوگئی ہیں ‘ مثلاً زانی کے اوپر زنا کی حد قائم کرنے کے بجائے قید میں ڈال دینا ‘ اسی طرح چور کے اوپر چوری کی حد جاری کرنے کے بجائے قید میں ڈال دینا ‘ اورمثلاً گھروں ‘سڑکوں ‘ اور بازاروں میں گانوں کا رواج دینا ‘ کیونکہ اس طرح کی بیہودہ ‘طرب انگیزیاں اور مدح خوانیاں اس امت کے قرون اولی میں نہ تھیں ‘ اورانہی عملی بدعات میں سے سود کی منصوبہ کاری اور اسکا اعلان نیز اس کا انکار نہ کرنا ہے ‘ اور اسی طرح عورتوں کا بے پردہ نکلنا اور عام وخاص مقامات میں گھومنا پھرنا اور مردوں کے ساتھ ان کا اختلاط ہے ‘ یہ ساری چیزیں بدترین بدعات ہیں اور امت اسلامیہ کو انحطاط وزوال کے خطرہ سے دوچار کرنے والی چیزیں ہیں ‘ جس کے آثاربھی ظاہر ہوگئے ہیں جس کے لئے کسی دلیل وحجت کی ضرورت نہیں ‘ ولا حول ولا قوۃ إلاباللہ.العظیم ( اگریہ کہا جائے کہ ہم نے یہاں لاحول الخ کیوں کہا تو اس کا جواب یہ ہے کہ غم دور کرنے کے لئے کیونکہ حضر ت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "لاحول ولا قوۃ إلا باللہ" ننانوے بیماریوں کی دوا ہے جن میں سب سے آسان غم ہے ‘(رواہ ابن ابی الدنیا وحسنہ السیوطی)
بدعت اور مصالح مرسلہ کے درمیان فرق
برادران محترم! آپ کومعلوم ہونا چاہئے کہ تشریع اسلامی ‘ جو صرف اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے ‘ جو نافع اور نفس کا تزکیہ کرنے والا روح کو پاک کرنے والا ‘مسلمان کو دنیا وآخرت کی سعادت وکمال دینے والا ہے ‘ اس کے اندر کچہ لوگوں نے بدعت حسنہ کے نام سے مسلمانوں کے لئے ایسی بدعات ایجاد کیں جن کے ذریعہ انہوں نے سنتوں کو مردہ کردیا و اورقرآن وسنت والی امت کو بدعت کے سمندر میں غرق کردیا ‘ جس کے سبب امت اسلام کے اکثرلوگ طریق حق اور راہ ہدایت سے ہٹ گئے اور باہم لڑنے جھگڑنے والے مذاہب پیدا ہوگئے ‘ اورمختلف راستے اور طریقے نکلے ‘ جو اس امت کے انحراف کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہے . اس کا سبب بدعت کو اچھا سمجھنا ہے ‘ اور بدعت کو حس قراردینا ہے ‘ ایک شخص چند بدعات ایجاد کرتا ہے جو سنن ہدى کے خلاف ہیں اورکہتا ہے کہ یہ حسن اوراچھی ہیں وہ اپنی بدعت کو رواج دیتے وقت کہتا ہے کہ یہ بدعت حسنہ ہے ‘ تاکہ یہ بدعت مقبول ہو جائے اور اس پر عمل کیا جانے لگے ‘ حالانکہ ایسا کہنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے خلاف ہے ‘ آپ نے فرمایا ( کل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار )"ہربدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا ٹھکانہ جہنم ہے"
افسوس ہے کہ بعض اہل علم اس تضلیل سے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق تشریع میں کھلی زیادتی ہے دھوکہ کھا گئے ‘ اور انہوں نے کہا کہ بدعت میں شریعت کے پانچوں احکام یعنی وجوب ‘ندب ‘اباحت ‘ کراہت اورحرام جاری ہوں گے ‘ لیکن امام شاطبی رحمہ اللہ نے اس کو سمجھا ‘ اورمیں یہاں پر بدعت کی اس تقسیم پر امام شاطبی رحمہ اللہ کی تردید اوربدعت حسنہ کے وجود کے انکار کی تقریر پیش کرتا ہوں ‘ وہ فرماتے ہیں :
" بدعت کی تقسیم سیئہ اور حسنہ کی طرف اورپانچوں احکام ( وجوب ندب اباجت کراہت حرمت ) کا ان پر جاری کرنا ایک گھڑی ہوئی بات ہے جس کی کوئی دلیل شرعی نہیں ‘ بلکہ اسکا رد خود اس کے اندر موجود ہے ‘ کیونکہ بدعت کی حقیقت یہ ہے کہ اس کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہوا کرتی ‘ نہ نصوص شرع سے اورنہ قواعد شرع سے ‘ اسلئے کہ اگر وہاں کوئی دلیل شرعی اس کے وجوب یا ندب یا اباحت کی ہوتی تو پھر وہ بدعت نہ ہوتی اوروہ عمل ان اعمال میں داخل ہوتا جن کا حکم دیا گیا ہے یا جن کا اختیار دیا گیا ہے ‘ لہذا ان اشیاءکو بدعت بھی شمار کرنا ارو اس کے وجوب یا ندب یا اباحت کی دلیل کا بھی ہونا اجتماع متناقضین ہے "((الموافقات ج/1ص/191)
محترم قارئین! آپ نے دیکھا کہ امام شاطبی رحمہ اللہ نے بدعت کے حسنہ ہونے کا کس طرح انکار کیا ہے اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم اسکے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ گمراہی ہے اور اس شخص پر کس طرح نکیر فرمائی جس کا یہ گمان ہے کہ بدعت پر پانچوں احکام جاری ہوتے ہیں (اس کو قرافی رحمہ اللہ نے "الفروق" میں نقل کیا ہے اورافسوس کہ وہ بھی فریب کھا گئے)
یعنی یہ کہ بدعت واجب ہوتی ہے یا مندوب ہوتی ہے ‘یا مباح ہوتی ہے یا مکروہ ہوتی ہے یا حرام ہوتی ہے ‘ کیونکہ بدعت تو وہ ہے جس پر شریعت یعنی کتاب وسنت اوراجماع وقیاس کی کوئی دلیل نہ ہو ‘ اگر اس پر کوئی دلیل شرعی ہو تو وہ دین وسنت ہوگی نہ کہ بدعت ‘ اس کو خوب سمجھ لو !
