lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
یہ تحریر یہاں سے لی گئی
لنک
http://www.islamic-belief.net/مساجد-کی-تطہیر/
تحقیق درکار ہے- تا کہ باطل کا رد کیا جا سکے شکریہ
الله تعالی قرآن میں کہتا ہے
وأن المساجد لله فلا تدعوا مع الله أحدا
اور بے شک یہ مسجدیں اللہ کے لئے ہیں پس ان میں الله کے سوا کسی کو نہ پکارا جائے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا
لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بَاعًا بِبَاعٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، وَشِبْرًا بِشِبْرٍ، حَتَّى لَوْ دَخَلُوا فِي جُحْرِ ضَبٍّ لَدَخَلْتُمْ فِيهِ”، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ الْيَهُودُ، وَالنَّصَارَى؟ قَالَ: “فَمَنْ إِذًا
تم ضرور پچھلی امتوں کی روش پر چلو گے، جسے بالشت بالشت اور قدم با قدم حتیٰ کہ اگر کوئی ان میں سے کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم اس میں بھی ان کی اتباع کرو گے- پوچھا اے الله کے رسول کیا یہود و نصاری؟ آپ نے فرمایا اور کون
گمراہ امتوں نے غلو کیا اور اپنے انبیا کا اس قدر بلند کیا کہ ان کو مسند الوہیت پر بیٹھا دیا – عسائیوں نے تثلیث کا عقیدہ گڑھا اور مشرک قوموں کی طرح ایک رمز اور اشارہ اپنے مذھب کے لئے ایجاد کیا جس میں صلیب کا نشان تھا جس کو انہوں نے اپنی عبادت گاہوں میں لگایا اور باقاعدہ بت پرستی کا آغاز ہوا اور عیسیٰ کی پوجا پاٹ ہونے لگی – اسلام کی بت پرستی کے خلاف دعوت سے متاثر ہو کر عیسائی بازنیطی سلطنت میں بت کشی کا آغاز ہوا – سن ١١٢ ہجری میں بازنیطی حکمران لیو نے بت شکنی کا آغاز کیا جن کو اکونوکلاسٹ کہا جاتا ہے- سن ١٧٠ ہجری میں بادشاہ ایرین نے واپس عیسیٰ کے بت گرجا گھروں میں رکھوئے- سن ١٩٨ ہجری میں واپس بت پرستی کے خلاف تحریک شروع ہوئی اور سن ٢٢٧ ہجری تک مشرق الوسطی میں اس تحریک کا اثر رہا اس دوران گرجا گھروں میں عیسیٰ اور صلیب کی کوئی بھی شکل گرجا گھروں میں نہیں رہی لیکن اس تحریک کو کامیابی نہ مل سکی اور اس کے بعد سے آج تک عیسیٰ کا بت یا صلیب گرجا گھروں میں موجود ہے-
وقت کے ساتھ مسلمان بھی انہی رمز و اشاروں کی طرف بڑھتے رہے- بازنیطی سلطنت میں مریم علیہ السلام کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے ان کو تھیوتوکوس یا والدة الإله کہا جاتا ہے- عیسائیت سے قبل شام و ترکی میں عشیرات کی پوجا ہوتی تھی جو پیدائش و تخلیق کی دیوی تھی اور اس کا نشان چاند اور سات تارے تھے اسی دیوی سے متعلق چیزوں کو مریم علیہ السلام سے منسوب کیا گیا آج بھی عسائیوں میں مریم اور سیون اسٹارز کا تصور موجود ہے- متھرا دھرم میں بھی سات کا عدد اہمیت رکھتا تھا جس کا اثر فارس کے زرتشت مذھب پر بھی تھا- اج بھی نو روز پر سات چیزوں کا اہتمام کیا جاتا ہے چاہے مسلم ہوں یا غیر مسلم- ثریا جو آسمان میں ستاروں کا ایک جھرمٹ ہے اس کو پلادث (١) کہا جاتا ہے اس میں سات ستارے ہیں
