حرب بن شداد
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 13، 2012
- پیغامات
- 2,149
- ری ایکشن اسکور
- 6,345
- پوائنٹ
- 437
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا ۭ اُولٰۗىِٕكَ يُعْرَضُوْنَ عَلٰي رَبِّهِمْ
اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یہ لوگ اپنے پروردگار کے سامنے پیش کیے جائیں گے
(سورہ ھود ١٨)۔۔۔
السلام علیکم۔۔۔
دوستو!۔۔۔
امریکہ کے شہر ورجینیا میں مصالحت بین المذاہب سنٹر کے ڈائریکٹر ولیم ساکس کا کہنا ہے کہ اسلام سے متعلق امریکہ میں اہم ترین مسئلہ میڈیا اور مذاہب کے پیروں کاروں کے درمیان مفاہمت کے عمل کی سست روی ہے میڈیا میں اسلام سے منسوب انتہا پسندوں کے تشدد کے واقعات کو اچھالا جارہا ہے اور مختلف مذاہب خصوصا اسلام کے پیروکاروں کی مثبت سرگرمیوں اور روشن خدمات کو نظر انداز کیا جارہا ہے مجھے افسوس ہے کہ خصوصا امریکہ اور عموما مغربی ملکوں میں عربوں اور مسلمانوں کے ساتھ نسلی تفریق روا رکھی جارہی ہے اور ان کی توہین وتذلیل کی جارہی ہے۔۔۔ الاخبار المدینہ میں ڈاکٹر ولیم ساکس کا وہ انٹریوں پیش کیا گیا جو انہوں نے اسلام دشمن عناصر کی سازشوں کے جواب میں دیا تھا۔۔۔ اس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔۔۔
س۔ سب سے پہلے یہ بتائیں کے مصالحت بین المذہب سینٹر کیا کررہا ہے؟؟؟۔۔۔
ج۔ ٢٠ وین صدی کے اواخر میں ہم نازک دور میں داخل ہوئے مذاہب کے پیروکاروں کے تعلقات ایک دوسرے کے ساتھ ناگفتہ بہ ہوگئے اختلافات اور تعصبات پیدا ہوگئے ہمارے مرکز کا بنیادی کام یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان تعلقات استوار ہوں اس مقصد کے لئے ہم مختلف مطالعات اور تحقیقی کام کررہے ہیں ہم ایسے عالمی سماج کی تشکیل کا طریقہ کار دریافت کررہے ہیں اور اسے قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو کثیرالمذاہب ہو جہاں مختلف مذاہب کے پیروکار ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہوں اور ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوں ہم لوگ نہ صرف یہ کہ تحقیقی کام کرتے ہیں انہیں عملی جامہ بھی پہناتے ہیں تحقیقی جائزوں کو الماریوں کی نذر نہیں ہونے دیتے ہم اپنے تحقیقی کاموں کے نتائج دنیا کے تمام ممالک کو فراہم کررہے ہیں عالمی درجے کی یونیورسٹیز سے رابطے میں ہیں مکالمہ مراکز سے رابطے استوار کئے ہوئے ہیں۔۔۔
برسرپیکار علاقوں کی حکومتوں کے ساتھ افہام وتفہیم کی سبیل پیدا کئے ہوئے ہیں حال ہی میں امریکہ کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کو ختم کرنے کی مہم کے تحت نہ صرف یہ کہ امریکہ میں پہلے سے موجود غیرمسلموں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کو معمول کے مطابق لانے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ مختلف ممالک سے آنے والے مسلمانوں کے ساتھ امریکہ کے غیر مسلموں کے تعلقات کو بھی بہتر بنانے پر توجہ دے رہے ہیں میں نے محسوس کیا ہے کہ مسلمان اپنے مذہب کی عظمت کو ثابت کرنے کی فکر رکھتے ہیں مسلمان کبھی بھی خونریزی اور تشدد کے دلدادہ نہیں ہوتے مسلمان میڈیا کے پروپیگنڈے کے برعکس ہیں ابتداء میں ہمارا احساس تھا کہ مسلمان امریکی معاشرے میں گھل مل جانے کی مہم کی مخالفت کرینگے لیکن ہمیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ امریکی معاشرے کا حصہ بننے پر پوری طرح سے آمادہ ہیں اور اس حوالے سے انکا رویہ انتہائی مثبت ہے۔۔۔