اب اگر یہ کہو کہ قرافی جیسے جلیل القدر علماء اس غلطی میں کیسے پڑگئے اورانہوں نے بدعت میں پانچوں احکام کے جاری ہونے کو کیسے کہ دیا؟ تو میں جواب میں عرض کروں گا کہ اس کا سبب غفلت ہے اور بدعت کے ساتہ مصالحہ مرسلہ کا اشتباہ اور التباس ہے جسکی تفصیل یہ ہے کہ :
مصالح مرسله
" مصالح مرسله "ميں "مصالح" مصلحۃ" کی جمع ہے جس کے معنی ہیں وہ چیزجو خیر لائے اور ضرر کو دور کرے اورشریعت میں اس کے ثبوت یا نفی کی کوئی دلیل نہ ہو اور یہی "مرسلہ" کے معنی ہیں کہ شریعت میں اس کے اعتبارکرنے کی یا اس کو لغو اور اس کی نفی کی کوئی قید نہ ہو ‘ اسی لئے بعض علماء نے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے کہ " مصالح مرسلہ "ہر وہ منفعت ہےجو شریعت کے مقاصد میں داخل ہو بدون اسکے کہ اس کے اعتبار یا الغاء ( لغو قراردینے) کا کوئی شاہد اوردلیل ہو " اورشریعت کے مقاصد میں داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ شریعت جلب منافع اور دفع ضرر کی بنیاد پر قائم ہے ‘ تو جس چیز سے مسلمان کو خیر پہنچےٍ اورشر دور ہو مسلمان کے لئے اسکا استعمال جائز ہے ‘بشرطیکہ شریعت نے اس کو کسی ظاہری یا پوشیدہ فساد کی وجہ سے لغو اورباطل قرارنہ دیا ہو" چنانچہ کسی عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ مادی منفعت حاصل کرنےکے لئے زنا کرے اس لئے کہ اس وسیلہ کو جو منفعت کےمثل ہے شارع نے لغو اورباطل کردیا ہے ‘ اسی طرح مرد کو یہ حق نہیں ہے کہ جھوٹ یا خیانت یا سود کے ذریعہ اپنا کوئی ذاتی مقصد پورا کرے یا دولت حاصل کرے کیونکہ ان مصلحتوں اورمنفعتوں کو شریعت نے لغو اور باطل کردیا ہے اورانکا اعتبارنہیں کیا ہے کیونکہ یہ شریعت کے پڑے مقاصد یعنی روح اور جسم کی سعادت کے منافی ہیں.
شارع نے جن چیزوں کا اعتبار کیا ہے اس میں سے بھنگ کی تحریم ہے .کیونکہ اگرچہ اس کی تحریم کی نص نہیں ہے لیکن وہ تحریم شراب میں داخل ہے ‘اس لئے یہ نہیں کہا جائے گا کہ بھنگ کی حرمت مصالح مرسلہ میں سے ہے ‘ کیونکہ شارع نے شراب کو حرام کردیا ‘ کیونکہ اس میں ضرر اور نقصان ہے ‘اور بھنگ بھی اسی طرح ہے اس لئے وہ شرعی قیاس سے حرام ہے ‘ اس مصلحت کی وجہ سے نہیں کہ اس کی وجہ سے مسلمان سے شر دفع ہورہا ہے ‘ اور اسی قبیل سے مفتی کا مال دار شخص پر کفارہ میں روزہ کا لازم کرنا ہے ‘ کیونکہ غلام آزاد کرنا ‘یا کھانا کھلانا اس کے لئے آسان ہے ‘ اس لئے مصلحت شرعیہ کی طرف نظر کرتے ہوئے کہ اس کی بے حرمتی کی مالدارلوگ جرأت نہ کریں ‘ مالداروں پر روزہ ہی لازم کردیا جائے ‘ تو یہ مصلحت باطل ہے’ اس لئے کہ شارع نے اس کے لغو کرنے کا اعتبار کیا ہے اور مصالح مرسلہ وہ ہیں کہ شریعت نے نہ اس کا اعتبار کیا ہو اورنہ اس کو لغو کیا ہو ‘اوریہاں پر شارع نے اس کو لغو قراردیا ہے کیونکہ روزہ کی اجازت اسی وقت دی ہے جب عتق یا اطعام سے عاجز ہو ‘ اللہ تعالى کا ارشاد ہے:
"پس اس کا کفارہ دس مسکینوں کا کھلانا ہےاس درمیانہ درجہ سے جس سے تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو’ یا ان کو کپڑا دینا ہے ‘ یا گردن (غلام) آزاد کرنا’ پس جو نہ پائے تو تین دن کا روزہ رکھنا’ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا لو "
اور کفارہ یمین ہی کی طرح رمضان کے دن میں جماع کرنے کا کفارہ بھی ہے ‘ لہذا مفتی کویہ حق نہیں ہےکہ عتق یا اطعام کو چھوڑ کر روزے کا فتوى دے ‘
محترم قارئین کو معلوم ہونا چاہئے کہ مصالح مرسلہ اور وہ چیز جس کا نام بدعت کے جاری کرنے والوں نے بدعت حسنہ رکھا ہے ‘ یہ ضرورت اورحاجیات اورتحسینات میں ہوا کرتی ہے’
ضروریات سے مراد وہ چیزیں ہیں ‘ جو فرد یا جماعت کی زندگی کے لئے ضروری اورناگزیر ہیں’ اورحاجیات سے مراد وہ چیزیں ہیں جو فرد یا جماعت کی حاجت کی ہوں اگرچہ ان کے لئے ضروری اورناگزیرنہ ہوں ‘ اورتحسینات سے مراد صرف جمالیات وزینت اورآراستگی کی چیزیں ہیں ‘ نہ وہ ضروری اورناگزیرہیں اورنہ ان کی حاجت ہی ہے ‘ مثال کے طور پرعرض ہے ‘حصر مقصود نہیں کہ جیسے مصحف شریف کی کتابت اور قرآن مجید کے جمع وتدوین کا کا م جو حضرت ابوبکرصدیق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے عہد میں ہوا تو یہ عمل بدعت نہیں ہے (مزید برآں یہ خلفائے راشدین کی سنت بھی ہے جن کے اتباع کا ہمیں حکم دیا گیا ہے) ‘بلکہ یہ مصالح مرسلہ کے باب سے ہے ‘ کیونکہ کمی اورزیادتی سے قرآن کی حفاظت اور قرآن کی پوری پوری حفاظت مسلمانوں پر واجب ہے ‘ تو جب ان کو قرآن کے ضائع ہوجانے کا خوف اورخدشہ ہو ا تو انھوں نے اس کا وسیلہ اورذریعہ تلاش کیا جس سے یہ مقصد حاصل ہو تو اللہ تعالی نے ان حضرات کو اسکے جمع وتدوین اوراسکی کتابت کی رہنمائی فرمائی ‘ اس لئے ان حضرات کا یہ عمل مصلحت مرسلہ ہے کیونکہ شریعت میں نہ اس کے اعتبارکی دلیل ہے اورنہ اس کے الغاء کی بلکہ وہ مقاصد عامہ میں سے ہے اب اسکے بعد بھی کیا کوئی یہ کہ سکتا ہے کہ یہ بدعت حسنہ یا بدعت سئیہ ہے ‘ نہیں !بلکہ یہ مصالح مرسلہ ضروریہ میں سے ہے.
