• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم معرکۂ موتہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
معرکۂ موتہ

موتہ (میم کو پیش اور واو ساکن) اردن میں بَلْقَاء کے قریب ایک آبادی کا نام ہے جہاں سے بیت المقدس دو مرحلے پر واقع ہے۔ زیر بحث معرکہ یہیں پیش آیا تھا۔
یہ سب سے بڑا خونریز معرکہ تھا جو مسلمانوں کو رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں پیش آیا اور یہی معرکہ عیسائی ممالک کی فتوحات کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس کا زمانہ وقوع جمادی الاولیٰ ۸ھ مطابق اگست یا ستمبر ۶۲۹ء ہے۔
معرکہ کا سبب:
اس معرکے کا سبب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حارث بن عُمیر اَزْدِیؓ کو اپنا خط دے کر حاکم بُصریٰ کے پاس روانہ کیا تو انہیں قیصر روم کے گورنر شرحبیل بن عمرو غسانی نے جو بلقاء پر مامور تھا گرفتار کر لیا اور مضبوطی کے ساتھ باندھ کر ان کی گردن مار دی۔
یاد رہے کہ سفیروں اور قاصدوں کا قتل نہایت بدترین جرم تھا جو اعلانِ جنگ کے برابر بلکہ اس سے بھی بڑھ کر سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے جب رسول اللہ ﷺ کو اس واقعے کی اطلاع دی گئی تو آپ ﷺ پر یہ بات سخت گراں گذری اور آپ ﷺ نے اس علاقہ پر فوج کشی کے لیے تین ہزار کا لشکر تیار کیا۔ (زاد المعاد ۲/۱۵۵، فتح الباری ۷/۵۱۱) اور یہ سب سے بڑا اسلامی لشکر تھا جو اس سے پہلے جنگ احزاب کے علاوہ کسی اور جنگ میں فراہم نہ ہو سکا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
لشکر کے امراء اور رسول اللہ ﷺ کی وصیت:
رسول اللہ ﷺ نے اس لشکر کا سپہ سالار حضرت زید بن حارثہؓ کو مقرر کیا۔ اور فرمایا کہ اگر زید قتل کر دیے جائیں تو جعفر، اور جعفر قتل کر دیے جائیں تو عبد اللہ بن رواحہ سپہ سالار ہوں گے۔ (صحیح بخاری باب غزوۂ موتہ من ارض الشام ۲/۶۱۱)
آپ ﷺ نے لشکر کے لیے سفید پرچم باندھا اور اسے حضرت زید بن حارثہؓ کے حوالے کیا۔ لشکر کو آپ ﷺ نے یہ وصیت بھی فرمائی کہ جس مقام پر حضرت حارث بن عمیرؓ قتل کیے گئے تھے وہاں پہنچ کر اس مقام کے باشندوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو بہتر ، ورنہ اللہ سے مدد مانگیں، اور لڑائی کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے نام سے، اللہ کی راہ میں، اللہ کے ساتھ کفر کرنے والوں سے غزوہ کرو۔ اور دیکھو بد عہدی نہ کرنا ، خیانت نہ کرنا، کسی بچے اور عورت اور فنا کے قریب بڈھے کو اور گرجے میں رہنے والے تارک الدنیا کو قتل نہ کرنا۔ کھجور اور کوئی درخت نہ کاٹنا اور
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
کسی عمارت کو منہدم نہ کرنا۔ (مختصر السیرۃ للشیخ عبد اللہ ص ۳۲۷ یہ حدیث واقعہ کے بغیر صحیح مسلم ، سنن ابی داؤد، ترمذی، ابن ماجہ وغیرہ میں مختلف الفاظ سے مروی ہے)
اسلامی لشکر کی روانگی اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ کا گریہ:
