• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصر کی موجودہ صورتحال

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
مصر کی موجودہ صورتحال
(تحقیقی اور تاریخی جائزہ)
پہلی قسط: اخوان المسلمون ، ابتداکب، کیوں اور کیسے ہوئی؟​
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم، امابعد،
"محمد مرسی کی حکومت کو گرانا، بیت اللہ کو منہدم کرنے سے بھی زیادہ قبیح جرم ہے"​
یہ وہ الفاظ ہیں کہ جس کی بدولت اس وقت مصر میں آگ و خون ہولی تیز سے تیز تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ یہ جملہ اخوان المسلمون کے مرشد عام(سربراہ)محمد البدیع کا ہے کہ جس کے بعد سے مصر میں جاری باہمی ٹکراو میں شدت آگئی ہے اور بلاآخر محمد البدیع جو کہ مرسی حکومت کے جانے کے بعد سے روپوش تھے، گرفتار کر لئے گئے۔ اب اخوان المسلمون نے انکی جگہ محمد عزت جو کہ سید قطب جیسی گمراہ کن فکر شخصیت سے تلمیذنئے سربراہ کے طور پر چن لیا ہے۔​
جبکہ اخوان السلمون نے عبوری حکومت اور فوج کے خلاف "پرامن" احتجاج جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اس "پرامن" احتجاج میں بلا مبالغہ ایک سو سے زائد سیکیورٹی اہلکار مارے جاچکے ہیں اور ملک شدید معاشی بدحالی کا شکار ہو چکا ہے ۔ ان "پرامن" مظاہرین کے اہل مصر کی زندگیوں اور معاشی پہیے کو جام کر کے رکھ دینے کے بعد ہی مصری فوج ان مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے قوت کے استعمال پر اتری ہے۔​
اخوان المسلمون کو دوسری دینی اور سیاسی جماعتوں سمیت ملک کے سب سے بڑی روحانی مرکز "جامعہ ازہر" جو کہ خود اخوانی فکر کے زیر اثر ہے، مصالحت کی راہ اختیار کرنے نصیحت اور پیشکش کی مگر اخوانیوں نے اس سے صاف انکار کر دیا اور عبوری حکمومت کے خلاف اپنی مذحمتی تحریک کو اس وقت تک جاری رکھنے اعلان کیا ،جب تک کہ مصری فوج اور حکومت مصر کے معزول صدر محمد مرسی کو دوبارہ اقتدار کی کرسی پر باعزت طریقے سے نہیں بٹھا دیتی۔​
یہ بات سب سمجھ سکتے ہیں کہ ایسی شرط کا مطلب ملک میں افراتفری اور ٹکراو کو ہوا دینے کے سوا کچھ نہیں ہے،اسی لئے تو مصری فوج اور عبوری حکومت مصر کی فوج اخوان المسلمون کی جانب سے
مصر کی ناکہ بندی ختم کروانے کے لئے طاقت کے استعمال پر مجبور ہوئی۔​
آخر محمد مرسی کو کیوں معزول کیا گیا، وہ کیا محرکات تھے کہ جس سے مصری فوج نے اخوان کی حکومت کو گھر کی راہ دکھائی؟
ان سب باتوں میں بہت تفصیل ہے مگر اس سے پہلےہم اس بات کا جائزہ لینے کے لئے اپنے ماضی کی جانب رخت سفر باندھیں گے کہ مصر میں اس وقت کیا ہورہا ہے، کون کتنا ذمہ دار ہے،پس پردہ اس باہمی ٹکراو کے کیا محرکات ہیں اور اس
کا حل کیسے ممکن ہے۔​
