رانا ابوبکر
تکنیکی ناظم
- شمولیت
- مارچ 24، 2011
- پیغامات
- 2,075
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 432
مسلم نقل مکانی اور قومی مملکتوں کا خاتمہ
عابد اللہ جان
ترتیب: محمد زکریا
موجودہ حالات جس سمت کی طرف تیزی سے جا رہے اور اُس سے جو فضا بن رہی ہے اُس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہبہت جلد تین تاریخ ساز واقعات رونما ہونے والے ہیں جو ترتیب کے لحاظ سے کچھ یوں ہونگے:
(اول) مسلمانوں کا جرمن یہودیوں کی طرح قتل عام(holocaust)۔
(دوم) مغرب میں آبادہونے والے مسلمانوں کی مسلم اکثریت والے ممالک کی جانب نقل مکانی ۔
(سوم) قومی ریاستوں کا خاتمہ۔
مذکورہ بالا تینوں عوامل کا تقریباََ ایک ساتھ رونماہونے کاقوی امکان ہے اور ان کی واضح درجہ بندی بھی نہیں کی جا سکتی۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان تینوں عوامل کا آغاز ہو چکا ہے۔تینوں عوامل کی مثالیں اس قدرہمارے سامنے ہیں کہ ان کی موجودگی میں ان سے صرفِ نظر کرنا خودکُشی کے مترادف ہو گا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ نے دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کے اوپر جنگ مسلط کر رکھی ہے۔امریکہ اس یک طرفہ جنگ میں جس طرح اخلاقی، سفارتی اور حتیٰ کہ جنگی قوانین کو پامال کر رہا ہے ان کے سامنے ہٹلر کے جرائم کی کوئی حیثیت نہیں۔ جس طرح حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیںاس سے یوں لگتا ہے جیسے گیارہ ستمبر کو طیارے ہائی جیک کرنے والے افراد انیس نہیں تھے (جن میں سے کئی زندہ سلامت ہیں)بلکہ ڈیڑھ ارب مسلمان اس کار روائی میں شریک تھے۔ اگر ایسا نہ سمجھا جائے توپھر دنیا بھر کے مسلمان امریکہ کی خورد بین کے نیچے کیوں ہیں۔ہر بین الاقوامی مباحثے میں ان کا وجود سرِ فہرست کیوں ہوتا ہے، چاہے امیگریشن کے قوانین میں تبدیلی لانی ہویااندرونِ ملک امن عامہ کے مسائل سے نبٹنا ہو، تعلیم گاہوں میں اخلاقیات کے مسائل ہوں یا تارکین وطن کے مسائل، کسٹم، غرض یورپ اور امریکہ میں اب ہر پالیسی ےوں ترتیب دی جانے لگی ہے گوےا قانونی ماہرین کے نزدیک صرف مسلمان ہی سب سے بڑا خطرہ ہیں۔اسی طرح امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک میں تارکین وطن،عام شہری، طالب علم، نوکر پیشہ، غرض کسی بھی حیثیت کے مسلمان کو صرف اور صرف مسلمان کی حیثیت سے دیکھا جارہا ہے۔ مسلمان کی حیثیت سے دیکھے جانے کا مطلب تب تک ”دہشت گرد“ ہی ہے جب تک کہ وہ اپنے آپ کو پر امن شہری ثابت نہیں کر دہتا۔
سیاست، ابلاغ عامہ اور تعلیم کے شعبے سے منسلک مسلمانوں اور اسلام کے خلاف پنپنے والی فاشسٹ ذہنیت نچلی سطح پر عوام تک منتقل ہو چکی ہے۔ امریکہ میں ےہ پیغامات عام پڑھنے کوملتے ہیں ”قرآن کو غسل خانے کی نذر کرو“ اور ”ےاد رکھو کہ اسلام ہی اصل دشمن ہے“۔
