• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلمان لڑکی کا ہندو لڑکے سے شادی کرنا

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے :
وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ ۭوَلَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْكُمْ ۚ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا ۭ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكُمْ ۭ اُولٰۗىِٕكَ يَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ ښ وَاللّٰهُ يَدْعُوْٓا اِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِاِذْنِهٖ ۚ وَيُبَيِّنُ اٰيٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَــتَذَكَّرُوْنَ ٢٢١سورۃ البقرۃ؀ۧآیت نمبر ۲۲۱
اور شرک کرنے والی عورتوں سے تاوقتیکہ وہ ایمان نہ لائیں تم نکاح نہ کرو (١) ایماندار لونڈی بھی شرک کرنے والی آزاد عورت سے بہتر ہے، گو تمہیں مشرکہ ہی اچھی لگتی ہو اور نہ شرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو دو جب تک وہ ایمان نہ لائیں، ایماندار غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے، گو مشرک تمہیں اچھا لگے، یہ لوگ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت کی طرف اور اپنی بخشش کی طرف اپنے حکم سے بلاتا ہے وہ اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان فرما رہا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔

حافظ عبد السلام بھٹوی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا : اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان عورت آزاد ہو یا غلام، اسے مشرک کے نکاح میں دینا جائز نہیں، پھر مشرک خواہ بت پرست ہو یا یہودی یا عیسائی یا مجوسی یا دہریہ، کسی بھی غیر مسلم سے مسلم عورت کا نکاح جائز نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مشرک عورتوں سے نکاح حرام کرنے کے بعد سورۃ مائدہ (٥) میں اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دی، مگر مشرک مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو دینے سے منع کرنے کے بعدکسی غیر مسلم سے نکاح کی اجازت نہیں دی۔ قرطبی نے اس بات پر امت کا اجماع نقل فرمایا ہے کہ مسلمان عورت کا نکاح کسی بھی غیر مسلم سے نہیں ہوسکتا (کیونکہ یہ اسلام کی سربلندی کے خلاف ہے) ۔
تنبیہ : جس طرح کسی بھی مشرک سے مسلمان عورت کا نکاح جائز نہیں، خواہ یہودی ہو یا عیسائی، اسی طرح اگر کوئی کلمہ گو مسلمان بھی شرک کا مرتکب ہو، جیسا کہ اس حاشیے کے شروع میں شاہ عبد القادر (رض) نے وضاحت فرمائی ہے تو اس سے کسی مسلمان موحدہ عورت کا نکاح جائز نہیں۔ کیونکہ مرد کے غالب ہونے کی وجہ سے اس موحدہ عورت کو شرک پر مجبور کیے جانے کا خطرہ ہے۔
وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ : یہ جملہ واضح دلیل ہے کہ عورت اپنا نکاح خود نہیں کر سکتی، بلکہ اس کا ولی اس کا نکاح کرکے دے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واضح الفاظ میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح سے منع فرمایا، دیکھیے صحیح بخاری جس میں امام بخاری (رض) نے زیر تفسیر آیت اور دو مزید آیات اور احادیث سے یہ مسئلہ ثابت فرمایا ہے۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اور مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ ایک مومن [٢٩٤] لونڈی آزاد مشرکہ سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بہت پسند ہو اور مشرک مردوں سے بھی (اپنی عورتوں کا) نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ ایک مومن غلام، آزاد مشرک سے بہتر ہے خواہ تمہیں وہ اچھا ہی لگے۔ یہ مشرک لوگ تو تمہیں دوزخ کی طرف بلاتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ اپنے اذن سے تمہیں جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے احکام اسی انداز سے کھول کھول کر لوگوں کے لیے بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت قبول کریں‘‘


مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

[٢٩٤] کیونکہ مرد اور عورت کے درمیان نکاح کا تعلق محض شہوانی تعلق ہی نہیں جیسا کہ بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے بلکہ اس تعلق کے اثرات بڑے دور رس ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے دماغ اخلاق اور تمدن پر گہرا اثر ڈالتے ہیں ۔ مثلاً ایک مومن ایک مشرکہ سے نکاح کرتا ہے تو اگر وہ مومن اپنے ایمان میں پختہ، علم میں بیوی سے فائق تر اور عزم کا پکا ہوگا تو اس صورت میں وہ اپنی بیوی کی اور کسی حد تک اپنے سسرال والوں کی اصلاح کرسکتا ہے۔ ورنہ عموماً یوں ہوتا ہے کہ مرد مغلوب اور عورت اس کے افکار پر غالب آ جاتی ہے اور اگر دونوں اپنی اپنی جگہ پکے ہوں تو ان میں ہر وقت معرکہ آرائی ہوتی رہے گی اور اگر دونوں ڈھیلے ہوں تو وہ دونوں شرک اور توحید کے درمیان سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوں گے اور یہ صورت اسلامی نقطہ نظر سے قطعاً گوارا نہیں اور ایسی صورت کو بھی شرک ہی قرار دیا گیا ہے اور اگر مرد مشرک اور بیوی موحد ہو تو شرک کے خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں ۔ لہذا نقصان کے احتمالات زیادہ ہونے کی بنا پر ایسے نکاح کو ناجائز قرار دیا گیا اور فرمایا کہ ظاہری کمال و محاسن دیکھنے کی بجائے صرف ایمان ہی کو شرط نکاح قرار دیا جائے ضمناً اس سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ نکاح کے بعد کوئی ایک فریق مشرک ہو جائے تو سابقہ نکاح از خود ٹوٹ جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولوی غلام رسول سعیدی صاحب بریلوی اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں :
مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کے ساتھ مسلمانوں کے نکاح کا عدم جواز ‘‘
اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یتیم کے ساتھ مخالطت کا جواز بیان فرمایا تھا ‘ جس کا تقاضا یہ تھا کہ یتیم کے مال کے ساتھ اپنا مال مخلوط کرنا بھی جائز ہے اور یتیم لڑکے یا یتیم لڑکی کے ساتھ اپنا یا اپنی اولاد کا نکاح کرنابھی جائز ہے تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کے بعض مسائل بیان فرمائے کہ مشرک مردوں کے ساتھ مسلمان عورتوں کا اور مشرک عورتوں کے ساتھ مسلمان مردوں کا نکاح جائز نہیں ہے ‘ کیونکہ نکاح کی وجہ سے شوہر اور بیوی کے ساتھ جسمانی اور ذہنی قرب ہوتا ہے وہ دونوں ایک دوسرے کے عقائد ‘ نظریات ‘ افکار اور خیالات سے متاثر ہوتے ہیں اس لیے یہ خدشہ ہے کہ مشرک شوہر کے عقائد سے بھی ہوسکتا تھا کہ مسلمان بیوی متاثر ہو یا مشرک عورت کے نظریات سے مسلمان شوہر متاثر ہو ‘ اس لیے اسلام نے یہ راستہ ہی بند کردیا ‘ اگرچہ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ مسلمان شوہر یا بیوی سے مشرک بیوی یا شوہر متاثر ہوجائے لیکن جب کوئی چیز نفع اور نقصان کے درمیان دائر ہو تو نقصان سے بچنے کو نفع کے حصول پر مقدم کیا جاتا ہے اس لیے اسلام نے مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان مناکحت کامعاملہ کلیۃ منقطع کردیا ۔ یہاں شرک سے مراد کفر ہے ‘ اس لیے ملحد ‘ مجوسی ‘ بت پرست اور کسی قسم کے بھی کافر سے نکاح جائز نہیں ہے مسلمان مرد کا نہ مسلمان کا عورت کا ۔
حافظ جلال الدین سیوطی اس آیت کے شان نزول متعلق لکھتے ہیں :
امام ابن ابی حاتم اور امام ابن المنذر نے مقاتل بن حیان سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت حضرت ابو مرثد غنوی کے متعلق نازل ہوئی ہے ‘ انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلب کی کہ وہ عناق نامی ایک مشرکہ عورت سے نکاح کرلیں جو نہایت ہوئی ہے ‘ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلب کی کہ وہ عناق نامی ایک مشرکہ عورت سے نکاح کرلیں جو نہایت حسین وجمیل عورت تھی اور حضرت ابو مرثد مسلمان ہو چکے تھے ‘ انہوں نے کہا : یارسول اللہ ! وہ عورت مجھے بہت اچھی لگتی ہے ‘ تب یہ آیت نازل ہوئی : اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو ۔ الایۃ (الدرالمنثور ‘ ج ١ ص ٢٥٦ ‘ مطبوعہ مکتبہ آیۃ اللہ العظمی ایران)
اس آیت میں یہ بھی فرمایا ہے کہ آزاد مشرک کی بہ نسبت مسلمان غلام بہتر ہے ‘ اور کسی آزاد مسلمان عورت کا نکاح مسلمان غلام سے کردینا اللہ کے نزدیک اس سے بہتر ہے کہ اس کا نکاح آزاد مشرک سے کیا جائے حالانکہ غلام آزاد کا کفو نہیں ہے ‘ سو غیر کفو میں نکاح کے جواز کے لیے یہ آیت صریح جزیہ ہے ‘ ہم ان شاء اللہ سورۂ نساء میں اس موضوع پر مفصل گفتگو کریں گے ‘ ’’ شرح صحیح مسلم ‘‘ جلد ثالث اور جلد سادس میں ہم نے اس موضوع پر بہت تفصیل اور تحقیق سے بحث کی ہے ۔
مشرک عورتوں سے نکاح کی ممانعت کے باوجود اہل کتاب سے نکاح کے جواز کی توجیہ :
اسلام میں یہ جائز ہے کہ اہل کتاب عورتوں کے ساتھ مسلمان مرد نکاح کرلیں لیکن اہل کتاب مردوں کے ساتھ مسلمان عورتوں کا نکاح کرنا جائز نہیں ہے ‘ قرآن مجید نے مشرک عورتوں سے نکاح کی ممانعت کے باوجود کتابیہ یعنی یہودی یاعیسائی عورت کے ساتھ نکاح کی اجازت دی ہے ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
مسلمان عورت کے لیے حلال نہيں کہ وہ کسی غیر مسلم مرد سے شادی کرے