یہ 28 رجب ۱۳۴۲،3مارچ 1924 کی بات ہے کہ جب جنگ عظیم اول اپنے اختتام سے دوچار ہوچکی تھی اور سلطنت عثمانیہ کو اس جنگ میں شرکت کی بھاری قیمت اپنے وجود کے بکھرے کروا کر ادا کرنی پڑی تھی
یہ دن تمام دنیا کے مسلمانوں کے لئے نہایت تکلیف دہ اور غم کا باعث بنا۔ اس دن برطانیہ نے مسلمانوں کی طاقت اور امید کی محور سلطنت عثمانیہ کو فنا کر کے رکھ دیا،جسے مسلم دنیا سقوط خلافت عثمانہ کے نام سے یاد کرتی ہے۔​
برطانیہ کو اس فعل سے باز رکھنے کے لئے پوری دنیا کے مسلمانوں نے بھرپور احتجاجی تحریکیں بپا کیں مگر سب بے سود رہا۔ اور اس وقت ایک سیکیولر اور لادین شخص،جسے دنیا کمال اتاترک یعنی ترکوں کے
باپ کے نام سے جانتی ہے سقوط خلافت عثمانیہ میں کلیدی کردار ادا کیا اور سقوط کے بعد ترکی کا سربراہ بنا دیا گیا۔ اس شخص نے ترکوں کے اسلامی تشخص اور کردار کو مکمل طور پر مسخ کرنا شروع کردیا۔​
اسلام اور مسلمانوں پر ایسے ایسے وار کئے کہ پوری دنیا کے مسلمان شدید کرب کا شکارہوئے، ایک تو پہلے ہی انکی اجتماعیت اور قوت کا شیرازہ بکھر چکا تھا تو دوسری جانب رہی سہی کسر اسلام اور مسلمانوں کو ترکی سے ناپید کرنے کی کمال اتاترک نے نکالنی شروع کر دی تھے۔​
حالات میں جب مسلمانوں کے جذبات اور غصہ شدید بھڑکا ہوا تھا اور انکو اب دنیا میں اپنی غلامی کے سایوں کے مزید گہرے ہونے کے اور کوئی شکل نظر نہیں آتی تھیں۔​
ان حالات میں مسلمانوں کی ہمدردیاں بلا تفریق ہر اس فرد ،گروہ، یا جماعت ے ساتھ ہوتی کہ جو مسلمانوں میں دوبارہ" خلافت کے احیاء "کی بات کرتا اور اسکے لئے مسلمانوں کو جدوجہد کرنے پر ابھارتا تھا۔ بلا تفریق و عقیدہ ومنہج ،رنگ ونسل،عرب وعجم لوگ ایسے شخص اور گروہوں کو امید کی کرن سمجھنے لگے تھے۔​
اور اس وقت مسلمانوں کو ایک ایسے فکری طوفان کے آنے کا قطعا کوئی علم نہیں تھا کہ جو انکی کشتی کو کسی کنارے پر لگنے ہی نہیں دے گا۔ اور آخرت کی تباہی کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی مسلمانوں کو آزمائشوں اور تکالیف میں مبتلاء کر دیگا۔​
ان سازگار تحریکی حالات میں براعظم افریقہ کے خطہ مصر میں ایک سکول ٹیچر (جو کہ 1906 میں نیل کے نشیبی علاقے "محمدیہ" میں پیدا ہوا تھا)مسلمانوں کے جذبات کو خلافت اسلامیہ کے احیاء کے لئے ابھارنا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس شخص کے گرد مصر میں ایک وسیع حلقہ احباب جمع ہوگیا۔ اس سکول ٹیچر کا نام حسن أحمد عبد الرحمن محمد البنا تھا۔​
اس کے بعد جب مقصد قیام خلافت پر لوگ حسن البناء کے گرد جمع ہونا شروع ہوئے تو اس نے انکو باقاعدہ کے جماعت کی شکل میں ڈھالنے کا فیصلہ کیا اور اسطرح سقوط خلافت عثمانیہ کے 4 سال بعد اخوان المسلمون کی پیدائش ہوئی۔​