اورمصالح مرسلہ حاجیہ کی مثال :مسجد میں قبلہ کی طرف محراب بنانا ہے .کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجدوں میں محراب نہیں ہوتے تھے ‘ جب اسلام پھیلا اورمسلمانوں کی کثرت ہوگئی اور آدمی مسجد میں داخل ہونے کے بعد قبلہ کی جہت معلوم کیا کرتا تھا ‘اورکبھی کوئی شخص نہ ملتا جس سے وہ معلوم کرے تو وہ حیرت میں پڑجاتا اس لئے ضرورت پیش آئی کہ مسجد میں قبلہ کی طرف محراب بنایا جائے جس سے اجنبی کو قبلہ معلوم ہوجائے
اور اسی کے مثل نماز جمعہ میں اذانِ اوّل کی زیادتی ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کی کیونکہ جب مدینہ بڑا ہوگیا اوراسلام کا دارالحکومت ہوگیا اوراس کی آبادی اوربازاربہت وسیع ہوگئے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی یہ رائے ہوئی کہ وقت سے پہلے اذان دے دی جائے تاکہ خرید وفروخت کی غفلت میں جولوگ پڑے ہوئےہیں وہ باخبراورمتنبہ ہوجائیں ‘ اسکے بعد جب لوگ آجاتے اوروقت ہو جاتا اور مؤذن اذان دیتا’ توآپ کھڑے ہوکرخطبہ دیتے اورنماز پڑھاتے ‘ اس لئے یہ بدعت نہیں ہے ‘ کیونکہ اذان نماز کے لئے مشروع ہے. اورکبھی کبھی فجرکی نمازکے لئے بھی دو اذانیں دی جاتیں ‘ لیکن یہ بھی مصالح مرسلہ میں سے ہے ‘ جس میں مسلمانوں کا نفع ہے ‘ اگر چہ یہ ان کی ضروریات سے نہیں ہے لیکن یہ ان کو فائدہ پہنچاتی ہے کہ نماز جو ان پر واجب ہے اس کے وقت کے قریب ہونے پر تنبیہ کرتی ہے ‘ اور چونکہ شریعت میں مسئلہ محراب یا مسئلہ اذان کے اعتبار یا الغاء کی کوئی دلیل اورشاہد نہیں ہے ‘ اور دونوں مسئلے مقاصد شرع میں داخل ہیں اس لئے یہ کہنا صحیح ہے کہ یہ مصالح مرسلہ میں سے ہیں پہلی تو حاجیات (ضرورتوں ) کے قبیل سے ہے اوردوسری تحسینات کے قبیل سے .
اورانہی مصالح مرسلہ میںسے جس میں بعض اہل علم غلطی میں پڑگئے اورانہون نے کہا کہ یہ بدعت حسنہ ہے اوراس پربہت سی بدعات ممنوعہ کو قیاس کرلیا ‘ مسجد میں مناروں اوراذان گاہوں کا تعمیرکرنا ہے تاکہ مؤذن کی آواز شھراوردیہات کے اطراف تک پہنچے’ جس سے لوگوں کو وقت کے ہوجانے کا یا وقت قریب ہونے کا علم ہوجائے ‘ اور اذان گاہوں ہی کی طرح امام کا خطبہ اس کی قرأت اورنماز کی تکبیرات سننے کے لئے لاؤڈ اسپیکر لگانا ہے ‘ اوراسی طرح مکاتب میں حفط قرآن کے لئے اجتماعی قرأت اورتلاوت ہے (بلاد مغرب میں اس مسئلہ پر بے حد قیل وقال ہے کیونکہ تونس ‘جزائر اور مراکش کے لو گ بعض نمازوں کے بعد حزب پڑھتے ہیں یعنی بیک آواز اجتماعی قرأت کرتے ہیں ‘ اورقرأت کی یہ ہیئت بدعت ہے .بعض اہل علم نے اس سے منع کیا ہے کیونکہ یہ بعد کی ایجاد اوربدعت ہے ‘ جوعہد سلف میں معروف نہ تھی ‘ اور بعض اہل علم نے اسکی اجازت دی ہے اسلئے کہ یہ حفظ قرآن کا وسیلہ اور ذریعہ ہے اوران لوگوں سے میں نے جو بات کہی وہ دونوں آراء کی جامع تھی وہ یہ کہ اگراس اجتماعی قرأت سے مراد تعبد اورعبادت ہے تو یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ محدثہ اوربدعت ہے اوراگراس سے مراد قرآن کی حفاظت ہے تاکہ وہ ضائع نہ ہو تو ان مصالح مرسلہ میں سے ہے جس کی اجازت اہل علم دیتے ہیں واللہ اعلم.) یہ ان مصالح مرسلہ میں سے ہے کہ شارع نے جس کے اعتبارکی یا الغاء کی شہادت نہیں دی ہے لیکن یہ مقاصد عامہ کے تحت داخل ہے ‘ اسلئے کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں حاصل ہے کہ یہ بدعت حسنہ ہے اورپھر اس پر اس بدعت کو قیاس کرے جس کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے (إیاکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ ) " تم (دین میں )نئی ایجاد کردہ چیزوں سے بچو’اسلئےکہ ہرنئی نکالی ہوئی چیز بدعت ہے اورہربدعت گمراھی ہے ".
