• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسجد اقصی کی حفاظت کرہ ارض پر موجود ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے

ابوحتف

مبتدی
شمولیت
اپریل 04، 2012
پیغامات
87
ری ایکشن اسکور
318
پوائنٹ
0
گزشتہ ہفتے اسرائیلی حکمران جنونی جماعت لیکود کے لیڈرموشے فیگلن کی سربراہی میں نسل پرست یہودیوں نے حرم القدس پر حملوں کی کوشش کی۔دھاوا بولنے والے تلمودی خطباء نے ھیکل چوٹی کو اسرائیل کے دشمنوں سے پاک کرنے کے بینرز اٹھا رکھے تھے۔

دیگر جنونی یہودیوں کی طرح فیگلن بھی اسرائیل اور فلسطین کے مابین اراضی کے تبادلے پر مشتمل کسی بھی انتظام کے شدید خلاف ہے۔ وہ برٹش میڈیٹ کے تحت ایک ایسی تلمودی مذہبی ریاست تشکیل دینے کی حمایت کرتے ہیں جس کا حدود اربعہ دریائے اردن سے بحیرہ روم تک پھیلا ہو جہاں پر عیسائیوں اور مسلمانوں سمیت تمام غیر یہودی اقوام یہودیوں کو اپنا آقا تسلیم کرتے ہوئے صرف لکڑہاروں اور پانی ڈھانے والوں کے کردار تک محدود ہوں۔

اپنی آقا نسل کو تسلیم نہ کرنے والے یا کسی بھی منتخب شہری کو جب چاہے ملک بدر کر دیا جائے اگر کوئی مزاحمت کرے تو اسے جسمانی طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ ماضی میں کبھی اسرائیلی رہنما اس طرح سے اپنی قتل عام کی پالیسی کوکھل کر بیان نہیں کرتے رہے جیسا کہ ان دنوں کر رہے ہیں۔ اسرائیلی طاقتور گروپوں نےامریکا کی سیاست اور پالیسیوں کو قبضے میں لے رکھا ہے اور جوں جوں اسرائیل سیاسی،معاشی اور بالخصوص عسکری طور پر مضبوط ہوتا جا رہا ہے، یہودی مسیحا اور یسوع مسیحا کے انتظار میں تڑپنے والے یہودی رہنماؤں نے دنیا پر قبضے کے اپنے خوابوں کا چرچا کھل کر کرنا شروع کردیا ہے۔

بیتے دنوں میں بالخصوص اسرائیل کے قیام سے قبل تلمودی رہنما مسیحا کو ایک آسمانی دیوتا سمجھتے تھے جو تمام انسانوں کو غلام بنا لے گااور یہودیوں کو اس قابل بنا دے گا کہ وہ اپنے آپ کو تمام انسانوں میں منتخب افراد قرار دینے کی حیثیت حاصل کرسکیں گے۔ تاہم اب مسیحا کو ایک انتہائی ظالم یہودی اور جنگجو پیشوا کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جس کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا۔ اس طرح اب مسیحا کی آمد کا مقصد دنیا کا امن نہیں بلکہ یہودیوں کو اس قابل بنانا ہے جو دنیا بھر کی دیگر اقوام کو اپنا غلام بنا سکیں اور القدس سے ساری دنیا کو کنٹرول اور اس پر حکمرانی کرسکیں۔

ان تشریحات کے مطابق مسیحا کی دوبارہ آمد کے قائل عیسائی، جو مغرب میں اسرائیل کے سب سے بڑے حامی ہیں، بھی یہودی مظالم کی زد میں آنے سے نہیں بچیں گے۔

یسوع کو بیت لحم کا ہٹلر قرار دیا جا رہا ہے۔ ادھر کیتھولک چرچ کی جانب سے پابندی لگائے گئے عیسائیوں کے خلاف تلمودی ٹیکسٹ ’’چیسرونوٹ شاس‘‘(Chesronot Shas) بھی سرعام مغربی القدس کی لائبریریوں میں کھلے عام مہیا کی جا رہی ہے۔ اگر آپ سٹیمیٹزکی (Steimatzky) لائبریری کا وزٹ کریں تو آپ کو یہ چھوٹی کتابوں مل جائے گی۔

