نمبر1:
مسلک اہل حدیث کی ایسی دعوت ہے۔جس کی بنیاد اصول اور فروع یعنی عقائد اور اعمال میں ظاہر کتاب و سنت اور آئمہ سلف یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی روش پر ہے۔جس میں آنحضرت ﷺ کے بعد کسی شخصیت کے نام پر دعوت کی بنیاد نہیں رکھی گئی۔
نمبر2:
اصول فقہ میں۔
روضة الناظرا بن قدامه الرساله للامام الشافعي ارشاد الفحول شوكاني حصول المامول للصديق الحسن احكام الاحكام ابن حزم احكام للاموي التوضيح والتلويح تفتا زاني كشف الاسرار شرع اصول بزودي الاحكام في اصول الاحكام لعزبن عبد السلام القواعد لابن رجب القواعد والفوائدالاصوليه لعلي بن عباس البعلي 803 القواعد التورانيه لابن تيميه مواقفات شاطبي وغيره
احناف کی کتابوں میں اصول کی حیثیت سے بیان ہوئے ہیں۔جیسے مسلم الثبوت وغیرہ۔
متاخرین حنفیہ ملا جیون شاشی وغیرہ کی تصانیف محققانہ نہیں کاتب چلپی حنفی نےکشف الظنون میں فرمایا۔
’’ سب سے پہلے اصول فقہ پر معتزلہ اور اہل حدیث نے لکھا۔ لیکن ان کی کتابوں پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔اس لئے معتزلہ عقائد میں ہمارے مخالف ہیں۔اور اہل حدیث فروع میں۔‘‘
اصول فقہ میں اختلاف خاص نوعیت کا ہے۔فن کے ماہر اس سے غلطی نہیں کھا سکتے۔اس کے علاوہ بھی اہل حدیث نے اصول فقہ میں کافی ذخیرہ جمع فرمایا ہے۔ہر حق پسند آدمی کو اس میں دقت محسوس ہوتی ہے۔اس لیے کہ امام صاحب اور امام یوسف کے تلامذہ عام طور پر اعتزال کا شکار ہوگئے۔قاضی عیسیٰ بن ابان بشر مریسی۔سرخسی۔کرخی۔کم و بیش معتزلہ سے متاثر ہیں۔جو لوگ اعتزال سے متاثر نہیں۔ان کی روش اصول میں چنداں غلط نہیں۔اس موضوع میں تفصیلاً لکھنا وقت چاہتا ہے۔نیز یہ مسئلہ تدریسی ہے اخباری نہیں۔
نمبر2، 3:
2۔3۔سے اس کا جواب کافی حد تک سمجھاجاسکتا ہے۔اس کا مقصد پہلے جواب میں آچکا ہے۔
نمبر4:
مجتہدین میں کوئی بٹوارہ نہیں۔مذاہب اربعہ کے مجتہدین اہل حدیث کے بھی امام اور مجتہد ہیں۔آئمہ حدیث بخاری مسلم ۔ابو داؤد۔ترمذی۔ابن خذیمہ۔ابن جریر طبری۔ابو عبد الرحمٰن۔اوزاعی۔ابو یوسف محمد۔یہ سب اہل حدیث کے مجتہد ہیں۔البتہ حق کسی میں محصور نہیں۔نہ کسی کو مقام نبوت ملا ہے۔نہ مقام عصمت حاصل ہے۔عظیم وسیع علم کے باجود غلطی ممکن بھی ہے۔اور واقعہ بھی اس لئے کسی کے تمام اجتہادات واجب القبول نہیں ہوسکتے ۔اور نہ واجب الاتباع ۔
نمبر5:
مجتہدین کی تقسیم کوئی شرعی مسئلہ نہیں ۔