اس وقت مسلمانوں نے اس تحریک و جماعت کو اسلام اور مسلمانوں کی بقاء کی ضامن سمجھتے ہوئے، اس میں ھڑا دھڑ شمولیت اختیار کرنا شروع کردی۔ پھر جب اس کا چرچا ارد گرد کے خطوں میں پھیلا تو اس احیاء خلافت کے خوش نعرے سے متاثر ہو کر مسلمان جوک در جوک خود کو اس تحریک کا حصہ بننے لگے۔ اور پھر پوری دنیا میں اس "احیاء خلافت" کے جھنڈے تلے لوگ اخوان المسلمون کے جھنڈے تلے جمع ہونے لگے۔لہذا "اخوان المسلمون" کی مسلمانوں میں پیدائش کا سبب سقوط خلافت عثمانیہ اور احیاء خلافت اسلامیہ کا نعرہ بنا۔​
مضمون جاری ہے​
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
{{{ اخوان المسلمین کے دستور کی تیاری کا مرحلہ }}}​
جب سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد ، ایک مصری سکول ٹیچر حسن البناء کی جانب سے تحریک کا نعرہ بلند ہوا اور مسلمان اپنے بھڑکے جذبات اور دینی ذوق و شوق کی وجہ سےاس تحریک کو اسلام اور خلافت کی دنیا میں احیائ کی تحریک سمجھ کر بلا تفریق عقیدہ و نظریات اس میں شامل ہونے لگے۔جن میں جہاں مختلف بد عقیدگیوں مثلا، وحدۃ الوجود، وحدۃ الشہود،حلول اور دوسرے غلیظ شرکیہ افکار اور بدعات کے حاملین شامل تھے ،وہیں چند صحیح العقیدہ افراد بھی اخوان المسلمون بارے درست اندازہ لگانے میں ناکام ہو کر ،اپنے اسلام سے خلوص کی بنیاد پر،اس کا حصہ بنے،تاکہ دنیا میں اسلام کے غلبہ کے لئے وہ بھی اپنا حصہ ڈال سکیں ، مگر جو کچھ ہونے جارہا تھا ،وہ انکے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ دنیا میں اسلام کے نفاذ کا نعرہ لیکر اٹھنے والے یہ دیوانے بلاآخر اپنی آخرت لٹانے کی راہ پر گامزن ہو جائیں گے۔​
یعنی مختصرا یہ کہ،اخوان المسلمون میں مختلف العقیدہ لوگ ، جن بدعقیدہ اور غالی روافض،صوفیہ اور دیگر گمراہ فرقوں سمیت صحیح العقیدہ افراد کی کچھ تعداد شامل ہوچکی تھی۔اور یہ 1930 کی دہائی تھی جب یہ تنظیم دنیا ے دورے خطوں میں بھی اپنے ہمدرد پیدا کرچکی تھی۔ حسن البناء ایک تیز اور دور کی سوچ رکھنے والا انسان تھا،اور اسے اس بات کا انداذہ تھا کہ وہ مختلف عقائد کے لوگوں کو اس مقصد پر زیادہ دیر جمع رکھ نہیں پائے گا اور بہت جلد یہ غیر فطری اتحاد بکھر جائے گا اور اسکی ساری بھاگ دوڑ ضائع جائے گا۔​
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس نے فیصلہ کیا کہ اپنی تنظیم کے لئے ایک دستور یا منہج ترتیب دیا جائے، اور یہ دستور ایسا ہوکہ جس میں سب بد عقیدہ افراد اور صحیح العقیدہ افراد کو اس غیر فطری اتحاد پر مطمئن کیا جاسکے۔اور یہ چوں چوں کا مربّہّ اسی طرح اپنا سفر جاری رکھ سکے۔​