جب اسلامی لشکر روانگی کے لیے تیار ہو گیا تو لوگوں نے آ آ کر رسول اللہ ﷺ کے مقررہ سپہ سالاروں کو الوداع کہا اور سلام کیا۔ اس وقت ایک سپہ سالار حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ رونے لگے۔ لوگوں نے کہا: آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: دیکھو، اللہ کی قسم! (اس کا سبب) دُنیا کی محبت یا تمہارے ساتھ میرا تعلق خاطر نہیں ہے بلکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کتاب اللہ کی ایک آیت پڑھتے ہوئے سنا ہے جس میں جہنم کا ذکر ہے، آیت یہ ہے:
وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِ‌دُهَا ۚ كَانَ عَلَىٰ رَ‌بِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا (۱۹: ۷۱)
''تم میں سے ہر شخص جہنم پر وارد ہونے والا ہے۔ یہ تمہارے رب پر ایک لازمی اور فیصلہ کی ہوئی بات ہے۔''
میں نہیں جانتا کہ جہنم پر وارد ہونے کے بعد کیسے پلٹ سکوں گا؟ مسلمانوں نے کہا: اللہ سلامتی کے ساتھ آپ لوگوں کا ساتھی ہو۔ آپ کی طرف سے دفاع کرے اور آپ کو ہماری طرف نیکی اور غنیمت کے ساتھ واپس لائے۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے کہا:
لکننی أســأل الرحمن مغفـرۃ وضربۃ ذات قرع تقذف الزبـدا
أو طعنۃ بـیدی حـران مہجـزۃ بحربــۃ تنفذ الأحشاء والکبــدا
حتی یقال إذا مروا علی جدثی یا أرشـد اللہ من غاز وقد رشـدا
''لیکن میں رحمن سے مغفرت کا، اور استخواں شکن، مغز پاش تلوار کی کاٹ کا، یا کسی نیزہ باز کے ہاتھوں، آنتوں اور جگر کے پار اتر جانے والے نیزے کی ضرب کا سوال کرتا ہوں تاکہ جب لوگ میری قبر پر گزریں تو کہیں ہائے وہ غازی جسے اللہ نے ہدایت دی اور جو ہدایت یافتہ رہا۔''
اس کے بعد لشکر روانہ ہوا۔ رسول اللہ ﷺ اس کی مشایعت کرتے ہوئے ثنیۃ الوداع تک تشریف لے گئے اور وہیں سے اسے الوداع کہا۔ (ابن ہشام ۲/۳۷۳، ۳۷۴ زاد المعاد ۲/۱۵۶)
اسلامی لشکر کی پیش رفت اور خوفناک ناگہانی حالت سے سابقہ:
اسلامی لشکر شمال کی طرف بڑھتا ہوا معان پہنچا۔ یہ مقام شمالی حجاز سے متصل شامی (اردنی) علاقے میں واقع ہے۔ یہاں لشکر نے پڑاؤ ڈالا۔ اور یہیں جاسوسوں نے اطلاع پہنچائی کہ ہرقل قیصرِ روم بلقاء کے علاقے میں مآب
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
کے مقام پر ایک لاکھ رومیوں کا لشکر لے کر خیمہ زن ہے اور اس کے جھنڈے تلے لخم و جذام، بلقین و بہرا اور بلی (قبائلِ عرب) کے مزید ایک لاکھ افراد بھی جمع ہو گئے ہیں۔
معان میں مجلس شوریٰ:
مسلمانوں کے حساب میں سرے سے یہ بات تھی ہی نہیں کہ انہیں کسی ایسے لشکر جرار سے سابقہ پیش آئے گا جس سے وہ اس دور دراز سر زمین میں ایک دم اچانک دوچار ہو گئے تھے۔ اب ان کے سامنے سوال یہ تھا کہ آیا تین ہزار کا ذرا سا لشکر دو لاکھ کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے ٹکرا جائے یا کیا کرے؟ مسلمان حیران تھے اور اسی حیرانی میں معان کے اندر دو راتیں غور اور مشورہ کرتے ہوئے گزار دیں۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کو لکھ کر دشمن کی تعداد کی اطلاع دیں۔ اس کے بعد یا تو آپ کی طرف سے مزید کمک ملے گی، یا اور کوئی حکم ملے گا اور اس کی تعمیل کی جائے گی۔
