• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلم ہولو کاسٹ، امت کا اجتماعی قتل عام

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
کالم: اوریا مقبول جان
پير 13 جولائ 2015
اسقدر غصہ، آنکھوں میں انتقام کے شعلے، کیا یہ سب ان کے مزاج کا حصہ ہے، ان کا گھریلو ماحول ہی ایسا تھا، یا یہ کسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوں سے جذبہ رحم ختم ہو جاتا ہے۔ دنیا میں بسنے والے تمام انسان اپنے اندر خوبصورت دل، محبت کے جذبات اور ایک دوسرے کے ساتھ رحم اور ہمدردی کی خُو رکھتے ہیں۔ انھیں خونخوار اور ظالم دو خواہشات بناتی ہیں۔ ایک طاقت، غلبے اور اقتدار کی خواہش اور دوسری مسلسل ظلم اور جبر سہنے کے بعد ظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا جذبہ۔ دنیا کی تاریخ میں یہی دو جذبے ہیں جنھوں نے انسانی سروں کی فصلیں کاٹی ہیں، کھوپڑیوں کے مینار بنائے ہیں، شہروں، بستیوں اور قصبوں کو آگ لگائی ہے اور اپنے اقتدار کو مضبوط کیا ہے، یا پھر لوگوں کا جم غفیر اٹھا ہے، انھوں نے عدالتیں لگائیں، بڑے بڑے تیز چھروں سے بادشاہوں، ان کے حواریوں کے سر کاٹے، ان کے سروں کو لڑھکاتے ہوئے ٹھوکروں سے روندتے رہے۔

عوام سے غداری کر کے ظالموں کا ساتھ دینے والوں کے گھروں کو آگ لگائی گئی، انھیں قطار میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ اقتدار اور غلبے کی خواہش سے جنم لینے والا ظلم اور قتل و غارت انسانوں میں انتقام اور غصے کو جنم دیتا ہے اور یہی دنیا کی تاریخ ہے۔ لیکن ہر دور کا مورخ بزدل، شاہ پرست اور اقتدار کا پروردہ ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ طاقتور بادشاہوں کے ظلم کو جائز اور ان کے خلاف جنم لینے والے انتقام کو غیر انسانی، غیر مہذب اور غیر اخلاقی تحریر کرتا رہا ہے۔ وہ حکومتوں کے خلاف اٹھنے والے لوگوں کو امن کے دشمن، بھیڑئیے اور باغی کے القابات سے یاد کرتا رہا ہے۔

آج کا مورخ موجودہ دور کا میڈیا ہے۔ یہ بھی اسی طرح طاقت وروں کے شکنجے اور حکمرانوں کے خوف سے سہما ہوا ہے، جیسے ہر صدی کا مورخ ہوتا ہے۔ اس میڈیا کو پالنے اور پوسنے والے بہت چالاک ہیں۔ وہ خود تو عالمی اقتصادی جبر کا حصہ ہیں، اپنے مفادات کے لیے وہ ملکوں کے ملک تباہ کرتے ہیں لیکن اپنے سرمائے سے چلنے والے میڈیا کا چہرہ انھوں نے آزاد رکھا ہوا ہے۔ جن عالمی کمپنیوں کے لیے ملکوں میں ظالم حکمرانوں کے اقتدار کو قائم رکھا جاتا ہے، انھیں انسانوں کے قتل عام کی کھلی چھوٹ دی جاتی ہے، جن عالمی کمپنیوں کے وسائل کی ہوس کے لیے ملکوں پر حملہ کیا جاتا ہے، ان کی بستیاں تاراج کی جاتی ہیں، وہی عالمی کمپنیاں دنیا بھر کے اس ’’آزاد، اور ’’خود مختار‘‘ میڈیا کو سرمایہ فراہم کرتی ہیں۔

یہ آج کا مورخ میڈیا اسی کو ظالم ثابت کرتا ہے جس کے بارے میں یہ سرمایہ فراہم کرنے والے اقتدار پر قابض ظالم اسے حکم دیتے ہیں۔ کس قدر حیران کن بات ہے کہ انقلاب فرانس کے دوران بڑے بڑے تیز دھار چھروں سے گردنیں کاٹنے والے، ان سروں کو گلیوں میں لڑھکانے والے، یہاں تک کہ بادشاہ لوئی کے سر سے دیر تک والی بال کھیلنے والے تو انسانی تاریخ کا رخ موڑنے والے تحریر کیے جاتے ہیں اور بادشاہ کو ظالم۔ لیکن آج کے میڈیا کے نزدیک عالمی امن قائم کرنے اور جمہوریت اور آزادی کے نفاذ کے لیے لاکھوں لوگوں کو قتل کرنا جائز ہے اور اس کے مقابلے میں اٹھنے والے، انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے لوگ اگر سر کاٹتے نظر آئیں تو انھیں انسانی تاریخ کے درندے، وحشی اور جنگلی ثابت کیا جاتا ہے۔