اب ایک بات تو واضح تھی کہ دستور سازی کا یہ کام اگر تو متبحر فی العلم اور جید علماء سے لیا گیا تو اس سے اسکے اسلام اور خلافت کے احیاء کے لبادے میں بنائے گئے "خود ساختہ کا شیرازہ دستور سازی کے دوران ہی بکھر جائے گا اور مختلف عقائد و نظریات کے لوگ تقسیم ہوجائیں گے،کیوںکہ کسی صحیح العقیدہ شخص کو یہ چیز ہر گز برداشت نہیں کہ وہ ایسے شخص کے ساتھ میل جول اور معاملات ترتیب دے جو کھلم کھلا شرک کرتا ہو اور بدعات اور بداعمالیوں کا شکار ہو۔اور نہ ہی صوفی وحدۃ الوجودہ ،وحدۃ الشہودی اور روافض صحیح العقیدہ مسلمانوں کو برداشت کریں گے ۔​
ایسے میں اس نے اخوان مسلمون کے دستور اور منہج کو ترتیب دینے کا کام خود اپنے سر لینے کا فیصلہ کیا تاکہ کوئی ایسا دستور و منہج پیش کیا جاسکے ، جس پر کسی نہ کسی طرح سب کو متفق کر لیا جائے اور یہ ٹوٹ بٹوٹ کی کاریعنی اخوان المسلمون عقیدہ و منہج کی تطہیر کے،بکھرے بغیر اپنا سفر جاری رکھ سکے۔لہذا ایک سکول ٹیچر اب اسوقت یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ مسلمانوں کی رہنمائی اسکے قلم سے ہوگی حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کام ذمہ دار اپنی امت کے علماء کرام کو قرار دیا ہے۔​
اب چونکہ امت کو ایک جوڑنے کی بات آئی تھی تو حق تو یہ تھا اور شاندار موقع بھی کہ امت کی صحیح عقیدہ اور منہج پر تربیت دی جاتی انک اصلاح کر کے اس کام "احیاء اسلام و خلافت اسلامیہ"کا کام لیا جاتا مگر جو ہوا، اس سے اسلام کے عقائد بھی بری طرح مسخ ہوئے،اتباع سنت کا پہلو بھی مسلمانوں کی زندگیوں کو خیر باد کہنے لگا اور اسلام کے احیاء کی یہ تحریک خود اسلام سے بیگانی لگنے لگی۔​
آج بھی اخوان المسلمون کے کارکنان اور قائدین کا اگر مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی۔​
مقام حیرت ہے کہ جس اسلام کا وہ اپنے احیاء نہیں کر پائے اور مسلسل اس فریضہ سے دور ہوتے گئے ،اسلام اور خلافت کا احیاء ان سے کیونکر ممکن ہوگا؟​
یہی وجہ ہے کہ جس طرح انہوں نے اسلام و خلافت اسلامیہ کےاحیاء کے لئے صحیح عقیدہ و منہج کو پس پشت ڈال دیا، آج وہ کفار کے بنائے ہوئے نظام کفر "جمہوریت" کو اسلام کے نفاذ کے طریقے کے طور پر سینے سے لگائے پھر رہے ہیں۔​
اخوان کی مثال دور حاضر میں ایسی ہی ہے کہ​
"کوا چلا ہنس کی چال، خود اپنی چال بھی بھول گیا"​
بہرحال ، ہم بات کر رہے تھے کہ اخوان المسلمون کی دستور سازی حسن البناء نے خود اپنے سر لی جو بلا شبہ خلوص تو رکھتا تھا مگر ایک عام سکول ٹیچر اور دین اسلام کے اصول ومبادی سے بے بہرہ شخص تھا۔اس آپ ساتھ اس کام میں وہ افراد بھی شامل کئے جو اسکی طرح ہی "نیم حکیم" تھے، یا ایسے علماء جو اس کے اس چوں چوں کے مرتبہ والے نظریہ سے پہلےہی متفق ہوچکےتھے۔​
