• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصیبتیں کیوں آتی ہیں؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
مصیبتیں کیوں آتی ہیں؟

علامہ ابتسام الہٰی ظہیر
دنیا نیوز لاہور
جب ہم اپنے گرد و نواح پہ نگاہ ڈالتے ہیں تو مختلف انسانوں کو مختلف طرح کی مصیبتوں میں مبتلا دیکھتے ہیں۔
مشاہدے اور تجربے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ مصیبتوں کی زدّ میں آنے والے لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے مختلف طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ بسا اوقات مصیبتوں کا نشانہ بننے والے لوگ بہت زیادہ نیکوکار اور اسی طرح بعض حدِ اعتدال سے بڑھ جانے والے، ظلم اور زیادتیاں کرنے والے ہیں۔ نیکوکاروں کو مصیبتوں میں مبتلا دیکھ کر لوگ بالعموم دکھ اور غم کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیںاور اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ سے ان نیکوکاروں کے لیے رحمت کے طلبگار بن جاتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس مجرموں اور متکبروں کو برے انجام سے دوچار ہوتا دیکھ کر لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں۔
مصیبتوں اور تکالیف کے اسباب پر جب قرآن وسنت کی روشنی میں غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مختلف لوگوں پر آنے والی مصیبتوں کے مختلف اسباب ہوتے ہیں۔ مصیبتوں کے اسباب پر جب غور کیا جائے تو درج ذیل وجوہات سامنے آتی ہیں:

1۔ آزمائش: اللہ تبارک وتعالیٰ کے نیک اور برگزیدہ بندے جب مصیبتوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ان کا امتحان اور آزمائش ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 255، 256 اور 257 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور البتہ ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے، اورمالوں، جانوں اور پھلوں میں کمی کرکے اور خوشخبری دے دیں صبر کرنے والوں کو، وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں اور وہی لوگ ہیں (کہ) ان کے رب کی طرف سے ان پر عنایات ہیں اور رحمت ہے اور وہی لوگ ہی ہدایت یافتہ ہیں‘‘۔ تاریخِ انبیاء علیہم السلام
کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی بڑی تعداد نے اپنی زندگی میں مختلف طرح کی مشکلات اور تکالیف کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کو ساڑھے نو سو برس تک اپنی بستی والوں کی عداوت، شقاوت، مخالفت، طعن و تشنیع، سب و شتم اور سنگ باری کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بستی والوں کی شقاوت کو سہنا پڑا اور بادشاہِ وقت نے بھی آپؑ سے عدوات کا اظہار کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو توحید باری تعالیٰ سے پختہ تعلق کی وجہ سے جلتی ہوئی آگ میں ڈال دیا گیا لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؑ کو محفوظ و مامون فرما لیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی وجہ سے بہت سی مصیبتوں کو سہنا پڑا۔ آپؑ نے فرعون کی رعونت، ہامان کے منصب، شداد کی جاگیر، قارون کے سرمائے کا مقابلہ کیا لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ اپنی کامل وابستگی کا طوالت اور تسلسل سے اظہار کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی بستی والوں کی مخالفت کو سہنا پڑا۔

