جو مسلمانوں سے مسلسل برسرِ پیکار رہتے تھے، اس معرکے کے بعد اسلام کی طرف مائل ہو گئے۔ چنانچہ بنو سلیم، اشجع، غطفان، ذیبان اور فزارہ وغیرہ قبائل نے اسلام قبول کر لیا۔
یہی معرکہ ہے جس سے رومیوں کے ساتھ خونریز ٹکر شروع ہوئی، جو آگے چل کر رومی ممالک کی فتوحات اور دُور دراز علاقوں پر مسلمانوں کے اقتدار کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
سریہ ذات السلاسل:
جب رسول اللہ ﷺ کو معرکہ موتہ کے سلسلے میں مشارف شام کے اندر رہنے والے عرب قبائل کے موقف کا علم ہوا کہ وہ مسلمانوں سے لڑنے کے لیے رومیوں کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے تھے تو آپ ﷺ نے ایک ایسی حکمتِ بالغہ کی ضرورت محسوس کی جس کے ذریعے ایک طرف تو ان عرب قبائل اور رومیوں کے درمیان تفرقہ پڑ جائے۔ اور دوسری طرف خود مسلمانوں سے ان کی دوستی ہو جائے تاکہ اس علاقے میں دوبارہ آپ ﷺ کے خلاف اتنی بڑی جمعیت فراہم نہ ہو سکے۔
اس مقصد کے لیے آپ ﷺ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو منتخب فرمایا کیونکہ ان کی دادی قبیلہ بلی سے تعلق رکھتی تھیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے جنگ موتہ کے بعد ہی، یعنی جمادی الآخرہ ۸ھ میں ان کی تالیفِ قلب کے لیے حضرت عمرو بن عاصؓ کو ان کی جانب روانہ فرمایا۔ کہا جاتا ہے کہ جاسوسوں نے یہ اطلاع بھی دی تھی کہ بنو قضاعہ نے اطرافِ مدینہ پر ہلہ بولنے کے ارادہ سے ایک نفری فراہم کر رکھی ہے، لہٰذا آپ ﷺ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو ان کی جانب روانہ کیا۔ ممکن ہے دونوں سبب اکٹھا ہو گئے ہوں۔
بہرحال رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کے لیے سفید جھنڈا باندھا۔ اور اس کے ساتھ کا لی جھنڈیاں بھی دیں۔ اور ان کی کمان میں بڑے بڑے مہاجرین و انصار کی تین سو نفری دے کر - انہیں - رخصت فرمایا۔ ان کے ساتھ تیس گھوڑے بھی تھے۔ آپ ﷺ نے حکم دیا کہ بلی اور عذرہ اور بلقین کے جن لوگوں کے پاس سے گزریں ان سے مدد کے خواہاں ہوں۔ وہ رات کو سفر کرتے اور دن کو چھپے رہتے تھے۔ جب دشمن کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کی جمعیت بہت بڑی ہے۔ اس لیے حضرت عَمرو نے حضرت رافع بن مکیث جہنی کو کمک طلب کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح کو عَلَم دے کر ان کی سرکردگی میں دو سو فوجیوں کی کمک روانہ فرمائی۔ جس میں رؤساء مہاجرین - مثلا: ابو بکر و عمر - اور سردارانِ انصار بھی تھے۔ ابو عبیدہ کو حکم دیا گیا تھا کہ عمرو بن عاص سے جا ملیں، اور دونوں مل کر کام کریں، اختلاف نہ کریں۔ وہاں پہنچ کر حضرت ابو عبیدہؓ نے امامت کرنی چاہی۔ لیکن حضرت عمرو نے کہا: آپ میرے پاس کمک کے طور پر آئے ہیں۔ امیر میں ہوں۔ ابو عبیدہ نے ان کی بات مان لی اور نماز حضرت عمرو ہی پڑھاتے رہے۔
کمک آ جانے کے بعد یہ فوج مزید آگے بڑھ کر قضاعہ کے علاقہ میں داخل ہوئی اور اس علاقہ کو روندتی ہوئی اس کے دور دراز حدود تک جا پہنچی۔ اخیر میں ایک لشکر سے مڈبھیڑ ہوئی، لیکن جب مسلمانوں نے اس پر حملہ کیا تو وہ ادھر اُدھر بھاگ کر بکھر گیا۔
اس کے بعد عوف بن مالک اشجعیؓ کو ایلچی بنا کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا گیا۔ انہوں نے مسلمانوں کی بہ سلامت واپسی کی اطلاع دی اور غزوے کی تفصیل سنائی۔
ذات السلاسل (پہلی سین کو پیش اور زبر دونوں پڑھنا درست ہے) یہ وادیٔ القریٰ سے آگے ایک خطہ زمین کا نام ہے۔ یہاں سے مدینہ کا فاصلہ دس دن ہے۔ ابن ِ اسحاق کا بیان ہے کہ مسلمان قبیلہ جذام کی سر زمین میں واقع سلاسل نامی ایک چشمے پر اترے تھے۔ اسی لیے اس مہم کا نام ذات السلاسل پڑ گیا۔ (دیکھئے: ابن ہشام ۲/۶۲۳تا ۶۲۶، زاد المعاد ۲/۱۵۷)
سریہ خضرہ: (شعبان ۸ھ)
اس سریہ کا سبب یہ تھا کہ نجد کے اندر قبیلہ محارب کے علاقہ میں خضرہ نامی ایک مقام پر بنو غطفان لشکر جمع کر رہے تھے۔ لہٰذا ان کی سر کوبی کے لیے رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو قتادہؓ کو پندرہ آدمیوں کی جمعیت دے کر روانہ کیا۔ انہوں نے دشمن کے متعدد آدمیوں کو قتل اور قید کیا اور مال غنیمت بھی حاصل کیا۔ اس مہم میں وہ پندرہ دن مدینہ سے باہر رہے۔ (تلقیح الفہوم ص ۳۳)
****