عبدالرحیم رحمانی
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 22، 2012
- پیغامات
- 1,129
- ری ایکشن اسکور
- 1,053
- پوائنٹ
- 234
بسم اللہ الرحمن الرحیم
1 ظلم و ز یاد تی:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا(حدیث ِقدسی ہے)اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے:''اے میرے بندو!میں نے ظلم کواپنے اوپرحرام کرلیا ہے۔ اورتمہارے درمیان بھی اسے حرام ٹھہرایاہے ؛لہٰذاایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔اے میرے بندو!تم سب گمراہ ہو'سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں؛لہٰذا مجھ سے ہدایت طلب کرو،میں تمہیں ہدایت دو ںگا۔اے میرے بندو!تم سب بھوکے ہو 'سوائے اس کے جسے میں کھلاؤں؛لہٰذامجھ سے ہی کھانا مانگو میں تمہیں کھلاؤںگا۔اے میرے بندو!تم سب ننگے ہو ' سوائے اس کے جسے میں پہناؤں؛لہٰذا مجھ سے ہی کپڑامانگو ' میں تمہیں پہناؤںگا۔اے میرے بندو!تم رات دن خطائیں کرتے ہواور میں ہی ہرقسم کے گناہوں کو بخشتا ہوں؛لہٰذامجھ سے معافی مانگو'میں تمہیں بخش دوںگا۔اے میرے بندو!تم مجھے نقصان پہنچا سکتے ہو اور نہ نفع۔
اے میرے بندو!اگر تمہارے اگلے پچھلے سب انس وجن تم میں سے سب سے زیادہ متقی شخص کی طرح ہوجائیں تو اس سے میری سلطنت میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔اے میرے بندو!اگر تمہارے اگلے پچھلے سب انس وجن تم میں سے سب سے زیادہ فاسق وفاجر شخص کی طرح ہوجائیں تو اس سے بھی میری سلطنت میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی ۔ اے میرے بندو!اگر تمہارے اگلے پچھلے سب انس وجن کسی چٹیل میدان میں جمع ہوکرمجھ سے مانگیں اور میں ہرشخص کی مانگ پوری کردوں تو اس سے میرے خزانوں میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی بجز اس کمی کے جو سمند دمیں سوئی ڈبونے سے ہوتی ہے۔اے میرے بندو!یہ تمہارے اعمال ہیں جنہیں میں شمار کرتا ہوںپھر تمہیں ان کاپورا پورا بدلہ دوںگا،تو جوشخص بھلائی کو پالے وہ اللہ کا شکر ادا کرے ۔اور جو بھلائی کے سوا کسی اور چیز کو پالے ،تو وہ اپنے نفس ہی کو ملامت کرے۔''(صحیح مسلم وترمذی-صحیح)
اس حدیث ِقدسی میں اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام بندوں کو اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانِ نبوت سے انتہائی پیارے انداز میں خطاب فرماکر ہرکام میں محض اپنی ذات کی طرف رجوع کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔یعنی تمام انسانوں کو اپنی ہرقسم کی مرادیںاور فریادیں صرف اللہ تعالیٰ ہی سے کرنی چاہئیں۔اس لئے کہ وہی ہے جو ہماری تمام حاجات کا تنہاازالہ کرسکتا ہے اور جہاں سے ہم کبھی بھی خالی دامن لیکر واپس نہیں جاتے۔اوروہی ہمارے تمام گناہوں کو معاف کرنے اور پھر انہیں نیکیوں میں بدلنے پر بھی قادر ہے۔ہم اسی کے رزق کے محتاج ہیںاور وہی ہمیں لباس بھی مہیاکرتا ہے۔اس کے سواباقی سب بے بس،لاچار اور اسی کی نظر ِکرم کے محتاج ہیں۔
