اور مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ ایک مومن [٢٩٤] لونڈی آزاد مشرکہ سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بہت پسند ہو اور مشرک مردوں سے بھی (اپنی عورتوں کا) نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ ایک مومن غلام، آزاد مشرک سے بہتر ہے خواہ تمہیں وہ اچھا ہی لگے۔ یہ مشرک لوگ تو تمہیں دوزخ کی طرف بلاتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ اپنے اذن سے تمہیں جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے احکام اسی انداز سے کھول کھول کر لوگوں کے لیے بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت قبول کریں‘‘
مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
[٢٩٤] کیونکہ مرد اور عورت کے درمیان نکاح کا تعلق محض شہوانی تعلق ہی نہیں جیسا کہ بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے بلکہ اس تعلق کے اثرات بڑے دور رس ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے دماغ اخلاق اور تمدن پر گہرا اثر ڈالتے ہیں ۔ مثلاً ایک مومن ایک مشرکہ سے نکاح کرتا ہے تو اگر وہ مومن اپنے ایمان میں پختہ، علم میں بیوی سے فائق تر اور عزم کا پکا ہوگا تو اس صورت میں وہ اپنی بیوی کی اور کسی حد تک اپنے سسرال والوں کی اصلاح کرسکتا ہے۔ ورنہ عموماً یوں ہوتا ہے کہ مرد مغلوب اور عورت اس کے افکار پر غالب آ جاتی ہے اور اگر دونوں اپنی اپنی جگہ پکے ہوں تو ان میں ہر وقت معرکہ آرائی ہوتی رہے گی اور اگر دونوں ڈھیلے ہوں تو وہ دونوں شرک اور توحید کے درمیان سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوں گے اور یہ صورت اسلامی نقطہ نظر سے قطعاً گوارا نہیں اور ایسی صورت کو بھی شرک ہی قرار دیا گیا ہے اور اگر مرد مشرک اور بیوی موحد ہو تو شرک کے خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں ۔ لہذا نقصان کے احتمالات زیادہ ہونے کی بنا پر ایسے نکاح کو ناجائز قرار دیا گیا اور فرمایا کہ ظاہری کمال و محاسن دیکھنے کی بجائے صرف ایمان ہی کو شرط نکاح قرار دیا جائے ضمناً اس سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ نکاح کے بعد کوئی ایک فریق مشرک ہو جائے تو سابقہ نکاح از خود ٹوٹ جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولوی غلام رسول سعیدی صاحب بریلوی اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں :
مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کے ساتھ مسلمانوں کے نکاح کا عدم جواز ‘‘
اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یتیم کے ساتھ مخالطت کا جواز بیان فرمایا تھا ‘ جس کا تقاضا یہ تھا کہ یتیم کے مال کے ساتھ اپنا مال مخلوط کرنا بھی جائز ہے اور یتیم لڑکے یا یتیم لڑکی کے ساتھ اپنا یا اپنی اولاد کا نکاح کرنابھی جائز ہے تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کے بعض مسائل بیان فرمائے کہ مشرک مردوں کے ساتھ مسلمان عورتوں کا اور مشرک عورتوں کے ساتھ مسلمان مردوں کا نکاح جائز نہیں ہے ‘ کیونکہ نکاح کی وجہ سے شوہر اور بیوی کے ساتھ جسمانی اور ذہنی قرب ہوتا ہے وہ دونوں ایک دوسرے کے عقائد ‘ نظریات ‘ افکار اور خیالات سے متاثر ہوتے ہیں اس لیے یہ خدشہ ہے کہ مشرک شوہر کے عقائد سے بھی ہوسکتا تھا کہ مسلمان بیوی متاثر ہو یا مشرک عورت کے نظریات سے مسلمان شوہر متاثر ہو ‘ اس لیے اسلام نے یہ راستہ ہی بند کردیا ‘ اگرچہ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ مسلمان شوہر یا بیوی سے مشرک بیوی یا شوہر متاثر ہوجائے لیکن جب کوئی چیز نفع اور نقصان کے درمیان دائر ہو تو نقصان سے بچنے کو نفع کے حصول پر مقدم کیا جاتا ہے اس لیے اسلام نے مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان مناکحت کامعاملہ کلیۃ منقطع کردیا ۔ یہاں شرک سے مراد کفر ہے ‘ اس لیے ملحد ‘ مجوسی ‘ بت پرست اور کسی قسم کے بھی کافر سے نکاح جائز نہیں ہے مسلمان مرد کا نہ مسلمان کا عورت کا ۔
حافظ جلال الدین سیوطی اس آیت کے شان نزول متعلق لکھتے ہیں :
امام ابن ابی حاتم اور امام ابن المنذر نے مقاتل بن حیان سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت حضرت ابو مرثد غنوی کے متعلق نازل ہوئی ہے ‘ انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلب کی کہ وہ عناق نامی ایک مشرکہ عورت سے نکاح کرلیں جو نہایت ہوئی ہے ‘ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلب کی کہ وہ عناق نامی ایک مشرکہ عورت سے نکاح کرلیں جو نہایت حسین وجمیل عورت تھی اور حضرت ابو مرثد مسلمان ہو چکے تھے ‘ انہوں نے کہا : یارسول اللہ ! وہ عورت مجھے بہت اچھی لگتی ہے ‘ تب یہ آیت نازل ہوئی : اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو ۔ الایۃ (الدرالمنثور ‘ ج ١ ص ٢٥٦ ‘ مطبوعہ مکتبہ آیۃ اللہ العظمی ایران)
اس آیت میں یہ بھی فرمایا ہے کہ آزاد مشرک کی بہ نسبت مسلمان غلام بہتر ہے ‘ اور کسی آزاد مسلمان عورت کا نکاح مسلمان غلام سے کردینا اللہ کے نزدیک اس سے بہتر ہے کہ اس کا نکاح آزاد مشرک سے کیا جائے حالانکہ غلام آزاد کا کفو نہیں ہے ‘ سو غیر کفو میں نکاح کے جواز کے لیے یہ آیت صریح جزیہ ہے ‘ ہم ان شاء اللہ سورۂ نساء میں اس موضوع پر مفصل گفتگو کریں گے ‘ ’’ شرح صحیح مسلم ‘‘ جلد ثالث اور جلد سادس میں ہم نے اس موضوع پر بہت تفصیل اور تحقیق سے بحث کی ہے ۔
مشرک عورتوں سے نکاح کی ممانعت کے باوجود اہل کتاب سے نکاح کے جواز کی توجیہ :
اسلام میں یہ جائز ہے کہ اہل کتاب عورتوں کے ساتھ مسلمان مرد نکاح کرلیں لیکن اہل کتاب مردوں کے ساتھ مسلمان عورتوں کا نکاح کرنا جائز نہیں ہے ‘ قرآن مجید نے مشرک عورتوں سے نکاح کی ممانعت کے باوجود کتابیہ یعنی یہودی یاعیسائی عورت کے ساتھ نکاح کی اجازت دی ہے ۔