کافی غور خوض اور مغز ماری کے بعد حسن البناء اور اسکت رفقاء اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر تو مختلف العقیدہ و منہج کے حاملین کو ایک ہی "پٹاری" یعنی اخوان المسلمون میں رکھنا ہے تو اس کے لئے وہی چیز اس کے ستور کی بنیاد بنادی جائے جس کی بنیاد پر یہ "پٹاری" بنائی گئی تھی۔​
یہی وہی لمحہ تھا، جب اس تحریک نے اپنی گمراہی کے سفر کی بنیاد رکھی اور اپنے ساتھ لاکھوں مسلمانوں کو صحیح عقیدہ و منہج سے بہت دور لے گئی بلکہ اتنا دور کہ وہ صحیح عقیدہ و منہج کے حاملین سے لڑنا اور انکو قتل کرنا اسلام کی خدمت سمجھنے لگے ہیں۔​
جی وہ نقطہ جس پر سب کو جمع کرنے کا منصوبہ اس دستور میں پیش کیا گیا، وہ توحید حاکمیت تھا۔​
لا الہ الا اللہ، ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ حضرت آدم علیہ اسلام سے لیکر آخر زمان پیغمبر نےجس نقطہ پر کل انسانیت کو جمع کرنے کی کوشش کی وہ "اطعیواللہ و اطعیوالرسول"تھا۔​
اور اسکی بنیاد توحید الوہیت رکھی۔کیونکہ مشرک کتنا بھی گندا ہوتا تھا مگر وہ ایک توحید کا ہمیشہ سے اقراری رہا تھا کہ ہمیں پیدا اللہ نے ہی کیا ہے، یعنی توحید ربوبیت کے اکثر مشرکین قائل ہی رہے ہیں ، مگر جس توحید کی بنیاد پر انہیں رجسڑڈ مشرکین اور دائمی جہنمی قرار دیا گیا وہ توحید الوہیت ہی تھی۔توحید الوہیت سے مراد کہ اللہ کی صفات کو صرف اللہ کے ساتھ خاص کرنا ہے ، مثلا غریب نواز، داتا، دستگیر، غوث اعظم،بگڑی بنانےوالا،مشکل کشا،حاجت روا،رازق وغیرہ۔​
اگر ہم یوں کہیں کہ اللہ تعالی کو جو انسانیت سے توحی مطلوب ہے وہ توحید الوہیت ہی ہے۔ باقی رہی توحید حاکمیت کی بات تو وہ اسی توحید الوہیت کا ہی جز ہے جس طرح باقی جزئیات ہیں۔ مگر اس ایک جز لینا اور باقی تمام جزئیات کو یا فی الحال معطل کر دینا،یا غیر ضروری اور فتنہ کا باعث سمجھنا اور ان سے اعراض کرنا، یہ دور کی گمراہی ہے اور اس ے بڑا فتنہ زمین نمودار ناممکن ہی نظر آتا ہے۔​
کیونکہ اس میں ایک شرکیہ اور بدعی اعمال کا مرتکب اور صحیح عقیدہ سے میلوں دور شخص کو یہ باور ہوجاتا ہے کہ کیونکہ وہ اللہ کی حاکمیت کی بات کرتا ہےلہذا اس سے بڑا موحد اور مومن کوئی نہیں ، اب چاہے وہ تحریف قرآن کا حامل بھی رہے ، صحابہ کو گالیاں دے اور تکفیر بھی کرے، قبروں کو سجدہ بھی کرے، غیر اللہ سے مشکل کشائی حاجت روائی بھی کروائے، کبھی خود کو اللہ قرار دے یا اللہ کو خود قرار دے، یا وہ تمام دنیا کہ چند پرند بیل بوٹوں ،پاک و ناک کو اور خود اللہ کے وجود کا حصہ قرار دے یا کبھی وہ اللہ میں داخل ہونے کا نظریہ رکھنے وغیرہ وغیرہ۔لا حول ولا قوہ الا باللہ​
ہم ایک بات بخوبی جانتے ہیں کہ تمام انبیاء کرام ، صحابہ کرام ، تابعین و تبع تابعین عظام اور دیگر سلف صالحین نے جب بھی احیاء اسلام کا کام کیا،ہمیشہ توحید الوہیت کی بنیاد پر کیا، اللہ اور اسکے رسول کی ہر چھوٹے بڑے کام میں اتباع کی بنیاد پر کیا اور اسی پر قائم رہے ، چاہے انہیں حکومت میسر آئی یا نہیں۔​