- Pleiades
- ثریا کو کہانت میں بھی خاص اہمیت حاصل ہے اور اس کو سات کنواریوں کی شکل میں بنایا جاتا ہے ہاروت و ماروت سے منسوب ایک عوام میں مشھور قصے میں بھی اس کا کردار موجود ہے
سلطنت عثمانیہ کا پر چم
سلطنت عثمانی میں ترک علاقوں میں، قبل اسلام عیسائیت کی وجہ سے، چاند تارے کی اہمیت پہلے سے تھی -اسی چاند اور تارے کو اسلامی نشان قرار دیا گیا اور یر پرچم پر بھی بنایا گیا- وہیں سے یہ چاند تارا تمام مساجد پر پہچ گیا اور ہر مینار پر آ لگا- وہابیوں نے بھی اس کو سر چڑھایا اور بیت الله کے گرد اس نشان کو میناروں پر سونے کا بنا کر لگایا
آخر اس کی کیا ضرورت تھی اور یہ کب سے ایک اسلامی نشان تھا کسی حدیث میں نہیں- اگر کہا جائے کہ مسلمان چاند سے تاریخ مقرر کرتے ہیں تو ایسا تو یہودی بھی کرتے ہیں وہ بھی چاند سے تاریخ لیتے ہیں-
اسلامی ربع الحزب کا نشان
یہودی مہر سلیمان
کعبہ الله پر منبی ایک جیومیٹریکل شکل کو بھی خوب پذیرائی ملی- اسلام سے متعلق ویب سائٹ ہو، کتاب کی جلد ہو ، قرآن کی آیت کا اختتام ہو، ہو مسجد میں نقاشی ہو، یر جگہ یہ آٹھ کونوں والا نشان نظر اتا ہے- جو مغضوب علیہ قوم کے چھ کونوں والے ستارے کا مقابلہ ہے جس کو مہر سلیمان یا داودی تارہ کہا جاتا ہے- لہذا چار کونوں والے کعبہ کو ایک کے اوپر ایک رکھ کر آٹھ کونوں والا تارہ کا نشان تیار کیا گیا ہے – اس کو خاتم سلیمان کہا جاتا ہے اور ربع الحزب بھی کہا جاتا ہے – اس کا استمعال مغربی افریقہ کے اسلامی ممالک میں سب سے پہلے ہوا
مسلمانوں میں سے ایک گروہ نے ہاتھ کا نشان اپنے لئے پسند کیا ہے یہ بھی اسلامی نشان نہیں- اس کو الخمسه یا پنجہ کہا جاتا ہے- قدیم زمانے میں اس نشان کو ستارہ الزہرہ یا سیارہ وینس کا ہاتھ کہا جاتا ہے جس کی پرستش مشرق الوسطی میں ہوتی تھی اور اس نشان کو دیوی کی حفاظت سمجھا جاتا– فاطمه رضی الله عنہا کو بھی الزہرہ کہا جاتا ہے جو ایک مشھور بلا سند لقب عوام میں مشھور ہے اور ان کو اس الخمسه میں خاص اہمیت حاصل ہے لہذا اس نشان کو دست فاطمه بھی کہا جاتا ہے- پنجہ کو پنج تن یا پانچ اجسام سے بھی منسوب کیا جاتا ہے جس میں علی فاطمہ حسن حسین اور محسن ہیں- ہندؤں میں اس کو مدرہ کہا جاتا ہے جس میں ہاتھوں سے اشارہ کیا جاتا ہے اور مذہبی رقص میں اس کی ترتیب بہت اہم ہوتی ہے- یہ نشان یہودی تصوف میں بھی مشھور ہے
حدیث میں اتا ہے کہ اس امت میں دجال ظاہر ہو گا جس کے ماتھے پر کفر لکھا ہو گا جس کو ہر مومن پڑھ لے گا –- بہت ممکن ہے کہ وہ ایک نشان اپنے ماتھے پر بنائے جس کو ہم اب اسلامی کہتے ہوں- مسلمانوں کو چاہیے کہ ان مشرکانہ نشانات سے اپنے آپ کو الگ کریں اور اپنی مسجدوں کو ان سے پاک کریں