لیکن حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ نے اس رائے کی مخالفت کی اور یہ کہہ کر لوگوں کو گرما دیا کہ لوگو! اللہ کی قسم! جس چیز سے آپ کترا رہے ہیں یہ وہی تو شہادت ہے جس کی طلب میں آپ نکلے ہیں۔ یاد رہے دشمن سے ہماری لڑائی تعداد، قوت اور کثرت کے بل پر نہیں ہے بلکہ ہم محض اس دین کے بل پر لڑتے ہیں جس سے اللہ نے ہمیں مشرف کیا ہے۔ اس لیے چلیے آگے بڑھئے! ہمیں دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی حاصل ہو کر رہے گی۔ یا تو ہم غالب آئیں گے یا شہادت سے سرفراز ہوں گے۔ بالآخر حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کی پیش کی ہوئی بات طے پا گئی۔
دشمن کی طرف اسلامی لشکر کی پیش قدمی:
غرض اسلامی لشکر نے معان میں دو راتیں گزارنے کے بعد دشمن کی جانب پیش قدمی کی، اور بلقاء کی ایک بستی میں جس کا نام ''مَشَارِف'' تھا۔ ہرقل کی فوجوں سے اس کا سامنا ہوا۔ اس کے بعد دشمن مزید قریب آ گیا اور مسلمان''موتہ'' کی جانب سمٹ کر خیمہ زن ہو گئے۔ پھر لشکر کی جنگی ترتیب قائم کی گئی۔ مَیْمَنہ پر قطبہ بن قتادہ عذری مقرر کیے گئے اور مَیْسَرہ پر عبادہ بن مالک انصاریؓ ۔
جنگ کا آغاز اور سپہ سالاروں کی یکے بعد دیگرے شہادت:
اس کے بعد مُوْتَہ ہی میں فریقین کے درمیان ٹکراؤ ہوا اور نہایت تلخ لڑائی شروع ہو گئی۔ تین ہزار کی نفری دو لاکھ ٹڈی دل کے طوفانی حملوں کامقابلہ کر رہی تھی۔ عجیب وغریب معرکہ تھا، دنیا پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی لیکن جب ایمان کی بادِ بہاری چلتی ہے تو اسی طرح کے عجائبات ظہور میں آتے ہیں۔
سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کے چہیتے حضرت زید بن حارثہؓ نے علَم لیا اور ایسی بے جگری سے لڑے کہ اسلامی شہبازوں کے علاوہ کہیں اور اس کی نظیر نہیں ملتی۔ وہ لڑتے رہے، لڑتے رہے یہاں تک کہ دشمن کے نیزوں میں گتھ گئے اور خلعتِ شہادت سے مشرف ہو کر زمین پر آ رہے۔
اس کے بعد حضرت جعفرؓ کی باری تھی۔ انہوں نے لپک جھنڈا اٹھایا اور بے نظیر جنگ شروع کر دی۔ جب لڑائی کی شدت شباب کو پہنچی تو اپنے سُرخ و سیاہ گھوڑے کی پشت سے کود پڑے۔ کوچیں کاٹ دیں اور وار پر وار کرتے اور روکتے رہے۔ یہاں تک دشمن کی ضرب سے داہنا ہاتھ کٹ گیا۔ اس کے بعد انہوں نے جھنڈا بائیں ہاتھ میں لے لیا اور اسے مسلسل بلند رکھا یہاں تک کہ بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا۔ پھر دونوں باقی ماندہ بازوؤں سے جھنڈا آغوش میں لے لیا اور اس وقت تک بلند رکھا جب تک کہ خلعتِ شہادت سے سرفراز نہ ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک رومی نے ان کو ایسی تلوار ماری کہ ان کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ اللہ نے انہیں ان کے دونوں بازوؤں کے عوض جنت میں دو بازو عطا کیے جن کے ذریعہ وہ جہاں چاہتے ہیں اڑتے ہیں۔ اسی لیے ان کا لقب جعفر طَیَّار اور جعفر ذُوالجَنَاحین پڑ گیا۔ (طَیّار معنی اڑنے والا اور ذُو الجناحین معنی دو بازوؤں والا)