نبی کریمﷺ کی زندگی میں بھی بہت سی تکلیفیں، مشکلات اور آزمائشیں آئیں۔ آپﷺ پر بھی ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، آپﷺ کو شعب ابی طالب کی گھاٹی میں محصور کیا گیا، آپﷺ کو سرزمین مکہ کو خیرباد کہنا پڑا، طائف کی وادی میں آپﷺ کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا گیا۔ اس موقع پر جبرئیل امین پہاڑوں کے فرشتے کے ساتھ آئے تو نبی مہربان حضرت رسول اللہﷺ نے فرمایا ''اے اللہ! انہیں ہدایت دیدے‘ بے شک یہ نہیں جانتے‘‘۔ نبی کریمﷺ کے تلامذہ اور آپﷺ کے قریبی رفقاء کو بھی دین سے تعلق کی پاداش میں مختلف طرح کی اذیتوں کا نشانہ بننا پڑا۔ حضرت بلالؓ، حضرت خبابؓ، حضرت زنیرہؓ اور حضرت سمیہؓ نے تاریخی تکالیف کو برداشت کیا لیکن ایمان اور استقامت کے ساتھ پیش آنے والی مصیبتوں پر کماحقہٗ صبر کیا۔

2۔ تنبیہ: قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ تکالیف گناہگاروں کے لیے ایک تنبیہ ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ روم کی آیت نمبر 50 میں ارشاد فرماتے ہیں ''خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہوگیا لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے، تاکہ (اللہ) مزہ چکھائے انہیں بعض (اس کا) جو انہوں نے عمل کیا تاکہ وہ رجوع کریں‘‘۔ اسی طرح سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 30 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اور جو تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ اسی کی وجہ سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا‘‘۔ اسی طرح سورہ الٓم سجدہ کی آیت نمبر 21 میں ارشاد ہوا ''اور بلاشبہ ہم ضرور چکھائیں گے انہیں قریب ترین عذاب، سب سے بڑے عذاب سے پہلے، تاکہ وہ پلٹ آئیں‘‘۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ گناہگاروں کو ان کی سیئات کی مناسبت سے مختلف طرح کی تکالیف میں مبتلا کرتے ہیں۔ بعض لوگ ان تکالیف کے آ جانے کے بعد بھی گناہوں پر اصرار کرتے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کے حق دار بن جاتے ہیں۔ اس کے مدمقابل بہت سے لوگ تکالیف کے آ جانے کے بعد اصلاح کرتے اور سیدھے راستے پر گامزن ہو کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کو حاصل کر لیتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان سے راضی ہونے کے سبب ان کی تکالیف کو دور فر ما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل میں ایک بستی کی مثال دی ہے جس کے پاس امن اور اطمینان تھا اور ان کا رزق اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ہر سمت سے بکثرت آرہا تھا۔ انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں بھوک اور خوف کا شکار بنا دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی اس طرح کی تکالیف کے بعد انسان کو توبہ، استغفار کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اگر انسان سچے دل سے توبہ کرے تو خواہ کتنے ہی بڑے گناہوں کا مرتکب کیوں نہ رہ چکا ہو‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی جملہ خطائوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ فرقان میں شرک، قتل اور زنا کا ذکر کیا اور ان کے مرتکب کوجہنم کی خبر سنائی لیکن جو لوگ توبہ، ایمان اور عمل صالح کے راستے کو اختیار کرتے ہیں‘ ان کو بشارت دی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف ہی نہیں کرے گا بلکہ ان کے گناہوں کو نیکیوں سے تبدیل فرما دے گا۔ سورہ نوح میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت نوحؑ کے اس قول کا ذکر کیاکہ بخشش مانگو اپنے رب سے، بے شک وہ بہت بخشنے والا ہے۔ وہ بھیجے کا تم پر بارش موسلا دھار اور مدد کرے گا تمہاری مالوں اور بیٹوں کے ساتھ اور وہ کر دے گا تمہارے لیے باغات اور نہریں۔ گویا کہ توبہ اور استغفار کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بھیجے ہوئے عذابوں کو ٹال دیتے ہیں۔ چنانچہ جب قوم یونسؑ نے اجتماعی توبہ کی اور ایمان کے راستے کو اختیار کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے عذاب کو ان سے دور کر لیا۔

3۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب: قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ کئی حادثات اور اچانک تکالیف مجرموں کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کا عذاب ہوتی ہیں۔ چنانچہ قوم عاد کو جو گھمنڈ تھا کہ ہم سے بڑا طاقتور کوئی نہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان پر ہوائوں کے عذاب کو مسلط کرکے انہیں زمین پہ یوں بکھیرا جیسے کھجور کے کٹے ہوئے تنے ہوں۔ قوم ثمود اور قوم مدین کے لوگوں پر چنگھاڑ کو مسلط کیا گیا اور وہ تباہی اور بربادی کا نشانہ بن گئے۔ قوم ثمود نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی اونٹنی اور اس کے بچے کو قتل کیا۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان پر عذاب کو مسلط کر دیا۔ قوم مدین کے لوگ کاروباری بے اعتدالیوں پر اصرار کرتے رہے چنانچہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنے۔ اسی طرح قوم سدوم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے آسمان اور زمین کے درمیان اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اور پتھروں کے ذریعے ان کے وجودوں کو مسل دیا۔ ان کو ان سزائوں کا سامنا اپنی نافرمانی کی وجہ سے کرنا پڑا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ میں ان نافرمانوں کا ذکر کیا جنہوں نے ہفتے والے دن مکاری سے اللہ کی نافرمانی کی تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں کہا: ہو جا ذلیل بندر تو وہ ذلیل بندروں کی شکل میں تبدیل کر دیے گئے۔ فرعون زمین پر اپنے آپ کو رب کا درجہ دیتا تھا۔ اللہ نے مختلف تنبیہات کے ذریعے اس کو ڈرایا۔ ٹڈیوں، جوئوں، مینڈکوں، خون اور طوفان کو اس پر مسلط کیا گیا۔ وہ ہر عذاب کے ٹل جانے کے بعد دوبارہ سرکشی پر آمادہ و تیار ہو جاتا۔ چنانچہ اللہ نے جب موسیٰ علیہ السلام کو ان کے قبیلے کے ہمراہ فرعونیوں کے علاقے سے نکلنے کا حکم دیا تو فرعون نے اپنی فوجوں کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تعاقب کیا۔ اللہ نے سمندر کو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاء کے لیے کھول دیا اور ان کے گزر جانے کے بعد فرعون کو اس کے لشکر سمیت سمندر کی لہروں میں غرق کر دیا۔ ایسے عالم میں اس نے اللہ کی ذات پر ایمان لانے اور اپنے مسلمان ہونے کا اظہار کیا لیکن اللہ نے اس موقع پر اس کے بیان کو مسترد کر دیا اور اس کی لاش کو رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا۔

درحقیقت اس قسم کی تکالیف اور حادثات میں بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے ایک تنبیہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات سے بے نیاز ہونے کی بجائے اس کی تابعداری کے راستے پر کاربند رہیں اور ہمیشہ دعا گو رہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اس قسم کے رویوں اور طرزِ عمل سے محفوظ رکھے۔ آمین!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
مصائب و مشکلات سے نجات کے طریقے
عبدالعلیم عبدالعزیز
