lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
مصنف ابن ابی شيبہ --- محمد بن ابراهيم ابی شيبہ --- چند فتاویٰ کے ذریعے قرآنی تعویذ کا جواز کشید کرنا
پہلی روایت:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِي عِصْمَةَ ، قَالَ : سَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ عَنِ التَّعْوِيذِ" ، فَقَالَ : "لا بَأْسَ إِذَا كَانَ فِي أَدِيمٍ"
ترجمہ : ابو عصمہ کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن المسیب سے تعویذ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: جب وہ چمڑے میں ہو تو کچھ حرج نہیں -
احمد العلل میں کہتے ہیں کہ:
وقد روى شعبة عن أبي عصمة , عن رجل , عن ابن المسيب في التعويذ -
(الجامع في العلل ومعرفة الرجال لأحمد بن حنبل ، رقم ١٣٧٨)
ابو عصمہ عن رجل عن ابن المسیب سے تعویذ کی روایت کرتے ہیں -
معلوم ہوا کہ اس روایت میں مجھول راوی ہے -
دوسری روایت:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ حَسَنٍ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ «أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بَأْسًا أَنْ يَكْتُبَ الْقُرْآنَ فِي أَدِيمٍ ثُمَّ يُعَلِّقُهُ
ترجمہ : جعفر صادق اپنے والد کے بارے میں کہتے ہیں کہ: وہ قرآنی آیت کو چمڑے پر لکھنے اور گلے میں لٹکانے میں کچھ حرج خیال نہیں کرتے تھے -
اس روایت کے راوی کون سے حسن ہیں کیونکہ حسن نام کے سات راوی ہیں جو جعفر الصادق سے روایات بیان کرتے ہیں اور یہ سب ثقہ نہیں بلکہ بعض مجھول بھی ہیں -
تیسری روایت:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ: «أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بَأْسًا بِالشَّيْءِ مِنَ الْقُرْآنِ
ترجمہ : محمد بن سیرین کے بارے میں ہے کہ: وہ قرآنی تعویذ میں کچھ حرج نہ سمجھتے تھے -
کتاب المتفق والمفترق از خطیب البغدادی کے مطابق
أخبرنا البرقاني قال قال لي أبو الحسن الدارقطني إسماعيل بن مسلم المكي وأصله بصري يروي عن الحسن وابن سيرين وقتادة متروك
(جلد ١، صفحہ ٣٧٩ تا ٣٨٠)
ترجمہ : امام الدارقطنی کہتے ہیں اسماعيل بن مسلم المكی اور اصلا بصری ہیں الحسن سے ابن سيرين سے اور قتادہ سے روایت کرتے ہیں متروک ہیں -
چوتھی روایت:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَسَنٌ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: «لَا بَأْسَ أَنْ يُعَلِّقَ الْقُرْآنَ
ترجمہ : عطاء بن ابی رباح: قرآنی تعویذ لٹکانے میں کچھ حرج نہیں -
اس کی سند میں لیث بن ابی سلیم ہیں جو مدلس ہیں عنعنہ سے روایت کرتے ہیں لہٰذا یہ قول قابل دلیل نہیں -
قال أحمد بن حنبل : ليث بن أبي سليم مضطرب الحديث -
(سير اعلام النبلاء ، جلد ٦ ، صفحہ ١٨٠ ، الطبقہ الرابعہ ، ليث بن ابی سليم ، الناشر: مؤسستہ الرسالہ)
احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ لیث بن ابی سلیم مضطرب الحدیث ہے -
وقال أبو زرعة ، وغيره : ليث لا يشتغل به ، هو مضطرب الحديث ، لا تقوم به حجة - (ایضاً ، صفحہ ١٨١)
تركه يحيى القطان ، وابن مهدي ، وأحمد ، وابن معين - (ایضاً ، صفحہ ١٨٢)