فوق كل ذي عليم کے مطابق اصطلاحی الفاظ وضع کر لیے گئے ہیں۔تقلید کی حفاظت کے لئے یہ اغلال سلاسل بنائے گئے ہیں۔تاکہ ان کے محققانہ اختلافات کو ترک تقلید کا نام دیا جاسکے۔ورنہ یہ سب اساتذہ اور تلامذہ دلائل کی بناء پر باہم اختلاف فرماتے تھے۔اور ایک دوسرے کی تقلید سے بے نیاز تھے۔
نمبر6:
مفتی کے لئے ضروری ہے۔وہ کم از کم آیات احکام اور احادیث احکام کوجانتا ہو۔مذاہب علماء پر اس کی نظر ہو۔عربیت سے آشنا ہو۔اصول فقہ اصول حدیث پر اس کی فی الجملہ نظر اور اس کے ساتھ باعمل اور متقی ہو اجتہاد ضروری نہیں۔
نمبر7:
7۔مجتہدین کی مردم شماری نہ پہلے کبھی ہوئی نہ اب اس کی ضرورت علمی فیوض و تدریس و تذکیر سے خود بخود مقام متعین ہوجاتاہے۔مسلمہ مجتہدین کو ان کی زندگی میں ان کے اقرا ن بڑے نہیں سمجھتے تھے۔ جس قدر مقام اب ان کو حاصل ہے۔اہل حدیث علماء کا بھی یہی حال ہے۔
مولانا سید نزیر حسین ۔مولانا شمس الحق۔ مولانا شرف الحق ڈیونوی۔مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری مولانا عبد العزیز رحیم آبادی۔مولانا حافظ محمد لکھنوی۔مولانا حافظ عبد المنان صاحب وزیر آبادی۔مولانا عبد الجبار صاحب غزنوی کو شاید آنے والے لوگ امام سمجھیں۔اور مجتہد ماننے لگیں میں اس معاملہ میں قطعاً مردم شماری یا مجتہد شماری کی ضرورت نہیں سمجھتا۔
الا نا ء يترشح وتفوح بما فيه
آپ قانون کے طالب علم ہیں۔مجتہد شماری سے پہلے اس اصطلاح کے مفہوم پر غور فرمایئں۔
مجتہد کو اصطلاحاً جن علوم کا مکلف قرار دیا گیا ہے۔اس لحاظ سے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین میں کوئی مجتہد معلوم نہیں ہوتا۔بلکہ تابعین میں سے بھی کسی کو مجتہد کہنا مشکل ہے۔حتیٰ کہ مسلمہ آئمہ اجتہاد ان مصطلح راہوں سے مقام اجتہاد پر فائز نہیں ہوئے۔عجیب یہ ہے کہ یہ اصطلاحی پابندیاں آئمہ اجتہاد پر وہ حضرات عائد فرما رہے ہیں۔جو خود مجتہد نہیں۔آپ ﷺ نے سچ فرمایا!
ان من اشراط الساعة ان تلد الامة ربها
ارباب تقلید آئمہ اجتہاد کے لئے اجتہاد کی راہیں تجویز فرماتے ہیں۔پھر یکم محرم سن401 ہجری سے اجتہاد کو کلیتاً بند فرماتے ہیں۔حالاکہ علوم اجتہاد اب بھی موجود ہیں۔
(رسالہ حمید یہ صفحہ 328 )
ولكن من عصر اربععمائمة من الهجرة النبوية علي صاحبها ازكي الصلواة والسلام قال العلماء الاعلام كما ينقل عن علماء الحنفية ان باب الاجتهاد قد انسد من ذالك التاريخ
علماء حنفیہ نے فرمایا کہ چوتھی صدی کے ختم ہوتے ہی اجتہاد کا دروازہ مقفل ہوگیا۔ ہم جب مجتہد کی تقلید کی تقلید ہی پسند نہیں کرتے۔ہم مجتہد شماری کی سردردی کیوں اختیار کریں۔ہمیں قرون خیر کا ایک غریب مسلمان تصور فرمایئے۔جو اپنے وقت کے علماء سے بلا تعین شخص مسائل دریافت کرتا ہے۔اور اپنے فہم اور بساط کے مطابق ان پرعمل کرتاہے۔وہ تقلید کوواجب سمجھے نہ مجتہد کی تلاش میں نکلے۔