ولا يحل للمسلمة أن تتزوج بغير المسلم من الديانات الأخرى لا من اليهود والنصارى ولا من غيرهم من الكفار ، فلا يحل لها أن ينكحها اليهودي أو النصراني ولا المجوسي ولا الشيوعي والوثني أو غير ذلك .

والدليل على ذلك قوله تعالى : ( ... ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا ولعبد مؤمن خير من مشرك ولو أعجبكم أولئك يدعون إلى النار والله يدعو إلى الجنة والمغفرة بإذنه وبيين آياته للناس لعلهم يتذكرون ) البقرة/221 .

قال الإمام الطبري :

القول في تأويل قوله تعالى : ( ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا ولعبد مؤمن خير من مشرك ولو أعجبكم ) يعني تعالى ذكره بذلك : أن الله قد حرم على المؤمنات أن ينكحن مشركاً كائناً من كان المشرك من أي أصناف الشرك كان ، فلا تنكحوهن أيها المؤمنون منهم فإن ذلك حرام عليكم ، ولَأَنْ تُزَوّجُوهنّ من عبد مؤمن مصدق بالله وبرسوله وبما جاء به من عند الله خير لكم من أن تُزَوّجُوهنّ من حر مشرك ولو شرف نسبه وكرم أصله وإن أعجبكم حسبه ونسبه ..

عن قتادة والزهري في قوله : ( ولا تنكحوا المشركين ) قال : لا يحل لك أن تنكح يهودياً أو نصرانياً ولا مشركاً من غير أهل دينك . ( تفسير الطبري 2/379 ) .


الإسلام سؤال وجواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ :
اورمسلمان عورت کے لیے حلال نہيں کہ وہ کسی غیر مسلم مرد سے شادی کرے ، وہ نہ تو یھودی اورنہ ہی عیسائي اورنہ ہی کسی اورکافر سے شادی کرسکتی ہے ، تو اس طرح مسلمان عورت کے حلال نہيں کہ وہ کسی یھودی ، یا نصرانی یا مجوسی یا کیمونسٹ اوربت پرست وغیرہ سے نکاح کرے ، اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ اورمشرک مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو نہ دو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئيں ، ایمان والا غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے ، گو مشرک تمہیں اچھا ہی لگے ، یہ لوگ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اوراللہ تعالی اپنے حکم سے جنت اوراپنی بخشش کی طرف بلاتا ہے ، وہ اپنی آیات لوگوں کے لیے بیان فرما رہا ہے تا کہ وہ نصیحت حاصل کریں } البقرۃ ( 221 ) ۔

امام طبری رحمہ اللہ تعالی اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہيں :

{ اورتم مشرک مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو نہ دوجب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئيں ، اورمومن غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے گووہ تمہیں اچھا ہی لگے } ۔

یعنی اللہ تعالی نے یہاں پر یہ بیان کیا ہے کہ : اللہ تعالی نے مومن عورتوں پر مشرک مردوں سے نکاح کرنا حرام کر دیا ہے چاہے وہ کسی بھی قسم کا مشرک ہو تواے مومنوں تم اپنی عورتوں کو ان کے نکاح میں نہ دو یہ تم پر حرام ہے ، ان کا نکاح کسی مومن غلام سے کرنا جو اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اوراللہ تعالی کی شریعت پر ایمان رکھتا ہو تمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ تم ان کا نکاح کسی آزاد مشرک مرد سے کرو چاہے وہ حسب ونسب اورشرف والا ہی کیوں نہ ہو اورتمہیں اس کا شرف اور قبیلہ اچھا لگے ۔

علامہ قتادہ اورعلامہ زھری رحمہما اللہ تعالی سے اس کے بارہ میں روایت ہے کہ :

{ اورتم اپنی عورتوں کو مشرکوں کے نکا ح میں نہ دو } وہ کہتے ہیں :

اپنے دین والے کے علاوہ کسی اوردین چاہے وہ یھودی ہویا عیسائي اوراسی طرح مشرک سے اپنی عورتوں کا نکاح کرنا حلال نہيں ۔ دیکھیں تفسیر الطبری ( 2 / 379 ) ۔

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب
 
Top