پانچویں روایت:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الأَزْرَقُ ، عَنْ جُوَيْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاكِ : " أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يَرَى بَأْسًا أَنْ يُعَلِّقَ الرَّجُلُ الشَّيْءَ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ إِذَا وَضَعَهُ عِنْدَ الْغُسْلِ ، وَعِنْدَ الْغَائِطِ "
ترجمہ : الضحاک: قرآنی تعویذ کو گلے میں لٹکانے میں کچھ حرج خیال نہ کرتے تھے البتہ غسل اور قضائے حاجت کے وقت آدمی اس کو اتار دے -
اس سند میں جويبر بن سعید البلخی ہے جو کہ ضعیف ہے ، امام بخاری رحمتہ الله علیہ لکھتے ہیں کہ:
جويبر بْن سَعِيد البلخي: عَنِ الضحاك. قَالَ لِي علي : قَالَ يحيى : كنت أعرف جويبرا بحديثين ، يعني ثم أخرج هذه الأحاديث بعد ، فضعفه -
(التاريخ الكبير للبخاری ، باب الجيم ، باب الواحد ، جويبر بن سعید البلخی)
جبکہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں حکم فرما دیا کہ:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي مَنْصُورٍ ، عَنْ دُخَيْنٍ الْحَجْرِيِّ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ إِلَيْهِ رَهْطٌ ، فَبَايَعَ تِسْعَةً وَأَمْسَكَ عَنْ وَاحِدٍ ، فَقَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، بَايَعْتَ تِسْعَةً وَتَرَكْتَ هَذَا ؟ ! قَالَ : " إِنَّ عَلَيْهِ تَمِيمَةً " ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فَقَطَعَهَا ، فَبَايَعَهُ ، وَقَالَ : " مَنْ عَلَّقَ تَمِيمَةً فَقَدْ أَشْرَكَ "
ترجمہ : عقبہ بن عامر الجھنی رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس ایک جماعت آئی - نبی صلی الله علیہ وسلم نے ان میں سے نو (٩) سے بیعت لے لی اور ایک کو چھوڑ دیا - لوگوں نے کہا کہ اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم آپ نے نو سے بیعت لے لی اور ایک کو چھوڑ دیا - ارشاد فرمایا کہ اس سے اس لئے بیعت نہیں لی کہ وہ تعویذ پہنے ہوۓ ہے - یہ سن کر ان صاحب نے ہاتھ اندر ڈال کر تعویذ توڑ ڈالا - اب نبی صلی الله علیہ وسلم نے ان سے بھی بیعت لے لی اور فرمایا کہ جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا -
(مسند احمد بن حنبل ، مسند العشرہ المبشرين بالجنہ... ، مسند الشامیين ، حدیث عقبہ بن عامر الجهنی)
کیا یہ حدیث یہ نہیں بتاتی کہ ہر قسم کا تعویذ ناجائز ہے؟ ورنہ نبی صلی الله علیہ وسلم کم سے کم یہ تو ضرور دریافت فرما لیتے کہ یہ تعویذ جو تم نے لٹکایا ہے اس میں قرآن تو نہیں لکھا ہوا ہے ، اسماء الٰہی تو نہیں؟ مطلق تعویذ دیکھ کر آپ صلی الله علیہ وسلم کا بیعت نہ کرنا ، کیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ آج کے فنِ دینداری کے ماہر اپنے کاروبار کے لئے جو مختلف عذر پیش کرتے ہیں وہ سارے کے سارے عذر ہائے لنگ کے علاوہ کچھ نہیں؟
وقال القاضي أبو بكر بن العربي في شرح الترمذي : تعليق القرآن ليس من طريق السنة وإنما السنة فيه الذكر دون التعليق انتهى
ترجمہ : القاضی ابو بکر بن العربی شرح الترمذی میں کہتے ہیں کہ: قرآن لٹکانا سنت کا طریقہ نہیں ، سنت تو یہ ہے کہ قرآن سے نصیحت حاصل کی جائے ، اسے لٹکایا نہ جائے -
(عون المعبود شرح سنن ابی داؤد ، كتاب الطب ، باب فی الترياق ، الناشر: دار الفكر)