نمبر8:
مروجہ مذاہب کی فقہ ہماری ہیں۔ہم بلا تخصیص وقت کے تقاضوں اور اپنے فہم کے مطابق قرآن وسنت کی رہنمائی میں ان پر عمل کرتے ہیں۔ان سے مسائل انتخاب کرتے ہیں۔ایک فقہ کا تعین اصل مرض ہے۔جس نے تقلید کی بندشوں کو مضبوط کیا اور فکر و نظرفہم و شعور کے دروازوں کو مقفل کیا۔ زاد المعاد۔نیل الاوطار۔فتح الربانی۔وغیرہ کی کتابیں اسی فقہی نہج پر لکھی گئی ہیں۔لیکن تقلید نہ ہونے کی وجہ سے وہ مروجہ فقہوں کا مقام حاصل نہیں کر سکیں۔نہ ہی حاصل ہونا چاہیے۔علماء کو اپنے علم کے مطابق تحقیق کرنا چاہیے
۔عوام کو بلا تخصیص علماء کی طرف رجو ع کرناچاہیے۔جس طرح قرون خیر میں لوگ کرتے تھے۔شاہ ولی اللہ صاحب نے یہ تذکرہ اس طرح فرمایا ہے۔
وبعد لقرنين حدث فيهم شئ من التخريج غير ان اهل المائةالرابعة لم يكونو امجتمعين علي التقليد علي مذهب الفقه لهوالحكاية لقوله كما يظهر من التبع بل كان فيهم العلماء والعامة وكان من خبر العامة انهم كانو في المسائل الاجما عية اللتي لا اختلاف فيها بين المسلمين او جمهور المجتهدين لا يقلدون الا صاحب الشرع و كانو ا يتعلمون صفة الوضوء والغسل والصلوات والزكواة من ابائهم ومعلمهم فيمشون حسب ذالك واذا وقعت لهم واقعة استفتوا فيها اي مضت وجدوا من غير تعيين مذهب وكان من خبر الخاصة انه كان اهل الحديث منهم يشتغلون بالحديث يتخلص اليهم من احاديث النبي صلي الله عليه وسلم واثار الصحابةما لا يتحاجون معه الي شئ اخر الخ (حجۃ البالغہ ج1 ص 122)
دوسری صدی کے بعد تخریج کاسلسلہ شروع ہوگیا تھا لیکن چوتھی صدی تک لوگ تقلید پر جمع نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی ایک مذہب کی تقلید اور اس پر تفقہ کا خیال اورچرچا ہوا تھا اسوقت علماء بھی تھے اوعوام بھی عوام کا یہ حال تھاکہ اتفاقی مسائل اپنے بزرگوں اور اپنے شہر کے علماء سے دریافت کرتے اور صرف آپ ﷺ کا اتباع فرماتے۔جیسے وضو نماز ذکواۃ کے متفقہ مسائل اور جب کوئی خاص حادثہ ہوجاتاہے۔تو بلا تعین کسی مفتی سے دریافت فرما لیتے خواص کا یہ حال تھا۔یعنی وہ اہل حدیث کو حدیث میں غور وفکر کے بعد ایسی احادیث اور آثار انکو مل جاتے۔جس کی وجہ سے کسی دوسری چیز کی انہیں ضرورت ہی نہ رہتی۔یہ صحیح اسلام کی صورت ہی محسوس نہیں ہوتی موجودہ فقہوں پر بلاتعین عمل کیاجائے ۔لوگوں کوایک مذہب کی پابندی پرخوامخواہ میں تنگ نہ کیا جائے۔ تو مسلک اہل حدیث کا مقصد حاصل ہوجاتاہے۔