اور ویسے بھی ہمیں ایک بات واضح ہونے چاہیئے کہ اللہ نے اپنے بندوں کے ذمے صرف اپنے آپکو اللہ کے خالص کرنے کا حکم دیا ہے، باقی اس خالص ہونے کے بدلے وہ حکومت دے یا نہ دے، یہ کسی کے موحد یا اچھے مسلمان ہونے کی نشانی ہر گز نہیں ہے۔​
کیونکہ ہم کتنے ایسے انبیاء جانتے ہیں جن میں نوح علیہ سلام ، لوط علیہ سلام، عزیر علیہ سلام ، ایوب علیہ سلام چیدہ چیدہ ہیں ورنہ اکثریت انبیاء کی ایسی ہےجو اس دنیا میں اسلامی حکومت قائم کئے بغیر ہی رخصت ہوئے ہیں۔اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے نفاذ اور احیاء کا راستہ حکومت کو نہیں سمجھا تھا، بس خالص عقیدہ پر صحابہ کی تربیت فرمائی اور اللہ نے انعام کے طور پر حکومت کی نعمت سے نوازا۔​
مختصرا، انسانوں کے اتحاد اور یگانیت کی بنیاد وہی ہونی چاہیئے جو اللہ اور اسکے رسولوں کی جانب سے پیش کردہ ہے۔ اس کو چھوڑ کر خو د سے طریقے ایجاد کرنا اور وہ بھی ایسے طریقے جو اصل طریقہ الہیہ کے برعکس ہو ں دور کی گمراہی کے سوا کچھ بھی نہیں۔​
لیکن اخوان المسلون کے دستور سازی کی بنیاد صرف و صرف توحید حاکمیت کا احیاء بنی اور جو بھی شخص چاہے اس کا عقیدہ و عمل کیسا بھی ہو، اگر وہ اللہ کی حاکمیت کے چند نعرے لگالیتا ہے اور اسکے قیام پر پر اثر گفتگو کر لیتا ہے وہ ہی پکا سچا مسلمان اور موحد ہوگا، باقی تمام مسلمان یا تو مداہنت پسند، فاسق و فاجر ، منافق ہوں گے۔​
مضمون جاری ہے۔۔۔​
نوٹ: یہ مضمون ایف بی پیج (صوت الحق ) سے لیا گیا ہے
 

ضدی

رکن
شمولیت
اگست 23، 2013
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
76
مصر کے کشیدہ حالات سے فائدہ شام اٹھا رہا ہے کیونکہ دنیا کا میڈیا اپنی نظریں مصر میں لگائے بیٹھا ہے جس کی وجہ سے شامی حکومت نے اہلسنۃ والجماعۃ سے تعلق رکھنے والے شہر میں کیماوی ہتھیار استعمال کئے پھر یک کے بعد دیگرے دو بم دھماکے بھی کروائے بعد نماز جمعہ مرسی کو چاہئے کہ اپنی ضد اور انا سے باہر نکلے خلافت نبوت کے منہج پر قائم ہوتی ہے اگر مرسی کی ہٹ دھرمی ختم نہ ہوئی تو مصر بھی تقسیم ہوجائے اور شام تو پہلے ہی مظالم ڈھا رہا ہے اہلسنۃ والجماعت پر اور بارک اوبامہ سفید گھر میں بیٹھ کر کہہ چکے ہیں ہم یہ نہیں دیکھ رہے کہ جھگڑا سنی یا شیعہ کا ہے ہم یہ دیکھیں گے کہ غلط کون ہے یعنی جو شورش اٹھی تھی شامی حکومت کو ختم کرنے کی وہ غلط تھی اور اس سے منسلک ہر شخص غلط ہے یعنی دبے لفظوں میں شامی حکومت کی حمایت ابھی بھی وقت ہے ہمارے لئے اگر ہماری عکسری قیادت امریکہ کی جنگ سے نہ نکل سکی تو ان للہ وان الیہ راجعون۔ یعنی چور کا دوست گراہ کٹ۔
 
Top