یوکرین میں کیمونسٹ روسی انقلاب کے دوران پچاس ہزار لوگوں کو گھروں سے نکال کر لائن میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا جائے تو اسے زار روس کے مظالم کے خلاف اٹھنے والی تحریک کا سنگ میل کہا جاتا ہے لیکن موجودہ کارپوریٹ سرمائے سے جنم لینے والی عالمی طاقتوں کی غنڈہ گردی اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی قومی ریاستوں کے ظلم کے خلاف اٹھنے والوں کو دہشت گرد، شدت پسند اور عالمی امن کے دشمن قرار دیتے ہیں۔

اس ’’با اختیار‘‘ ’’آزاد‘‘ اور ’’خود مختار‘‘ میڈیا کا کمال دیکھیں کہ 9 جنوری 2010ء کو آسٹریلیا کے ایک سوچنے سمجھنے والے فرد ڈاکٹر گڈیوں پولیا “Gideon Polya” نے عالمی عدالت انصاف میں ایک درخواست جمع کروائی جس کا عنوان ہے “Muslim Holocaust, Muslim Genocide” یعنی ’’مسلمانوں کا منصوبہ بندی کے ساتھ اجتماعی قتل عام‘‘۔ اس درخواست کا کوئی ذکر عالمی یا علاقائی میڈیا میں نہیں ملتا۔ یہ ایک ضخیم دستاویز ہے جس میں اس نے بے شمار شواہد کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ گزشتہ پچاس ساٹھ سالوں کے دوران مسلمانوں کے عالمی سطح پر قتل عام کی گنتی کروڑوں تک جا پہنچتی ہے۔ اس نے اس قتل عام کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک وہ مسلمان جن کو جنگوں، خانہ جنگیوں اور براہ راست حملوں کے ذریعے قتل کیا گیا، لیکن ان کے ساتھ ساتھ ان مسلمانوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے جنھیں اس طرح قتل کیا گیا کہ ان تک خوراک کی رسائی روکی گئی، ان کو بیماری میں دوائی نہ پہنچائی گئی، ان پر مختلف انداز سے وبائی امراض کے دروازے کھولے گئے اور انھیں بے موت مرنے دیا گیا ہے۔

اس کی مثال وہ 1943ء سے 1945ء تک بنگال میں پیدا کیے گئے مصنوعی قحط سے دیتا ہے جس میں چرچل جیسے دنیا کے ’’محبوب‘‘ رہنما نے وہاں خوراک کی ترسیل روکی تھی اور تقریباً 70 لاکھ لوگوں کو مرنے دیا گیا تھا جن میں 95 فیصد کے قریب مسلمان تھے۔ جنگ عظیم کے دوران یہ سب سے بڑا مسلم ہولوکوسٹ تھا جس کا کوئی ذکر تک نہیں کرتا جب کہ اسی دوران یہودی ہولوکوسٹ جو 50 لاکھ کے قریب بتایا جاتا ہے اسے آج تک میڈیا بھولنے نہیں دیتا۔ اس درخواست میں افغانستان کا مقدمہ سب سے پہلے بیان کیا گیا ہے جس میں اس نے اعداد و شمار سے ثابت کیا ہے کہ افغانستان میں امریکی حملے کے بعد سے اب تک 45 لاکھ افراد مر چکے ہیں اور تیس لاکھ لوگ ہجرت پر مجبور کیے گئے ہیں۔ مرنے والوں میں 37 لاکھ وہ عورتیں، بچے اور بوڑھے ہیں جن تک اس جنگ کی وجہ سے نہ دوائی پہنچنے دی گئی اور نہ خوراک۔ ان سب میں ظالم ترین عمل یہ تھا کہ طالبان نے افیون کی کاشت مکمل طور پر ختم کر دی تھی لیکن امریکا نے آتے ہی اسے بحال کر دیا کیونکہ اس افیون کی کاشت سے امریکی معیشت میں سالانہ 60 ارب ڈالر کا اضافہ ہوتا ہے۔