اسی نہج پر حافظ ابن قیم ؒسن 751 کا ارشاد ملاحظہ فرمایئں۔
فانا نعلم بالضرورةانهلميكن فيعصر الصحابة رجل واحد اتخذ رجلا منهم يقلد في جميع اقواله فلميسقط منها شيئا واسقط اقوال غيره فلم ياخذ منها شيئا وتعلم بالضرورة ان لهذالم يكن في التابعين ولا تابعي التابعين فكذبنا المقلدن برجل واحد سلك لسبيلهم الوحيمة في القران الفضيلةعلي لساني رسول الله صلي الله عليه وسلم وانما حدث هذه البدعةفي القران الرابع علي لسانه صلي الله عليه وسلم (ص222)
ہم یقین جانتے ہیں کہ ایک آدمی بھی اس وقت اس طرح کا مقلد نہیں تھا۔جو ایک ہی شخص کے تمام مسائل کو قبول کرے۔اور باقی علماء کے فتووں کو رد کر دے۔اورہمیں یقیناً معلوم ہے کہ تابعین اور تبع تابعین کے زمانہ کا بھی یہی حال تھا۔ ایک ایسےآدمی کا پتہ دے۔کہ حضرات مقلدین ہماری تکذیب کریں۔جواسی ناہموار راہ پرچل رہا ہو۔یہ بدعت چوتھی صدی کی پیداوار ہے۔جس کی آپ ﷺ نے مذمت فرمائی ہے۔
ان گزارشات سے آپ پوری طر ح سوچ لیں۔کہ مجتہدین کی تقسیم اصول فقہ کی تقسیم کاتصور کہاں سے پیدا ہوا۔یہ صرف تارعنکبوت کا ایک حصار ہے۔
جوتقلید شخصی کی کمزور عمارت کو بچانے کےلئے بنایا گیا۔جس سے آپ جیسا قانون کا طالب بھی متاثر ہونے سے نہیں بچ سکا۔مجھے تعجب ہے کہ آپ کا ذہن اس سوال کی طرف منتقل کیوں کر ہوا۔
نمبر9:
اس کاجواب تقریباً 8 میں ہوچکاہے۔واقعی اگران مخصوص فقہوں کی طرح فقہ اہل حدیث کی پابندی واجب قرار دی جاتی تو یہ بھی تقلید ہی ہوتی۔
نمبر10:
میں نے عرض کیا ہے کہ سابقہ سارے فقہ قابل عمل ہیں۔ظروف و احوال کے لحاظ سے اہل علم ان سب پر بلا تخصیص عمل کریں گے۔فرعی اختلافات کو گوارہ کرنے کی عادت ڈالیں گے۔اس سے قرون خیر کی وحدت قائم ہوگی۔
نزع تقلید کی پیداوارہے۔جس کی وجہ سے تنگ نظری ہم پر محیط ہوچکی ہے۔بیماری کا نام صحت سمجھ لیا گیا ہے۔آپ اس جامد اختلا ف کا نام یکجہتی فرماتے ہیں۔عجیب ہے۔
جب چاروں مذاہب حق پر ہیں۔اوردنیا میں موجود ہیں۔تویک جہتی جناب نے کہاں سےسمجھی۔ بلکہ چار جہتی کو توسمجھ کر گوارہ کیا گیا۔اگر اس میں مسلک اہل حدیث کو بھی اس طرح گوارا کر لیاجائے۔ تو یہ مصطلح یک جہتی بھی قائم رہے گی۔ذرا اس میں وسعت ہو جائے گی۔کاش کے حضرات علماء کرام اس کو گوارہ کریں۔پہلی بیماری مروج تقلید ہے۔دوسری بیماری نہ گوارہ کرنے کی عادت غرض اس وجوب اور پابندی کو آپ ختم کردیں۔ساری دقتیں دور ہو جایئں گی۔بعض نظریاتی دقتیں عمل سے خود با خود درست ہوچکاہے۔ بلکہ اس صدی کے سفر میں بہت کچھ درست ہوچکاہے۔ اختلاف رائے کوگوارہ فرمایئے۔تفرقہ خود بہ خود ختم ہو جائےگا۔ اختلاف ہرتفرقہ میں لطف تفسیری تھیں۔بلکہ فقہی اختلاف رہنا چاہیے۔اور تفرقہ کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔
نمبر11:
اجتہاد کسی عالم کا ہو اسے کتاب وسنت پرپیش کرنا چاہیے۔اگرکتاب و سنت میں صراحت موجود نہ ہو عام کو کسی کے اجتہاد کا پابند نہ کیجئے۔جس پر حسب مصالح حل کرے۔اس پرکوئی ملامت اور ضیق نہ ہونی چاہیے۔
بحرحال علماء کی طرف رجوع کریں گے۔ انہیں عادت ڈالنی ہے کہ مشہور مجتہدین یا متعارف فقہوں کی بجائے شریعت کتاب وسنت کے نام سے مسائل دریافت کریں۔اورعلماء اپنی صوابدید کے مطابق جواب دیں۔اگر مقلد قرآن وسنت کے خلاف مسائل چھوڑنے پر آمادہ ہوجائے تو
یہ تقلید جہل برداشت اور مناسب ترین صورت ہے ۔میاں صاحب۔ حافظ ابن قیم نے اسے گوارہ فرمایا ہے۔تجربہ کی بناء پرضروری استفتا مخصوص فقہوں کی بجائے شریعت کی بنا پر کرنی چاہیے۔میاں صاحب نے معیار کے اس مقام میں یہ شرع فرمادی تھی۔
نمبر12:
ابن حزم قیاس کے بالکل منکر ہیں۔اہل حدیث کومانتے ہیں۔نظائر کے حکم میں مساوات کومانتے ہیں۔لیکن اگر قیاس کہیں قرآن وسنت کے متصادم ہو تو اہل حدیث نصوص کو مقدم سمجھتے ہیں۔
مدۃ رضاع کے نزدیک 2 سال چھ ماہ اور خمر کا سرکہ بنانا نصوص کے خلاف ہے۔اس میں نصوص مقدم ہوں گی۔
نمبر13:
اس کا جواب نمبر 12 میں آچکا ہے۔
قیاس نصوص تابع ہو تو قابل قبول ہے اس لئے ہر پیش آمدہ مسئلہ کا تعلق کسی نئے اعلان کی ضرورت نہیں۔
نمبر14:
سابقہ گزارشات کے بعد یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔فرضی شقیں جناب کی قانون دانی کی مرہون ہیں۔کوشش تو یہی ہے کہ آئمہ کرام کے جو اقوال اختیار کیے۔حضرت آئمہ کے ارشاد کے مطابق ان کے نظر ہو۔اس کے باوجودقصور نظر کا اعتراف ہے غلطی بھی ہوسکتی ہے۔ ممکن ہے مآخذنہ ملے تو کوئی اورراہ اختیار کرنا پڑے۔
من ذالذي ما جاء قط ومن لها لحسني فقط
قلت فرصت کے باوجود انتہائی اختصار سے بھی جوابی گزارشات آپ کے حسب الحکم الاعتصام میں بھیج رہا ہوں۔ اُمید ہے بعد ملاحظہ اپنی رائے سےمطلع فرمایئں گے۔یہ ملحوظ رہے کہ مناظرانہ انداز سے ان مباحث کوطول نہیں دینا چاہتا۔نہ ہی اتنی فرصت ہے ۔ورنہ آپ جانتے ہیں۔ان مباحث میں کوئی بھی چیز حرف آخر نہیں سمجھی جاسکتی۔اور مزید درمزید بسط اسی طرح ہوسکتا ہے۔اعلام الموقعین مترجم مل جائے تو ملاحظہ فرمالیں۔اگرعربی زبان پرعبور ہو تو اعلام ابن عبد البر کی کتاب جامع بیان العلم و فضلہ احکام ابن حزم وغیرہ کتب ملاحظہ فرمایئں۔والسلام۔
(محمد اسماعیل گوجرانوالہ)
(اخبار الاعتصام 3 جون 1973ء)