کہیں پر حالات کی بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ مسلمان دم بخود اس انتظار میں ہیں کہ کب ان کے مذہب اور ان کے طرزِ حیات کے خلاف جنم لینے والی زہریلی نفرت میں کمی آتی ہے۔ مگر ایسا انتظار بے سود ہے۔ مسلم ہولوکاسٹ کے برپا ہونے میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں ہے۔اسے اس وقت حقیقت میں بدلنے میں کوئی دیر نہیں لگے گی جب جدیدمغرب میں رونما ہونے والے تمام منفی رویے اپنی انتہا کو پہنچ جائےں گے۔ جومسلمان اسلام کی تعلیم کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنا چاہ رہے ہیںان کا قتل عام روشن خیالی کے اس دور میں عظیم نیکیوں میں شمار کیا جارہا ہے ۔ اسلام کریموف نے ازبکستان میں حالیہ خونریزی کے بعد اپنی صفائی ان الفاظ میں پیش کی کہ ”ےہ لوگ خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں“۔
جوں جوں امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں میں مسلمانوں کے خلاف حالات بد سے بدتر ہوتے جا ئیں گے، توں توں موجودہ ممالک کی قومی سرحدیں ختم ہوتی جائیں گی۔ مسلم ہولوکاسٹ اور نقل مکانی کا سلسلہ ایک ساتھ شروع ہو گا۔ آج بھی سرحدوں اور سرحدوں سے متعلق پالیسی کی حیثیت صرف مسلمانوں کی کانٹ چھانٹ تک ہی باقی رہ چکی ہے حتیٰ کہ غیر مسلم بھی اس تعصب کو صاف طور پر کو محسوس کرنے لگے ہیں۔ حال ہی میں ہٹلر کے دور کا ایک ےہودی امریکہ چھوڑ کر ےورپ جانے سے پہلے ےہ پیغام دے گیا کہ” اسے امریکہ کی فضاؤں میں ہٹلر کے جرمنی کی بو آنے لگی ہے“۔ امریکہ کے اتحادی ملکوں میں سرکاری ملازمین کمر ٹھونک کر کہتے ہیں کہ ہم اور امریکہ ایک ہیں۔ دوسری جانب افغانستان اور عراق پر امریکہ کے قبضے کے ردعمل میں مسلمان مجاہدین کے لئے بھی سرحدوں کی حیثیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ سرحدوں کی تحلیل کا عمل قومی رےاستوں کے مکمل خاتمے تک جاری رہنے کا امکان ہے۔ اس کے ساتھ ہی جمہوریت کا ڈھونگ اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گا۔
جمہوری روایات کے خلاف سر گرم طاقتوں کا اصل چہرہ دیکھنے کیلئے ہمیں امریکہ میں اسلام دشمن لابی پر نظر ڈالنا ہو گی۔ اس لابی کا دعویٰ ےہ ہے کہ دہشت گردی تو صرف ایک ”مظہر“ ہے اور اکیلے اس ”مظہر“ کے خلاف جنگ غیر منطقی ہے۔ اس لابی کے مطالبات آخر کار رنگ لانے کے قریب ہیں۔ ابتدائی مراحل طے کرنے کے بعد، امریکی جنگجو اب یہ کہنے میں بالکل ہچکچاہٹ محسوس نہیں کر رہے کہ ان کا مقصد اور ان کی جنگ کا مقصد اسلام کا حتمی خاتمہ ہے۔ امریکہ کے ساتھ ساتھ اس جنگ میں شریک غاصب حکومتوں نے بھی اسلام کے حتمی خاتمے کی جنگ میں شریک ہو کر پورا پورا فائدہ اٹھانے کی ٹھان رکھی ہے۔عین ممکن ہے کہ اس خون ریز جنگ کا نتیجہ اسلام کے حتمی خاتمے کی بجائے مسلمانوں کے خوابوں کی حتمی تعبیر کی صورت میں سامنے آئے۔