قاری محترم! خلاصہ یہ ہے کہ مصالح مرسلہ اورہیں اوربدعت محدثہ اور’ مصالح مرسلہ بالذات مقصود ومطلوب نہیں ہوتیں بلکہ کسی واجب کی حفاظت یا اس کی ادائیگی کے وسیلہ کے طورپر مطلوب ہوتی ہیں یا پھر کسی مفسدہ کو دفع کرنے کے لئے ان کا ارادہ کیا جاتا ہے ‘لیکن
بدعت تو ایک شریعت سازی ہے ‘جوشریعت الہی کے مشابہ ہے اوروہ بالذات مقصود ہوتی ہے ‘ اوروہ جلب منفعت یا دفع مضرت کے لئے وسیلہ نہیں ہوتی ‘ اوروہ تشریع جو مقصود بالذات ہو وہ صرف اللہ تعالى کا حق ہے ‘کیونکہ اللہ تعالى کے سوا کوئی بھی ایسی عبادت وضع کرنے پر قادر نہیں ہے جو انسانی نفس میں تطہیر وتزکیہ کا عمل کرسکے ‘ انسان کبھی بھی اسکا اہل نہیں ہوسکتا ‘
اس لئے اس کے لئے لازم ہے کہ اپنی حد میں رہے ‘ اور وہی طلب کرے جو اس کے لئے مناسب ہے اورجوچیز اس کے لئے مناسب نہیں ہے اس کو ترک کردے اس لئے کہ یہی اس کے لئے بہتر اورباعث سلامتی ہے
محفل مولود اسلام کی نظر میں
لفظ موالد’مولِد کی جمع ہے ‘اس کے معنی اورمطلب ہر اسلامی ملک میں ایک ہی ہیں ‘البتہ یہ لفظ خاص "مولد" (مولود) ہر اسلامی ملک میں نہیں بولا جاتا ‘کیونکہ مغرب اقصی یعنی مراکش کے لوگ اس کو "مواسم" کے نام سے یاد کرتے ہیں ‘چنانچہ کہا جاتا ہے مولائی ادریس کا موسم ‘ اور مغرب اوسط یعنی جزائر کے لوگ اس کو "زرد" کا نام دیتے ہیں جو "زردہ" کی جمع ہے ‘چنانچہ کہا جاتا ہے "سیّدی ابو الحسن شاذلی کا زردہ" اور اہل مصر اورشرق اوسط کے لوگ اسکو "مولد" کہتے ہیں ‘چنانچہ وہ کہتے ہیں "سیّدہ زینب کا مولد" یا "سید بدوی کا مولِد"
اہل مغرب اس کو "مواسم " اس لئے کہتے ہیں کہ وہ لوگ اسے سال میں ایک مرتبہ کرتے ہیں’ اوراہل جزائر اس کو "زردہ" اس اعتبار سے کہتے ہیں کہ اس میں وہ کھانے کھائے جاتے ہیں جو ان مذبوح جانوروں سے پکتے ہیں جو وہاں ولی کے نام پر ذبح کئے جاتے ہیں یا اس کے اوپر چڑھائے جاتے ہیں ‘ جیسی بھی اس چڑھاوا چڑھانے والے کی نیت ہوتی ہے’ اوربعض لوگ اس کو "حضرۃ" کہتے ہیں یا تو اس وجہ سے کہ وہاں اس ولی کی روح آتی ہے ‘خواہ توجہ اوربرکت ہی کے طورپر یا اس وجہ سے کہ وہاں یہ جشن منانے والے آتے ہیں اورقیام کرتے ہیں ‘ یہ تو وجہ تسمیہ تھی ‘ اب رہے وہ اعمال جو وھاں ہوتے ہیں ‘تو وہ ہر ملک کے لوگوں کےشعور اورفقر وغناء کے اعتبار سے کیفیت اورکمیت میں مختلف ہیں ‘ لیکن ان میں جو چیز قدرمشترک ہے وہ درج ذیل ہے:
1- جس ولي كے لئے یہ موسم یا زردہ یا مولد یا حضرۃ قائم کیا گیا ہے اس کے لئے نزو ونیاز اورجانور ذبح کرنا .
2- اجنبی مردوں اورعورتوں کا اختلاط
3- رقص و سرود اورمختلف دف ومزامیر وباجے بجانا .
4- خرید وفروخت کے لئے بازارلگانا ‘لیکن یہ مقصود نہیں ہوتا ‘مگر تاجرلوگ ایسے بڑے بڑے مجمعوں میں نفع اندوزی کرتے ہیں اوروہاں اپنا سامان تجارت لے جاتے ہیں جب سامان سامنے آتا ہے اورلوگ اس کو طلب کرتے ہیں تو اس طرح بازار قائم ہی ہوجاتا ہے ‘مثال کے لئے منى اورعرفات کے بازار کا فی ہیں .
5- ولی یا سیّد سے فریاد طلب کرنا اوران سے استغاثہ کرنا اور شفاعت اورمدد طلب کرنا اوراپنی ہر وہ حاجت اورمرغوب چیز مانگنا جس کا حصول دشوار ہو حالانکہ یہ شرک اکبر ہے والعیاذ باللہ.
6- کبھی کبھی فسق وفجور اورشراب نوشی وغیرہ بھی ہوجاتی ہے لیکن یہ ہر ملک اورہر مولد میں نہیں ہوتا .
7- حکومتیں ان مواسم کو قائم کرنے کےلئے سہولتیں فراہم کرتی ہیں ‘ اور کبھی کبھی مال یا گوشت یا کھانا وغیرہ دے کربھی اس میں حصہ لیتی ہیں’ حتى کہ فرانس بھی مغرب کے تینوں ملکوں میں اس سلسلے میں تعاون کیا کرتا تھا ‘یہاں تک کہ ٹرین کے کرایہ میں تخفیف کردی جاتی تھی ‘ اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ حکومتِ مصر بھی اسی طرح کرتی ہے ‘ اورعجیب ترین بات اس سلسلہ میں جو ہم نے سنی ہے وہ یہ ہے کہ جنوبی یمن کی حکومت جو کہ خالِص کمیونسٹ نظریہ کی ہے وہ بھی ان موالد کی حوصلہ افزائی کرتی ہے’ اگر چہ یہ حوصلہ افزائی خاموشی اختیا ر کرکے ہو ‘مجھے یہ بات خود جنوبی یمن کے لوگوں نے بتائی ‘حالانکہ یہی وہ حکومت ہے جس نے تمام اسلامی عقائد ‘عبادات اوراحکام کا انکارکردیا ‘اوریہ اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ یہ عرس میلا د صرف اسلام کو نقصان پہنچانے ہی کے لئے اوراسکا خاتمہ ہی کرنے کے لئے ایجادکئے گئےہیں ‘اور اسی سبب ان موالدومواسم اورزردہ وحضرۃ کا حکم اسلام میں بالکل او رقطعی ممانعت اورحرمت ہے ‘ اوریہ اس لئے کہ یہ بدعات عقیدہ اسلامیہ کوپامال کرنے اور مسلمانوں کے حالات کو تباہ کرنے کی بنیاد پر قائم ہیں ‘ جس کی دلیل یہ ہے کہ اہل باطل ان بدعات کی نصرت اورتعاون کرتے ہیں اوراس کے ساتھ پوری ہمنوائی کرتےہیں ‘ اوراگر اس میں کوئی ایسی چیز ہوتی جو روح اسلامی کو بیدار کرتی ہو یا مسلمانوں کے ضمیر کو حرکت میں لاتی ہو تو تم ان باطل حکومتوں کو دیکھتے کہ وہ ان سے جنگ اوران کے خاتمہ کے درپے ہوجاتیں.