مختصر یہ کہ کتاب وحی میں ذکر کردہ یہودیوں کا ’’مسیح کی صد سالہ حکومت‘‘ (Millenarianism) کاعقیدہ کسی جنت نظیر امن کا نہیں ہے، یہ عقیدہ ایسی دنیا کے بارے میں قطعی نہیں ہے جہاں انصاف اور محبت کی حکومت ہو گی۔ بلکہ اب اس عقیدے کا مطالب ہزاروں سالوں تک یہودی کی آمریت کا قیام ہے۔

یہودیوں کا مسیحا کی آمد کا نظریہ جیسا کہ وہ بتایا جاتا ہے اور جیسا کہ اس پر موشے فیگلن اور گش ایمونم (Gush Emunim) کے دہشت گرد عمل کر رہے ہیں میں کوئی انسانیت نہیں ہے۔ اس ظالمانہ نظریے کا بڑے موثر انداز میں جرمن نازازم سے تقابل کیا جا سکتا ہے۔ آپ کو ’جرمن نازم’ کے لفظ میں جرمن کی جگہ’یہودی‘ کا لفظ لگانا ہو گا۔ سب کچھ بالکل واضح ہے۔

ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ لوگوں کے لیے انتہائی مقدس بیت المقدس کی مسجد اقصی پر حالیہ حملوں کے پیچھے اسرائیل اور یہودیوں کا یہ شیطانی، زہریلےاور نسل کشی پر مبنی نظریہ کار فرما ہے۔ انتہاء پسند یہودیوں کی بیمار ذہنیت کی ایجاد اس نظریے کے مطابق مسیحا اس وقت ہی ظاہر ہوگا جب پوری دنیا میں نسل کشی، قتل و غارت گری، فتنوں اور تشدد کا دور دورہ ہوگا۔

لہذا فیگلن اور اس کے دہشت گرد پیروکاروں کی جانب سے چودہ سو سال تک اسلامی عبادت گاہ رہنے والے اس مقام پر حملوں سے مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین ایسی خونریز مذہبی جنگیں شروع ہو جائیں گی جو صرف ایک یہودی مسیحا کے ظہور کے ساتھ ہی ختم ہونگی۔

یہی وجہ ہے کہ جنونی اور نیم پاگل مذہبی یہودی پیشوا کسی بھی صورت تشدد، خون بہانے اور مصائب پیدا کرنے کا کوئی موقع ضائع جانے نہیں دینگے۔ان کے عقیدے کے مطابق وہ انسانی تاریخ کے اس اہم ترین واقعے کے ظہور کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں جو ان کے نزدیک بڑے نصیب کی بات ہے۔ لہذا کوئی بے وقوف اور جاہل ہی تشدد کو ہوا دینے کے کسی موقع کو خالی جانے دے سکتا ہے۔

کسی کو اس بات سے سروکار نہیں کہ اس مطلوب ہولو کاسٹ کے ظہور کے لیے جاری کیے گئے تشدد اور جنگوں میں کتنے لاکھ یہودی اور غیر یہودی لوگاس دنیا سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اہم بات یہ ہے کہ مسیح بن ڈیوڈ اس دنیا میں آ رہا ہے۔

مذکورہ بالا عقائد کے بارے میں ذہن نشین رہے کہ اسرائیلیح کومت کے ترجمان کی جانب سے مغربی میڈیا کے سامنے دی جانے والی وضاحت کہ یہ ناپاک عقیدہ صرف یہودی اقلیت کے ایک گروہ اور چند متعصب ربیوں اور تلمودی پیشواؤں کا ہی ہے درست نہیں۔ صہیونی مذہبی لوگوں کی اکثریت جو اسرائیلی حکومت پر بھی کنٹرول رکھتی ہے کا مذہبی نظریہ یہ ہی ہے۔

اسرائیل عربوں اور مسلمانوں کے ساتھ امن کی بات انتہائی تسلسل کے ساتھ کرتا رہتا ہے۔ اس کی یہ تمام باتیں مکروفریب اور غلط بیانی کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ کیونکہ بالاخر حقیقت یہ ہی سامنے آتی ہے کہ اس کے تمام دعووں کواس کا عمل جھٹلا دیتا ہے۔