جس جنونی انداز سے ےہ مسلم کش لابی اپنا ایجنڈا آگے بڑھا رہی ہے اس کے نتیجے میں ےہ لوگ اپنے لئے ایسی قبر کھود رہے ہیں جس کی گہرائی اور گیرائی کا انہیں بالکل اندازہ نہیں۔ ےہ جنونی اس چیز کو حقیقت کے طور پر سامنے لا رہے ہیں جس سے عام مسلمان ماےوس ہو کر کب کا لا تعلق ہو چکا تھا۔ اسلام دشمنی میں ےہ لوگ جس چیز کو انسانیت کے لیے زہر قاتل قرار دینا چاہتے ہیں، اس کا نام ”خلافت“ ہے۔ اس خلافت کو ایک حقیقی خطرے کا نام دے کر ناممکنات میں شمار کرنے والوں میںایک ہمارے پاکستانی جنرل پرویز مشرف بھی ہےں جنہوں نے بی بی سی کی خاتون نمائندہ کے خوف کا ازالہ اپنی طرف سے اس طرح کرنے کی کوشش کی کہ” خلافت کا تصور مسلمانوں کے ذہن سے محو ہو چکا ہے۔“
امریکہ اور دیگر اسلام دشمن ممالک میں اسلام دشمن جنگجوؤں کی تمام تر توانائیاں اب صرف اسلامی خلافت کا خواب شرمندہء تعبیر ہونے سے بچانے میں صرف ہو رہی ہیں۔ مسلمانوں کو خلافت کے قےام سے روکنے کیلئے مسلم ممالک پر باقاعدہ قبضے اور ہر قسم کی انسان دشمن پالیسیوں کی حماےت میںہر طرح کے جواز پیش کئے جا رہے ہیں۔ نیوےارک ٹائمز ےا کوئی بھی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں، صاف نظر آ جائے گا کہ جنگ کے آغاز کے لیے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے عراقی ہتھیاروں کے وہمی بہانے میں جان نہیں رہی ہے اور اس دلیل کے جھوٹا ہونے کا اعتراف خود وار لارڈز کو بھی کرنا پڑا ہے، اب ”جہادیوں“ کو خلافت کے قےام سے روکنے کی تےاریوں کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کریموف کا ےہ کہنا کہ پانچ سو سے زےادہ مسلمانوں کو بھوننا اس لئے ضروری تھا کہ وہ خلافت قائم کرنا چاہتے تھے، اس بات کی عکاسی ہے کہ وہ خود کو امریکی جنرل ابی زید کا ہمنوا ثابت کرنے کیلئے اس کی زبان بول رہا ہے۔ ابی زید نے واشنگٹن پوسٹ کے ایڈیٹر ڈیوڈ اگنئیٹف کو بتاےا تھا کہ جو مسلمان خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں وہ ہمارے ”گھناؤنے دشمن ہیں“۔ اس کے مطابق ”ےہ لوگ اکیسویں صدی کی ٹیکنالوجی استعمال کر کے ساتویں صد ی کا خواب شرمندہء تعبیر کرنا چاہتے ہیں“۔
جو لوگ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ جنگ اسلام کے خلاف نہیں ان کو جان لینا چاہےے کہ پہلے صرف چند مسلمانوں پر ےہ الزام تھا کہ وہ ”سےاسی اسلام “برپا کرنے کے لئے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ ان کو اسلامسٹ اور جہادسٹ کا نام دیا گیا تھا۔ مگر اب تمام مسلمانوں کو صاف صاف کہا جا رہا ہے کہ مسئلے کی جڑ تو قرآن اور سنت کے ساتھ وابستگی ہے۔ مثال کے طور پر فرنٹ پیج میگزین کے 28 جنوری کے شمارہ میں لارنس آسٹر اور واشنگٹن ٹائمز کے 2 دسمبر 2004ءکے شماروں میں سام ہیرس کے مضامین کسی لگی لپٹی کے بغیر کہہ رہے ہیں کہ ”ہمارا دشمن قرآن اوررسول کی سنت ہے“۔