کیا غیر اللہ سے دعا کرنا اورغیراللہ کے نام پر ذبح کرنا اوران کے لئے نزرونیاز ماننا شرک کے سوا کچہ اورہے جو باطل اورحرام ہے ‘ اور ان عرس ومیلاد کی محفلوں کی ساری بنیاد ہی اس پر قائم ہے اورکیا رقص وسرود اورعورتوں مردوں کا اختلاط فسق وفجور اورحرام کے سوا اور کچہ ہے ؟ یہ عرس ومیلاد اورمواسم جب ان چیزوں سے خالی نہیں تو بھلا یہ حرام کیسے نہ ہو ں گے ‘ اورکیا ان عرس وموالدکو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ اور صحابہ کے تابعین بھی جانتے تھے ؟جواب یہی ہے کہ نہیں نہیں!تو پھر جو چیزرسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے زمانہ میں دین نہ رہی ہو کیا وہ اب دین ہو جائے گی ؟ اورجو چیز دین نہ ہوگی تو وہ بدعت ہوگی اورھربدعت گمراہی ہے اورہر گمراھی دوزخ میں لے جانے والی ہے ‘ امام مالک رحمہ اللہ علیہ سے اس گانے کے بارے میں دریافت کیا گیا جس کی بعض اہل مدینہ رخصت دیا کرتے تھے ‘ تو آپ نے پوچھنے والے سے کہا کہ کیا گانا حق ہے ؟.تو اس نے کہا نہیں ‘ تو آپ نے فرمایا حق کے بعد گمراہی کے سوا کچھ بھی نہیں ‘ پس یہ موالد ومواسم بشمول ان چیزوں کے جوان میں حق ہے ‘ اورجو حق نہیں ہے ‘باطل ہی ہیں ‘ کیونکہ حق کے بعد گمراہی کے سوا کچہ بھی نہیں .
اور اب مولود نبوی شریف سے وہ اجتماعات مراد ہیں جو مسجدوں میں اورمالدار مسلمانوں کے گھروں میں ہوتے ہیں’ جو اکثر پہلی ربیع الأول سے بارہ ربیع الأول تک ہوتے ہیں ‘جن میں سیرت نبویہ کا کچہ حصہ پڑھا جاتا ہے ‘مثلا نسب پاک ‘قصہ ولادت اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعض جسمانی اوراخلاقی شمائل اورخصوصیات اورساتھ ہی بارہ ربیع الأول کو عید کا دن مناتے ہیں ‘ جس میں اہل وعیال پر خرچ کرنے پر وسعت کرتے ہیں اورمدارس ومکاتب بند کردئے جاتے ہیں اوربچے اس دن طرح طرح کے کھیل کودکھیلتے ہیں ‘ یہ مولود وہ ہے جو ہم بلاد مغرب میں جانتے تھے ‘لیکن جب ہم بلا د مشرق میں آئے تو ہم نے دیکھا کہ یہاں مولد سے مراد وہ اجتماعات ہیں جو مالداروں اورخوشحال لوگوں کے گھروں میں مولود نبوی شریف کی یاد گارکے طورپر منعقد ہوتے ہیں ‘ اوروہ ان کے یہاں ماہ ربیع الأول اوربارہ ربیع الأول کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ‘بلکہ موت وحیات یا کسی بھی نئی بات کے موقع پر یہ محفل قائم کرلیتے ہیں.
اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جانورذبح کئے جاتے ہیں کھانا تیار ہوتا ہے دوست واحبا ب ورشتہ دار اورتھوڑے سے فقیر ومحتاج لوگ بھی بلالئے جاتے ہیں ‘ پھر سب لوگ سننے کے لئے بیٹھتے ہیں ‘ ایک خوش آوازنوجوان آگے بڑھتا ہے ‘ اوراشعار پڑھتا ہے اورمدحیہ قصیدے ترنم کے ساتھ پڑہتا ہے ‘ اورسننے والے بھی اس کے ساتھ
یش کرکے اللہصلوات پڑھتے ہیں اس کے بعد ولادت مبارکہ کا قصہ پڑھتا ھے ‘ اورجب یہاں پہنچتا ہےکہ حضرت آمنہ کے شکم مبارک سے آپ مختون پیدا ہوئے ‘تو سب لوگ تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں اورکچھ دیررسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت آمنہ کے شکم مبارک سے پیدائش کا تخیل باندہ کر تعظیم وادب کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں ‘ پھر دھونی اورخوشبو لائی جاتی ہے ‘ اور سب لوگ خوشبو لگاتے ہیں ‘ اس کے بعد حلال مشروب کے پیالےآتے ہیں ‘ اور سب لوگ پیتے ہیں پھر کھانے کی قابیں پیش کی جاتی ہیں ‘ اس کو لوگ کھا کر اس اعتقاد کے ساتھ واپس ہوتے ہیں کہ انھون نے بارگاہ الہی میں بہت بڑی قربت پ کا تقر ب حاصل کرلیا ہے .
یہاں اس بات پر متنبہ کردینا ضروری ہے کہ اکثر قصیدے اورمدحیہ اشعار جو ان محفلوں میں ترنم کے ساتھ پڑہے جاتے ہیں وہ شرک اورغلو سےنہیں خالی ہوتے ‘جس سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے جیسا کہ آپ کا فرمان ہے (لاتطرونی کما أطرت النصاری عیسی ابن مریم وإنما أنا عبداللہ ورسولہ ‘فقولو ا عبداللہ ورسولہ )(بخاری ومسلم)
"تم مجھے حد سے نہ بڑھانا ‘جس طرح نصارى نے عیسی بن مریم کو حد سے بڑھایا ‘ میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں ‘ پس اللہ کا بندہ اوراسکا رسول کہو" اسی طرح یہ محفلیں ایسی دعاؤں پر ختم ہوتی ہیں جس میں توسل کے غیر شرعی الفاظ اور شرکیہ حرام کلمات ہوتے ہیں ‘ کیونکہ اکثر حاضرین عوام ہوتے ہیں ‘یا اس باطل کی محبت میں غلو کرنے والے ہوتے ہیں جن سے علماء نے منع فرمایا ہے ‘جیسے بجاہ فلاں اوربحق فلاں کہ کردعا کرنا والعیاذباللہ تعالی ‘واللہم صل علی محمد وآلہ وصحیہ وسلم تسلیما کثیرا.
