عبداللہ کشمیری
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 08، 2012
- پیغامات
- 576
- ری ایکشن اسکور
- 1,657
- پوائنٹ
- 186
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مصر کی موجودہ صورتحال
(تحقیقی اور تاریخی جائزہ)
پہلی قسط: اخوان المسلمون ، ابتداکب، کیوں اور کیسے ہوئی؟
(تحقیقی اور تاریخی جائزہ)
پہلی قسط: اخوان المسلمون ، ابتداکب، کیوں اور کیسے ہوئی؟
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم، امابعد،
"محمد مرسی کی حکومت کو گرانا، بیت اللہ کو منہدم کرنے سے بھی زیادہ قبیح جرم ہے"
"محمد مرسی کی حکومت کو گرانا، بیت اللہ کو منہدم کرنے سے بھی زیادہ قبیح جرم ہے"
یہ وہ الفاظ ہیں کہ جس کی بدولت اس وقت مصر میں آگ و خون ہولی تیز سے تیز تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ یہ جملہ اخوان المسلمون کے مرشد عام(سربراہ)محمد البدیع کا ہے کہ جس کے بعد سے مصر میں جاری باہمی ٹکراو میں شدت آگئی ہے اور بلاآخر محمد البدیع جو کہ مرسی حکومت کے جانے کے بعد سے روپوش تھے، گرفتار کر لئے گئے۔ اب اخوان المسلمون نے انکی جگہ محمد عزت جو کہ سید قطب جیسی گمراہ کن فکر شخصیت سے تلمیذنئے سربراہ کے طور پر چن لیا ہے۔
جبکہ اخوان السلمون نے عبوری حکومت اور فوج کے خلاف "پرامن" احتجاج جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اس "پرامن" احتجاج میں بلا مبالغہ ایک سو سے زائد سیکیورٹی اہلکار مارے جاچکے ہیں اور ملک شدید معاشی بدحالی کا شکار ہو چکا ہے ۔ ان "پرامن" مظاہرین کے اہل مصر کی زندگیوں اور معاشی پہیے کو جام کر کے رکھ دینے کے بعد ہی مصری فوج ان مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے قوت کے استعمال پر اتری ہے۔
اخوان المسلمون کو دوسری دینی اور سیاسی جماعتوں سمیت ملک کے سب سے بڑی روحانی مرکز "جامعہ ازہر" جو کہ خود اخوانی فکر کے زیر اثر ہے، مصالحت کی راہ اختیار کرنے نصیحت اور پیشکش کی مگر اخوانیوں نے اس سے صاف انکار کر دیا اور عبوری حکمومت کے خلاف اپنی مذحمتی تحریک کو اس وقت تک جاری رکھنے اعلان کیا ،جب تک کہ مصری فوج اور حکومت مصر کے معزول صدر محمد مرسی کو دوبارہ اقتدار کی کرسی پر باعزت طریقے سے نہیں بٹھا دیتی۔
یہ بات سب سمجھ سکتے ہیں کہ ایسی شرط کا مطلب ملک میں افراتفری اور ٹکراو کو ہوا دینے کے سوا کچھ نہیں ہے،اسی لئے تو مصری فوج اور عبوری حکومت مصر کی فوج اخوان المسلمون کی جانب سے
مصر کی ناکہ بندی ختم کروانے کے لئے طاقت کے استعمال پر مجبور ہوئی۔
مصر کی ناکہ بندی ختم کروانے کے لئے طاقت کے استعمال پر مجبور ہوئی۔
آخر محمد مرسی کو کیوں معزول کیا گیا، وہ کیا محرکات تھے کہ جس سے مصری فوج نے اخوان کی حکومت کو گھر کی راہ دکھائی؟
ان سب باتوں میں بہت تفصیل ہے مگر اس سے پہلےہم اس بات کا جائزہ لینے کے لئے اپنے ماضی کی جانب رخت سفر باندھیں گے کہ مصر میں اس وقت کیا ہورہا ہے، کون کتنا ذمہ دار ہے،پس پردہ اس باہمی ٹکراو کے کیا محرکات ہیں اور اس
کا حل کیسے ممکن ہے۔
ان سب باتوں میں بہت تفصیل ہے مگر اس سے پہلےہم اس بات کا جائزہ لینے کے لئے اپنے ماضی کی جانب رخت سفر باندھیں گے کہ مصر میں اس وقت کیا ہورہا ہے، کون کتنا ذمہ دار ہے،پس پردہ اس باہمی ٹکراو کے کیا محرکات ہیں اور اس
کا حل کیسے ممکن ہے۔
یہ 28 رجب ۱۳۴۲،3مارچ 1924 کی بات ہے کہ جب جنگ عظیم اول اپنے اختتام سے دوچار ہوچکی تھی اور سلطنت عثمانیہ کو اس جنگ میں شرکت کی بھاری قیمت اپنے وجود کے بکھرے کروا کر ادا کرنی پڑی تھی