س۔ مذاہب عالم کے پیروکاروں کے درمیان مصالحت کی ضرورت کو تسلیم کرنے والے آسمانی مذاہب کے درمیان تعلقات کو کس طرح دیکھ رہے ہیں؟؟؟۔۔۔
ج۔ مذہبی حقائق بتاتے ہیں کہ تمام آسمانی مذاہب کا سرچشمہ ایک ہے اور وہ اللہ تعالٰی کی ذات ہے اللہ ایک ہے تمام انسان کائنات کی تعمیر کیلئے پیدا کئے گئے اور دنیا کے تمام انسان ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرنے کے پابند ہیں قرآن کریم یہی کہتا ہے توریب اور انجیل کا سبق بھی یہی ہے تاہم آسمانی مذاہب کے پیروکار مذہبی تعلیمات کی تشریحات میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں اسی اختلاف نے تنازعات اور کشمکشوں کو جنم دیا ہے یہ کشمکش مذہب کا لبادہ اوڑھ کر سنگین بحران کی شکل اختیار کرگئیں مذہب سے نہ اس کشمکش کا کوئی تعلق ہے اور نہ درپیش مذہبی بحران سے عیسائیوں کی طرف سے برپا کی جانے والی صلیبی جنگیں اقتصادی وسیاسی جنگیں تھیں انکے پیچھے اقتصادی وسیاسی مفادات کارفرما تھے نہ کہ مذہب۔۔۔
اسی طرح مسلمانوں میں انتہا پسندوں نے ایسے نعرے دیئے کہ جن کا اسلام سے دور پرے کا کوئی رشتہ نہیں مگر نعروں کو اسلام کا لبادہ اوڑھا دیا گیا تھا اچھی بات یہ ہے کہ معتبر علماء اسلام اغیار کو قبول ہیں اور انکے ساتھ مکالمہ کرتے ہیں جبکہ سطحی نوعیت کے علماء غیرمسلموں کے خلاف قتال کا علم بلند کئے ہوئے ہیں انتہا پسندی کا دائرہ عیسائیوں اور مسلمانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہودی بھی انتہا درجے کے تشدد میں مبتلا ہیں۔۔۔ اسکا مظاہرہ یہودیت کے نام پر فلسطینی علاقوں میں ہونے والے واقعات کی صورت میں دیکھا جارہا ہے فلسطینی عوام کی نسلی تطہیر کی جارہی ہے اسرائیلی فوج مذہبی تعلیمات کے بہانے خونریزی کی انتہاء کئے ہوئے ہے۔۔۔
س۔ مذہب کے پیروکاروں کے درمیان موجود خلیج کو پاٹنے کے لئے کیا کیا جائے؟؟؟۔۔۔
ج۔ خلیج کو پاٹنے اور غلط فہمیاں دور کرنے کیلئے دو سطحوں پر کام کی ضرورت ہے ایک تو عوام کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے دوم اعلٰی درجے کے تعلیم یافتہ لوگوں میں پھیلی ہوئی بدگمانیوں کے ازالے کی بھی اشد ضرورت ہے ان میں سے کسی ایک پر اکتفاء نہیں کیا جاسکتا ہمیں یہ ماننا پڑیگا کہ عالمی امن کیلئے غلط فہمی کا ازالہ از بس ضروری ہے۔۔۔
اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے مذہبی ورثے کے گہرے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ان تینوں مذاہب میں قدر مشترک زیادہ اور قدر مختلف کم ہے لہذا دنیا کے تمام علاقوں بے ہوئے عام لوگوں تک یہ تصویر عام کرنا ہے کہ آسمانی مذاہب کی بیشتر تعلیمات ایک جیسی ہیں اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جن میں اسلام عیسائیت اور یہودیت کے درمیان اختلاف پائے جاتے ہیں جب یہ کام احسن طریقے سے موثر شکل میں ہوگا تو مذاہب کے پیروکار ایک دوسرے کے قریب آئیں گے اسی طرح سیاستدانوں کا فرض ہے کہ وہ تمام مذاہب کے پیروکاروں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کیلئے عملی اقدامات کریں۔۔۔
س۔ امریکی شہری اسلام کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟؟؟۔۔۔
ج۔ صاف بات یہ ہے کہ گیارہ ستمبر سے قبل امریکی شہری اسلام سمیت کسی بھی مذہب میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے یہی وجہ تھی کہ مسلمان امریکی معاشرے میں کسی آزمائش کے بغیر پرامن طریقے سے ٹھیک ٹھاک انداز میں رہ رہے تھے کبھی کبھار مٹھی بھر انتہاپسند یہودی امریکہ میں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ چھیڑخانی کرتے رہتے تھے گیارہ ستمبر کے طیارہ حملوں کے بعد امریکہ میں اسلام کا نام ابھر کر سامنے آیا میں یہ بات کسی ادنٰی جھجھک کے بغیر ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ امریکہ میں گیارہ ستمبر کے بعد مسلمان کا لفظ دہشتگردی کے ہم معنی مشہور ہوگیا کچھ عرصے بعد امریکی دانشوروں نے اسلام کی بابت استفسارات کا سلسلہ شروع کیا انہوں نے اسلام کے گہرے مطالعے پر توجہ مبذول کی افسوسناک بات یہ ہے کہ اسلام سے متعلق مطلوبہ معلومات وافر مقدار میں مہیا نہ ہونے کی وجہ سے اسلام کی تصویر بگاڑنے کا موقع مل گیا آگے چل کر امریکہ میں موجود کئی اسلامی اداروں نے اس کمی کو محسوس کیا انہوں نے حالات کا قریب سے جائزہ لیا اور اسلام کے تعارف کی مہم شروع کردی گئی تسلی بخش بات یہ ہوئی کہ ایک طرف تو اسلام کے تعارف کے پروگرام شروع ہوئے اور دوسری جانب امریکی دانشوروں نے مسلم دنیا کے دوروں کا آغاز کیا انہوں نے قریب سے اسلام کو جاننے کی کوشش کی اچھی بات یہ ہوئی کہ امریکی دانشوروں نے مسلم ممالک جاکر قریب سے جو کچھ دیکھا جانا اس سے ان لوگوں نے اپنے ہموطنوں کو آگاہ کیا امریکی دانشوروں کے یہ دورے اسلام کی حقیقی شکل پیش کرنے میں کارگر ثابت ہوئے۔۔۔
س۔ کیا امریکی شہری دیندار ہیں؟؟؟۔۔۔
ج۔ امریکی شہری مذہبی اداروں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں دینداری انکے یہاں ثانوی درجے کی ہے تاہم مذہبی شعور کی کوئی کمی نہیں میرے نقطہ نظر سے بعض امریکی دوسروں کے مذہبی مزاج کو نہیں سمجھتے امریکی شہری اسلام سے ناواقف ہیں اسی وجہ سے اسلام کے بارے میں شکوک وشبہات میں مبتلا ہیں امریکی شہری دوسروں کے عقائد کا احترام کی طرح کریں اس کا شعور نہیں رکھتے اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان تعلقات اور مفاہمت کا جو ماحول ہونا چاہئے وہ نہیں ہے اسکے متعدد اسباب ہیں ایک سبب یہ ہے کہ امریکی کتابوں میں اسلام کی بابت شکوک وشبہات اچھالے گئے ہیں زیادہ تر امریکی کتابیں ایسی ہیں جن میں اسلام پر زبردست حملے کئے گئے ہیں ہم ان دنوں تینوں آسمانی مذاہب کے ماننے والے طلبہ کو جمع کرتے ہیں اور ان کے درمیان مکالمہ کراتے ہیں اس طریقہ کار کی بدولت یہودی، عیسائی اور مسلمان طلبہ ایک دوسرے کو سمجھنے لگے ہیں یہ امریکی معاشرے میں امن اور محبت کی تحریک کا نقطہ آغاز ہیں۔۔۔