تعویذ کے ثبوت میں ایک اور فتویٰ پیش کیا جاتا ہے کہ:
أخبرنا يعلى بن عبيد حدثنا عبد الملك عن عطاء في المرأة الحائض في عنقها التعويذ أو الكتاب قال إن كان في أديم فلتنزعه وإن كان في قصبة مصاغة من فضة فلا بأس إن شاءت وضعت وإن شاءت لم تفعل قيل لعبد الله تقول بهذا قال نعم
ترجمہ : عبد الملک کہتے ہیں کہ عطاء نے اس حائضہ کے متعلق کہا جس کے گلے میں تعویذ یا اور کوئی لکھی ہوئی چیز ہو اگر چمڑے میں ہو تو اسے اتار دے - اور اگر نرسل میں ہو جو چاندی سے بنی ہوتی ہے تو کچھ حرج نہیں ہے اگر چاہے تو اتار دے اور اگر چاہے تو نہ اتارے - عبد الله سے کہا گیا: آپ بھی ایسے ہی کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں -
(سنن الدارمی ، كتاب الطهارہ ، باب التعويذ للحائض)
سب سے پہلی روایت میں تھا کہ "چمڑے میں ہو تو کچھ حرج نہیں" اور اس روایت میں بیان ہوا کہ " اگر چمڑے میں ہو تو اسے اتار دے" - روایت کے متن سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ یہاں "مخصوص" حائضہ کے تعویذ کے متعلق بتایا جا رہا ہے اور بھلا ایسی کونسی حائضہ عورت ہو گی جو نرسل جو کہ چاندی سے بنی ہوتی ہے اس میں تعویذ پہنے؟ اس روایت میں خصوصیت ہے نہ کہ عمومیت ، جیسا کہ اس کے باب کے نام سے ہی واضح ہے کہ "باب التعويذ للحائض" یعنی حائضہ کے تعویذ کے متعلق - بھلا اس روایت سے تعویذ کا جواز کشید کرنا کہاں کی عقلمندی ہے! - بہرحال تعویذ چاہے حائضہ پہنے یا غیر حائضہ ، مرد پہنے ، بچے ، بوڑھے جو بھی پہنے اور تعویذ میں قرآن ہی کیوں نہ لکھا ہوا ہو ہر صورت میں ناجائز ہے - الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فیصلہ فرما دیا کہ تعویذ شرک ہے تو شرک ہے -
پہلی روایت:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِي عِصْمَةَ ، قَالَ : سَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ عَنِ التَّعْوِيذِ" ، فَقَالَ : "لا بَأْسَ إِذَا كَانَ فِي أَدِيمٍ"
ترجمہ : ابو عصمہ کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن المسیب سے تعویذ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: جب وہ چمڑے میں ہو تو کچھ حرج نہیں -
احمد العلل میں کہتے ہیں کہ:
وقد روى شعبة عن أبي عصمة , عن رجل , عن ابن المسيب في التعويذ -
(الجامع في العلل ومعرفة الرجال لأحمد بن حنبل ، رقم ١٣٧٨)
ابو عصمہ عن رجل عن ابن المسیب سے تعویذ کی روایت کرتے ہیں -
معلوم ہوا کہ اس روایت میں مجھول راوی ہے -
دوسری روایت:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ حَسَنٍ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ «أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بَأْسًا أَنْ يَكْتُبَ الْقُرْآنَ فِي أَدِيمٍ ثُمَّ يُعَلِّقُهُ
ترجمہ : جعفر صادق اپنے والد کے بارے میں کہتے ہیں کہ: وہ قرآنی آیت کو چمڑے پر لکھنے اور گلے میں لٹکانے میں کچھ حرج خیال نہیں کرتے تھے -
اس روایت کے راوی کون سے حسن ہیں کیونکہ حسن نام کے سات راوی ہیں جو جعفر الصادق سے روایات بیان کرتے ہیں اور یہ سب ثقہ نہیں بلکہ بعض مجھول بھی ہیں -
تیسری روایت:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ: «أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بَأْسًا بِالشَّيْءِ مِنَ الْقُرْآنِ