یہ دن تمام دنیا کے مسلمانوں کے لئے نہایت تکلیف دہ اور غم کا باعث بنا۔ اس دن برطانیہ نے مسلمانوں کی طاقت اور امید کی محور سلطنت عثمانیہ کو فنا کر کے رکھ دیا،جسے مسلم دنیا سقوط خلافت عثمانہ کے نام سے یاد کرتی ہے۔
یہ دن تمام دنیا کے مسلمانوں کے لئے نہایت تکلیف دہ اور غم کا باعث بنا۔ اس دن برطانیہ نے مسلمانوں کی طاقت اور امید کی محور سلطنت عثمانیہ کو فنا کر کے رکھ دیا،جسے مسلم دنیا سقوط خلافت عثمانہ کے نام سے یاد کرتی ہے۔
برطانیہ کو اس فعل سے باز رکھنے کے لئے پوری دنیا کے مسلمانوں نے بھرپور احتجاجی تحریکیں بپا کیں مگر سب بے سود رہا۔ اور اس وقت ایک سیکیولر اور لادین شخص،جسے دنیا کمال اتاترک یعنی ترکوں کے
باپ کے نام سے جانتی ہے سقوط خلافت عثمانیہ میں کلیدی کردار ادا کیا اور سقوط کے بعد ترکی کا سربراہ بنا دیا گیا۔ اس شخص نے ترکوں کے اسلامی تشخص اور کردار کو مکمل طور پر مسخ کرنا شروع کردیا۔
باپ کے نام سے جانتی ہے سقوط خلافت عثمانیہ میں کلیدی کردار ادا کیا اور سقوط کے بعد ترکی کا سربراہ بنا دیا گیا۔ اس شخص نے ترکوں کے اسلامی تشخص اور کردار کو مکمل طور پر مسخ کرنا شروع کردیا۔
اسلام اور مسلمانوں پر ایسے ایسے وار کئے کہ پوری دنیا کے مسلمان شدید کرب کا شکارہوئے، ایک تو پہلے ہی انکی اجتماعیت اور قوت کا شیرازہ بکھر چکا تھا تو دوسری جانب رہی سہی کسر اسلام اور مسلمانوں کو ترکی سے ناپید کرنے کی کمال اتاترک نے نکالنی شروع کر دی تھے۔
حالات میں جب مسلمانوں کے جذبات اور غصہ شدید بھڑکا ہوا تھا اور انکو اب دنیا میں اپنی غلامی کے سایوں کے مزید گہرے ہونے کے اور کوئی شکل نظر نہیں آتی تھیں۔
ان حالات میں مسلمانوں کی ہمدردیاں بلا تفریق ہر اس فرد ،گروہ، یا جماعت ے ساتھ ہوتی کہ جو مسلمانوں میں دوبارہ" خلافت کے احیاء "کی بات کرتا اور اسکے لئے مسلمانوں کو جدوجہد کرنے پر ابھارتا تھا۔ بلا تفریق و عقیدہ ومنہج ،رنگ ونسل،عرب وعجم لوگ ایسے شخص اور گروہوں کو امید کی کرن سمجھنے لگے تھے۔
اور اس وقت مسلمانوں کو ایک ایسے فکری طوفان کے آنے کا قطعا کوئی علم نہیں تھا کہ جو انکی کشتی کو کسی کنارے پر لگنے ہی نہیں دے گا۔ اور آخرت کی تباہی کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی مسلمانوں کو آزمائشوں اور تکالیف میں مبتلاء کر دیگا۔
ان سازگار تحریکی حالات میں براعظم افریقہ کے خطہ مصر میں ایک سکول ٹیچر (جو کہ 1906 میں نیل کے نشیبی علاقے "محمدیہ" میں پیدا ہوا تھا)مسلمانوں کے جذبات کو خلافت اسلامیہ کے احیاء کے لئے ابھارنا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس شخص کے گرد مصر میں ایک وسیع حلقہ احباب جمع ہوگیا۔ اس سکول ٹیچر کا نام حسن أحمد عبد الرحمن محمد البنا تھا۔
اس کے بعد جب مقصد قیام خلافت پر لوگ حسن البناء کے گرد جمع ہونا شروع ہوئے تو اس نے انکو باقاعدہ کے جماعت کی شکل میں ڈھالنے کا فیصلہ کیا اور اسطرح سقوط خلافت عثمانیہ کے 4 سال بعد اخوان المسلمون کی پیدائش ہوئی۔
اس وقت مسلمانوں نے اس تحریک و جماعت کو اسلام اور مسلمانوں کی بقاء کی ضامن سمجھتے ہوئے، اس میں ھڑا دھڑ شمولیت اختیار کرنا شروع کردی۔ پھر جب اس کا چرچا ارد گرد کے خطوں میں پھیلا تو اس احیاء خلافت کے خوش نعرے سے متاثر ہو کر مسلمان جوک در جوک خود کو اس تحریک کا حصہ بننے لگے۔ اور پھر پوری دنیا میں اس "احیاء خلافت" کے جھنڈے تلے لوگ اخوان المسلمون کے جھنڈے تلے جمع ہونے لگے۔لہذا "اخوان المسلمون" کی مسلمانوں میں پیدائش کا سبب سقوط خلافت عثمانیہ اور احیاء خلافت اسلامیہ کا نعرہ بنا۔
مضمون جاری ہے