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر انسان کو مصیبت و پریشانی میں رنج و الم اور بیماریاں لاحق ہوتی ہیں چاہے وہ کسی بھی طبقے، فرقے اور مذہب و ملت سے تعلق رکھتا ہو، زمانے کے الٹ پھیر موسموں کی تبدیلی سے مختلف پریشانیوں اور امراض و اسقام کا سامنا کرتا ہے اور وہ انھیں دور کرنے اور اس کے ازالے کے لیے مختلف ظاہری و مادی اسباب کو استعمال کرتا ہے کیوں کہ دنیا میں کوئی ایسی بیماری نہیں ہے جس کی اللہ تعالی نے دوا نازل نہ کی ہو،
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’ماانزل اللہ داء الانزل لہ شفاء‘‘ (بخاری کتاب الطب: ۵۶۷۸)اللہ نے جو بیماری نازل کی ہے اس کے لیے شفا بھی نازل کی ہے۔
ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا:’’لکل دائٍ دوائٌ فاذا أصیبَ دواء الداء برأ بإذنِ اللّٰہِ‘‘ (مسلم:۵۸۷۱)یعنی ہر بیماری کی دوا ہے جب بیماری کی دوا پہنچ جاتی ہے تو وہ باذن اللہ شفایاب ہو جاتا ہے۔
لیکن بیماریوں کو دور کرنے کے جہاں مادی و ظاہری اسباب ہیں وہیں شریعت اسلامیہ نے کچھ ایسے روحانی اسباب بھی بیان کیے ہیں جن کو اپنا کر اور جنھیں اپنی عملی زندگی میں نافذ کرکے انسان بہت سارے مشکلات، غموں اور جسمانی و روحانی بیماریوں سے نجات پا سکتا ہے۔
ذیل میں چند روحانی اسباب کا ذکر کیا جارہا ہے:
اللہ سے دعا کرنا:
دعا مومن کا ہتھیار ہے اس ہتھیار کے ذریعے وہ بہت ساری مشکلات سے نجات حاصل کر سکتا ہے وہ پریشانیاں چاہے مادی ہوں یا معنوی و نفسیاتی اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ ہر پریشانی کے وقت اللہ کی طرف رجوع کرے کیونکہ وہی مصیبتوں و پریشانیوں کو دور کرنے والا اور رنج و الم سے نجات دینے والا ہے۔ فرمان الٰہی ہے:أَمَّن یُجِیْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوئ َ(النحل:۶۲)بے کس کی پکار کو جب وہ پکارے کون قبول کرکے سختی کو دور کرتا ہے؟
نیز مصیبتوں کے وقت اللہ تعالی سے دعائیں کرنا اور اسی سے ان مصائب کے ازالے کا سوال کرنا یہ انبیاء علیہم السلام کا شیوہ رہا ہے، چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام کو جب بیماری لاحق ہوئی تو انھوں نے اللہ سے دعا کی:وَأَیُّوبَ إِذْ نَادَی رَبَّہُ أَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ (انبیاء:۸۳)تو اللہ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور انھیں صحت و عافیت کے ساتھ ساتھ مال و اولاد سے بھی نوازا جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے:فَاسْتَجَبْنَا لَہُ فَکَشَفْنَا مَا بِہِ مِن ضُرٍّ وَآتَیْْنَاہُ أَہْلَہُ وَمِثْلَہُم مَّعَہُمْ (انبیاء ۸۴)حضرت ذکریا علیہ السلام اولاد کی دولت سے محروم تھے لیکن جب انھوں نے اللہ سے اپنی اس عظیم پریشانی کو دور کرنے کا سوال کیا تو اللہ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور کہا:یَا زَکَرِیَّا إِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ اسْمُہُ یَحْیَی لَمْ نَجْعَل لَّہُ مِن قَبْلُ سَمِیّاً (مریم:۷)’’اے ذکریا! ہم تجھے ایک بچے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہے‘‘۔
اسی طرح ابراہیم علیہ السلام نے بڑھاپے میں جب نیک اولاد کا سوال کیا تو اللہ نے انھیں بشارت دیتے ہوئے فرمایا:فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ (الصافات:۱۰۱)اور ہم نے انھیں ایک بردبار لڑکے کی خوشخبری سنائی۔
اس طرح کی بے شمار مثالیں کتاب و سنت میں بھری پڑی ہیں، لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ جب انھیں کوئی مصیبت لاحق ہو تو سب سے پہلے رب کی طرف رجوع کریں کیوں کہ وہی مشکل کشا، دعاؤں کا سننے والا اور اپنے بندوں پر رحم کرنے والا ہے۔