2حرام خو ری:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایاـ:''وہ جسم جنت میں داخل نہ ہوگا جوحرام سے پلا ہو۔''(رواہ أبو یعلیٰ والبزار والطبرانی-حسن)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے:''ایک شخص بہت لمبا سفر کرکے(اورکثیر مال خرچ کرکے حج کیلئے جاتا ہے)اس کاجسم تھکاوٹ سے چوراور گردوغبار سے اٹاپڑاہے ، پھر وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر اللہ سے ''اے میرے رب،اے میرے رب''کہہ کردعاکرتا ہے۔حالانکہ اس کا کھانا حرام کا ہے ،اس کا پینا حرام کا ہے،اس کا لباس حرام کا ہے اور حرام کی غذا سے اس نے پرورش پائی ہے۔پس ایسے شخص کی دعا کہاں سے قبول ہوگی ؟ ' ' ( صحیح مسلم ،ترمذی)
اللہ کے رسول نے سُود کھانے والے پر،کھلانے والے پر،اس کولکھنے والے پراور اس کے دوونوںگواہوں پر لعنت فرمائی ہے ۔(صحیح مسلم،ابوداؤد،ترمذی)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:''میں نے (معراج کے موقع پر)دیکھا کہ ایک شخص جہنم کے اندر ایک خون کی ایک نہر میں غوطے لگارہاہے اور اس کے کنارے پر بھی ایک آدمی کھڑا ہے جس کے ہاتھ میں پتھر ہیں،جب اندر والاآدمی باہر آنے کی کوشش کرتا ہے توباہر والااس کے چہرے پر پتھر مارکر اسے واپس اندرجانے پر مجبور کردیتا ہے اور وہ واپس اپنی جگہ پر پہنچ جاتا ہے ۔میں اپنے ساتھ والے فرشتوں سے پوچھا کہ یہ نہروالاشخص کون ہے اور اسے اتنا سخت عذاب کیوں دیا جارہا ہے؟توفرشتوں نے بتلایا کہ یہ سُود کھانے والے لوگ ہیں۔''(صحیح بخاری)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:''سُود کے ستر (70)سے زائددرجے ہیں،اور ان میں سب سے ہلکے درجے کا گناہ اپنی سگی ماں سے زناکرنے کے برابر ہے۔''(ابن ِماجہ-صحیح)
ان احادیث میں ان لوگوں کیلئے انتہائی سخت وعیدیں ہیں کہ جو دولت کمانے کی دھن میںحلال وحرام کی تمیز کھو بیٹھتے ہیں۔ان کی کوئی عبادت اللہ تعالیٰ کی ہاں قابل ِ قبول نہیں ہوتی۔ چاہے وہ کثیر سرمایا لگاکراور سخت محنت جھیل کر حج جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی کیلئے بھی جائیں تب بھی ان کی عباد قبول نہیں ہوگی۔اور اگر وہ اسی حالت میں مرجائیں تو ان جنت بھی حرام ہے۔اور پھر سُودسے وابستہ لوگوںکاگناہ بھی آپ نے مطلع فرمالیا۔ ہاں !اگر وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی سچے دل سے توبہ کریں اور آئندہ حرام نہ کھانے کا پکا اور سچا عہد کریں تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف کرنے پر قادر ہے۔
3منا فقا نہ خصلتیں:
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ:''بے شک منافقین جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوںگے۔''(اٰل عمران:145)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:''چار باتیں ایسی ہیں کہ کس انسان میں ایک ساتھ جمع ہوجائیں وہ خالص منافق ہے۔اور جس انسان میں ان میں سے ایک بھی خصلت پائی جائے وہ نفاق کی خصلت ہے جب تک کہ اسے ترک نہ کردے۔-1جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے،-2جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، -3جب (کسی سے)وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے،-4اور جب (کسی سے)جھگڑاہوتو بد زبانی کرے۔''(صحیح بخاری وصحیح مسلم-صحیح)
اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے منافق کی چار علامات گنوائی ہیں۔ہمیں اپنی زندگی پر غور کرنا چاہئے کہ کہیں یہ صفات جو نہ صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی نظروں میں بری ناپسندیدہ ہیں ،بلکہ کسی عام معاشرے میں بھی انہیں اچھی نظروں سے نہیں دیکھاجاتا۔اور پھر کہاں یہ کہ ہم اپنے آپ کومسلمان بھی کہیں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی بھی کریں۔اس لئے ان عادات ِبد سے خود بھی بچیں ،اپنی اولاد کوبھی بچا ئیں اور اپنے معاشرے میں جس شخص کوبھی ان بری اور ناپسندیدہ باتوںمبتلا دیکھیں اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں۔تبھی ہم ایک بہت ہی بہترین اور باعث ِتقلید معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
4 مخالف جنس کی مشابہت اختیارکرنا:
سیدنا عباس رضی اللہ عنہما رماتے ہیں کہ :''اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے لعنت فرمائی ہے ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور ان مردوں پر جوعورتوں کی مشابہت اختیارکرتے ہیں۔''(صحیح بخاری ،ابوداؤد،ترمذی،ابن ِماجہ-صحیح)
اس حدیث پر غور کریں۔اور پھر اپنے آپ کو دیکھیں کہ ہم کسی معاملے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی لعنت کے موجب تونہیں بن رہے؟اس لئے کہ آج کے معاشرے میں تقریباًہرمعاملے میں عورتوںکا مرد کی مشابہت اختیار کرنااور مردوں کا عورتوں کی مشابہت اختیارکرنا عام ہوچکا ہے۔ لباس سے لیکر شکل وصورت تک ہر معاملے میں دونوں ایک دوسرے کی امتیازات کوتوڑنے میں مسلسل مصروفِ عمل ہیں۔آج کسی مرد کودورسے دیکھ کرپہنچاننا مشکل ہوجاتا ہے کہ مرد ہے یا عورت ...؟اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کوداڑھی جیسی جو نعمت عطاکی تھی ،تاکہ کوئی انہیں ''زن''ہونے کا طعنہ نہ دے سکے ۔مگر آج کے'' مرد''اگرچہ زبانی اب بھی اس طعنے کوپسندنہیں کرتے مگر عملی طورزن بننے میں کوئی قباحت بھی محسوس نہیں کرتے۔اب اگر کوئی ان کی ظاہری حالت دیکھ کر انہیں واقعی ''زن''سمجھ اور کہہ بیٹھے تو اس میں کہنے والے کا کیا قصور...؟اور پہلے عورتوں کے بال لمبے اورمردوں کے چھوٹے ہوتے تھے مگراب مردوںکے بال لمبے اور عورتوں کے چھوٹے ہوتے ہیں۔پہلے عورتیں چٹیا باندھتی تھیں اور مرد بال کھلے رکھتے تھے مگر اب مرد چٹیا باندھتے اور عورتیں بال کھلے رکھتی ہیں۔اس طرح کی اور بہت ساری مثالیں ہیں جو ہمارے معاشرے میں دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں۔اور ایسے ہی مردوں اور عورتوںکو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ''مخنث''(ہیجڑا)قرار دیا ہے۔اور فرمایا کہ انہیں اپنے گھروں سے نکال دو۔اور خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مخنث کو اپنے گھر سے نکال دیا تھا اور آپ کی اتباع میں سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے بھی یہی کام سرانجام دیا تھا۔لہٰذا ہمیں بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اس سنت ِمبارکہ پر ضرورعمل کرنا چاہئے۔(صحیح بخاری،ابوداؤد-صحیح)
5 عر یا نیت وفحا شی :