اس طرح کی باتیں مسلمانوں اور غیر مسلموں کو حق کی تلاش اور انصاف کی جستجو پر مائل کرتی ہیں۔ جولوگ امریکہ کی مسلم طرزِ حیات کے خلاف جنگ کی حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں‘ وہ جانتے ہیں کہ اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنا ”دقیانوسیت“ یا خیالوں اور خوابوں کی دنیائیں آباد کرنا نہیں ہے جسے "Invention of Tradition" اور "Instrumentalisation of Islam" کے نام پر بدنام کیا جا رہا ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے عملی طور پر ایک ایسے معاشرے کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جس کی تقلید ہراس انسان پر فرض بن جاتی ہے جو اپنے آپ کو رسول اﷲصلی اللہ علیہ و سلم کا امتی کہلانے پر فخر کرتا ہے۔ اس میں ذاتی اور معاشرتی تمام معاملاتِ زندگی آ جاتے ہیں۔ اسلام کوئی خواب ےا محض نظریہ نہیں جو مسلمانوں نے امریکہ دشمنی میں ایجاد کر لیا ہو۔
اگر امریکہ کا ساتھ دینا صرف اس بات پر موقوف ہے کہ ہم اس کے فوجی جوانوں کے شانہ بشانہ مسلمانوں کا خون بہائیں تو پھر ہم امریکہ کے دوست تو یقینا کہلاسکتے ہیںلیکن امریکہ کی خوشنودی کی خاطر مسلمانوں کا خون بہا کر مسلمان ہر گز نہیں کہلا سکتے خواہ ہمارے نام مسلمانوں جیسے ہوں اورہم روز مرہ کی عبادات بجا لانے کا دعویٰ بھی کرتے ہوں لیکن اگر زندگی کے احکامات اﷲ اور اس کے رسول کی بجائے امریکہ اور بُش سے وصول کریں تو پھر ہمارادعویٰ خواہ کچھ بھی ہو لیکن وہ اسلام ہر گز نہیں کہلا سکتا۔
اسلام کے خلاف یہ جنگ کافی حد تک منطقی بھی ہے۔ کیونکہ اگر ہمیں فی الواقع اسلام کے اصولوں پر زندگی بسر کرنے کا موقع مل گیا تو اس میں ڈکٹیٹرشپ اور بادشاہت اور لادینیت اور سرماےہ داری کیلئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ جس سودی نظام کے مطابق زندگی گزارنے کیلئے جنرل مشرف اپنے ملک کی اعلی عدالت کے احکامات سرد خانے میں ڈال دے ،اس کا پھر بھی اسلام کا دعویٰ کرنا اسلام کے ساتھ ایک سنگین مذاق نہیں تو اور کیا ہے۔ عام مسلمان اسلام سے ہرگز خائف نہیں حتیٰ کہ شریعت، جس کو اکیسویں صدی کے کفار نے ایک عظیم فتنہ قرار دے رکھا ہے اس سے بھی کوئی فاسق مسلمان تک خائف نہیں کیونکہ شریعت کے قوانین اسلام کے مکمل نظام ِ زندگی کا حصہ ہیں۔ دراصل یہ اسلام کے سماجی انصاف کے تابع ہیں۔
اسلام دشمنوں کے لئے ےہ آسان ہے کہ تمام الزامات دینی مدارس، مساجد اور سعودی سرمائے پر ڈال دیں مگر انہیں یہ توقع ہرگز نہ تھی کہ ان کے نظریاتی حملوں کا جواب وہی لوگ دیں گے جو مغرب کی ہی جامعات کے سند یافتہ ہیں۔ اور جنہوں نے اپنے بیدار ضمیر کے باعث سیکولرازم اور جمہوریت کا گھناؤنا چہرہ بہت قریب سے دیکھا ہے۔ مسلم دنیا میں مزاحمت اور مدافعت محض عزتِ نفس کی وجہ سے نہیں۔ نہ ہی یہ صرف چند جہادی سر فروشوں تک محدود ہے۔ یہ صرف اور صرف انسانی عقل کی بنیاد پر قائم کئے جانے والے نظام کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔یہ ناکامی مسلمانوں کو ایک واحد اکائی کی حیثیت سے اکٹھا ہونے کا راستہ دکھا رہی ہے تاکہ وہ اجتماعی طور پر انسانیت اور امن کے تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کریں جس زندگی سے انہیں جبراً محروم رکھا گیا ہے۔