س۔ امریکی شہری مشرق وسطٰی کے سیاسی اختلافات سے متاثر ہوتے ہیں؟؟؟۔۔۔
ج۔ جی ہاں! ہم لوگ امریکی حکومت کو اکثر وبیشتر اس حقیقت سے خبردار کرتے رہتے ہیں امریکی حکومت سے مسلسل مطالبہ ہی کررہے ہیں کہ وہ مشرق وسطٰی میں دہری پالیسی سے باز آجائے یہ سچ ہے کہ اسرائیل اور عربوں کے ساتھ امریکی حکومت کے رویئے مختلف ہیں ہم چاہتے ہیں کہ امریکی حکومت کے رویئے مختلف ہیں ہم چاہتے ہں کہ امریکہ جو پالیسی اسرائیل کے ساتھ اختیار کرے ہوئے ہے وہی عربوں کے ساتھ بھی اپنائے دہرے معیار والی پالیسی اپنانےکی وجہ سے ہی مذہبی مصالحت کی تمام کوششیں قیل ہورہی ہیں۔۔۔
س۔ اسلام پر ہمیشہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اسکی تعلیمات اور اقدار انسانی حقوق اور جمہوریت سے میل نہیں کھاتیں آپ کی نظر میں کیا یہ الزام درست ہے؟؟؟۔۔۔
ج۔ میں انتہائی صاف گوئی کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں اور چاہتا ہوں کے یہ بات ریکارڈ پر آئے کہ اسلام امن اور جمہوریت کا علمبردار مذہب ہے یہ بات میں کسی جانبداری کے بغیر کہہ رہا ہوں مجھے یقین ہے کہ جو لوگ اس کے برعکس باتیں کرتے ہیں وہ حق اور سچ نہیں کہتے میں ظہور اسلام سے لیکر تاحال اسلامی تہذیب و تمدن کا مضمون پڑھاتا ہوں اور اپنے طلباء کو جمہوریت، سرمایہ داری اور آزادی جیسے الفاظ اور اصطلاحات کی حقیقت سے آگاہ کرکے کہتا ہوں کہ تمام طلباء ڈکشنری سے رجوع کرکے لفظ کا مفہوم از خود تلاش کریں میں ان سے کہتا ہوں کہ جب تک جمہوریت نہیں ہوگی وہ آزادی محسوس نہیں کرینگے اسلامی تاریخ کے اسکالر کے طور پر میں یہ بات جانتا ہوں کہ خلیفہ، حکام اور رعایا کے درمیان تعلقات جمہوری عمل کا بھرپور حصہ تھے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام اور جمہوریت میں کوئی تضاد نہیں۔۔۔
جس شخص کو اس سچائی کے بارے میں شبہ ہو وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کرے جو بھی مطالعہ کریگا اسے معلوم ہوگا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرزندان اسلام میں مشاورت کے اصول کو کس حد تک راسخ کردیا تھا۔۔۔
س۔ ان دنوں اسلام سے متعلق بہت سارے روشن حقائق کھل کر سامنے آگئے ہیں سوال یہ ہے کہ یہ تصویر عام لوگوں کی سطح پر کیوں نظر نہیں آتی اور مغربی ممالک کے سیاستدانوں کے فیصلوں میں یہ سچائی کیوں منعکس نہیں ہوتی؟؟؟۔۔۔
ج۔ ہماری کوشش ہے کہ اسلام کی سچی تصویر عام امریکی شہری تک پہنچ جائے جو لوگ اسلام سے ناواقف ہیں وہ سچے اسلام سے آشنا ہوجائیں ہم یہ کام کانفرنسوں اور تقریبات کے ذریعے انجام دے رہے ہیں ان میں مسلمانوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ غیر جانبدار اسکالر اور مستشرق سیاسی جماعت نہیں ہیں ان کے ہاتھ میں سیاسی فیصلے نہیں ہیں ہم لوگ فیصلہ سازوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہم ہر حال میں اثر انداز ہوکر کامیاب بھی ہوں۔۔۔