اسرائیل کے منہ سے امن و آشتی کی باتیں کسی بھی صورت زیب نہیں دیتیں، اس کی جانب سے فلسطینی عوام کے خلاف جرائم اور مظالم کی داستانیں تسلسل کے ساتھ رقم کی جا رہی ہیں۔ بلاشبہ ایک ایسا ملک جو اپنے لاکھوں لوگوں کوایک ایسے ملک میں رہنے کے لیے بھیج رہا ہے جو اس کا اپنا نہیں وہ کیسے لوگوں کوحقیقی انصاف فراہم کر سکتا ہے۔

نازیوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران فرانس پر قبضہ کیا لیکن کیا انہوں نے فرانسیسی اراضی پر قبضہ کرنے کے لیے لاکھوں جرمنوں کو فرانس منتقل کیا تھا؟ 1948ء میں اٹہتر فیصد فلسطین پر قبضے کے ساتھ ساتھ اسرائیل 1967ء سےمغربی کنارے اور مشرقی القدس میں یہودی کالونیاں تعمیر کر رہا ہے جس کا مقصد یہاں کے مقامی فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کر کے ان علاقوں کی جغرافیائی حیثیت میں تبدیلی لانا ہے۔ یہ وہ اقدامات ہیں جن کے ذریعے بخوبی چیک کیا جا سکتا ہے کہ اسرائیل اور امن باہم متضاد اصطلاحات ہیں۔

مسجد اقصی اور قبہ صخرہ پر یہودیوں کے حملے اس بات کاواضح ثبوت ہیں کہ وہ دنیا میں موجود ایک ارب ساٹھ کروڑ مسلمانوں کے خلاف جنگ شروع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ قبلہ اول مسجد اقصی پر حملہ مکہ میں خانہ کعبہ پر حملے کے مترادف ہے۔ کیا کسی کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات آ سکتی ہے کہ خانہ کعبہ پر حملہ کسی مسلمان یا اسلام کے خلاف نفرت اور بدنیتی پر مبنی نہیں ہے؟

مسجد اقصی کے خلاف بنائے گئے نسل کشی پر مبنی اس منصوبے کا صاف صاف مطلب یہ ہے اسرائیلی مقبوضہ فلسطین میں غیر یہودیوں کے خلاف قتل عام کا جواز ڈھونڈ رہا ہے۔ بالخصوص وہ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین اور اراضی سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل کی دلیل بڑی واضح ہے کہ ایک مرتبہ مسجد اقصی کو ختم کر دیا جائے تو فلسطین میں کسی مسلمان یا فلسطینی کے رہنے کا جواز بھی یکسر ختم ہو جائے گا۔

بعض یہودی حلقے اس علاقے میں جنگ کے شعلوں کو بڑھکا رہے تاکہ اس کا حتمی فائدہ اسرائیل کو پہنچے۔ اسرائیل دن رات مغربی بالخصوص اپنےسرپرست اتحادی امریکا کو ایران کے خلاف حملے پر بھڑکا رہا ہے۔ مسلم دنیا کو ایران کے خلاف خونخوار قسم کی لگائی گئی حالیہ پابندیوں کو بھی اسرائیل کی مسلم دشمنی کےتناظر میں ہی دیکھنا چاہیے۔

اسرائیل حامی حلقے بھی امریکا کو عرب ممالک میں آنے والےانقلابات کےخلاف اکسا رہے ہیں بالخصوص مصر اور تیونس کے حالیہ انتخابات میں اسلام پسند جماعتوں کی کامیابی کے بعد تو یہ عمل زیادہ تیز ہو گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہی صہیونی حلقے مغربی دنیا کو یہ واضح اور کھلا پیغام دینے میں مصروف ہیں کہ اگر خطےمیں سکیولر لیکن درحقیقت صوابدیدی اختیارات والی حکوتیں برقرار رکھنا کسی بھی طرح اخوان المسلمون جیسی اسرائیل کے خلاف محض بیانات داغنے والی اسلام پسند تنظیموں سے زیادہ قابل ترجیح ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ایران یا کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ اسرائیل ہی کو اسلامی اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن سمجھا جانا چاہیے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ایران مکمل طور پر درست ہے لیکن بہرحال ایرانی مسجد اقصی کو منہدم کرنے اور فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے محروم کرنے کی کوششوں میں تو مصروف نہیں ہیں۔