امام بخاری رحمہ اللہ نے نافع کے واسطے سے ابن عمرؓ کا یہ بیان روایت کیا ہے کہ میں نے جنگ موتہ کے روز حضرت جعفر کے پاس جبکہ وہ شہید ہو چکے تھے، کھڑے ہو کر ان کے جسم پر نیزے اور تلوار کے پچاس زخم شمار کیے۔ ان میں سے کوئی بھی زخم پیچھے نہیں لگا تھا۔ (صحیح بخاری، باب غزوۃ موتہ من ارض الشام ۲/۶۱۱)
ایک دوسری روایت میں ابن عمرؓ کا یہ بیان اس طرح مروی ہے کہ میں بھی اس غزوے میں مسلمانوں کے ساتھ تھا۔ ہم نے جعفر بن ابی طالب کو تلاش کیا تو انہیں مقتولین میں پایا اور ان کے جسم میں نیزے اور تیر کے نوے سے زیادہ زخم پائے۔ (ایضا ۲/۶۱۱) نافع سے عمرہی کی روایت میں اتنا اور اضافہ ہے کہ ہم نے یہ سب زخم ان کے جسم کے اگلے حصے میں پائے۔ (فتح الباری ۷/۵۱۲ بظاہر دونوں حدیث میں تعداد کا اختلاف ہے۔ تطبیق یہ دی گئی ہے کہ تیروں کے زخم شامل کرکے تعداد بڑھ جاتی ہے۔ (دیکھئے فتح الباری ))
اس طرح کی شجاعت و بسالت سے بھرپور جنگ کے بعد جب حضرت جعفرؓ بھی شہید کر دیے گئے تو اب حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ نے پرچم اٹھایا اور اپنے گھوڑے پر سوار آگے بڑھے اور اپنے آپ کو مقابلہ کے لیے آمادہ کرنے لگے۔ لیکن انہیں کسی قدر ہچکچاہٹ ہوئی، حتیٰ کہ تھوڑا سا گریز بھی کیا، لیکن اس کے بعد کہنے لگے:
أقسمت یــا نفــس لتنزلنــہ کارہــــــۃ أو لتطـاوعـنـــہ
إن أجلب الناس وشدوا الرنہ ما لی أراک تکـرہین الجنـــۃ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
''اے نفس! قسم ہے کہ تو ضرور مدِّ مقابل اُتر، خواہ ناگواری کے ساتھ خواہ خوشی خوشی، اگر لوگوں نے جنگ برپا کر رکھی ہے اور نیزے تان رکھے ہیں تو میں تجھے کیوں جنت سے گریزاں دیکھ رہا ہوں۔''
اس کے بعد وہ مدمقابل میں اترے۔ اتنے میں ان کا چچیرا بھائی ایک گوشت لگی ہوئی ہڈی لے آیا اور بولا: اس کے ذریعہ اپنی پیٹھ مضبوط کر لو۔ کیونکہ ان دنوں تمہیں سخت حالات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ انہوں نے ہڈی لے کر ایک بار نوچی پھر پھینک کر تلوار تھام لی۔ اور آگے بڑھ کر لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔
جھنڈا، اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار کے ہاتھ میں:
اس موقع پر قبیلہ بنو عجلان کے ثابت بن ارقم نامی ایک صحابی نے لپک کر جھنڈا اٹھا لیا اور فرمایا: مسلمانو! اپنے کسی آدمی کو سپہ سالار بنا لو، صحابہ نے کہا: آپ ہی یہ کام انجام دیں۔ انہوں نے کہا: میں یہ کام نہیـں کر سکوں گا۔ اس کے بعد صحابہ نے حضرت خالد بن ولید کو منتخب کیا اور انہوں نے جھنڈا لیتے ہی نہایت پرزور جنگ کی۔ چنانچہ صحیح بخاری میں خود حضرت خالد بن ولیدؓ سے مروی ہے کہ جنگ موتہ کے روز میرے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ گئیں۔ پھر میرے ہاتھ میں صرف ایک یمنی بانا (چھوٹی سی تلوار) باقی بچا۔ (صحیح بخاری، باب غزوۂ موتہ من ارض الشام ۲/۶۱۱) اور ایک دوسری روایت میں ان کا بیان اس طرح مروی ہی کہ میرے ہاتھ میں جنگ موتہ کے روز نو تلواریں ٹوٹ گئیں اور ایک یمنی بانا میرے ہاتھ میں چپک کر رہ گیا۔ (صحیح بخاری، باب غزوۂ موتہ من ارض الشام ۲/۶۱۱)
ادھر رسول اللہ ﷺ نے جنگ مُوتہ ہی کے روز جبکہ ابھی میدان جنگ سے کسی قسم کی اطلاع نہیں آئی تھی وحی کی بناء پر فرمایا کہ جھنڈا زید نے لیا، اور وہ شہید کر دیے گئے۔ پھر جعفر نے لیا، وہ بھی شہید کر دیے گئے، پھر ابنِ رواحہ نے لیا، اور وہ بھی شہید کر دیے گئے - اس دوران آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں -یہاں تک کہ جھنڈا اللہ کی ایک تلوار نے لیا۔ (اور ایسی جنگ لڑی کہ) اللہ نے ان پر فتح عطا کی۔ (ایضا ۲/۶۱۱)
خاتمہ جنگ:
انتہائی شجاعت و بسالت اور زبردست جاں بازی و جاں سپاری کے باوجود یہ بات انتہائی تعجب انگیز تھی کہ مسلمانوں کا یہ چھوٹا سا لشکر رُومیوں کے اس لشکر جرار کی طوفانی لہروں کے سامنے ڈٹا رہ جائے۔ لہٰذا اس نازک مرحلے میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے مسلمانوں کو اس گرداب سے نکالنے کے لیے جس میں وہ خود کود پڑے تھے، اپنی مہارت اور کمال ہنرمندی کا مظاہرہ کیا۔
روایات میں بڑا اختلاف ہے کہ اس معرکے کا آخری انجام کیا ہوا۔ تمام روایات پر نظر ڈالنے سے صورت حال
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
یہ معلوم ہوتی ہے کہ جنگ کے پہلے روز حضرت خالد بن ولید دن بھر رومیوں کے مد مقابل ڈٹے رہے۔ لیکن وہ ایک ایسی جنگی چال کی ضرورت محسوس کر رہے تھے جس کے ذریعہ رومیوں کو مرعوب کر کے اتنی کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کو پیچھے ہٹا لیں کہ رومیوں کو تعاقب کی ہمت نہ ہو۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے اور رومیوں نے تعاقب شروع کر دیا، تو مسلمانوں کو ان کے پنجے سے بچانا سخت مشکل ہو گا۔
چنانچہ جب دوسرے دن صبح ہوئی تو انہوں نے لشکر کی ہیئت اور وضع تبدیل کر دی اور اس کی ایک نئی ترتیب قائم کی۔ مقدمہ (اگلی لائن) کو ساقہ (پچھلی لائن) اور ساقہ کو مقدمہ کی جگہ رکھ دیا۔ اور میمنہ کو مَیْسَرَہ اور میسرہ کو میمنہ سے بدل دیا۔ یہ کیفیت دیکھ کر دشمن چونک گیا اور کہنے لگا کہ انہیں کمک پہنچ گئی ہے۔ غرض رومی ابتداہی میں مرعوب ہو گئے۔ ادھر جب دونوں لشکرکا آمنا سامنا ہوا اور کچھ دیر تک جھڑپ ہو چکی تو حضرت خالد بن ولید نے اپنے لشکر کا نظام محفوظ رکھتے ہوئے مسلمانوں کو تھوڑا تھوڑا پیچھے ہٹانا شروع کیا لیکن رومیوں نے اس خوف سے ان کا پیچھا نہ کیا کہ مسلمان دھوکا دے رہے ہیں اور کوئی چال چل کر انہیں صحرا کی پہنائیوں میں پھینک دینا چاہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن اپنے علاقہ میں واپس چلاگیا اور مسلمانوں کے تعاقب کی بات نہ سوچی۔ ادھر مسلمان کامیابی اورسلامتی کے ساتھ پیچھے ہٹے اور بھر مدینہ واپس آ گئے۔ (دیکھئے: فتح الباری ۷/۵۱۳، ۵۱۴، زاد المعاد ۲/۱۵۶، معرکے کی تفصیل سابقہ مآخذ سمیت ان دونوں مآخذ سے لی گئی ہے)