واللہ اعلم۔۔۔
والسلام علیکم۔۔۔
اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یہ لوگ اپنے پروردگار کے سامنے پیش کیے جائیں گے
(سورہ ھود ١٨)۔۔۔
السلام علیکم۔۔۔
دوستو!۔۔۔
امریکہ کے شہر ورجینیا میں مصالحت بین المذاہب سنٹر کے ڈائریکٹر ولیم ساکس کا کہنا ہے کہ اسلام سے متعلق امریکہ میں اہم ترین مسئلہ میڈیا اور مذاہب کے پیروں کاروں کے درمیان مفاہمت کے عمل کی سست روی ہے میڈیا میں اسلام سے منسوب انتہا پسندوں کے تشدد کے واقعات کو اچھالا جارہا ہے اور مختلف مذاہب خصوصا اسلام کے پیروکاروں کی مثبت سرگرمیوں اور روشن خدمات کو نظر انداز کیا جارہا ہے مجھے افسوس ہے کہ خصوصا امریکہ اور عموما مغربی ملکوں میں عربوں اور مسلمانوں کے ساتھ نسلی تفریق روا رکھی جارہی ہے اور ان کی توہین وتذلیل کی جارہی ہے۔۔۔ الاخبار المدینہ میں ڈاکٹر ولیم ساکس کا وہ انٹریوں پیش کیا گیا جو انہوں نے اسلام دشمن عناصر کی سازشوں کے جواب میں دیا تھا۔۔۔ اس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔۔۔
س۔ سب سے پہلے یہ بتائیں کے مصالحت بین المذہب سینٹر کیا کررہا ہے؟؟؟۔۔۔
ج۔ ٢٠ وین صدی کے اواخر میں ہم نازک دور میں داخل ہوئے مذاہب کے پیروکاروں کے تعلقات ایک دوسرے کے ساتھ ناگفتہ بہ ہوگئے اختلافات اور تعصبات پیدا ہوگئے ہمارے مرکز کا بنیادی کام یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان تعلقات استوار ہوں اس مقصد کے لئے ہم مختلف مطالعات اور تحقیقی کام کررہے ہیں ہم ایسے عالمی سماج کی تشکیل کا طریقہ کار دریافت کررہے ہیں اور اسے قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو کثیرالمذاہب ہو جہاں مختلف مذاہب کے پیروکار ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہوں اور ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوں ہم لوگ نہ صرف یہ کہ تحقیقی کام کرتے ہیں انہیں عملی جامہ بھی پہناتے ہیں تحقیقی جائزوں کو الماریوں کی نذر نہیں ہونے دیتے ہم اپنے تحقیقی کاموں کے نتائج دنیا کے تمام ممالک کو فراہم کررہے ہیں عالمی درجے کی یونیورسٹیز سے رابطے میں ہیں مکالمہ مراکز سے رابطے استوار کئے ہوئے ہیں۔۔۔
برسرپیکار علاقوں کی حکومتوں کے ساتھ افہام وتفہیم کی سبیل پیدا کئے ہوئے ہیں حال ہی میں امریکہ کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کو ختم کرنے کی مہم کے تحت نہ صرف یہ کہ امریکہ میں پہلے سے موجود غیرمسلموں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کو معمول کے مطابق لانے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ مختلف ممالک سے آنے والے مسلمانوں کے ساتھ امریکہ کے غیر مسلموں کے تعلقات کو بھی بہتر بنانے پر توجہ دے رہے ہیں میں نے محسوس کیا ہے کہ مسلمان اپنے مذہب کی عظمت کو ثابت کرنے کی فکر رکھتے ہیں مسلمان کبھی بھی خونریزی اور تشدد کے دلدادہ نہیں ہوتے مسلمان میڈیا کے پروپیگنڈے کے برعکس ہیں ابتداء میں ہمارا احساس تھا کہ مسلمان امریکی معاشرے میں گھل مل جانے کی مہم کی مخالفت کرینگے لیکن ہمیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ امریکی معاشرے کا حصہ بننے پر پوری طرح سے آمادہ ہیں اور اس حوالے سے انکا رویہ انتہائی مثبت ہے۔۔۔