ترجمہ : محمد بن سیرین کے بارے میں ہے کہ: وہ قرآنی تعویذ میں کچھ حرج نہ سمجھتے تھے -
کتاب المتفق والمفترق از خطیب البغدادی کے مطابق
أخبرنا البرقاني قال قال لي أبو الحسن الدارقطني إسماعيل بن مسلم المكي وأصله بصري يروي عن الحسن وابن سيرين وقتادة متروك
(جلد ١، صفحہ ٣٧٩ تا ٣٨٠)
ترجمہ : امام الدارقطنی کہتے ہیں اسماعيل بن مسلم المكی اور اصلا بصری ہیں الحسن سے ابن سيرين سے اور قتادہ سے روایت کرتے ہیں متروک ہیں -
چوتھی روایت:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَسَنٌ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: «لَا بَأْسَ أَنْ يُعَلِّقَ الْقُرْآنَ
ترجمہ : عطاء بن ابی رباح: قرآنی تعویذ لٹکانے میں کچھ حرج نہیں -
اس کی سند میں لیث بن ابی سلیم ہیں جو مدلس ہیں عنعنہ سے روایت کرتے ہیں لہٰذا یہ قول قابل دلیل نہیں -
قال أحمد بن حنبل : ليث بن أبي سليم مضطرب الحديث -
(سير اعلام النبلاء ، جلد ٦ ، صفحہ ١٨٠ ، الطبقہ الرابعہ ، ليث بن ابی سليم ، الناشر: مؤسستہ الرسالہ)
احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ لیث بن ابی سلیم مضطرب الحدیث ہے -
وقال أبو زرعة ، وغيره : ليث لا يشتغل به ، هو مضطرب الحديث ، لا تقوم به حجة - (ایضاً ، صفحہ ١٨١)
تركه يحيى القطان ، وابن مهدي ، وأحمد ، وابن معين - (ایضاً ، صفحہ ١٨٢)
پانچویں روایت:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الأَزْرَقُ ، عَنْ جُوَيْبِرٍ ، عَنِ الضَّحَّاكِ : " أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يَرَى بَأْسًا أَنْ يُعَلِّقَ الرَّجُلُ الشَّيْءَ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ إِذَا وَضَعَهُ عِنْدَ الْغُسْلِ ، وَعِنْدَ الْغَائِطِ "
ترجمہ : الضحاک: قرآنی تعویذ کو گلے میں لٹکانے میں کچھ حرج خیال نہ کرتے تھے البتہ غسل اور قضائے حاجت کے وقت آدمی اس کو اتار دے -
اس سند میں جويبر بن سعید البلخی ہے جو کہ ضعیف ہے ، امام بخاری رحمتہ الله علیہ لکھتے ہیں کہ:
جويبر بْن سَعِيد البلخي: عَنِ الضحاك. قَالَ لِي علي : قَالَ يحيى : كنت أعرف جويبرا بحديثين ، يعني ثم أخرج هذه الأحاديث بعد ، فضعفه -
(التاريخ الكبير للبخاری ، باب الجيم ، باب الواحد ، جويبر بن سعید البلخی)
جبکہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں حکم فرما دیا کہ:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي مَنْصُورٍ ، عَنْ دُخَيْنٍ الْحَجْرِيِّ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ إِلَيْهِ رَهْطٌ ، فَبَايَعَ تِسْعَةً وَأَمْسَكَ عَنْ وَاحِدٍ ، فَقَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، بَايَعْتَ تِسْعَةً وَتَرَكْتَ هَذَا ؟ ! قَالَ : " إِنَّ عَلَيْهِ تَمِيمَةً " ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فَقَطَعَهَا ، فَبَايَعَهُ ، وَقَالَ : " مَنْ عَلَّقَ تَمِيمَةً فَقَدْ أَشْرَكَ "