فریقین کے مقتولین:
اس جنگ میں بارہ مسلمان شہید ہوئے۔ رومیوں کے مقتولین کی تعداد کا علم نہ ہو سکا۔ البتہ جنگ کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑی تعداد میں مارے گئے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب تنہا حضرت خالد کے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ گئیں تو مقتولین اور زخمیوں کی تعداد کتنی رہی ہو گی۔
اس معرکے کا اثر:
اس معرکے کی سختیاں جس انتقام کے لیے جھیلی گئی تھیں، مسلمان اگرچہ وہ انتقام نہ لے سکے، لیکن اس معرکے نے مسلمانوں کی ساکھ اور شہرت میں بڑا اضافہ کیا۔ اس کی وجہ سے سارے عرب انگشت بدنداں رہ گئے۔ کیونکہ رومی اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑی قوت تھے۔ عرب سمجھتے تھے کہ ان سے ٹکرانا خود کشی کے مترادف ہے۔ اس لیے تین ہزار کی ذرا سی نفری کا دو لاکھ کے بھاری بھرکم لشکر سے ٹکرا کر کوئی قابل ذکر نقصان اٹھائے بغیر واپس آ جانا عجوبۂ روزگار سے کم نہ تھا۔ اور اس سے یہ حقیقت بڑی پختگی کے ساتھ ثابت ہوتی تھی کہ عرب اب تک جس قسم کے لوگوں سے واقف اور آشنا تھے، مسلمان ان سے الگ تھلگ ایک دوسری ہی طرز کے لوگ ہیں۔ وہ اللہ کی طرف سے مویّد و منصور ہیں اور ان کے راہنما واقعتا اللہ کے رسول ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ضدی قبائل
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,766
پوائنٹ
1,207
جو مسلمانوں سے مسلسل برسرِ پیکار رہتے تھے، اس معرکے کے بعد اسلام کی طرف مائل ہو گئے۔ چنانچہ بنو سلیم، اشجع، غطفان، ذیبان اور فزارہ وغیرہ قبائل نے اسلام قبول کر لیا۔
یہی معرکہ ہے جس سے رومیوں کے ساتھ خونریز ٹکر شروع ہوئی، جو آگے چل کر رومی ممالک کی فتوحات اور دُور دراز علاقوں پر مسلمانوں کے اقتدار کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
سریہ ذات السلاسل:
جب رسول اللہ ﷺ کو معرکہ موتہ کے سلسلے میں مشارف شام کے اندر رہنے والے عرب قبائل کے موقف کا علم ہوا کہ وہ مسلمانوں سے لڑنے کے لیے رومیوں کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے تھے تو آپ ﷺ نے ایک ایسی حکمتِ بالغہ کی ضرورت محسوس کی جس کے ذریعے ایک طرف تو ان عرب قبائل اور رومیوں کے درمیان تفرقہ پڑ جائے۔ اور دوسری طرف خود مسلمانوں سے ان کی دوستی ہو جائے تاکہ اس علاقے میں دوبارہ آپ ﷺ کے خلاف اتنی بڑی جمعیت فراہم نہ ہو سکے۔