توکل علی اللہ:
اللہ پر بھروسہ اور توکل مصیبتوں سے نجات کا ایک اہم ذریعہ ہے، توکل کے ذریعہ اللہ تعالی انسان کو معاشی زندگی، دشمنوں کے خوف اور ہر قسم کے غموں اور برائیوں سے نجات دے دیتا ہے اور اللہ اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے:’’وَمَن یَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ فَہُوَ حَسْبُہُ‘‘ (الطلاق:۳)’’اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا‘‘۔
نیز توکل علی اللہ ایمان کا ایک جزء بھی ہے، فرمان الٰہی ہے:’’وَعَلَی اللّہِ فَتَوَکَّلُواْ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ‘‘ (المائدہ:۲۳)نیز اللہ پرتوکل اور بھروسہ کرنا یہ انبیاء و صلحاء کا طریقہ ہے، چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالاگیا تو انہوں نے کہا:’’حسبنا اللہ ونعم الوکیل‘‘اسی طرح جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ لوگ آپ کے ارد گرد جمع ہوچکے ہیں تو آپ نے فرمایا :’’حسبنا اللہ ونعم الوکیل‘‘ (بخاری کتاب التفسیر:۴۵۶۳)حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’لَوْ أَنَّکُمْ تَوَکَّلْتُمْ عَلَی اللَّہِ حَقَّ تَوَکُّلِہِ لَرَزَقَکُمْ کَمَا یَرْزُقُ الطَّیْرَ ؛ تَغْدُوخِمَاصًا، وَتَرُوحُ بِطَانًا‘‘ (ابن ماجہ:۴۱۶۴، ترمذی ۲۳۴۴، صححہ الالبانی)یعنی اگر تم اللہ پر ایسے ہی بھروسہ کرو جیسا کہ حق ہے تو اللہ تمہیں ایسے ہی روزی دے گا جیسے پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو شکم سیر ہو کر واپس لوٹتے ہیں۔
ذکرالٰہی:
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف مقامات پر ذکر کرنے کا حکم دیا ہے فرمایا:’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اذْکُرُوا اللَّہَ ذِکْراً کَثِیْراً‘‘ (احزاب:۴۱)مسلمانو! اللہ کا ذکر بہت زیادہ کرو کیوں کہ ذکر الٰہی سے بے چین اورمضطرب دلوں کو چین وسکون ملتاہے اور اللہ تعالیٰ غموں سے نجات دیتا ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم خوشیوں میں اللہ کو پہچانو وہ غموں کے وقت تمہیں یاد رکھے گا۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ۱۱؍۲۲۳، علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اپنی زبان کو ذکر الٰہی سے تر رکھے کیوں کہ اس میں دنیا وآخرت کے غموں کا مداوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں تھے تو اس عظیم مصیبت میں بھی اللہ کا ذکر کرتے رہے:’’لَا إِلَہَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَکَ إِنِّیْ کُنتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ‘‘
اور اس ذکر کی برکت سے اللہ نے انہیں نجات دی فرمان الٰہی ہے:’’فَاسْتَجَبْنَا لَہُ وَنَجَّیْْنَاہُ مِنَ الْغَمِّ وَکَذَلِکَ نُنجِیْ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ (انبیاء:۸۸)تو ہم ایمان والوں کو ایسے ہی نجات دیتے ہیں۔ ’’یعنی جو بھی مومن اللہ کو اس طرح شدائد اور مصیبتوں میں پکارے گا اللہ تعالیٰ اسے نجات دے گا۔(احسن البیان)
توبہ واستغفار:
یہ عمل بھی مصیبتوں اور پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے توبہ واستغفار کرنے سے اللہ تعالیٰ اولاد ورزق میں کشادگی اور بہترین سامان زیست عطا کرتا ہے چنانچہ نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا : اپنے رب سے استغفار کرو یقینا وہ بہت بخشنے والاہے وہ تم پرآسمان سے موسلادھار بارش برسائے گا، تمہیں تمہارے مال و اولاد میں خوب ترقی دے گا اور تمہارے لیے باغات اور نہریں بنادے گا۔ (نوح:۱۰-۱۲)