ترجمہ : عقبہ بن عامر الجھنی رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس ایک جماعت آئی - نبی صلی الله علیہ وسلم نے ان میں سے نو (٩) سے بیعت لے لی اور ایک کو چھوڑ دیا - لوگوں نے کہا کہ اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم آپ نے نو سے بیعت لے لی اور ایک کو چھوڑ دیا - ارشاد فرمایا کہ اس سے اس لئے بیعت نہیں لی کہ وہ تعویذ پہنے ہوۓ ہے - یہ سن کر ان صاحب نے ہاتھ اندر ڈال کر تعویذ توڑ ڈالا - اب نبی صلی الله علیہ وسلم نے ان سے بھی بیعت لے لی اور فرمایا کہ جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا -
(مسند احمد بن حنبل ، مسند العشرہ المبشرين بالجنہ... ، مسند الشامیين ، حدیث عقبہ بن عامر الجهنی)
کیا یہ حدیث یہ نہیں بتاتی کہ ہر قسم کا تعویذ ناجائز ہے؟ ورنہ نبی صلی الله علیہ وسلم کم سے کم یہ تو ضرور دریافت فرما لیتے کہ یہ تعویذ جو تم نے لٹکایا ہے اس میں قرآن تو نہیں لکھا ہوا ہے ، اسماء الٰہی تو نہیں؟ مطلق تعویذ دیکھ کر آپ صلی الله علیہ وسلم کا بیعت نہ کرنا ، کیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ آج کے فنِ دینداری کے ماہر اپنے کاروبار کے لئے جو مختلف عذر پیش کرتے ہیں وہ سارے کے سارے عذر ہائے لنگ کے علاوہ کچھ نہیں؟
وقال القاضي أبو بكر بن العربي في شرح الترمذي : تعليق القرآن ليس من طريق السنة وإنما السنة فيه الذكر دون التعليق انتهى
ترجمہ : القاضی ابو بکر بن العربی شرح الترمذی میں کہتے ہیں کہ: قرآن لٹکانا سنت کا طریقہ نہیں ، سنت تو یہ ہے کہ قرآن سے نصیحت حاصل کی جائے ، اسے لٹکایا نہ جائے -
(عون المعبود شرح سنن ابی داؤد ، كتاب الطب ، باب فی الترياق ، الناشر: دار الفكر)
تعویذ کے ثبوت میں ایک اور فتویٰ پیش کیا جاتا ہے کہ:
أخبرنا يعلى بن عبيد حدثنا عبد الملك عن عطاء في المرأة الحائض في عنقها التعويذ أو الكتاب قال إن كان في أديم فلتنزعه وإن كان في قصبة مصاغة من فضة فلا بأس إن شاءت وضعت وإن شاءت لم تفعل قيل لعبد الله تقول بهذا قال نعم
ترجمہ : عبد الملک کہتے ہیں کہ عطاء نے اس حائضہ کے متعلق کہا جس کے گلے میں تعویذ یا اور کوئی لکھی ہوئی چیز ہو اگر چمڑے میں ہو تو اسے اتار دے - اور اگر نرسل میں ہو جو چاندی سے بنی ہوتی ہے تو کچھ حرج نہیں ہے اگر چاہے تو اتار دے اور اگر چاہے تو نہ اتارے - عبد الله سے کہا گیا: آپ بھی ایسے ہی کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں -
(سنن الدارمی ، كتاب الطهارہ ، باب التعويذ للحائض)
سب سے پہلی روایت میں تھا کہ "چمڑے میں ہو تو کچھ حرج نہیں" اور اس روایت میں بیان ہوا کہ " اگر چمڑے میں ہو تو اسے اتار دے" - روایت کے متن سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ یہاں "مخصوص" حائضہ کے تعویذ کے متعلق بتایا جا رہا ہے اور بھلا ایسی کونسی حائضہ عورت ہو گی جو نرسل جو کہ چاندی سے بنی ہوتی ہے اس میں تعویذ پہنے؟ اس روایت میں خصوصیت ہے نہ کہ عمومیت ، جیسا کہ اس کے باب کے نام سے ہی واضح ہے کہ "باب التعويذ للحائض" یعنی حائضہ کے تعویذ کے متعلق - بھلا اس روایت سے تعویذ کا جواز کشید کرنا کہاں کی عقلمندی ہے! - بہرحال تعویذ چاہے حائضہ پہنے یا غیر حائضہ ، مرد پہنے ، بچے ، بوڑھے جو بھی پہنے اور تعویذ میں قرآن ہی کیوں نہ لکھا ہوا ہو ہر صورت میں ناجائز ہے - الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فیصلہ فرما دیا کہ تعویذ شرک ہے تو شرک ہے -