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:''کتنی ہی عورتیں ایسی ہیںدنیا میں تولباس پہنے ہوئے ہوتیں ہیں مگرآخرت میں برہنہ ہوںگی۔'' (صحیح بخاری،ترمذی -صحیح)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:''وہ عورتیں جو کپڑے پہننے کے باوجود ننگی ہوتی ہیں،مردوں کی طرف مائل ہوجا نے والی اور انکو اپنی طرف مائل کرنے والی ہوتی ہیں۔وہ جنت میں ہرگز داخل نہ ہوںگی اور نہ ہی اس کی خوشبو پا سکیں گی ، حالانکہ اس کی خوشبو اس کی خوشبو تو پانچ سو برس کی مسافت سے آرہی ہوگی۔''(مؤطا وصحیح مسلم وغیرھما، صحیح)
آج اگرہم اپنے معاشرے پرنظرکریںتویقینامعلوم ہوگا کہ آج ہمارے اندر''جدیدتہذیب''اور''فیشن''کے نام پربے حیائی اورفحاشی و عریانیت کا ایک بہت بڑاسیلاب اُمڈآیاہے۔اور حالت یہ ہے کہ: ؎ ڈھانپ کربھی بدن برہنہ ہیں...اب لباسوں میں بے لباسی ہے! وہ عورتیں جو باریک ، تنگ اورچست اور مختصرلباس پہننے کی شوقین ہیںاور مغربیت کواپنی زندگی کا لازمی جزء قرارہیں ،تو انہیں مذکورہ بالا آحادیث کے ذریعے اپنے انجام سے واقفیت ہوجاناچاہئے۔
6قطع رحمی :
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کافرمان ہے:''قطع رحمی کرنے والا(رشتے ناطوںکوتوڑنے والا)جنت میں داخل نہ ہوگا۔''(صحیح مسلم ،ابوداؤد،ترمذی- صحیح )
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کافرمان ہے:''رحم(صلہ رحمی)اللہ کے عرش کے ساتھ معلق ہے،جس نے اسے ملایا اللہ اسے ملادے گااور جس نے اسے توڑا اللہ اسے توڑدے گا۔'' (صحیح مسلم،مسند ِاحمد-صحیح)
قطع رحمی کا مطلب رشتہ داروں سے براسلوک کرنا اوران سے تعلقات کوتوڑدینا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ا س کوجوڑنے کا حکم دیاہے ،پس جواسے جوڑے گا'یعنی قرابت داروں سے اچھا سلوک کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت کے ساتھ جوڑدے گا۔اور جواسے توڑنے کی کوشش کرے گااللہ تعالیٰ اسے دنیا میں بھی تنہا چھوڑدے گا اور آخر ت میں بھی جنت کے دروازے اس پر بند ہوںگے۔اس لئے ہمیں رشتہ داروں کوناراض کرنے سے باز رہنا چاہئے۔اور ان کی جائز ضروریات کاہردم خیال رکھنا چاہئے۔
7پڑوسی کوتنگ کرنا:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:''جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پرایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑاسی کو تکلیف نہ دے۔'' (صحیح بخاری ،صحیح مسلم-صحیح)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:''اللہ کی قسم وہ مومن نہیں،اللہ کی قسم وہ مومن نہیں،اللہ کی قسم وہ مومن نہیں،صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا :اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کون ؟ فرمایا: جس کی شرارتوں سے اس کاپڑوسی تنگ ہو۔''(صحیح بخاری،صحیح مسلم-صحیح)
8تجارت میں غلط بیانی کرنا :
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کافرمان ہے:''تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن سے( قیامت کے دن)اللہ نہ توبات کرے گا،نہ انہیں نظر ِرحمت سے دیکھے گا،بلکہ ان کودردناک عذاب دیا جائے گا۔سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ :ایسے لوگ تو پھر ہلاک وبرباد ہوگئے،آخر ہیں کون لوگ ؟ فرمایا:-1اپنے لباس کوٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا،-2صدقہ کرکے احسان جتلانے والا-3 اورجھوٹی قسم کھاکر اپنا مال بیچنے والا۔''(صحیح مسلم،ابوداؤد،ترمذی،نسائی-صحیح)