مسلمان چاہے کسی بھی معاشی اور معاشرتی حیثیت سے تعلق رکھتے ہوں ان کے لئے اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کہ نہ ختم ہونے والے نوآبادیاتی نظام کی زنجیروں سے آزاد ہونے کیلئے اس نظام کو ٹھکرا دیں جس کا اصل روپ جمہوریت اور لادینیت جیسے خوشنما نعروں تلے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ محض امریکہ کے سامنے بے بسی ہی مسلمانوں کو ایک بنانے میں کام نہیں آ رہی بلکہ یہ اس مسلسل احساس کا نتیجہ ہے جس کا سامنا پچھلی صدیوں سے مسلمانوں کو درپیش ہے۔
اگرچہ ستمبر 11 کے بعد اسلام دشمنی کا بازار کچھ زیادہ گرم ہو گیا ہے مگر غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ اکیسویں صدی کے جنگجوؤں کے مطالبے اور رویے آج سے چودہ سو سال پہلے کے اسلام دشمنوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ حد یہ ہے جب برنارڈ لیوس اور ہنٹنگٹن"Roots of Muslim Rage" لکھ رہے تھے یا نیویارک ٹائمز میں عنوان باندھے جا رہے تھے کہ "Red Menace is gone, but here is Islam" تو اس وقت 11 ستمبرکا وقوعہ رونما ہی نہیں ہوا تھا اور نہ کسی کے وہم و گمان میں ہی تھا۔ یہ اسلام دشمن فاشست جنگجوؤں کا اسلام کے خلاف پھیلایا ہوا خوف ہے جو کہ خلافت کا قیام ناگزیر بنا رہا ہے۔ امریکہ اور اس کے حواری اسلام کے نام پرایسے کلبلا اٹھتے ہیں جیسے روسی کیمونسٹ جمہوریت کے نام پر۔ درونِ خانہ پابندیوں اور مسلم دشمنی میں تو امریکہ اور دیگر ممالک کیمونسٹوں سے بھی کئی گنا آگے نکل چکے ہیں۔ کم ازکم کمیونسٹوں نے جمہوریت پسندوں کے لئے ایسے concentration camp قائم نہیں کئے تھے جس طرح کے کیمپ امریکہ نے مسلمانوں کے خلاف قائم کئے ہوئے ہیں۔
خلافت کا قیام ناگزیر ہو چکا ہے۔ امریکہ نے طالبان کے خلاف جس طرح ننگی جارحیت کی‘ اسی طرح ”خلافت“ کے نام پر ننگی جارحیت کا مظاہرہ کرنے میں بھی اسے کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہو گی۔ لیکن دنیا کو اور خصوصا مسلمانوں کو معلوم ہو چکا ہے کہ طالبان کے خلاف پروپیگنڈے کا مقصد عورتوں کی آزادی کی بجائے اس علاقے پر قبضہ اور اسلام کے خلاف صلیبی جنگ کا تسلسل ہے۔
جمہوری دہشت گردوں کا چہرہ جوں جوں بے نقاب ہوتا جائے گا اتنا ہی مسلمانوں کی بات کا وزن بڑھتا چلا جائے گا۔ جمہوری نظام اور قومی ریاستوں کے نظام کے خاتمے کا وقت قریب سے قریب آ رہا ہے۔ مستقبل کی نسلوں کیلئے یہ بات کافی مضحکہ خیز ہو گی جب وہ یہ پڑھیں گے کہ اس غیر انسانی نظام کی شکست میں تیس سال سے بھی کم عرصہ لگا جس کی کمیونزم کے خلاف کامیابی پر "End of History"یعنی انسانیت کے معراج پر پہنچنے کا دعویٰ کر دیا گیا تھا۔
×××××××××××××××
مضمون کا لنک