نیز توبہ واستغفار سے بلائیں ٹلتی ہیں اور عذاب الٰہی سے پناہ ملتی ہے فرمان الٰہی ہے:’’وَمَا کَانَ اللّہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ یَسْتَغْفِرُونَ‘‘ (انفال:۳۳)یعنی اللہ انہیں عذاب نہیں دے گا اس حال میں کہ وہ استغفار کرتے ہیں۔
مشروع ادعیہ واذکار کا اہتمام کرنا:
یہ بھی رنج والم، تنگی وپریشانی سے نجات کا ایک اہم ذریعہ ہے شرعی ثابت شدہ دعاؤں کے اہتمام کرنے سے اللہ تعالیٰ مختلف قسم کی بیماریوں اورشیطانی وسوسوںسے انسان کی حفاظت فرماتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص شام کے وقت تین مرتبہ یہ دعا:’’أعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَاخَلَق‘‘پڑھے گا، اسے اس رات زہریلے جانور کا ڈسنا نقصان نہیں پہنچا ئے گا۔ (سنن ترمذی، امام ترمذی نے حسن کہا ہے)
اسی طرح جو شخص:’’بِسْمِ اللّٰہِ الذِیْ لَایَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیٌٔ فِی الأرْضِ وَلَا فِی السَّمَائِ وَھُوَالسَّمِیْعُ العَلِیْم‘‘اس دعا کوصبح وشام تین مرتبہ پڑھے گا تو اسے کوئی ناگہانی مصیبت لاحق نہیں ہوگی اور دوسری روایت میں ہے کہ اس کو کوئی چیز تکلیف نہیں دے گی۔ (سنن ابی داود: ۵۰۸۸، ترمذی:۳۳۸۸، صححہ الالبانی)
اس کے علاوہ بھی بہت ساری دعائیں آپ ﷺ سے منقول ہیں مثلا آیۃالکرسی، سیدالاستغفار وغیرہ ہمیں ان کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ ہم ان کے ذریعہ غموں اور مصیبتوں سے نجات پا سکیں۔
شرعی جھاڑ پھونک کرنا:
شرعی اذکار کو پڑھ کر مریض پر دم کرنے سے بھی بیماریوں کا ازالہ ہوجاتا ہے اور انسان غموں ومصیبتوں سے نجات حاصل کرلیتا ہے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ خود اپنے اوپر اور اپنے گھر والوں پر دم کیا کرتے تھے اور اس بیماری میں جس میں آپ کی وفات ہوئی آپ معوذتین پڑھ کر اپنے اوپر دم کرتے تھے۔ (بخاری:۵۷۳۵)
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو بھی اس کا حکم دیا ہے جیسا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچی کو دیکھا جس کا چہرہ سیاہ پڑچکا تھا تو آپﷺ نے فرمایا اسے جھاڑ پھونک کرو بے شک اسے نظر لگ گئی ہے۔ (بخاری:۵۷۳۹)
دوسروں کی مدد کرنا:
یہ عمل بھی غموں کے دور کرنے کا ایک اہم ذریعہ وسبب ہے کیوں کہ جب انسان دوسروں کی مدد کرتا ہے تو اللہ اس کی مشکلوں اور مصیبتوں کو دور کردیتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جوکسی مومن کی دنیاوی مصیبت کو دور کرے گا تو اللہ قیامت کے دن اس کی مصیبت کو دور کرے گا اور جو کسی تنگ دست پرآسانی کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس پرآسانی کرے گا اورجو کسی مسلمان کی ستر پوشی کرے گا تو اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس کی ستر پوشی فرمائے گا،اللہ بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔ (مسلم: ۷۰۲۸)
ان کے علاوہ بھی بہت سارے اسباب وذرائع ہیں جن کو انسان اپنا کر اور اپنی عملی زندگی میں نافذ کرکے مصائب وآلام، غموں اور مصیبتوں سے نجات پا سکتا ہے مثلا تقدیر پرایمان رکھنا، نیک اعمال کرنا، صدقہ وخیرات کرنا فرائض وواجبات کو ادا کرنا اور حرام کاموں سے اجتناب کرنا وغیرہ۔
اللہ رب العالمین ہمیں ان اسباب و ذرائع کو اپنی زندگیوں میں نافذ کرنے اور کتاب و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین​
 
Top