س۔ مذاہب عالم کے پیروکاروں کے درمیان مصالحت کی ضرورت کو تسلیم کرنے والے آسمانی مذاہب کے درمیان تعلقات کو کس طرح دیکھ رہے ہیں؟؟؟۔۔۔
ج۔ مذہبی حقائق بتاتے ہیں کہ تمام آسمانی مذاہب کا سرچشمہ ایک ہے اور وہ اللہ تعالٰی کی ذات ہے اللہ ایک ہے تمام انسان کائنات کی تعمیر کیلئے پیدا کئے گئے اور دنیا کے تمام انسان ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرنے کے پابند ہیں قرآن کریم یہی کہتا ہے توریب اور انجیل کا سبق بھی یہی ہے تاہم آسمانی مذاہب کے پیروکار مذہبی تعلیمات کی تشریحات میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں اسی اختلاف نے تنازعات اور کشمکشوں کو جنم دیا ہے یہ کشمکش مذہب کا لبادہ اوڑھ کر سنگین بحران کی شکل اختیار کرگئیں مذہب سے نہ اس کشمکش کا کوئی تعلق ہے اور نہ درپیش مذہبی بحران سے عیسائیوں کی طرف سے برپا کی جانے والی صلیبی جنگیں اقتصادی وسیاسی جنگیں تھیں انکے پیچھے اقتصادی وسیاسی مفادات کارفرما تھے نہ کہ مذہب۔۔۔
اسی طرح مسلمانوں میں انتہا پسندوں نے ایسے نعرے دیئے کہ جن کا اسلام سے دور پرے کا کوئی رشتہ نہیں مگر نعروں کو اسلام کا لبادہ اوڑھا دیا گیا تھا اچھی بات یہ ہے کہ معتبر علماء اسلام اغیار کو قبول ہیں اور انکے ساتھ مکالمہ کرتے ہیں جبکہ سطحی نوعیت کے علماء غیرمسلموں کے خلاف قتال کا علم بلند کئے ہوئے ہیں انتہا پسندی کا دائرہ عیسائیوں اور مسلمانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہودی بھی انتہا درجے کے تشدد میں مبتلا ہیں۔۔۔ اسکا مظاہرہ یہودیت کے نام پر فلسطینی علاقوں میں ہونے والے واقعات کی صورت میں دیکھا جارہا ہے فلسطینی عوام کی نسلی تطہیر کی جارہی ہے اسرائیلی فوج مذہبی تعلیمات کے بہانے خونریزی کی انتہاء کئے ہوئے ہے۔۔۔
س۔ مذہب کے پیروکاروں کے درمیان موجود خلیج کو پاٹنے کے لئے کیا کیا جائے؟؟؟۔۔۔
ج۔ خلیج کو پاٹنے اور غلط فہمیاں دور کرنے کیلئے دو سطحوں پر کام کی ضرورت ہے ایک تو عوام کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے دوم اعلٰی درجے کے تعلیم یافتہ لوگوں میں پھیلی ہوئی بدگمانیوں کے ازالے کی بھی اشد ضرورت ہے ان میں سے کسی ایک پر اکتفاء نہیں کیا جاسکتا ہمیں یہ ماننا پڑیگا کہ عالمی امن کیلئے غلط فہمی کا ازالہ از بس ضروری ہے۔۔۔
اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے مذہبی ورثے کے گہرے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ان تینوں مذاہب میں قدر مشترک زیادہ اور قدر مختلف کم ہے لہذا دنیا کے تمام علاقوں بے ہوئے عام لوگوں تک یہ تصویر عام کرنا ہے کہ آسمانی مذاہب کی بیشتر تعلیمات ایک جیسی ہیں اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جن میں اسلام عیسائیت اور یہودیت کے درمیان اختلاف پائے جاتے ہیں جب یہ کام احسن طریقے سے موثر شکل میں ہوگا تو مذاہب کے پیروکار ایک دوسرے کے قریب آئیں گے اسی طرح سیاستدانوں کا فرض ہے کہ وہ تمام مذاہب کے پیروکاروں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کیلئے عملی اقدامات کریں۔۔۔