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کودھوکادینے سے باز نہیں آتے۔اور اپنے چند دنیاوی روپے بچانے کی خاطر اپنی آخرت داؤ پرلگادیتے ہیں۔اور اپنے کاروبار کو وسعت دینے اورزیادہ سے زیادہ مال کمانے کیلئے مسلسل جھوٹ اور فریب کا سہارالیتے ہیں۔وہ دیکھیںکہ ان کیلئے اس حدیث ِمبارکہ میں کس قدر سخت عذاب کی وعید ہے ۔حالانکہ قیامت کے دن تو تمام انبیاء علیہم السلام بھی اللہ تعالیٰ کی نظر ِرحمت کے بے حد محتاج ہوں گے۔اس لئے کہ اس کے بغیر کوئی بھی جنت میں نہیں جاسکتا ،حتیٰ کے اللہ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم بھی۔(صحیح مسلم، مسند ِاحمد)پھر کہاں کہ کوئی عام ساشخص اللہ کی نظر ِرحمت کے حصول سے بے پروہ ہوجائے اور محض اپنی دنیا میں ہی مگن رہے اوراسے اپنی عاقبت کاکچھ خیال نہ ہو؟؟کیا ہم محض دنیا پرستی میںمگن ہوکراپنے رب سے ملاقات کواس حدتک بھول بیٹھے ہیں کہ ہمیں اپنے برے انجام کی فکربھی نہیں رہی؟؟
9 قو م پرستی ا ورعصبیت:
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :''اے لوگو!بے شک ہم نے تمہیںایک مرد اور ایک عورت سے پیداکیا ہے اورپھر تمہیں قوموں اور قبیلوں میں بانٹ دیا،تاکہ تم ایک دوسرے کوپہچان سکو(اور یادرکھو کہ)یقینا اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ اللہ کے قریب تر وہ ہے جو پرہیزگاری میں سب سے زیادہ ہے۔'' (الحجرات:13 )
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کافرمان ہے:''اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی نخوت اور آباء واجدادکافخرہٹادیا ہے۔لوگ صرف دوطرح کے ہیں،-1مومن اور پرہیز گار -2یافاجر اوربدبخت۔پس تمام لوگ آدم کی اولاد میں سے ہیںاور آدم کو اللہ مٹی سے پیداکیا ہے۔ ''(ترمذی،مسند ِاحمد-صحیح)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:''جوشخص عصبیت کے جھنڈے تلے آتا ہے،عصبیت کی طرف لوگوںکوبلاتا ہے،اور عصبیت پرکسی کی مددکرتا ہومرجاتاہے تو ایسا شخص جاہلیت کی موت مرتا ہے۔(یعنی بغیر اسلام کی حالت میںمرتاہے)''(صحیح مسلم،ابن ِماجہ-صحیح)
کتنی بڑی دوغلی پالیسی ہے کہ آج کے دور کو ہم ''ترقی یافتہ ''اور''جدید''دورکہتے نہیں تھکتے،مگرکام سارے وہ کرتے ہیں جواسلام کے آنے سے بھی پہلے کے تھے۔یہ عصبیت 'لوگوں کااپنے آباء واجدادکی نسبت فخرکرنا،اپنے مال ودولت پرنازکرنااوراپنی قوم اور قبیلے کی ناجائز اوربے جاحمایت کرنا ۔اوراس کی جدیدشکل آج یہ بھی ہے کہ لوگ اپنی جماعتوںاور تنظیموں کی ہرجائزوناجائز بات کوتسلیم کرتے اوران کیلئے لڑتے ہیںاور اگر اسی حالت میں بغیرتوبہ کئے ہوئے وہ مرجاتے ہیں تو ان کی موت اسلام سے قبل کی جاہلیت کی موت کی طرح ہے،گویاانہوں نے اسلام کوپایا ہی نہیں۔اسلام ہرقسم کی عصبیت سے بالاتر ایک انتہائی پرامن اور عدل وانصاف پرمبنی مذہب ہے۔اس کا کسی بھی قسم کی عصبیت اور ناانصافی سے کسی بھی قسم کاتعلق نہیں ہے۔اورجولوگ اسلام کے آجانے کے بعد بھی قومی ،علاقائی یالسانی وجماعتی وغیرہ کی عصبیت میں مبتلا ہیں اور بغیرتوبہ کئے اسی پرمرجاتے ہیں تو ایسے لوگ اسلام سے ہٹ کرجاہلیت کی موت مرتے ہیں۔