دنیا میں سب سے زیادہ منشیات استعمال کرنے والے امریکا میں ہیں۔ افغانستان سے کوڑیوں کے مول پر منشیات لی جاتی ہے اور ڈالروں میں وہاں بیچی جاتی ہے۔ اس وقت امریکا کی سرپرستی میں دنیا کی 90 فیصد منشیات افغانستان سے جاتی ہے جب کہ طالبان نے اسے 2 فیصد تک کر دیا تھا۔ اس افیون کی کاشت سے افغانستان میں ہر سال ایک لاکھ لوگ “Opiate Drug Related” موت کا شکار ہوتے ہیں اور یوں چودہ سالوں میں چودہ لاکھ لوگ اس بھیانک کاروبار کی وجہ سے موت کی آغوش میں جا چکے ہیں۔ براہ راست قتل و غارت سے افغانستان میں 2 لاکھ لوگ مارے گئے جب کہ عراق میں اس سے تین گنا لوگ لقمہ اجل بنے۔ سب سے بھیانک وہ اموات ہیں جو پانچ سال سے کم عمر بچوں کی ہوتیں جو بھوک اور بیماری سے مر جاتے ہیں۔ افغانستان میں امریکا کے آنے کے بعد 26 لاکھ ایسے بچے دنیا کی بہاریں دیکھنے سے قبل ہی دنیا سے رخصت ہو گئے۔

عراق میں یہ صورت حال 1991ء میں پہلی عراق جنگ سے جاری ہے جب اس پر خوراک اور دواؤں کی پابندی لگائی گئی تھی۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق 25 لاکھ عراقی براہ راست اور غیر محسوس پابندیوں کے ذریعے ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کے بعد فلسطین کا مقدمہ اس درخواست میں ہے جس پر امریکا برطانیہ یورپی یونین اور آسٹریلیا نے مل کر اسرائیل کو مسلط کیا ہے جس کی وجہ سے ایک لاکھ فلسطینی قتل ہوئے، 2 لاکھ 5 سال سے کم عمر بچے بیماریوں سے مارے گئے اور ستر لاکھ بے گھر ہوئے۔ 1990ء سے لے کر 2005ء تک فرانس نے افریقہ کے مسلمان ملکوں الجزائر وغیرہ پر قبضہ کیا اور اپنے منظور نظر ظالم حکمران وہاں مسلط کیے جن ملکوں میں اب تک چودہ کروڑ کے قریب ایسی اموات ہو چکی ہیں۔

اریٹیریا، صومالیہ اور دیگر افریقی ممالک میں تو اموات کا شمار نہیں۔ آخر میں اس نے کہا ہے کہ اس دنیا میں ہوس اور حرص کا شکار کارپوریٹ بدمعاشوں نے فیکٹریاں لگا کر جو عالمی موسموں کو تباہ کیا ہے، جس سے گلوبل وارمنگ پیدا ہوئی ہے، اس گلوبل وارمنگ سے گزشتہ پچاس سالوں میں کئی ارب لوگ لقمہ اجل بنے ہیں جو غریب ممالک کے تھے اور ان میں تین ارب مسلمان تھے۔ کیا اس درخواست میں دی گئی تصویر اور خونچکاں داستان کا آج کے مورخ میڈیا نے کہیں ذکر کیا، کوئی بریکنگ نیوز، کوئی ڈاکو منٹری، کوئی ٹاک شو، شاید کبھی نہیں لیکن آج ایک امریکی، یورپی باشندہ اس قتل عام کے نتیجے میں جنم لینے والے انتقام کی وجہ سے اغوا ہو جائے، قتل ہو جائے، پھر دیکھیں ٹیلی ویژن، اخبارات، ریڈیو کیسے شور مچاتے ہیں، اتنا شور کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔

…………

نوٹ: تاریخ طبری کے حوالے سے ایک قرض تھا جو میں نے ادا کیا ہے۔ میں اسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دو گستاخانہ من گھڑت افسانے تخلیق کرنے کا مصنف سمجھتا ہوں جن کا ذکر اس طرح نہ قرآن پاک میں ہے اور نہ احادیث کی کتب میں اور میں سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت کی وجہ سے طبری سے نفرت کرتا ہوں۔ ایک واقعہ حضرت زیدؓ کی سیدہ زینبؓ سے طلاق کا جسے کمال بے ہودگی سے اس نے تحریر کیا اور دوسرا واقعہ غزانیق۔ کسی معترض کالم نگار اخبار نویس یا دانشور میں حوصلہ ہے تو صرف سیدہ زینبؓ والا افسانہ پڑھ کر دیکھ لے اور اگر اس کے باوجود جرأت رکھتا ہے تو اسے من و عن اپنے کالم کی زینت بنا کر دکھا دے۔

ح


صحافی/ کالمسٹ کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں اپنی مفید رائے سے نوازیں
 
Top