یہ ہے وہ مولدجو اپنے ایجاد کے زمانہ یعنی ملک مظفرکے عہد 625ھ سے آج تک چلی آرہی ہے .
اب رہا شریعت اسلامیہ میں اس کے حکم کا سوال تو اس کا فیصلہ ہم قاری کے لئے چھوڑدیتے ہیں ‘کیونکہ جب اس بحث سے یہ معلوم ہوگیا کہ میلاد ساتویں صدی کی پیداوار ہے ‘ اورہر وہ چیز جورسو ل صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کے عہد میں دینی حیثیت سے نہ رہی ہو ‘ وہ بعد والوں کے لئے بھی دینی حیثیت اختیار نہ کرے گی ‘ اورجو مولود آج لوگوں کے درمیان رائج ہے’
یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ کے عہد میں اورقرون مشہود لہا بالخیر میں اورساتوں صدی کی ابتداء تک جو کہ فتنوں اورآزمائشوں کی صدی تھی نہیں موجود تھا ‘ پھر بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ بلکہ یہ بدعت اورگمراہی ہے کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے (إیا کم ومحدثات الأمورفإن کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالہ ) (رواہ اصحاب السنن) "کہ تم (دین میں ) ہرنئی ایجاد کردہ چیز سے بچو کونکہ ہر بدعت گمراہی ہے "
حکم شرع کی مزید وضاحت کے لئے ہم کہتے ہیں کہ جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو دین میںنکالی ہو ئی نئی باتوں سے پرہیزکا حکم دیا ہے اوریہ بتایا ہے کہ ہر ایسی نئی چیز بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے ‘ اوراما م مالک رحمہ اللہ نے اپنے شاگرد اما م شافعی رحمہ اللہ علیہ ( اوریہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ابن ماجشون رحمہ اللہ سے فرمایا ) سے فرمایا کہ :" کہ ہر وہ چیز جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب کے زمانہ میں دین نہیں تھی ‘ وہ آج بھی دین نہیں بنے گی " اورفرمایا کہ: "جس نے اسلام کے اندر کوئی بدعت نکالی اوراس کو اچھا سمجھا تو اس نے یہ گمان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت کے پہنچانے میں خیانت کی ہے کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے (المائدۃ :3) " آج کے دن تمہارے لئے ‘تمہارے دین کو میں نے کامل کردیا ‘ اورمیں نے تم پر اپنا انعام تمام کردیا اورمیں نے اسلام کوتمہارے لئے بطوردین پسند کرلیا "
اورامام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ " ہر وہ چیز جو کتاب وسنت اوراجماع کے خلاف کی جائے تو وہ بدعت ہے " توکیا مروجہ میلاد نبوی بدعت نہ ہوگا ‘ جب کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورخلفائے راشدین کی سنت نہ تھی ‘ اورنہ سلف صالح کا عمل تھا ‘ بلکہ تاریخ اسلام کے تاریک دور میں اس کی ایجاد ہوئی ‘ جب کہ فتنے پیدا ہوچکے تھے ‘ اورمسلمانوں میں اختلاف پھوٹ چکا تھا ‘ پھر اگر ہم یہ تسلیم ہی کرلیں کہ میلاد قربت کی چیز ہے بایں معنی کہ وہ عبادت شرعیہ ہےجس سے آدمی اللہ تعالى کا قرب حاصل کرتا ہے تاکہ اللہ تعالى اس کو اپنے عذاب سے نجات دے کرجنت میں داخل کردے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ اس عبادت کو مشروع کس نے کیا ‘ اللہ تعالى نے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ؟ جواب یہ ہے کہ کسی نے نہیں ‘ پھر یہ عبادت کس طرح ہوسکتی ہے جب کہ اللہ اور اسکے رسول نے اس کو مشروع نہیں کیا ‘ یہ محال ہے ‘ دوسرے یہ کہ عبادت کے لئے چار حیثیتیں ضروری ہیں یعنی کمیت ومقدار ‘کیفیت اورزمان ومکان ‘
اورکون ان حیثیات کو ایجاد اوران کی حدبندی کرسکتا ہے ؟ کوئی نہیں ‘ اورجب یہ ہے تو پھر میلاد کسی بھی صورت نہ قربت ہے نہ عبادت ‘ اورجب یہ نہ قربت ہے اورنہ عبادت توپھر بدعت کے سوا اورکیا ہوسکتا ہٍے؟
میلاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کی نظر میں
میلاد کی تعریف:
عربی زبان میں میلاد نبوی شریف اس جگہ یا اس زمانہ کو کہتے ہیں جس میں خاتم الأنبیاء ‘امام المرسلین’ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے پس آپ کی جائے پیدائش (فداہ ابی وامی ) ابو یوسف کا وہ گھرہےجہاں پر آج مکہ مکرمہ میں پبلک لائبریری بن گئی ہے ‘ اورآپ کا زمانہ پیدائش ‘مشہورترین اورصحیح ترین روایت کی بناء پر 12ربیع الأول عام الفیل مطابق اگست 570 ءھے .
لغت کے لحاظ سے لفظ "مولد شریف" کا یہی مطلب ہے اوریہی معنی ہے جس کو مسلمان نزول وحی کے زمانہ سے لے کر سوا چہ صدی تک ‘یعنی ساتویں صدی کی ابتداء تک جانتے رہے پھر خلافت راشدہ اسلامیہ کے سقوط اورممالک اسلامیہ کی تقسیم کے بعد اورعقائد وسلوک میں ضعف اورانحراف اورحکومت وانتظامیہ میں فساد کے ظہورکے بعد مولود شریف کی یہ بدعت ضعف و انحراف کا ایک مظہر بن کر ظاہر ہوئی ‘ اس بدعت کو سب سے پہلے ملک شام کے علاقہ اربل (صحیح یہ ہے کہ اربل موصل کا علاقہ ہے ) کے بادشاہ ملک مظفرنے ایجاد کیا ‘ غفراللہ لنا ولہ ‘ اورمولد کےموضوع پر سب سے پہلی تالیف ابو الخطاب بن دحیہ کی ہے ‘ جس کا نام "التنویر فی مولد البشیرالنذیر" ہے جس کو انہوں نے ملک مظفر کے سامنے پیش کیا اوراس نے انہیں ایک ہزار اشرفیاں انعام دیں.
