• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مضاف و مضاف الیہ سے متعلق ایک اہم قاعدہ

شمولیت
فروری 21، 2019
پیغامات
53
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
56
مضاف اور مضاف الیہ میں گہرا تعلق ہو تو مضاف کو مفرد و جمع دونوں طرح سے لانا درست ہے
پہلے کی مثال جیسے: وإن تعدوا نعمت الله لا تحصوها
یہاں لفظ نعمہ مفرد اور مضاف ہے جوکہ بہت ساری نعمتوں پر مشتمل ہے،جن کا شمار ناممکن ہے۔
( ہماری بحث اس سے نہیں کیوں کہ یہ قاعدہ تو بالکل معروف و مشہور ہے کہ مفرد مضاف عموم کا فائدہ دیتا ہے۔ آیت میں نمعت کو مفرد لانے کی وجہ یہی ہے۔۔۔ لہذا اسے سمجھنے میں پریشانی نہیں ہوتی۔)

بحث اس سے ہے
یعنی مضاف الیہ تثنیہ کے لئے مضاف کو جمع لانا۔۔۔اس کی مثال جیسے : فقد صغت قلوبكما......، والسارق والسارقة فاقطعوا أيديهما...
مذکورہ بالا دونوں آیتوں میں غور کریں تو معلوم ہوگا کہ" قلوبکما" میں قلوب جمع ہے جوکہ مضاف ہے اور اس کا مضاف الیہ " کُما" ہے اور یہ تثنیہ ہے
دوسری آیت میں بھی یہی حال ہے یعنی " ایدی جمع ہے مضاف ہے اور اس کا مضاف الیہ" ھما" تثنیہ ہے۔

عربی قواعد میں کم علم رکھنے والے ہم جیسے طلبہ کے ذہن میں ان جیسی آیات کی تلاوت کرتے وقت یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں تو مضاف الیہ تثنیہ ہے پھر مضاف کو جمع کیوں لایا گیا ہے۔اس کا جواب کیا ہے ؟

آیت میں غور کریں تو جواب بالکل واضح ہے(جوکہ اوپر بیان کیا گیا) یعنی دل اور ید (ہاتھ) کا تعلق انسان کے ساتھ بہت ہی گہرا ہے، دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے اسی لیے مضاف الیہ تثنیہ ہونے کے باوجود مضاف جمع لایا گیا۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ جب مضاف انسانی جسم کا کوئی جز بن رہا ہو تو اسے جمع لایا جاسکتا ہے اگرچہ مضاف الیہ تثنیہ ہی کیوں نہ ہو۔۔
کتب نحو میں اس کی توجیہ کئی طرح سے بیان کی گئی ہے لیکن سمجھنے کے لئے یہ سب سے آسان طریقہ ہے۔۔۔۔

نوٹ: جہاں مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان گہرا تعلق نہ ہو وہاں یہ قاعدہ فٹ نہیں کیا جاسکتا۔
واللہ اعلم

( ہدایت اللہ فارس)
 
Top