س۔ امریکی شہری اسلام کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟؟؟۔۔۔
ج۔ صاف بات یہ ہے کہ گیارہ ستمبر سے قبل امریکی شہری اسلام سمیت کسی بھی مذہب میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے یہی وجہ تھی کہ مسلمان امریکی معاشرے میں کسی آزمائش کے بغیر پرامن طریقے سے ٹھیک ٹھاک انداز میں رہ رہے تھے کبھی کبھار مٹھی بھر انتہاپسند یہودی امریکہ میں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ چھیڑخانی کرتے رہتے تھے گیارہ ستمبر کے طیارہ حملوں کے بعد امریکہ میں اسلام کا نام ابھر کر سامنے آیا میں یہ بات کسی ادنٰی جھجھک کے بغیر ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ امریکہ میں گیارہ ستمبر کے بعد مسلمان کا لفظ دہشتگردی کے ہم معنی مشہور ہوگیا کچھ عرصے بعد امریکی دانشوروں نے اسلام کی بابت استفسارات کا سلسلہ شروع کیا انہوں نے اسلام کے گہرے مطالعے پر توجہ مبذول کی افسوسناک بات یہ ہے کہ اسلام سے متعلق مطلوبہ معلومات وافر مقدار میں مہیا نہ ہونے کی وجہ سے اسلام کی تصویر بگاڑنے کا موقع مل گیا آگے چل کر امریکہ میں موجود کئی اسلامی اداروں نے اس کمی کو محسوس کیا انہوں نے حالات کا قریب سے جائزہ لیا اور اسلام کے تعارف کی مہم شروع کردی گئی تسلی بخش بات یہ ہوئی کہ ایک طرف تو اسلام کے تعارف کے پروگرام شروع ہوئے اور دوسری جانب امریکی دانشوروں نے مسلم دنیا کے دوروں کا آغاز کیا انہوں نے قریب سے اسلام کو جاننے کی کوشش کی اچھی بات یہ ہوئی کہ امریکی دانشوروں نے مسلم ممالک جاکر قریب سے جو کچھ دیکھا جانا اس سے ان لوگوں نے اپنے ہموطنوں کو آگاہ کیا امریکی دانشوروں کے یہ دورے اسلام کی حقیقی شکل پیش کرنے میں کارگر ثابت ہوئے۔۔۔
س۔ کیا امریکی شہری دیندار ہیں؟؟؟۔۔۔
ج۔ امریکی شہری مذہبی اداروں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں دینداری انکے یہاں ثانوی درجے کی ہے تاہم مذہبی شعور کی کوئی کمی نہیں میرے نقطہ نظر سے بعض امریکی دوسروں کے مذہبی مزاج کو نہیں سمجھتے امریکی شہری اسلام سے ناواقف ہیں اسی وجہ سے اسلام کے بارے میں شکوک وشبہات میں مبتلا ہیں امریکی شہری دوسروں کے عقائد کا احترام کی طرح کریں اس کا شعور نہیں رکھتے اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان تعلقات اور مفاہمت کا جو ماحول ہونا چاہئے وہ نہیں ہے اسکے متعدد اسباب ہیں ایک سبب یہ ہے کہ امریکی کتابوں میں اسلام کی بابت شکوک وشبہات اچھالے گئے ہیں زیادہ تر امریکی کتابیں ایسی ہیں جن میں اسلام پر زبردست حملے کئے گئے ہیں ہم ان دنوں تینوں آسمانی مذاہب کے ماننے والے طلبہ کو جمع کرتے ہیں اور ان کے درمیان مکالمہ کراتے ہیں اس طریقہ کار کی بدولت یہودی، عیسائی اور مسلمان طلبہ ایک دوسرے کو سمجھنے لگے ہیں یہ امریکی معاشرے میں امن اور محبت کی تحریک کا نقطہ آغاز ہیں۔۔۔