اس سلسلہ میں ایک لطیفہ یہ ہے کہ امام سیوطی نے اپنی کتاب "حاوی " میں ذکرکیاہے کہ ملک مظفر جو اس بدعت مولود کا موجد ہے ‘ اس نے اسی طرح کی محفل مولود کے ایک موقع پر دسترخوان لگوایا ‘ جس پر پانچ ہزار بُھنی ہوئی بکریاں اوردس ہزار مرغیاں اورسوگھوڑےاورایک لاکہ مکھن اورحلوہ کی تیس ھزار پلیٹیں تھیں ‘ اورصوفیاءکے لئے محفل سماع قائم کی جو ظہرسے لے کر فجر کے وقت تک جاری رہی اوراس میں رقص کرنے والوں کے ساتھ وہ خود بھی رقص کرتا رہا’ بھلا وہ امت کیسے زندہ رہ سکتی ہے جس کے سلاطین درویش ہوں ‘اوراس طرح کی غلط محفلوں میں ناچتے ہوں ‘ إناللہ و'نا إلیہ راجعون.
اگریہ کہا جائے کہ اگریہ میلاد بدعت ہے تو کیا اس کے کرنے والے کو ان نیک اعمال کا بھی ثواب نہ ملے گا جو اس کے اندرہوتے ہیں یعنی ذکر ودعا اورکھانا کھلانے کا ؟
ہم عرض کریں گے کہ کیا ناوقت نماز پڑھنے پر ثواب ملے گا ؟ کیا بےموقع صدقہ کرنے میں ثواب ملے گا ؟ کیا نا وقت حج کرنے میں ثواب ملےگا ؟ کیا غیر کعبہ کے طواف میں ثواب ملےگا؟ کیا غیر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے میں ثواب ملےگا ؟ اگر ان سب کا جواب نفی میں ہے تو ان نیک اعمال کے متعلق بھی جو محفل میلاد کے ساتھ کئے جاتے ہیں یہی جواب ہوگا کیونکہ ان کے ساتھ بدعت لگی ہوئی ہے .
اس لئے کہ اگر وہ صحیح ہوجائے اورمقبول ہوجائے تو پھر احداث فی الدین ممکن ہوجائے گا ‘ حالانکہ یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے مردود ہے ‘ آپ نے فرمایا " جسنے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات نکالی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے".
محفل میلاد کے ثابت کرنے کےلیے جو دلیلیں دی جاتی ہیں، وہ غیر کافی ہیں
میلاد منعقد کرنے والے جو پانچ دلیلیں دیتے ہیں ‘ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں شریعت کو چھوڑ کر اتباع نفس کارفرما ہے ‘دلیلیں درج ذیل ہیں :-
1- سا لانہ یاد گار ہونا’ جس میں مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یادگار مناتےہیں ‘ جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی عظمت اورمحبت میں اضافہ ہوتا ہے
2- بعض شمائل محمدیہ کا سننا اورنسب نبوی شریف کی معرفت حاصل کرنا –
3- رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر اظہار خوشی ‘کیونکہ یہ محبت رسول اورکمال ایمان کی دلیل ہے
4- کھانا کھلانا اوراس کا حکم ہے اور اس میں بڑا ثواب ہے خصوصاً جب اللہ تعالى کا شکرادا کرنے کی نیت سے ہو.
5- اللہ تعالی کا ذکر یعنی قرأت قرآن اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف کے لئے جمع ہونا.
یہ وہ پانچ دلیلیں ہیں ‘ جنہیں میلاد کو جائز کہنے والے بعض حضرات پیش کرتے ہیں ‘ اورجیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں یہ دلیلیں بالکل ناکافی ہیں اورباطل بھی ہیں ‘ کیونکہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شارع علیہ الصلوۃ والسلام سے کوئی چوک ہوگئی تھی جس کی تلافی اس طرح کی گئی ہے کہ ان چیزوں کو ان لوگوں نے مشروع کردیا ‘ جن کو شارع علیہ الصلوۃ والسلام نے باوجود ضرورت کے مشروع نہیں کیا تھا ‘ اوراب قاری کے سامنے یکے بعد دیگرے ان دلیلوں کا بطلان پیش ہے .
1- پہلی دلیل’ اس وقت دليل بن سكتی ہے ‘ جبکہ مسلمان ایسا ہو کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر دن بھرمیں دسیوں مرتبہ نہ کیا کرتا ہو تو اس کے لئے سالانہ یا ماہانہ یادگاری محفلیں قائم کی جائیں ‘ جس میں وہ اپنے نبی کا ذکرکرے تاکہ اس کے ایمان ومحبت میں زیادتی ہو ‘ لیکن مسلمان تو رات اوردن میں جو نماز بھی پڑھتا ہے اس میں اپنے رسول کا ذکرکرتا ہے ‘ اوران پر درود وسلام بھیجتا ہے اورجب بھی کسی نماز کا وقت ہوتا ہے ‘ اورجب بھی نماز کے لئے اقامت کہی جاتی ہے تو اس میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اورآپ پر درود سلام ہوتا ہے ‘ بھول جانے کے اندیشہ سے تو اسکی یاد گار قائم کی جاتی ہے جسکا ذکر ہی نہ ہوتا ہو ‘ لیکن جس کا ذکر ہی ذکرہوتا ہو جوبھلایا نہ جاسکتا ہو ‘ بھلا اس کے نہ بھولنے کے لئے کس طرح کی محفل منعقد کی جائےگی ‘ کیا یہ تحصیل حاصل نہیں ہے ‘حالانکہ تحصیل حاصل لغو اورعبث ہے ‘ جس سے اہل عقل دوررہتے ہیں .
2- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض خصائل طیبہ اورنسب شریف کا سننا ‘
یہ دلیل بھی محفل میلاد قائم کرنے کے لئے کافی نہیں ہے ‘ کیونکہ آپکے خصائل اورنسب شریف کی معرفت کے لئے سال بھر میں ایک دفع سُن لینا کا فی نہیں ہے ‘ ایک دفع سننا کیسے کافی ہوسکتا ہے جب کہ وہ عقیدہ اسلامیہ کا جزء ہے؟
ہرمسلمان مرد اورعورت پر واجب ہے کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب پاک اوران کی صفات کو اس طرح جانے جس طرح اللہ تعالی کو اس کے ناموں اورصفتوں کے ساتھ جانتا ہے اوریہ وہ چیز ہے کہ جس کی تعلیم انتہائی ضروری اورناگزیر ہے ‘ اس کے لئے سال میں ایک مرتبہ محض واقعہ پیدائش کا سن لینا کافی نہیں ہے .