اس مقصد کے لیے آپ ﷺ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو منتخب فرمایا کیونکہ ان کی دادی قبیلہ بلی سے تعلق رکھتی تھیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے جنگ موتہ کے بعد ہی، یعنی جمادی الآخرہ ۸ھ میں ان کی تالیفِ قلب کے لیے حضرت عمرو بن عاصؓ کو ان کی جانب روانہ فرمایا۔ کہا جاتا ہے کہ جاسوسوں نے یہ اطلاع بھی دی تھی کہ بنو قضاعہ نے اطرافِ مدینہ پر ہلہ بولنے کے ارادہ سے ایک نفری فراہم کر رکھی ہے، لہٰذا آپ ﷺ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو ان کی جانب روانہ کیا۔ ممکن ہے دونوں سبب اکٹھا ہو گئے ہوں۔
بہرحال رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کے لیے سفید جھنڈا باندھا۔ اور اس کے ساتھ کا لی جھنڈیاں بھی دیں۔ اور ان کی کمان میں بڑے بڑے مہاجرین و انصار کی تین سو نفری دے کر - انہیں - رخصت فرمایا۔ ان کے ساتھ تیس گھوڑے بھی تھے۔ آپ ﷺ نے حکم دیا کہ بلی اور عذرہ اور بلقین کے جن لوگوں کے پاس سے گزریں ان سے مدد کے خواہاں ہوں۔ وہ رات کو سفر کرتے اور دن کو چھپے رہتے تھے۔ جب دشمن کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کی جمعیت بہت بڑی ہے۔ اس لیے حضرت عَمرو نے حضرت رافع بن مکیث جہنی کو کمک طلب کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح کو عَلَم دے کر ان کی سرکردگی میں دو سو فوجیوں کی کمک روانہ فرمائی۔ جس میں رؤساء مہاجرین - مثلا: ابو بکر و عمر - اور سردارانِ انصار بھی تھے۔ ابو عبیدہ کو حکم دیا گیا تھا کہ عمرو بن عاص سے جا ملیں، اور دونوں مل کر کام کریں، اختلاف نہ کریں۔ وہاں پہنچ کر حضرت ابو عبیدہؓ نے امامت کرنی چاہی۔ لیکن حضرت عمرو نے کہا: آپ میرے پاس کمک کے طور پر آئے ہیں۔ امیر میں ہوں۔ ابو عبیدہ نے ان کی بات مان لی اور نماز حضرت عمرو ہی پڑھاتے رہے۔
کمک آ جانے کے بعد یہ فوج مزید آگے بڑھ کر قضاعہ کے علاقہ میں داخل ہوئی اور اس علاقہ کو روندتی ہوئی اس کے دور دراز حدود تک جا پہنچی۔ اخیر میں ایک لشکر سے مڈبھیڑ ہوئی، لیکن جب مسلمانوں نے اس پر حملہ کیا تو وہ ادھر اُدھر بھاگ کر بکھر گیا۔
اس کے بعد عوف بن مالک اشجعیؓ کو ایلچی بنا کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا گیا۔ انہوں نے مسلمانوں کی بہ سلامت واپسی کی اطلاع دی اور غزوے کی تفصیل سنائی۔
ذات السلاسل (پہلی سین کو پیش اور زبر دونوں پڑھنا درست ہے) یہ وادیٔ القریٰ سے آگے ایک خطہ زمین کا نام ہے۔ یہاں سے مدینہ کا فاصلہ دس دن ہے۔ ابن ِ اسحاق کا بیان ہے کہ مسلمان قبیلہ جذام کی سر زمین میں واقع سلاسل نامی ایک چشمے پر اترے تھے۔ اسی لیے اس مہم کا نام ذات السلاسل پڑ گیا۔ (دیکھئے: ابن ہشام ۲/۶۲۳تا ۶۲۶، زاد المعاد ۲/۱۵۷)
سریہ خضرہ: (شعبان ۸ھ)
اس سریہ کا سبب یہ تھا کہ نجد کے اندر قبیلہ محارب کے علاقہ میں خضرہ نامی ایک مقام پر بنو غطفان لشکر جمع کر رہے تھے۔ لہٰذا ان کی سر کوبی کے لیے رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو قتادہؓ کو پندرہ آدمیوں کی جمعیت دے کر روانہ کیا۔ انہوں نے دشمن کے متعدد آدمیوں کو قتل اور قید کیا اور مال غنیمت بھی حاصل کیا۔ اس مہم میں وہ پندرہ دن مدینہ سے باہر رہے۔ (تلقیح الفہوم ص ۳۳)
****​
 
Top