س۔ امریکی شہری مشرق وسطٰی کے سیاسی اختلافات سے متاثر ہوتے ہیں؟؟؟۔۔۔
ج۔ جی ہاں! ہم لوگ امریکی حکومت کو اکثر وبیشتر اس حقیقت سے خبردار کرتے رہتے ہیں امریکی حکومت سے مسلسل مطالبہ ہی کررہے ہیں کہ وہ مشرق وسطٰی میں دہری پالیسی سے باز آجائے یہ سچ ہے کہ اسرائیل اور عربوں کے ساتھ امریکی حکومت کے رویئے مختلف ہیں ہم چاہتے ہیں کہ امریکی حکومت کے رویئے مختلف ہیں ہم چاہتے ہں کہ امریکہ جو پالیسی اسرائیل کے ساتھ اختیار کرے ہوئے ہے وہی عربوں کے ساتھ بھی اپنائے دہرے معیار والی پالیسی اپنانےکی وجہ سے ہی مذہبی مصالحت کی تمام کوششیں قیل ہورہی ہیں۔۔۔
س۔ اسلام پر ہمیشہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اسکی تعلیمات اور اقدار انسانی حقوق اور جمہوریت سے میل نہیں کھاتیں آپ کی نظر میں کیا یہ الزام درست ہے؟؟؟۔۔۔
ج۔ میں انتہائی صاف گوئی کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں اور چاہتا ہوں کے یہ بات ریکارڈ پر آئے کہ اسلام امن اور جمہوریت کا علمبردار مذہب ہے یہ بات میں کسی جانبداری کے بغیر کہہ رہا ہوں مجھے یقین ہے کہ جو لوگ اس کے برعکس باتیں کرتے ہیں وہ حق اور سچ نہیں کہتے میں ظہور اسلام سے لیکر تاحال اسلامی تہذیب و تمدن کا مضمون پڑھاتا ہوں اور اپنے طلباء کو جمہوریت، سرمایہ داری اور آزادی جیسے الفاظ اور اصطلاحات کی حقیقت سے آگاہ کرکے کہتا ہوں کہ تمام طلباء ڈکشنری سے رجوع کرکے لفظ کا مفہوم از خود تلاش کریں میں ان سے کہتا ہوں کہ جب تک جمہوریت نہیں ہوگی وہ آزادی محسوس نہیں کرینگے اسلامی تاریخ کے اسکالر کے طور پر میں یہ بات جانتا ہوں کہ خلیفہ، حکام اور رعایا کے درمیان تعلقات جمہوری عمل کا بھرپور حصہ تھے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام اور جمہوریت میں کوئی تضاد نہیں۔۔۔
جس شخص کو اس سچائی کے بارے میں شبہ ہو وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کرے جو بھی مطالعہ کریگا اسے معلوم ہوگا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرزندان اسلام میں مشاورت کے اصول کو کس حد تک راسخ کردیا تھا۔۔۔
س۔ ان دنوں اسلام سے متعلق بہت سارے روشن حقائق کھل کر سامنے آگئے ہیں سوال یہ ہے کہ یہ تصویر عام لوگوں کی سطح پر کیوں نظر نہیں آتی اور مغربی ممالک کے سیاستدانوں کے فیصلوں میں یہ سچائی کیوں منعکس نہیں ہوتی؟؟؟۔۔۔
ج۔ ہماری کوشش ہے کہ اسلام کی سچی تصویر عام امریکی شہری تک پہنچ جائے جو لوگ اسلام سے ناواقف ہیں وہ سچے اسلام سے آشنا ہوجائیں ہم یہ کام کانفرنسوں اور تقریبات کے ذریعے انجام دے رہے ہیں ان میں مسلمانوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ غیر جانبدار اسکالر اور مستشرق سیاسی جماعت نہیں ہیں ان کے ہاتھ میں سیاسی فیصلے نہیں ہیں ہم لوگ فیصلہ سازوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہم ہر حال میں اثر انداز ہوکر کامیاب بھی ہوں۔۔۔
واللہ اعلم۔۔۔
والسلام علیکم۔۔۔