3- تیسری دلیل بھی بالکل واہی تباہی دلیل ہے ‘کیونکہ خوشی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے یا اس دن کی ہے جس میں آپ کی پیدائش ہوئی ‘ اگرخوشی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے تو ہمیشہ جب بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرآئے خوشی ہونی چاہئے ‘ اورکسی وقت کے ساتھ خاص نہیں ہونا چاہئے ‘ اور اگرخوشی اس دن کی ہے جس دن آپ پیدا ہوئے تو یہی وہ دن بھی ہے جس میں آپ کی وفات ہوئی ‘ اورمیں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی ایسا عقلمند شخص ہوگا جو اس دن مسرّت اورخوشی کا جشن منائے گا جس دن اس کے محبوب کی موت واقع ہوئی ہو حالانکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سب سے بڑی مصیبت ہے جس سے مسلمان دوچار ہوئے حتى کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کہا کرتے تھے کہ !جس پر کوئی مصیبت آئے تو اس کو چاہئے کہ اس مصیبت کویاد کرلے جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہنچی ہے’ نیز انسانی فطرت اس کی متقاضی ہے کہ انسان بچہ کی پیدائش کے دن خوشی مناتا ہے اوراسکی موت کے دن غمگین ہوتا ہے ‘لیکن تعجب ہے کہ کس دھوکہ میں یہ انسان فطرت کو بدلنے کے لئے کوشاں ہے .
4-چوتھی دلیل یعنی کھانا کھلانا’ یہ پچھلی سب دلیلوں سے زیادہ کمزور ہے ‘ کیونکہ کھانا کھلانےکی ترغیب اس وقت دی گئی جب اس کی ضرورت ہو’ مسلمان مہمان کی مہمان نوازی کرتا ہے ‘ بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے اور صدقہ وخیرات کرتا ہے اور یہ پورے سال ہوتا ہے ‘ اس کے لئے سال میں کسی خاص دن کی ضرورت نہیں ہے کہ اسی دن کھانا کھلائے’ اس بناء پر یہ ایسی علت نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے کسی بھی حال میں کسی بدعت کا ایجاد کرنا لازم ہو .
5- پانچویں دلیل یعنی ذکر کے لئے جمع ہونا ‘ یہ علت بھی فاسد اورباطل ہے ‘ کیونکہ بیک آواز ذکر کےلئے اجتماع سلف کے یہاں معروف نہیں تھا. اسلئے یہ اجتماع فی نفسہ ایک قابل نکیر بدعت ہے اورطرب انگیز آواز سے مدحیہ اشعار اورقصائد پڑھنا تو اور بھی بدترین بدعت ہے ‘ جسے وہی لوگ کرتے ہیں جنہیں اپنے دین پر اطمینان نہیں ہوتا ‘ حالانکہ ساری دنیا کے مسلمان رات اوردن میں پانچ مرتبہ مسجدوں میں اورعلم کے حلقوں میں علم ومعرفت کی طلب کے لئے جمع ہوتے ہیں ‘ اس لئے ان کو ایسے سالانہ جلسوں اورمحفلوں کی ضرورت نہیں ہے جن میں اکثر حظوظ نفسانیہ یعنی طرب انگیز اشعار کے سننے اورکھانے پینے کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے .
محفل میلاد کو جائز کہنے والوں کے چند کمزور شبہات
برادران اسلام! پ کو معلوم ہونا چاہئے کہ جب ساتویںصدی کے آغاز میں میلاد کی بدعت ایجاد ہوئی ‘اورلوگوں کے درمیان پھیل گئی ‘ کیونکہ اس وقت مسلمانوں کے اندرروحانی اورجسمانی خلاء پیدا ہوگیا تھا ‘ اس لئے کہ انہوں نے جہاد کوترک کردیا تھا ‘ اور فتنوں کی اس آگ کے بجھانے میں مشغول ہوگئے تھے جو اسلام کے دشمن یہودیوں ‘عیسائیوں اورمجوسیوں نے بھڑ کا رکھا تھا ‘ اوریہ بدعت نفوس میں جڑ پکڑگئی ‘ اوربہت سے جاہلوں کے عقیدہ کا جزء بن گئی ‘ جس کی وجہ سے بعض اہل علم مثلاً سیوطی رحمہ اللہ نے اس کے سوا اورکوئی چارہ کارنہ دیکھا کہ ایسے شبہات تلاش کرکے اس کے لئے جواز نکالا جائے ‘جن سے اس بدعت مولود کے جواز پر استدلال کیا جاسکے ‘ اوریہ اس لئے تاکہ عوام الناس اور بلکہ خواص بھی راضی ہوجائیں ‘ اوردوسری طرف علماء کا اس سے رضامند ہونے اوراس پر حکام وعوام کے ڈرسے خاموش رہنے کا جوازنکل آئے
اب ہم یہاں ان شبہات کوبیان کرتے ہیں اورساتھ ہی ان کا ضعف وبطلان بھی ‘تاکہ اس مسئلہ میں مزید بصیرت حاصل ہو ‘ جس پر بحث کرنے اوراس میں حق کی وضاحت کرنے کے لئے ہم مجبو ر ہوئے ہیں ‘ ان شبہات کا مدار ایک تاریخی نقل اورتین احادیث نبویہ پرہے ‘ ان شبہات کے ابھارنے والے اوراجاگر کرنے والے سیوطی غفراللہ لنا ولہ ہیں ‘ حالانکہ وہ اس طرح کی چیزوں سے مستغنی ہو سکتے تھے ‘ وہ دسویں صدی کے علماء میں سے ہیں جو فتنوں اورآزمائشوں کا زمانہ تھا ‘ تعجب یہ ہے کہ ان شبہات پر وہ مسرور ہیں ‘ اور ان پر فخر کرتے ہیں ‘ کہتے ہیں کہ !مجھے شریعت میں میلاد کی اصل مل گئی ہے اورمیں نے اس کی تخریج کرلی ہے (الحاوی فی الفتاوى للسیوطی )
لیکن سیوطی سے اس طرح کی باتوں کا کچہ تعجب نہیں ‘ جب کہ ان کے متعلق کہا گیا ہے وہ " حاطب لیل " (رات کے اندھیروں میں لکڑی جمع کرنے والے کی طرح ہیں )یعنی صحیح وضعیف سب کو جمع کرنے والے تھے . .
جاری