ان سب حالات کے تناظر میں یہ بات واضح ہے کہ القدس میں موجود قبلہ اول مسجد اقصی سمیت تمام اسلامی مقدسات کی حفاظت کی ذمہ داری کرہ ارض پر موجود ہر مسلمان، حکومتوں اور انفرادی شخصیتوں، کی ہے۔ ان سب کو اپنی اس انتہائی بڑی ذمہ داری کو اٹھانا ہو گا۔ مسلمان حکومتوں کو مسجد اقصی اور مسئلہ فلسطین کو اپنی خارجہ پالیسی میں اولین ترجیح پر رکھنا ہو گا۔ مصر، اردن، ترکی اورنسل پرستانہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنے والے ممالک کی یہ بالخصوص ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس معاملے کو اسرائیلی سفارتکاروں کے سامنے سنجیدگی سے اٹھائیں۔

ہم ان ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ ماحول میں بات چیت اور محض سفارتی قابل قبول موشگافیوں کی بات نہیں کر رہے بلکہ ہمیں توقع ہے کہ یہ ممالک اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک کے خلاف حالیہ یہودی حملوں کے خلاف ایک سنجیدہ اور ٹھوس احتجاج کریں گے۔ اسرائیلی سفارتکاروں کو یہ واضح پیغام دیا جانا ضروری ہے کہ کوئی مسلمان ملک مسجد اقصی اور اسلامی مقدس مقامات پر حالیہ طرز کے حملوں کے جاری رہتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال نہیں رکھ سکتا۔

بدقسمتی سے اس ضمن میں مسلمان ملکوں کا ریکارڈ حوصلہ افزا نہیں رہا یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے کبھی حقیقی طور پر یہ محسوس نہیں کیا کہ مسلمان حکوتیں بالخصوص مسلمان ممالک کی سکیولر حکومتیں اس مسئلے کو کوئی خاص غیر معمولی توجہ دیں گی۔

تاہم اب یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ مصر اور تیونس میں ابھرنے والی نئی اسلامی حکومتیں مسجد اقصی کے تحفظ جیسے اہم مسئلے پر اپنی پارلیمان کے خصوصی سیشنز مختص کریں گی جس میں یہودیوں کی جانب سے مسجد اقصی پر حملوں کی دھمکیوں کا نہ صرف سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے گا بلکہ اس ضمن میں ٹھوس اقدامات بھی تجویز کیے جائیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ اسلام پسند یا اسلام پسند نظرآنے والی جماعتیں اس معاملے پر اپنی گہری دلچسپی ضرور لیں گی۔

یہ سب میں اس لیے کہ رہا ہوں کہ اگر مسلمان اس معاملے پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار نہیں کرینگے تو اور کون کریے گا؟ دنیا بھر میں موجود اسلامی کمیونیٹیز کو بھی اس معاملے میں اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہو گی۔ انہیں موثر میڈیا مہم کے ذریعے ساری دنیا کو یہ واضح پیغام دینا ہے کہ مسلمان اپنے مقدس مقامات کے خلاف جاری ریشہ دوانیوں پر ہاتھ باندھے نہیں بیٹھے رہ سکتے۔

ہمیں اپنی آوازوں کو بلند کرنا ہے کیونکہ دنیا خاموش لوگوں کی آواز نہیں سن سکتی اور نہ ہی کمزور آوازیں دنیا کی توجہ حاصل کر پاتی ہیں۔ ہمیں اپنے آپ کو مضبوط کرنا ہوگا کیونکہ دنیا ایک ایسے جنگل میں تبدیل ہو چکی ہے جہاں پر صرف مضبوط اور طاقتور کی ہی عزت کی جاتی ہے اور کمزوروں کو کچل دیا جاتا ہے۔
خالد امائرے-مرکز اطلاعات فلسطین.
 
Top