عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,137
- پوائنٹ
- 412
مطالعہ؟؟؟
بچپن ھی سے يہ سنتے آيا ھوں کہ مطالعہ کرو.طالب علم کے لئے مطالعہ ضروری ھے.
بغير مطالعہ کے طالب علم کی زندگی ادھوری ھے. بغیر مطالعہ کے طالب علم کا علم ادھورا ھے. آپ لوگ بھی يقينا يھی سنتے آئے ھوں گے چونکہ ميں لکھ رھا ھوں تو مجبوراً آپ کو ایک بار اور سننا پڑے گا.
مطالعہ کی تمام تر اھميتوں کے باوجود ميرے ذھن ميں يہ سوال اٹھتا ھے کہ کيا صرف طالب علم کے مطالعہ سے بات پوری ھو جاتی ھے؟ کيا صرف طالب علم کے مطالعہ کر کے کلاس ميں آنے سے طالب علم کامیاب ھو جائے گا؟ کيا استاذ کا مطالعہ ضروری نھيں؟
ميں يہ سمجھتا ھوں کہ استاذ کا مطالعہ کر کے کلاس آنا يہ کھيں زيادہ اھم ھے کيونکہ اگر طالب علم مطالعہ کر کے کلاس ميں نھيں آتا تو صرف اپنا نقصان کرتا ھے اور اپنی زندگی تلف کرتا ھے. ليکن اگر استاذ مطالعہ کر کے کلاس ميں نھيں آتا ھے تو وہ کلاس ميں موجود سبھی طلبہ کی زندگی برباد کرتا ھے ان کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرتا ھے. کيونکہ جب استاذ مطالعہ کر کے نھيں آئے گا تو وہ پڑھائے گا کيا؟ سمجھائے گا کيا؟
عجيب بات ھے! اساتذہ خود مطالعہ کر کے نھيں آتے پھر اگر طلبہ کو کوئ بات سمجھ ميں نھيں آتی اور وہ اساتذہ سے پوچھتے ھيں تو اساتذہ يا تو انھيں ڈانٹ ديتے ھيں يا بتاتے بھی ھيں تو مطمئن نھيں کر پاتے. نتیجةً اساتذہ کا وقار اور انکی شخصیت مجروح ھوتی ھے. اور بھی کئ برے اثرات رونما ھوتے ھيں جنکی تفصیل ايک الگ مضمون کی طالب ھے.
ميں ايسے اساتذہ سے گزارش کرتا ھوں کہ براہ کرم يا تو وہ اپنی عادت اور اپنا شيوہ بدل ديں يا پھر درس و تدریس سے سبکدوشی اختیار کر ليں. ذمہ داران سے بھی ميری گزارش ھے کہ وہ ايسے اساتذہ کو اپنے اسکول يا مدارس ميں جگہ نہ ديں.
ايسے اساتذہ کو چاہئے کہ ان اساتذہ کا اتباع کريں جو کئ سال سے ايک ھی مضمون پڑھاتے ھيں ليکن پھر بھی کبھی مطالعہ کے بغیر کلاس ميں آنے کو قبیح سمجھتے ھيں.
ھو سکتا ھے کہ کچھ لوگ ميری تحرير کو غلط سمجھيں يا ميری تحریر کا غلط مطلب نکاليں. ليکن ميں يہ بات واضح کر دينا چاہتا ھوں کہ ميری تحریر کا مقصد صرف اور صرف اصلاح ھے کيونکہ تنقید اصلاح کا ذریعہ ھے.اگر تنقید ھوگی تو اصلاح ھوگی.
ابن اثر (عمر اثری)
بچپن ھی سے يہ سنتے آيا ھوں کہ مطالعہ کرو.طالب علم کے لئے مطالعہ ضروری ھے.
بغير مطالعہ کے طالب علم کی زندگی ادھوری ھے. بغیر مطالعہ کے طالب علم کا علم ادھورا ھے. آپ لوگ بھی يقينا يھی سنتے آئے ھوں گے چونکہ ميں لکھ رھا ھوں تو مجبوراً آپ کو ایک بار اور سننا پڑے گا.
مطالعہ کی تمام تر اھميتوں کے باوجود ميرے ذھن ميں يہ سوال اٹھتا ھے کہ کيا صرف طالب علم کے مطالعہ سے بات پوری ھو جاتی ھے؟ کيا صرف طالب علم کے مطالعہ کر کے کلاس ميں آنے سے طالب علم کامیاب ھو جائے گا؟ کيا استاذ کا مطالعہ ضروری نھيں؟
ميں يہ سمجھتا ھوں کہ استاذ کا مطالعہ کر کے کلاس آنا يہ کھيں زيادہ اھم ھے کيونکہ اگر طالب علم مطالعہ کر کے کلاس ميں نھيں آتا تو صرف اپنا نقصان کرتا ھے اور اپنی زندگی تلف کرتا ھے. ليکن اگر استاذ مطالعہ کر کے کلاس ميں نھيں آتا ھے تو وہ کلاس ميں موجود سبھی طلبہ کی زندگی برباد کرتا ھے ان کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرتا ھے. کيونکہ جب استاذ مطالعہ کر کے نھيں آئے گا تو وہ پڑھائے گا کيا؟ سمجھائے گا کيا؟
عجيب بات ھے! اساتذہ خود مطالعہ کر کے نھيں آتے پھر اگر طلبہ کو کوئ بات سمجھ ميں نھيں آتی اور وہ اساتذہ سے پوچھتے ھيں تو اساتذہ يا تو انھيں ڈانٹ ديتے ھيں يا بتاتے بھی ھيں تو مطمئن نھيں کر پاتے. نتیجةً اساتذہ کا وقار اور انکی شخصیت مجروح ھوتی ھے. اور بھی کئ برے اثرات رونما ھوتے ھيں جنکی تفصیل ايک الگ مضمون کی طالب ھے.
ميں ايسے اساتذہ سے گزارش کرتا ھوں کہ براہ کرم يا تو وہ اپنی عادت اور اپنا شيوہ بدل ديں يا پھر درس و تدریس سے سبکدوشی اختیار کر ليں. ذمہ داران سے بھی ميری گزارش ھے کہ وہ ايسے اساتذہ کو اپنے اسکول يا مدارس ميں جگہ نہ ديں.
ايسے اساتذہ کو چاہئے کہ ان اساتذہ کا اتباع کريں جو کئ سال سے ايک ھی مضمون پڑھاتے ھيں ليکن پھر بھی کبھی مطالعہ کے بغیر کلاس ميں آنے کو قبیح سمجھتے ھيں.
ھو سکتا ھے کہ کچھ لوگ ميری تحرير کو غلط سمجھيں يا ميری تحریر کا غلط مطلب نکاليں. ليکن ميں يہ بات واضح کر دينا چاہتا ھوں کہ ميری تحریر کا مقصد صرف اور صرف اصلاح ھے کيونکہ تنقید اصلاح کا ذریعہ ھے.اگر تنقید ھوگی تو اصلاح ھوگی.
ابن اثر (عمر اثری)